Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
میری زندگی کی ایک خواھش تھی کہ آزاد کشمیر کے بعد کبھی مقبوضہ کشمیر کی بھی فوٹوگرافی کروں، سیر کروں پاکستان کی شہ رگ کو نزدیک سے دیکھوں. اس کے بہتے جھرنے، چشمے، ندی نالے، کچنار کے درخت، پہاڑ، گلیشیئر دیکھوں اور پوری دنیا کو دکھلاوں۔ اپنی کشمیری ماں، بہن، بیٹیوں سے ملوں۔ ان سے معذرت بھی کروں کہ ھم نے بہت دیر کردی آنے میں، سارے ھی جوان تو شہید ھوگئے، ھزاروں جنازے گھروں سے اٹھے، کچھ کے جنازے غائبانہ بھی ھوئے، گھر گھر جاوں انکا غمگسار بنوں، انکے ساتھ بیٹھ دعا کروں، یاسین ملک صاحب سے ملوں، گیلانی صاحب سے ملوں، ان کی تکلیفوں کا مداوا کروں، ان سب کو سر آنکھوں پر بٹھاوں، ان کے قدموں میں اپنی پلکیں بچھاوں، میر الیاس کا گاوں دیکھوں، محبوبہ مفتی صاحبہ کا گھر دیکھوں، جہاں جہاں ظلم ھوا ھے اس اس جگہ جا کر دنیا کو دکھاوں کہ دیکھو اقوام عالم، ظالم ہندوستانیوں نے کیا کیا ظلم ڈھائے ھیں میرے کشمیریوں کے ساتھ ، کیا تم کو انصاف کرنے کا خیال نہیں آیا، کیا امن کیلئے کشمیر مناسب جگہ نہیں تھی کیا امن انکا حق نہیں تھا کہاں ھیں وہ انسانی حقوق کی تنظیمیں، ان کو پیلیٹ گن کے وہ حملے نظر نہیں آئے، جن کے نشانے زندہ انسانوں کی آنکھیں تھیں، جب بھی انسانی حقوق کی بات ھوتی ھے مجھے یقین نہیں آتا سوچتا ھوں کیا بکواس کرتے ھیں یہ انسانی حقوق والے جہاں انسانوں کے ساتھ درندگی ھوئی جانوروں سے بدتر سلوک ھوا، وھاں تک ان کی رسائی نہیں ھے جہاں ایک جانور ھلاک ھوجائے وھاں مظاھرہ شروع کردیتے ھیں، سب جانداروں کا خیال رکھنا ضروری ان کیلئےھے، بس درخواست یہ ھے کہ میرے مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں کو بھی یہ تنظیمیں انسانوں میں شمار کر لیں، اس تکلیف میں رھتے مجھے پچاس سال ھوگئے ھیں پر میں نے آج تک ان کیلئے اقوام عالم سے کوئی ہمدردی کے دو بول بھی نہیں سنے، یہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اتنی بے حس کیوں ھوتی ھیں، میں خواب دیکھتا ھوں، ان میں رھتا ھوں، عامر محبوب چیف ایڈیٹر روزنامہ جموں اینڈ کشمیر میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ھیں، پچھلی دو دھائیوں سے ھروقت کا ساتھ ھے، مجھے لیکر چل پڑے، ھم واک کرتے کرتے سرینگر روڈ پر تھے، پہلے تو کچھ کچنار کے درخت آئے پھر سرینا ھوٹل بالکل اسلام آباد سرینا جیسا، چند قدم پر سرینگر روڈ کا بورڈ تھا، میری آنکھیں نم ھوگئیں، کیا ھوا بھائی جان، عامر محبوب میری زندگی کی سب سے بڑی خواھش تھی سرینگر جانے کی، شکریہ آپ کی کئی سال کی آزادی کشمیر کیلئے جدوجہد کی وجہ سے آج یہ دن دیکھنا نصیب ھوا۔ ایک طرف راول ڈیم کی طرز کی جھیل تھی پر وھاں پر سب ھی کشتیاں بے پردہ تھیں، ان کشتیوں کو کیا ھوا، ان کی چھتیں کدھر ھیں ان کی سجاوٹ کدھر ھے، پھر ھم واک کرتے کرتے سرینگر روڈ پر جارھے تھے آگے مارگلہ موٹل آگیا، پھر سپورٹس کمپلیکس، آبپارہ مارکیٹ، شکرپڑیاں، زیرو پوائنٹ، پاکستان مونومنٹ، پشاور موڑ، اتوار بازار، قبرستان، نسٹ یونیورسٹی، میٹرو بس سروس، عامر محبوب جی یہ ھندوستانی بڑے نقل خور ھیں سرینگر تو بالکل اسلام آباد کی طرح بنایا ھے رتی برابر فرق نہیں بلکہ کچھ خواتین حضرات کی شکلیں بھی دیکھی دیکھی لگتی ھیں، یار فیرن (کشمیری لباس)پہنے ھوئے تو کوئی نظر ھی نہیں آرھا، کیا گرمی کی وجہ سے ایسا ھے، اظہر بھائی! آپ مجھ سے بڑے ھیں پر آپ کو ایک اچھے سائیکالوجسٹ کو دکھانے کی ضرورت ھے، کیوں کیا ھوا، کیا مقبوضہ کشمیر کی آزادی کسی دیوانے کا خواب ھے، یا پھر میں دیوانہ ھوگیا ھوں، میں شکر گزار ھوں موجودہ حکومت کا جس نے مجھے میری زندگی میں سرینگر دکھا دیا۔ بس ایک بات یاد رکھئے گا، زمین کا قبضہ لینے کے بعد نقشہ اور تعمیر شروع کی جاتی ھے، میں اور عامر محبوب پیدل چلتے چلتے تھک گئے ھیں اور بس والا آوازیں لگا رھا ھے سرینگر ھائی وے سے پیر ودھائی، سرینگر ھائی وے سے پیرودھائی یہ سب کیا ھورھا ھے، مجھے سرینگر میں کچھ دن رھنے دو، میں ابھی واپس نہیں جانا چاھتا، عامر محبوب بھائی آپ کے تو سب واقف ھیں ، بے شک مجھے سرینگر کے ھی کسی نفسیاتی ھسپتال میں داخل کروادیں جب باقی کشمیری اس جسمانی اور نفسیاتی کرب سے نکلیں گے تو شاید میں بھی ٹھیک ھوجاوں۔ نہ جانے کب کشمیر ھوجاوں۔
میری زندگی کی ایک خواھش تھی کہ آزاد کشمیر کے بعد کبھی مقبوضہ کشمیر کی بھی فوٹوگرافی کروں، سیر کروں پاکستان کی شہ رگ کو نزدیک سے دیکھوں. اس کے بہتے جھرنے، چشمے، ندی نالے، کچنار کے درخت، پہاڑ، گلیشیئر دیکھوں اور پوری دنیا کو دکھلاوں۔ اپنی کشمیری ماں، بہن، بیٹیوں سے ملوں۔ ان سے معذرت بھی کروں کہ ھم نے بہت دیر کردی آنے میں، سارے ھی جوان تو شہید ھوگئے، ھزاروں جنازے گھروں سے اٹھے، کچھ کے جنازے غائبانہ بھی ھوئے، گھر گھر جاوں انکا غمگسار بنوں، انکے ساتھ بیٹھ دعا کروں، یاسین ملک صاحب سے ملوں، گیلانی صاحب سے ملوں، ان کی تکلیفوں کا مداوا کروں، ان سب کو سر آنکھوں پر بٹھاوں، ان کے قدموں میں اپنی پلکیں بچھاوں، میر الیاس کا گاوں دیکھوں، محبوبہ مفتی صاحبہ کا گھر دیکھوں، جہاں جہاں ظلم ھوا ھے اس اس جگہ جا کر دنیا کو دکھاوں کہ دیکھو اقوام عالم، ظالم ہندوستانیوں نے کیا کیا ظلم ڈھائے ھیں میرے کشمیریوں کے ساتھ ، کیا تم کو انصاف کرنے کا خیال نہیں آیا، کیا امن کیلئے کشمیر مناسب جگہ نہیں تھی کیا امن انکا حق نہیں تھا کہاں ھیں وہ انسانی حقوق کی تنظیمیں، ان کو پیلیٹ گن کے وہ حملے نظر نہیں آئے، جن کے نشانے زندہ انسانوں کی آنکھیں تھیں، جب بھی انسانی حقوق کی بات ھوتی ھے مجھے یقین نہیں آتا سوچتا ھوں کیا بکواس کرتے ھیں یہ انسانی حقوق والے جہاں انسانوں کے ساتھ درندگی ھوئی جانوروں سے بدتر سلوک ھوا، وھاں تک ان کی رسائی نہیں ھے جہاں ایک جانور ھلاک ھوجائے وھاں مظاھرہ شروع کردیتے ھیں، سب جانداروں کا خیال رکھنا ضروری ان کیلئےھے، بس درخواست یہ ھے کہ میرے مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں کو بھی یہ تنظیمیں انسانوں میں شمار کر لیں، اس تکلیف میں رھتے مجھے پچاس سال ھوگئے ھیں پر میں نے آج تک ان کیلئے اقوام عالم سے کوئی ہمدردی کے دو بول بھی نہیں سنے، یہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اتنی بے حس کیوں ھوتی ھیں، میں خواب دیکھتا ھوں، ان میں رھتا ھوں، عامر محبوب چیف ایڈیٹر روزنامہ جموں اینڈ کشمیر میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ھیں، پچھلی دو دھائیوں سے ھروقت کا ساتھ ھے، مجھے لیکر چل پڑے، ھم واک کرتے کرتے سرینگر روڈ پر تھے، پہلے تو کچھ کچنار کے درخت آئے پھر سرینا ھوٹل بالکل اسلام آباد سرینا جیسا، چند قدم پر سرینگر روڈ کا بورڈ تھا، میری آنکھیں نم ھوگئیں، کیا ھوا بھائی جان، عامر محبوب میری زندگی کی سب سے بڑی خواھش تھی سرینگر جانے کی، شکریہ آپ کی کئی سال کی آزادی کشمیر کیلئے جدوجہد کی وجہ سے آج یہ دن دیکھنا نصیب ھوا۔ ایک طرف راول ڈیم کی طرز کی جھیل تھی پر وھاں پر سب ھی کشتیاں بے پردہ تھیں، ان کشتیوں کو کیا ھوا، ان کی چھتیں کدھر ھیں ان کی سجاوٹ کدھر ھے، پھر ھم واک کرتے کرتے سرینگر روڈ پر جارھے تھے آگے مارگلہ موٹل آگیا، پھر سپورٹس کمپلیکس، آبپارہ مارکیٹ، شکرپڑیاں، زیرو پوائنٹ، پاکستان مونومنٹ، پشاور موڑ، اتوار بازار، قبرستان، نسٹ یونیورسٹی، میٹرو بس سروس، عامر محبوب جی یہ ھندوستانی بڑے نقل خور ھیں سرینگر تو بالکل اسلام آباد کی طرح بنایا ھے رتی برابر فرق نہیں بلکہ کچھ خواتین حضرات کی شکلیں بھی دیکھی دیکھی لگتی ھیں، یار فیرن (کشمیری لباس)پہنے ھوئے تو کوئی نظر ھی نہیں آرھا، کیا گرمی کی وجہ سے ایسا ھے، اظہر بھائی! آپ مجھ سے بڑے ھیں پر آپ کو ایک اچھے سائیکالوجسٹ کو دکھانے کی ضرورت ھے، کیوں کیا ھوا، کیا مقبوضہ کشمیر کی آزادی کسی دیوانے کا خواب ھے، یا پھر میں دیوانہ ھوگیا ھوں، میں شکر گزار ھوں موجودہ حکومت کا جس نے مجھے میری زندگی میں سرینگر دکھا دیا۔ بس ایک بات یاد رکھئے گا، زمین کا قبضہ لینے کے بعد نقشہ اور تعمیر شروع کی جاتی ھے، میں اور عامر محبوب پیدل چلتے چلتے تھک گئے ھیں اور بس والا آوازیں لگا رھا ھے سرینگر ھائی وے سے پیر ودھائی، سرینگر ھائی وے سے پیرودھائی یہ سب کیا ھورھا ھے، مجھے سرینگر میں کچھ دن رھنے دو، میں ابھی واپس نہیں جانا چاھتا، عامر محبوب بھائی آپ کے تو سب واقف ھیں ، بے شک مجھے سرینگر کے ھی کسی نفسیاتی ھسپتال میں داخل کروادیں جب باقی کشمیری اس جسمانی اور نفسیاتی کرب سے نکلیں گے تو شاید میں بھی ٹھیک ھوجاوں۔ نہ جانے کب کشمیر ھوجاوں۔