عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ میں خاموش ھوتا جارھا ھوں۔مجھے دو طرح کے احساس ھورھے ھیں ایک تو مجھے اپنی بات سمجھانی نہیں آتی اور دوسرا اب مجھے بات سمجھ بھی نہیں آتی۔ پہلے تو یہ احساس مجھے باھر کے لوگوں سے ھوا اور اب آہستہ آہستہ اپنوں سے بھی ھونے لگا ھے۔ عزیز، رشتہ دار ، دوست احباب اکثر شکوہ کرتے ھیں کہ آپ خاموش ھوتے جارھے ھو، مجھے جب بھی کوئی بات سمجھ آجائے کہ یہ بات لوگ پسند نہیں کرتے میں اس سے گریز کرنا شروع کردیتا ھوں۔ ایک تو یہ گریز ھی مجھے خاموشی کی طرف مائل کر رھا ھے اور دوسرا جب کوئی بھی اپنی مرضی کا مطلب نکالتا ھے تو پھر خاموشی واجب ھو جاتی ھے۔
مجھے ادھورے سوال اور ادھورے جواب تنگ کرتے ھیں۔ کچھ دوست تحقیقاتی طبعیت کے مالک ھیں آدھا سوال کرکے اپنی مرضی کا جواب لینا چاھتے ھیں جو کم از کم مجھے مناسب نہیں لگتا۔ احتیاط کیجئے، کیونکہ میں اسکا جواب نہیں دینا چاھتا بس خاموش ٹھیک ھوں۔ کچھ احباب کو میری فوٹوگرافی سے شکوہ ھے اور کچھ کو لکھنے سے، دونوں کام ھی کم کردیئے ھیں۔ سفر کرنا بھی چھوڑ دیا ھے۔ سب کو اور رب کو راضی کرنا کافی مشکل کام ھے، بہت کوشش کی پر اب اپنے کام سے کام رکھتا ھوں خاموش رھتا ھوں، موسیقی سننا بھی کبھی اچھا لگتا تھا، شعر پڑھنا اور شیئر کرنا بھی اچھا لگتا تھا، پر اب سب ھی میری فیس بک کی وال اور واٹس ایپ کے سٹیٹس کو اپنا ھی سمجھتے ھیں ھر پڑھنے اور دیکھنے والے کو جواب دے دے کر میں تھک گیا ھوں، کئی دفعہ سب زچ ھوکرڈیلیٹ کرچکا ھوں پھر اسکا بھی جواب دینا پڑتا ھے کس کیلئے ڈیلیٹ کئے۔
مجھے نیلا اور کالا رنگ پسند ھے اسی رنگ کے کپڑے پہنتا ھوں، اکثر اعتراض آتا ھے کہ کوئی اور رنگ کے کپڑے نہیں ھیں کل تھوڑے شوخ رنگ کی شرٹ پہن لی ، کچھ نے کہا کس کیلئے پہنی ھے اور کچھ نے کہا یہ کونسا رنگ پہنا ھے کسی کو جواب نہیں دیا، کیا مجھ پر میرا اتنا بھی حق نہیں ھے کہ اپنی مرضی کے کپڑے پہن سکوں، جب سے پیدا ھوئے بقول ابا جی کے صوفیانہ رنگ کے کپڑے دے دیں وہ چاھے انکے اپنے ھوں امی کے ھوں یا ھم بہن بھائیوں کے۔ ھم نے ھمیشہ سے صوفیانہ رنگ کے کپڑے ھی پہنے۔
بہت ساری محفلوں میں نہیں جاتا جہاں بھی” ڈریس کوڈ ” بتایا گیا ھو۔ بہت دل تھا کچھ اپنی مرضی کی زندگی جیئیں گے پر زندگی بیت گئی جواب دیتے دیتے۔ ھمارے ایک دوست سرخ رنگ کے جوگر پہن کر دفتر آئے اس وقت کے مینیجنگ ڈائریکٹر صاحب نے ان کی کلاس کردی یہ کوئی رنگ ھے دفتر پہن کر آنے کا، جب مجھے پتہ چلا تو حیران ھوا کہ کیا کوئی اپنی مرضی کے جوتے بھی نہیں پہن سکتا، یہ کیسی آزادی ھے یا پھر ابھی تک غلامی ھے، عمومی طور پر گرم کپڑے لینا مشکل ھوتے ھیں اور لوگ ایک جیکٹ سے کئی کئی سال گزار لیتے ھیں۔
ایک طالب علم لیدر کی جیکٹ پہنے یونیورسٹی آگیا، ایک انتہائی قابل استاد نے کلاس میں اس کی اچھی خاصی طبعیت صاف کردی یونیورسٹی میں لیدر کی جیکٹ کون پہن کر آتا ھے، میں سوچتا ھی رہ گیا ممکن ھے اس کے پاس ایک ھی ھو، میری رائے سے کسی کا بھی متفق ھونا ضروری نہیں بس درخواست یہ ھے کہ اپنے کام سے کام رکھیں۔
زندگی میں اتنے فرشتے روزانہ ملتے ھیں جو کہ ھمارے نماز، زکوۃ، حج، روزہ اور تمام اعمال کا روزانہ کی بنیاد پر حساب کتاب کرتے ھیں، مجھ جیسے گنہگار سے نمازیں مکمل ادا نہیں ھوتی اور وہ روزانہ کی بنیاد پر دو سجدوں کے درمیان کیا پڑھیں، رکوع میں یہ پڑھیں، کچھ اور دعائیں شامل کرکے چلے جاتے ھیں، ایک دوست فرمانے لگے آپ نماز عشاء کے بعد دو نفل عادت بنالیں، جی بہتر دعا کیجئے گا پہلے میرے اللہ مجھے عشاء کی نماز قائم کرنے کی توفیق عطا فرمادیں۔
جب سب نے اپنے اپنے اعمال کا حساب دینا ھے تو میری جان میری فکر چھوڑیئے یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ھے اپنا خیال رکھئے اور مجھے میرے تمام کرتوت جو ماضی، حال اور مستقبل میں کئے ھیں یا کرنے ھیں انکی کی اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق معافی عطا کردیجئے، جزاک اللہ خیر۔
(یہ تحریر ھر اس شخص کیلئے ھے جو یہ سمجھے کہ اس کیلئے لکھی گئی ھے برائے مہربانی سوال جواب سے گریز کیجئے گا، یہ آپکا ہی ذکر ھے، شکریہ)