کراچی میں ایک جادوگر رہتا ہے، ایسا کہ اپنے جادو سے ناممکن کو ممکن بنادیتا ہے۔کورونا وائرس سے پھیلنے والی وبا کے خوف نے اس سال آکسفرڈ جیسے ادارے کو اسلام آباد لٹریچر فیسٹول کا سارا ہنگامہ بھول بھال جانےاورحاضرین سے بھرے ہو ئے ہال کی بہ جائے ہمیں اپنے کتب خانے میں لیپ ٹاپ کے کیمرے کے سامنے بیٹھ کر اپنی بات کہنی اور دوسروں سے مانیٹر کے چوکھٹے پر مکالمہ کرنے کی راہ سجھائی تھی۔ فیصل آباد لٹریچر فیسٹول بھی زوم پر ہوا کہ کووڈ ۱۹ کی دوسری لہرکچھ زیادہ شدت دکھا رہی تھی۔ میں نے دونوں میں شرکت کی تھی اور اب یقینی تھا کہ کراچی آرٹس کونسل کی تیرھویں عالمی اردو کانفرنس بھی پھسپھسی چلی جائے گی ۔ خیر محمد احمد شاہ ہمیشہ کچھ نیا سوچنے والے اور انوکھی راہ ڈھونڈھ نکالنے والے ہیں۔ میں نے انہیں جادوگر کہا تو یوں کہ کچھ سالوں کے اندر اندر ہی انہوں نے کراچی آرٹس کونسل کو پاکستان کا ثقافتی اور ادبی مرکز بنا دیا تھا۔ وہاں ہونے والےترقیاتی کام نظر آتے ہیں اور یہ سب جادوکا کرشمہ لگتا ہے۔ یہی سبب رہا ہوگا کہ وہاں کسی نے آرٹس کونسل کی اس شاندار کارکردگی کو دیکھ کر کہا تھا ’’احمد شاہ کو پاکستان کا صدربنادو۔‘‘ کسی اور جانب سے ترت جواب آیا:’’ اسلام آباد میں صدر بننے والے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔یہ کام کا آدمی ہےاسے کراچی میں رہنے دو۔ ‘‘
اس کام کے آدمی کے طفیل گزشتہ بارہ برسوں سے کراچی آرٹس کونسل کی اردو کانفرنسیں بہت اہتمام سے منعقد ہوتی رہی ہیں۔ کیا اس بار ویسی ہوپائے گی؟ جب یہ سوال اُٹھ رہے تھے تو احمد شاہ اس کے انعقاد کو تقینی بنانے کی تدابیر سوچ رہے تھے۔ احمد شاہ نے جس ڈھنگ سے اسے ممکن بنایا ، اس نے اس کانفرنس کی اثر انگیزی اور افادیت کا دائرہ بھی بڑھا دیا تھا۔جن ادیبوں، شاعروں، ثقافتی نمائندوں اور صحافیوں کو تیرھویں عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کرنا تھی سب کراچی نہیں جارہے تھے، کچھ کو وہاں بلوالیا گیا،باقی آن لائن ہو گئے ۔ حاضرین بھی تھے مگرہال کے اندر سب ایک کرسی چھوڑ کر اور چہروں پر ماسک سجا کر بیٹھے ، باہربڑی اسکرین کے سامنے بھی فاصلہ چھوڑ کر کرسیاں لگا دی گئیں ۔ حاضرین پر پابندی تھی کہ سب نہیں آ سکتے تھے مگر حکمت سے حفافظتی تدابیر برتتے ہوئے لوگوں کو آنے دیا گیا تھا ۔ یہی سب ہے کہ وہاں خوب رونق ہو گئی اوراسٹیج پر بیٹھ کر بات کرنے میں لطف آیا ۔ کانفرنس ہوئی تو یوں کہ ایک ایک اجلاس آن لائن گیا اور دنیا بھر سے اردو، ادب اور پاکستانی ثقافتوں سے محبت کرنے والوں نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کرلی ۔
ہم ان لوگوں میں شامل تھے جو کراچی گئے اور سارا ہنگامہ نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھا بساط بھر اس ہنگامے کا حصہ ہوئے۔ اگرگوپی چند نارنگ،شمیم حنفی، شافع قدووائی، افتخارعارف،یاسمین حمید، نعمان الحق، ضیاء الحسن، ریاض مجید، شکیل جاذب ،ناصر عباس نیر اور حمیدہ شاہین آن لائن ہوئے تو وہاں موجود رہ کر کانفرنس کی رونق ہو جانے والوں زہرہ نگاہ، زہرا نگاہ، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، حسینہ معین، شاہ محمد مری، زاہدہ حنا،نورالہدیٰ شاہ ، یوسف خشک ، افضال احمد سیّد،وجاہت مسعود، فاطمہ حسن،عذرا عباس، مبین مرزا،امینہ سیّد،حارث خلیق، انورسن رائے، سیّد کاشف رضا، سحر انصاری، اخلاق احمد،ناصرہ زبیری، اقبال خورشید، عنبریں حسیب عنبر،انعام ندیم، سلمان صدیقی، رخسانہ صبا سے لے کر صغری صدف، سہیل وڑائچ ، مظہرعباس، وسعت اللہ خان، وسیم بادامی، عاصمہ شیرازی، اویس توحید اور ضیا محی الدین جیسے اہم لوگ موجود تھے۔ میرے ساتھ کشور ناہید اور نجیبہ عارف نے بھی کراچی جاکر کانفرنس میں شرکت کرنا تھی مگر کشور عین ایک روز پہلے بیمار پڑ گئیں اورشاید نجیبہ کوکووڈ کے خوف اور بچوں نے روک لیا تھا کہ اسلام آباد ائیر پورٹ سے کراچی کی فلائٹ لینے والوں میں میرے اور یاسمین کے علاوہ حارث خلیق، قاسم بگھیو اور یوسف خشک تھے۔
تین دسمبر کو افتتاحی اجلاس ہوا اور رنگ جم گیا۔ ہندوستان سے گوپی چند نارنگ اور شمیم حنفی مخاطب تھے تو اسلام آباد سے افتخار عارف ، خطبہ استقبالیہ دیتے ہوئے احمد شاہ بہت پرجوش ہو گئے ، لاہور سے یاسمین حمید نے بہت اہم کلیدی مقالہ پڑھا نظامت ہما میر کر رہی تھیں اور حکومتی نمائندگی کو صوبائی وزیر ثقافت سردار علی شاہ موجود تھے۔
کانفرنس کا مرکزی موضوع ادب و ثقافت کے سو برس تھے۔ جہاں اردو افسانے، ناول، غزل، نظم، تنقید، تراجم اور دوسری اصناف ادب کے علاوہ ڈرامے، صحافت اور ثقافت کے سو برس کی روایت کا جائزہ لیا گیا، وہیں اس باب کے اہم نشانات موضوع بحث ہوئے اور امکانات پر بات ہوئی۔ ملک کے اندر سیاسی سماجی تبدیلیاں بھی زیر بحث آئیں اور روز بروز مسدود ہوتی اظہار رائے کی راہیں بھی ۔ نئی کتابوں کے تعارفی پروگرام ہوئے۔ اردو کے علاوہ سندھی،پنجابی،بلوچی پشتوادب پر نشستیں ہوئیں۔ موسیقی اور مشاعروں کا ہنگامہ الگ تھا۔یہ امر بہت لائق تحسین ہے کہ ان کانفرنسوں میں ہونے والے مکالموں اور مقالات کو کتابی صورت میں محفوظ کیا جاتا ہے ۔ گزشتہ اجلاس کی دستاویز کا کتابی صورت میں اجرا بھی کانفرنس کے دوران ہو گیا تھا۔
عالمی اردو کانفرنس ختم ہوئی تو میں اور یاسمین کچھ روز کے لیے کراچی رک گئے ۔ ہم جب تک رُکے رہے کراچی کے دوستوں کی محبتیں سمیٹتے رہے۔ انور سن رائے بیچ لیگژری ہوٹل آگئے تھے۔ ہمارا سفری سامان اپنی گاڑی میں لدوایا اور ہمیں اپنے گھر لے گئے ۔وہاں عذرا عباس منتظر تھیں۔ خوب محفل جمی۔ جس طرح اسلام آباد میں کشور ناہید کا گھردیسی کھانوں اور ادیبوں کی محفلوں کے لیے مشہور ہے ، کراچی میں عذرا عباس بھی مولی کے لذیذ پراٹھوں پر ادیبوں کا اکٹھ کرلیا کرتی ہیں، ایسی محافل کا ہم نے لطف اٹھا رکھا ہے تاہم اس بار مولی کے پراٹھے نہ تھے ٹھیک ٹھاک ظہرانے کا اہتمام تھا۔ یہ میاں بیوی دونوں باکمال ہیں۔ عذرا عباس اپنی شاعری اور نثر کی کتب کی وجہ سے معروف ہیں ۔ انہوں نے اپنی نظموں کے چھ مجموعوں پر مشتمل ’’کلیات‘‘ اداسی کے گھائو‘‘عطاکیا۔ انور سن رائے فکشن نگار ، شاعر اور صحافی ہیں ۔ ان کے دو ناول ’’چیخ ‘‘اور ’’ذلتوں کے اسیر ‘‘ کئی سال پہلے شائع ہو ئے تھے جب کہ حال ہی میں ان کا ایک اور اہم کام دوکتب کی صورت میں سامنے آیا جو عربی زبان کے عالمی سطح پر معروف شعراء ادونیس اور محمود درویش کی شاعری کےانتخاب پر مشتمل ہے ۔ عذرا عباس اور انور سن رائے کے ہاں جو وقت گزرا بہت قیمتی ہوگیا ہے۔ وہاں سے برخوردار عبید کے ہاں اٹھ آئے اور عابد اور بچوں سے ملاقات رہی۔ معروف شاعر حارث خلیق کی امی ، اور نثر کا بہت محترم نام حمرا خلیق کے ہاں بھی جانا ہوا کہ جب وہ ہوٹل ملنے آئی تھیں تو انہوں نے گھر آنے کا وعدہ لے لیا تھا ۔ وہیں طارق خلیق سے ملاقات ہوئی جن کی حال ہی میں ایک کتاب آئی ہے۔ پورا گھر پھولوں سے بھرا ہوا تھا کہ حمرا آپا کی بہو بشریٰ پھولوں کی ترتیب سے تحائف تیار کرنے کانفیس ذوق اور مہارت رکھتی ہیں ۔اس گھرانے سے محبتوں، کتابوں اور پھولوں کے تحائف وصول کیے اور افضال احمد سید اور تنویرانجم کے ہاں پہنچے۔ جہاں کتاب کا ایک اور تحفہ منتظر تھا۔ ایک کتاب نہیں سات مجموعے جو ایک جلد میں یکجا چھاپے گئے تھے:’’نئی زبان کے حروف‘‘۔ بہ قول کشور ناہید؛’’سات مجموعے،سات آسمان‘‘۔
کراچی میں قیام کا ہرروز یادگار رہا ۔ ایک شام معروف شاعرہ اور افسانہ نگار ڈاکٹر فاطمہ حسن نے یونین کلب میں عشائیے کا اہتمام کیا ۔معروف شاعر اور مترجم انعام ندیم بھی وہیں آگئے اور خوب مکالمہ رہا۔ انعام ندیم نے بھیشم ساہنی کے منتخب ہندی افسانوں کو اردو میں ڈھال کر ایک مجموعے کی صورت دی ہے: ’’امرتسر آگیا‘‘ ۔ اس کتاب پر کانفرنس میں مجھے بات کرنے کا موقع ملا تھا۔ نوجوان فکشن نگار اور صحافی اقبال خورشید کی دعوت پر ’’وائس آف سندھ‘‘ کے دفاتر جانے اور ایک گفتگو ریکارڈ کروانے کا موقع بھی نکلا ۔ وہیں محمد عثمان جامعی، رانا محمد آصف اور رفیع اللہ میاں آگئے اور کئی موضوعات زیر بحث آئے۔ محمد عثمان جامعی نے اپنا شعری مجموعہ ’’میں بس اک دیوار‘‘ اور ڈاکٹر محمد عمر ہارون نے ’’وائس آف سندھ‘‘ کاتازہ شمارہ عطا کیا ۔ ایک اور شام جی ٹی وی پر خرم سہیل کے پروگرام ’’چائے خانہ‘‘ میں مہمان بنا ۔ خرم سہیل نے لگ بھگ بیاسی سالہ قدیم ’’ساقی‘‘ کے ’’جاپان نمبر ‘‘کی تازہ اشاعت عطا کی ۔ یہ بہت اہم دستاویز ہے جو خرم کتابی صورت میں سامنے لائے ہیں۔ کراچی میں قیام کے آخری روز معروف افسانہ نگار اور صحافی اخلاق احمد کے ہاں عشائیہ تھا اور روانگی والے روز صبح آرٹس کونسل کراچی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور خوب صورت شخصیت کے مالک ندیم ظفر صدیقی کے ہاں برنچ ۔ اخلاق احمد بھابی صاحبہ ، ان کے بیٹوں اور بہو نے خوب اہتمام کر رکھا تھا۔ باتیں بھی ہوئیں اور کھانے میں نئی نئی ڈشوں کا تعارف بھی ہوا۔ ندیم ظفر نے اردو کانفرنس کے آخری روز ہی کہہ دیا تھا کہ اسلام آباد کے لیے نکلنے سے پہلے ان کے دولت خانے پر ضرور حاضری دوں۔ برنچ پر ہونے والی یہ ملاقات کئی حوالوں سے یاد رہے گی ۔بہت مہذب گھرانہ ہے ۔ سینتالیس کی تقسیم سے لے کر اکہتر کےٹوٹنے تک کئی موضوعات پر گفتگو ہوئی اور ایک موقع پر ندیم ظفر کی والدہ ماجدہ بھی گفتگو کا حصہ ہو گئیں ۔
ابھی ہم کراچی میں ہی تھے کہ آرٹس کونسل میں الیکشن کا ہنگامہ شروع ہو چکا تھا۔ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کو کچھ دن پڑے ہیں مگر ہم ابھی سے خبر دیے دیتے ہیں کہ احمد شاہ کو احمد شاہ نہ ہرائے تو کوئی اور نہیں ہرا سکتا کہ انہوں نے آرٹس کونسل میں ادب و ثقافت کی خدمت کا جو معیار انہوں نےمقرر کر دیا ہے، اسے برقرار رکھنا کسی اور کی بس نہیں اور یہ بات آرٹس کونسل کا ایک ایک ممبر جانتا ہے۔