گزشتہ دنوں لاہور جانا ہوا۔ تو سجاد بلوچ اور عنبرین صلاح الدین کے ہاں معروف نقاد، افسانہ نگاراور ہمارے مشترکہ دوست ناصر عباس نیئر بھی آگئے۔ بس پھر کیا تھا، زبان و ادب کے کئی موضوعات چھڑ گئے۔ آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ سجاد اور عنبرین دونوں میاں بیوی عمدہ شاعر ہیں۔کوئی سات سال پہلے سجاد کی شاعری کا مجموعہ”ہجرت وہجر“آیا تھاتو ہم سب ان کی شاعری کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ ظفر اقبال نے سجاد کی شاعری کے بارے میں کہہ رکھا ہے کہ ان کی شاعری حیران کن بھی ہے اور پریشان کن بھی۔
اور یہ بھی کہ ان کے ہاں چونکانے والے اشعار بہت زیادہ ہیں۔ ظفر اقبال بہت کم کم کسی کو مانتے ہیں، کئیوں کو تو مان لینے کے بعد مکر بھی گئے ہیں مگر سجاد کی شاعری کے حوالے سے اپنے بیان پر تاحال قائم ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس نوجوان کے پاس توجہ بٹور لینے کو اشعار بہت کثرت میں ہیں:
اگر کسی نے خریدا نہ آج بھی مرا دن
تو معذرت مرے لیل و نہار، تھک گیا میں
۔۔۔۔۔
کہاں زمیں کے ضعیف زینے پہ چل رہی ہے
یہ رات صدیوں سے میرے سینے پہ چل رہی ہے
خمارِ خوابِ سحر،یہ دل اور تیری یادیں
ہوا دبے پاؤں آبگینے پہ چل رہی ہے
جب ناصر عباس نیر اردو سائنس بورڈ میں تھے توانہوں نے سجاد بلوچ کی ایک کتاب چھاپی تھی”نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز“۔ سجاد صحافی ہیں۔ میں نے اُن کے ترجمہ کیے ہوئے نوبل انعام یافتگان کے کچھ انٹرویو ان کے مرتب کیے ہوئے اخبارات کے صفحات میں پڑھے تھے۔ ناصر عباس نیر جب تک اردو سائنس بورڈ میں رہے ادارہ متحرک رہا پھر اسے نظر لگ گئی اور اب بہ قول غالب”ہر چند کہیں کہ ہے،نہیں ہے“۔ ہاں تو یاد آیا اُردو سائنس بورڈ نے عنبرین صلاح الدین کی دوکتابیں چھاپی تھیں:رچرڈ ڈاکنز کی کتاب”حقیقت کا جادو“ اور فرہنگ صنفی مطالعات“۔ عنبرین کے پی ایچ ڈی مقالے کا موضوع بھی اردو شاعرات کا صنفی مطالعہ تھا۔ وہ کتاب الگ سے چھپی۔عنبرین کی شاعری کے دومجموعے میری نظر سے گزر چکے ہیں:”سر دشت گماں“ اور ”صدیوں جیسے پَل“۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے عنبرین کی شاعری کے حوالے سے لکھا تھا:
”غزل ہو یا نظم،عنبرین صلاح الدین کو دونوں میں اپنی بات سہولت اور سلیقے سے کہہ لینے کا ہنرعطا ہوا ہے تاہم محض شعر کہنا ان کا مسئلہ نہیں ہے؛ زندگی کی تخلیقی سطح پر تظہیر اور تفہیم ان کا مسئلہ ہے۔جہاں وہ کھڑی ہیں (اپنی پوری قامت اور وجودی تناظر کے ساتھ) اور جہاں اُنہیں ہونا چاہیے(اپنی ساری توفیقات کی شناخت اور احترام کے ساتھ)؛ دو الگ مقامات کی صورت ان کی شاعری میں شناخت کیے جا سکتے ہیں۔ یہی وہ دو مقامات ہیں جو ان کے تخلیقی وجود میں ایک تمنا، ایک تاہنگ اور تحرک جگاتے ہیں اور انہی دو حدوں کے اندر ان کی شاعری کا سارا متن اپنے معنیاتی نظام سمیت حسی سطح پر متشکل ہوتا ہے۔ عنبرین صلاح الدین اُن تخلیق کاروں میں نمایاں ہیں جنہیں شدت سے احساس ہے کہ ان کے پاس زندگی کا آدھا دِن اور اس کی پوری اذیتیں ہیں۔وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ اِس آدھ پچھدی حیاتی کا ایک ایک پل صدیوں پر محیط ہے اور ہر پل سماعتوں پراپنی سرسراہٹ کے نقش کھینچتا گزر رہا ہے۔یہی سبب ہے کہ جب وہ اپنی بصارت اور سماعت کے کینوس پر پھولوں سے بہہ نکلنے والی خوشبو اور خالی پن میں گونجتی آوازوں کو تصویر کررہی ہوتی ہیں تو زندگی کی ایک خاص جہت قاری پر بھید کی طرح کھل رہی ہوتی ہے۔ زندگی کو اتنی لطیف سطحوں پر اور اتنی گھمبیرتا کے ساتھ محسوس کرکے اپنے فن کا حصہ بنالینے پر قدرت نے ہی عنبرین صلاح الدین کومعاصرین میں مختلف اور نمایاں کردیا ہے۔“
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ عنبرین کی دلچسپی کا ایک علاقہ صنفی مطالعے کا ہے۔ جب ہم دوست مختلف موضوعات پر بات کر رہے تھے تو تانیثیت کا موضوع بھی زیر بحث آیاتھا۔ یہ موضوع کئی حوالوں سے اہم ہوکر میرے نزدیک کئی اعتبار سے مغالطہ انگیز بھی ہے۔ خیر، اس باب کے مغالطے وہاں بھی کم نہیں رہے جہاں سے ہم نے اسے عین مین اخذکرنا چاہا ہے۔کیا یہ بات عجیب نہیں کہ خواتین کی آزادی کی بابت زیادہ وضاحتیں مردوں نے کیں اور اسے تھیوری بنالیاہے۔ بہ جا کہ عورتیں بھی اپنا علم لے کر نکلیں مگر ان عورتوں کو یقین مرد کے کہے کاہی آتا رہا ہے۔ جی، یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا کہ لگ بھگ ایسا ہی Alicia Suskin Ostriker نے کہا تھا۔ مجھے یاد ہے ریاض صدیقی نے اسی بابت ایک مضمون میں، جو غالباً1992یا1993میں وزیر آغا کے جریدے ”اوراق“ کے ایک شمارے میں چھپا تھا، اسے مقتبس کیا تھا۔ شاعرہ الیسیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ہمارے دوست محمد عمر میمن والی وسکانسن، میڈیسن،امریکہ سے ڈاکٹریٹ کی۔ اس کی نظموں کی دس کتابیں چھپ چکی ہیں اور تنقید بھی لکھی۔ ایک کتاب The Emergence of Women,s Poetry in America ہے جو غالباً 1986 میں چھپی تھی۔ یوں اس شاعرہ کا کہا ہم ایک ہی ہلے میں ایک طرف نہیں پھینک سکتے۔ پھر ایسا بھی تو ہے کہ لگ بھگ یہی بات ہمارے منٹو صاحب نے بھی کہہ رکھی ہے؛ جی سعادت حسن منٹو نے، وہی جو اپنی تخلیقی واردات میں ہر بار کسی نہ کسی کمزور عورت کے ساتھ جا کھڑے ہوتے ہیں۔ آپ اگر منٹو صاحب کے افسانوں کے مرد کرداروں کی فہرست بنانا چاہیں گے توان میں کام کا مرد شاید ہی نکل پائے؛ جی منگو کوچوان سا، سب اس درگاہ کے دھتکارے ہوئے نکلیں گے۔ ان ہی منٹو صاحب کا کہا بھی یہاں مقتبس کرنا چاہتا ہوں۔ دامودر گپت کی قدیم سنسکرت کتاب ”نٹنی متم“ کا میرا جی نے اُردو میں ترجمہ کیا تو اس کا دیباچہ لکھتے ہوئے منٹونے لکھا تھا:
”۔۔۔ سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں کو قلم بند کرنے والا ایک مرد ہے۔۔۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے اس لیے کہ عورت خواہ وہ بازاری ہو یا گھریلو، خود کو اتنا نہیں جانتی جتنا کہ مرد اس کو جانتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عورت آج تک اپنے متعلق حقیقت نگاری نہیں کر سکی۔ اس کے متعلق اگر کوئی انکشاف کرے گا تو مرد ہی کرے گا۔“
اگرچہ”نٹنی متم“کا وہ ترجمہ جو شاعر میرا جی نے کیا تھا،وہی منٹو کے پیش نظر تھا مگر منٹو صاحب تھے تو افسانہ نگار۔سو یہ افسانہ نگار کی باتیں ہیں آپ چاہیں تو انہیں ایک طرف اچھال کر منہ موڑ سکتے ہیں۔مگر کیا آپ مرزا رسو کی ”امراؤ جان ادا“ کو بھی ایک طرف رکھ پائیں گے۔ گویا یہ اصول نہیں مانا جا سکتا کہ مرد نے عورت کی حسیت کوسمجھا نہیں ہے؛ایسے میں، خلوص نیت سے چاہنے لگا ہوں کہ کاش کوئی منٹوکی اس بات کو ردکر دے کہ عورت اپنے بارے میں حقیقت نگاری نہیں کر سکتی۔ ایک بار ممتاز مفتی نے بھی کہا تھا؛عورت کی فطرت کے قریب کا عمل اس کا دیکھنا نہیں،اُس کا دِکھنا ہے، اسی میں وہ لطف پاتی ہے۔یہیں وہ نسائی شاعری گواہ ہو جاتی ہے جس میں دِکھنے کی چاہ ہے اور چاہے جانے کی تمناہے؛یہ شاعری نسائی حسیت سے قریب تر ہے۔ یہ ایک نقطہ نظر ہے ہمارے ہاں کا؛سو اسے بھی نگاہ میں رکھیے۔اچھا ایک دلچسپ بات خالدہ حسین نے بھی کہہ رکھی ہے، یہ بات مفتی جی کی بات سے بہت الگ ہو جاتی ہے، نقل کیے دیتا ہوں:
”دیکھا جائے تو مرد بھی وہی اعلیٰ ادب تخلیق کر رہے ہیں جن میں کچھ نسائی حِس ظہور کرتی ہے۔جو اپنے ”اینی ما“ کو قبول کر لیتے ہیں۔“
اوہ ایک بار پھر فکشن نگاروں کے حوالے لے آیا؛ شاید فکشن لکھتا ہوں، اسی لیے یہی میرے دماغ میں گھسے ہوئے ہیں۔ خیر میں نسائی شاعری پر نظر مرکوز رکھنا چاہ رہا تھا اِدھر َادھربھٹک گیا۔ خود بھی الجھنا اور آپ کو بھی اُلجھایا۔
عورت موضوع بنی ہے توجی چاہنے لگا ہے کہ آپ کو ایک اہم کتاب کی طرف آپ کو لے چلوں۔ بہت کام کی ہے یہ کتاب۔جی، یہ ہے زاہدہ حنا کے مضامین کا مجموعہ ”عورت:زندگی کا زندہ نامہ“۔ اگرچہ اس ایک موضوع میں کئی ضمنی موضوعات کو سمیٹا گیا ہے؛ ماں سے باپ کی حکمرانی تک کے سفر کی کہانی، ذرائع ابلاغ کا منفی کرداراور پاکستانی عورت کی آزمائشوں کا بیان تاہم ادب بھی اس میں خوب خوب زیر بحث آیا ہے۔ ادب کی ذیل ہی میں ایک مضمون کا عنوان ہے؛”برصغیر کی تین اولین ادیب عورتیں“۔ اس میں جہاں انیسویں صدی کے بنگال اور بہار کی تین خواتین؛ رشندری،رشیدالنساء اوررقیہ سخاوت حسین کا ذکر ہے وہیں 1906ء میں قائم ہونے والا”بیتیا ہاؤس گرلز اسکول کے سالانہ جلسے کا دلچسپ ذکر بھی موجود ہے۔ اس جلسے میں ہندو اور مسلم اشرافیہ کی خواتین نے ذوق و شوق سے شرکت کی تھی اور رشید النساء کی بیٹی(اور بہار کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ)نثار کبریٰ نے ایک نظم سنائی تھی۔ یہ نظم لیڈی بیلی کی صدارت میں سنائی گئی تھی اور اس نے خوب داد پائی تھی:
کسی کام کے بھی نہ قابل ہیں نسواں
فقط نیم وحشی میں داخل ہیں نسواں
عزیزوں کے ہاتھوں سے گھائل ہیں نسواں
ہر اک قوم سے بڑھ کے جاہل ہیں نسواں
برے ایسے ہیں ان کے مقسوم، دیکھو
انہیں عظمیٰ نعمت سے محروم دیکھو
رشید النساء کا معمول تھا کہ شام کو جب شمع روشن کی جاتی تو وہ اپنی بیٹیوں،بھانجیوں،بھتیجیوں، محلے کی عورتوں، گھر کی ماماؤں اور دائیوں کوقصص الانبیا کے ساتھ ساتھ دوسری کتابیں سناتیں۔ تو یہ نثار کبریٰ عظیم آبادی کی تربیت گاہ تھی۔ وہ اُردو فارسی ہندی اور انگریزی جانتی تھیں۔وہ سات سال کی ہوئیں تو انہوں نے ایک مناجات لکھی،جس پر اصلاح شاد عظیم آبادی نے دی تھی۔ عورت کے لیے جہالت کا وہ تصورجو اوروں کے لیے قابل قبول تھاوہ کہاں تک رشید النساء کے لیے قابل قبول ہو سکتا تھا اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہوا یوں کہ نثار کبریٰ نے ایک ایسی مثنوی لکھی جس کا اِدھر اُدھر بہت چرچا ہوا۔ نظم گھر کے مردوں میں پہنچ گئی تو باہر کھلبلی مچ گئی۔ نثار کبریٰ کے بھائی غلام مولیٰ نے نظم پڑھی غصے میں آپے سے باہر ہوئے، سیدھا ماں کے پاس پہنچے،نظم انہیں دکھاتے ہوئے کہا:
”لڑکیوں کو لکھنا پڑھنا کیا اس لیے سکھایا گیا ہے کہ وہ مرزا سودا بن جائیں اور لوگوں کی ہجوویں کریں۔“
بیٹے نے ماں سے غصے میں کیا کچھ نہ کہا ہوگا؛پھر نظم کے ٹکڑے کیے اور وہاں پھینک کر چلتا بنا۔ ماں،یعنی رشید النسا ء کا ردعمل کیا رہا، یہ یہاں بہت اہم ہو جاتا ہے۔رشید النساء، جو لڑکیوں پر کسی قسم کی کتاب پڑھنے پر پابندی نہیں لگاتی تھیں، بیٹے کی باتیں چپ چاپ سنتی رہیں، بیٹے نے نظم پھاڑ کر پھینک دی۔ وہ پھر بھی چپ رہیں۔ اچھا آگے چلیں اسی پڑھی لکھی نثار کبریٰ کی شادی جب ایک عالم فاضل مگر دم گھونٹ دینے والے گھرانے میں سولہ برس کی عمر میں کر دی جاتی ہے،تب بھی ماں نہیں بولتی۔ نثار کبریٰ کا کہنا تھا کہ اس کے سسرال کا باوا آم ہی نرالا تھا جو باتیں ان کی سمجھ میں اچھی تھیں،سسرال میں وہ بری ہو گئی تھیں۔ خیر، مجھے نثار کبریٰ کی ہجوسے اقتباس دینا ہے، وہ ہجو جو مولوی میر حسن کی طرز پر لکھی گئی تھی اورجس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔لیں نقل کر رہاہوں:
نزاکت سے سارے اٹھائے ہوئے
زمیں پر نظر کو جھکائے ہوئے
عجب حال سے گھر میں داخل ہوئی
طرف کام کے اپنے مائل ہوئی
تو یوں ہے صاحب کہ ہمارے ہاں شروع ہی سے عورت خود عورت کے حوالے سے ایک مخمصے کا شکار رہی ہے۔ کچھ امور میں وہ مرد کی نظر سے دیکھتی ہے، اور اپنی رضا سے دیکھتی ہے۔ اچھا،عورت انسان ہے اور مرد بھی انسان، تو کہہ لیجئے اس باب میں دونوں برابر ہیں کہ ایک ہی نوع سے ہیں۔ مگر صنف اور گروہ کے لحاظ سے ایک اختلاف بھی موجود ہے۔ یہ اختلاف دونوں گروہوں کی شناخت مختلف کرتا اور باہمی تعلق کے اصول وضع کرتا اور صنفی تعلقات کی حدود متعین کرتا ہے۔ ظاہر ہے یہ دونوں گروہ ایک معاشرے میں ہوتے ہیں، ایک سماج کا حصہ ہوتے ہیں، ایک وسیب میں رہتے ہیں، کسی علاقے سے وابستہ ہوتے ہیں، مذہبی ہوتے ہیں یا لامذہبی، کسی رشتے میں بندھے ہوتے ہیں یا انجان اور یہ ساری باتیں اس خاص حوالے سے ہی تعلق، حقوق، فرائض وغیرہ جیسے سوالات سے جڑی ہوئی ہیں، انہیں ایک طرف پھینک دیں گے اور تانیثیت کوان ضابطوں میں دیکھنے کی کوشش کریں گے جو کسی اور معاشرت میں ڈھالے گئے تو بظاہر شور شرابہ تو بہت نظر آئے گا،مگر ہم اصل مسئلہ سمجھ نہ پائیں گے۔ پھر اس مسئلے کو دوطرح کی شاعرات نے بہت الجھارکھا ہے۔ انہیں بھی نشان زد کر دیتا ہوں۔
پہلی یہ کہ وہ جو تانیثیت کو اپنی حسیات اور تخلیقی سطح پر برتنے کی بہ جائے اسے ایک تحریکی جوش وخروش سے برتنے میں جت جاتی ہیں۔ یوں تانیثیت تخلیقی تجربے میں ڈھلنے کی بہ جائے نعرہ ہو جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب اردو ادب کی نمایاں تخلیقات کی فہرست سازی ہوتی ہے تو نعرہ ہو جانے والی تخلیقات کسی شمار قطار میں نہیں ہوتیں، ان کے لیے سماجی اور سیاسی رویوں یا ردعمل کی ذیلی سرخیاں بنانا پڑتی ہیں۔ مثلاً جس سہولت سے ہم فکشن کے باب میں قرۃالعین حیدر، خالدہ حسین وغیرہ کا نام کسی ذیلی عنوان کے سہارے کے بغیر لے لیتے ہیں کیا ایسا شاعری کے باب میں ممکن ہے۔
دوسری یہ کہ ان میں سے کچھ نے جنسی اظہار میں بے باکی یا مرد وں کو مردود کہے چلے جانے کو ہی تانیثیت یا جدید طرز اظہار سمجھ لیا ہے۔یہاں تک کے مرد ذات کے ہاں اس کے خلاف ایک رد عمل پیدا ہوا ہے اور سماج کے اندر معتدل مزاج لوگ بھی متشدد ہوتے چلے گئے ہیں۔
خیر بات کچھ اور کر رہا تھا،کہیں اور نکل گئی۔ اب اگر معاشرے کے طرز عمل اور ردعمل کا ذکر چل نکلا ہے تو کہتا چلوں کہ میں اور جس علاقے کا رہنے والاہوں؛وہاں عورت بہت محترم ہے۔ تاہم اگر میں نے سندھ اورپنجاب کے بہت اندرون جاکر عورت کی حالت زار کو نہ دیکھا ہوتا اور بلوچستان میں گھوم پھر کر لوگوں کے حالات اپنی آنکھوں سے نہ دیکھے ہوتے تو اس پچھڑی ہوئی عورت کی کھال کے اندر بیٹھ کر میں اس ذلت و رسوائی کا اندازہ نہ لگا پاتا جو اس عورت کو مسلسل جھیلنا پڑتی ہے۔ میں اپنے اس مشاہدے کی بنا پر عورت کی سماجی صورت حال کو تین درجوں میں تقسیم دیکھتا ہوں۔
۱۔ ہمارے ہاں ایسے خاندانوں کی کمی نہیں ہے جہاں عورت کا وجود بہت محترم اور مقدس ہے۔ انہیں حد درجہ احترام اور معاشی سماجی تحفظ حاصل ہے، وہ احترام کے رشتوں میں بندھی ہوئی ہے اور خاندان کے اہم فیصلوں میں دخیل ہوتی ہے۔ اگر چہ گھر سے باہر اور معاشی زندگی میں اس کاکوئی حصہ نہیں ہوتا مگر اس کی اسے خواہش بھی نہیں ہے کہ وہ گھر میں اپنے اختیارات کو اپنے لیے کافی اور اہم سمجھتی ہے۔
۲۔ تعلیم نسواں کے رجحان کے بعد خاص کر شہروں اور قصبات میں ایسے خاندانوں کی تعداد بھی رفتہ رفتہ بڑھتی جا رہی ہے، جہاں عورت اوپر بیان کئے گئے منصب سے دست بردار ہوئے بغیر کسی حد تک خاندان کے معاشی وسائل میں اضافے کے لیے گھر سے باہر نکلی ہے۔ جہاں جہاں گھر اور باہر کا نظام متوازن ہو گیا ہے وہاں وہ اپنے گھر والوں کے منصب دلبری پر بحال رہتی ہے اور جہاں ایسا ممکن نہیں رہتا وہاں ایک کھینچا تانی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ تناؤ بھی زیادہ تر عورت اور عورت کے بیچ تعلق کے ری ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، چاہے اس کا ایک سبب نئے معاشی تقاضے ہی کیوں نہ ہوں۔
۳۔ ایسے علاقے جہاں قبائلی زندگی ہے وہاں ملا ہو یا سردار اور وڈیرہ، وہ عورت کو غلام سمجھتا ہے یا پاؤں کی جوتی۔ اسے جائیداد سے محروم کرتا ہے اور تعلیم کے حصول کے دروازے اس پر بند رکھتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ایسے علاقوں میں عمومی انسانی صورت حال بھی کوئی قابل رشک نہیں ہوتی۔ سارے مظلوم طبقات جانوروں سے بدتر ہوتے ہیں۔ عورت بیچاری تو ایسے سماجی حالات کے چکر میں سب سے زیادہ پس رہی ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں کی نسائی شاعری میں ان تینوں طبقوں کی عورت کی حسیات کو نشان زد کیا جا سکتا ہے اور عنبرین صلاح الدین جیسی شاعرات اس باب میں بہتر مثال قائم کر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی امید عنبرین صلاح الدین سے اس لیے باندھی ہے کہ کچھ دن پہلے ان کی ایک بہت عمدہ نظم میری نظر سے گزر چکی ہے۔ یہ نظم ہم نے اصرار کرکے ان سے اس نشست میں سنی جو لاہور میں ان کے گھر رہی تھی۔ سچ پوچھیں تو یہ نظم آپ تک پہنچانے کے لیے میں نے یہ سارا تمہید باندھی ہے۔ نظم پڑھتے ہوئے اوّل اوّل آپ کو یوں لگے گا جیسے کوئی مرد مخاطب ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ ایک عورت اپنے نازک وجود سے نکل کر مرد ذات کی کھال میں بیٹھی ہوئی ہے اور سارا منظرنامہ اوندھا کر ہمیں وہ کچھ دکھا دیا گیاہے جو مرد ذات عام حالت میں دیکھ سکتی تھی۔ نظم کاعنوان ذہن میں حاضر رکھ کر نظم پڑھیے:
”کیسے مردوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناکر
گلے کو دبا کر
تعفن اگلتے ہوئے گندے نالوں میں لڑھکاتی،
یادور کھیتوں میں اور کوڑے دانوں میں پھینک آتی ہیں
سنگ دِل سارے منظر کو اک آن میں بھول کر آگے بڑھ جاتی ہیں
بے حیا عورتیں
فاحشہ عورتیں
ان کی رالیں ٹپکتی ہیں
معصوم جسموں کو گر دیکھ لیں
مرد،عورت ہویا کوئی خواجہ سرا
اپنی وحشت کی تسکین کے واسطے
عمر، رنگت، قبیلے یا طبقے کا کچھ مسئلہ ہی نہیں
جان سے مار دینا بھی مشکل نہیں
بلکہ قبروں میں تازہ دبی لاشوں کو نوچنے میں انہیں ہچکچاہٹ نہیں
یہ بلا عورتیں
وحشیہ عورتیں
اپنی غیرت کے سارے تقاضے نبھاتی ہیں اور داد پاتی ہیں
کس کو بھلا اتنی جرات کہ ان کے پیاموں کو ٹھکرائے
تیزاب کی پوری بوتل الٹ دیتی ہیں
اور جواں سال مردوں کے نازک بدن ایسے جل جاتے ہیں
بچنے والے بھی مرنے کی خواہش میں جیتے ہیں
اورعمر بھر اپنے چہروں سے چھپتے ہیں
ان کے لیے ہیں اذیت بھری اک سزا عورتیں
منبروں پہ کھڑی
برتری کے مناروں سے مردوں پہ پھنکارتی
زعم میں مبتلا عورتیں
خود کو کیسے برابر سمجھتے ہیں؟۔۔۔
کیا؟ عورتوں کے برابر؟
خدا ان کو بخشے۔۔۔
کہ یہ عورتوں کے تو پیروں کی جوتی برابر نہیں
عقل ٹخنوں میں ہے
اور سب جانتے ہیں
قیا مت کے دن یہ جہنم بھریں گے
مگر یہ نہیں جانتے
عورتوں کے تخیل کی جنت میں اٹکھیلیاں کر رہے ہیں
بہتّرحسیں، کسرتی جسم کے اونچے لمبے جواں
جن کے ملبوس سے ان کے جسموں کی رگ رگ دھڑکتی نظر آتی ہے!
اوراس انعام پر
خود پہ اتراتی ہیں
کج ادا عورتیں
باحیا، پارسا، باصفا مردہیں
اور ان کی مجازی خدا عورتیں!
۔۔۔۔۔۔۔