ف
”کلائیمیٹ چینج“نے دنیا بھر میں خوراک کی پیداوار، اُس کی نقل و حمل، اُس تک عام رسائی ،غذائیت کے ساتھ اُسے محفوظ رکھنے اور سارا سال خوراک کی دستیابی جیسے امور کو متاثر کرنا شرو ع کردیا ہے ۔ نتیجتاً ” فوڈ سیکورٹی “ جیسا مسئلہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی طلب کو پورا کرنے کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔فوڈ چین کی تمام کڑیاں اس وقت بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ”کلائیمیٹ چینج“ کے زیر اثر ہیں۔ایسے میں دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ ایسی خوراک کی زیادہ پیداواراور استعمال کیاجائے جو ماحول پر کم سے کم منفی اثر کا موجب ہو نے کے ساتھ ساتھ ” فوڈ سیکورٹی “ کے مسئلہ کا پائیدار حل بھی ہو۔ اس تمام تناظر میں ” دالوں “ کی صورت میں ہمارے پاس ایک ایسی خوراک موجود ہے جو کلائیمیٹ چینج اور فوڈ سیکورٹی دونوں مسائل کا حل ہے۔ لیکن افسوس کے ہم اس نعمت خداوندی کی قدر سے تاحال غافل ہیں۔ |
آج کیا پکائیں؟ ہمارے یہاں کسی گھر میں یہ الفاظ ہر روزسوال بن کر گونجتا ہے تو کسی گھر میں یہ روزانہ ایک خوف کی طرح روح میں سرائیت کیا ہوا ہوتا ہے۔جہاں یہ سوال بن کر پوچھا جاتا ہے اُن گھروں میں جواب تقریباً یکساںہوتاہے جو مرضی پکا لیں۔ایسے میں تذبذب کا شکار خاتونِ خانہ اگر کہیں ”دال “ پکا لے تو ردعمل میں یہ فقرہ سننے کو ملتا ہے ،آپ کو دال کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتاپکانے کو؟ ہمارے صاحب ِ حیثیت گھروں میں دال پکنے کی صورت میں اکثر کی تو بھوک ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ” مجھے بھوک نہیں“ کہہ کر فاسٹ فوڈ کے دلدادہ نسل کھانے سے منہ موڑ لیتی ہے۔
” دال“ کے ساتھ اُن کایہ رویہ دراصل ہماری موجودہ غذائی ترجیحات کا عکاس ہے ۔ جس میں زبان کی لذت ”دال “ جیسی صحت مندانہ خوراک کے استعمال پر غالب آچکی ہے۔جبکہ جن گھروں میں محدود آمدن کی وجہ سے آج کیا پکائیں ؟ ایک خوف کی صورت میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے ۔اُن کے لیے دالوں کی قیمتوں میں اضافہ اُنھیں ”دال“ سے بھی دور کرتے ہوئے اُن کے اِس خوف کو اور مزید گہرا کررہاہے۔ نتیجتاًکسی کے نخرے اور کسی کی معاشی مجبوری نے ہمارے یہاں” دال “کے استعمال کی مقدار نصف سے بھی کم کردی ہے۔ عالمی ادارہ خوراک وزراعت کے مطابق پاکستان میں 1961 ءمیں دال کا استعمال فی کس سالانہ 15 کلوگرام تھا جو کم ہوکراب7 کلوگرام ہوچکا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں: دلدار مرزا یعنی ہمارے جبار مرزا کا عشق
آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے جمھوریت کو کیسے مغلوب کیا؟
بد قسمتی سے ہمارے یہاں” دال “ کو غریب لوگوں کی خوراک سمجھا جاتا ہے اور تمسخرانہ انداز میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ” دال خور “ ہے اس کے علاوہ بعض لسانی گروہوں کو بھی ”دال خور “ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔جبکہ سائنسی تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ ”دال“ اپنی غذائی خوبیوں کے حوالے سے کسی بھی طرح دوسری خوراک سے کم نہیں بلکہ یہ دیگر اجناس کے مقابلے میں زیادہ کثیر الجہتی خواص کی حامل ہیں اور کئی ایک مہنگی خوراک کا بہترین قدرتی نعم البدل بھی ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کے دیگر فوائد اِسے دوسری اجناس سے منفرد بنادیتے ہیں۔ اس لیے دالوں کے صحت و غذائی، معاشی، سماجی، ماحولیاتی اورزرعی فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اور ترکی کی تجویز پر اقوام متحدہ نے 2016 کو دالوں کا بین الاقوامی سال قرار دیا ۔ جو خوراک کی پائیدار پیداوار ، فوڈ سیکورٹی اور غذائیت کو بڑھانے میں دالوں کے اہم کردارکے بارے میں شعور پیدا کرنے کی غرض سے منایاگیا۔
دالیں پھلی دار اجناس کے وہ خوردنی بیج ہیں جو خشک اور کم چکنائی کے حامل ہوتے ہیں۔عالمی ادارہ خوراک و زراعت ایسی گیارہ اقسام کو بطور دال تسلیم کرتا ہے۔جو سبز ی کے طور پر نا پکائی جائیں، جن سے تیل نہ نکالا جاتا ہواور جو بوائی کے مقاصد کے لیے استعمال نا ہوتی ہوں۔ دالیں غذائی تحفظ، ماحولیات،غربت، مٹی کی صحت اور انسانی صحت اور غذائیت کے چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کرداد ادا کرتی ہیں یوں یہ پائیدار ترقی کے کئی ایک اہداف کو بہتر طور پر حاصل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی ہیں اسی لیے انھیں ” چھوٹے عجائبات“ (little marvels)بھی کہا جاتا ہے۔
٭ دالیں اور غذائی تحفظ(فوڈسیکورٹی)
عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق” فوڈ سکیورٹی ایک ایسی صورتحال ہے جس میں فعال اور صحت مند زندگی گزارنے کے لئے لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے واسطے کافی، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک تمام افراد کے لئے ہر وقت جسمانی اور معاشی طور پر پہنچ میں ہونی چاہیئے۔“ یہ تعریف فوڈ سکیورٹی کے چار پہلووں کا احاطہ کرتی ہے۔ دستیابی، استحکام، محفوظ استعمال اور رسائی۔ فوڈ سکیورٹی کے ان چار پہلووکو دالیں پورا کرتی نظر آتی ہیں۔ یعنی دالوں کو مہینوں تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے بغیر ان کی اعلیٰ غذائیت کو کھوئے جس سے فصلوں کے درمیانی عرصہ میں خوراک کی پائیدار دستیابی ممکن رہتی ہے۔ دالیں خشک آب و ہوا میں کاشت کی جا سکتی ہیں جہاں بارش محدود اور اکثر بے ترتیب ہوتی ہے۔
یہ وہ زمینیں ہیں جہاں دوسری فصلیں ناکام ہو سکتی ہیں یا کم پیداوار دے سکتی ہیں۔ مزید برآں خشک سالی کے خلاف مزاحم اور گہری جڑوں والی نسلیں نہ صرف معمولی ماحول میں رہنے والے کاشتکاروں کے غذائی تحفظ اور غذائیت کو بہتر بنانے کو یقینی بناتی ہیں بلکہ ساتھی فصلوں کو زمینی پانی بھی فراہم کر سکتی ہیں ۔ خشک ماحول میں رہنے والے افرادجہاں غذائی تحفظ ایک بہت بڑے چیلنج کی نمائندگی کرتا ہے وہاں مقامی طور پر موافق دالوں کی کاشت سے کسان اپنے پیداواری نظام کو پائیدار طریقے استحکام دے سکتے ہیں۔
دالیں جلد خراب نہیں ہوتیں اس لیے ان کا استعمال طویل عرصہ تک محفوظ رہتا ہے۔ بہت سے ممالک میں گوشت، دودھ اور مچھلی پروٹین کا ایک مہنگا ذریعہ ہیں اور اس طرح بہت سے لوگوں کے لیے اقتصادی طور پر ناقابل رسائی ہے۔اس صورتحال میں دالوں کا استعمال پروٹین کے حصول کا ایک بہترین اور سستا قدرتی متبادل ہے اور معاشرے کی اکثریت کی رسائی میں ہے۔ خوراک کا ضیاع دنیا بھر میں فوڈ سیکورٹی کو درپیش خطرات میں سے ایک ہے ۔ایک اندازے کے مطابق دنیا میں انسانی استعمال کے لیے پیدا کی جانے والی خوراک کا ایک تہائی حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں یہ ضیاع خوراک کی تیاری اور ترسیل کے دوران ہوتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں کھپت کے مرحلے میں یہ ضیاع واقع ہوتا ہے۔ چونکہ دالوں کی(Shelf life) انتہائے تاریخ استعمال(Expiry date) مستحکم ہوتی ہیں اس لیے جلدخراب نا ہونے کی وجہ سے اس کا کھپت کے مرحلے پر کھانے کے ضیاع کا تناسب بہت کم ہوتا ہے ۔ اس طرح گھریلو خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے یہ ایک بہت اچھا انتخاب ہیں۔اس کے علاوہ دنیا بھر میں بھوک کے خاتمے میں دالیں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں ۔قدرتی اور انسان کی پیدا کردہ آفات کے دوران اور مہاجرین کے کیمپس میں جب خوراک کو ایک عرصہ تک محفوظ رکھنا ممکن نا ہواور لوگ مہنگی خوراک خریدنے کی سکت نا رکھتے ہوں توایسے وقت میں دالیں ڈیزاسٹرز اور ایمرجنسی کی صورتحال کے شکار متاثرین کے غذائی تحفظ کو بھی یقینی بناتی ہیں۔
٭ دالیں اورموسمیاتی تبدیلی( کلائیمیٹ چینج(
آب و ہوا کی تبدیلی ایک اہم ماحولیاتی مسئلہ کے طور پر ابھری ہے ۔خوراک کی پیداوار، خوراک کی حفاظت اور موسمیاتی تبدیلی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ناکافی،بے وقت وبے ترتیب بارش، درجہ حرارت میں اچانک اضافہ اورخشک سالی سے دیگر فصلوں کے ساتھ ساتھ دالوں کی پیداوار کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ مون سون میں تبدیلی خریف کی فصلوں کی بوائی میں تاخیر کا سبب بنتی ہے جس کے نتیجے میں ربیع کے موسم میں دالوں کی فصلوں کی بوائی میں بھی تاخیر ہوتی ہے۔
تاخیر سے بوئی جانے والی فصلوں کو اس کی نشوونما کے دوران شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے اس کی ممکنہ پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔دوسری طرف فروری،مارچ کے مہینے کے دوران ان کی تولیدی نشوونما کے دورانیے میں بے وقت بارش سے بھی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔اس کے علاوہ بدلتی ہوئی آب و ہوا اکثر کیڑوں کی بیماریوں کے انفیکشن، گھاس پھوس کے پیدا ہونے میں سہولت فراہم کرتی ہے جو فصل کی پیداوار میں بہت زیادہ کمی کا سبب بن سکتے ہے۔
دالیں جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کا شکار ہیں وہیں یہ اُن محرکات کو کم کرنے کا بھی باعث ہیں جن کی وجہ سے کلائیمیٹ چینج رونما ہورہی ہے۔دالیں چونکہ پھلی دار اجناس ہیں ان کی جڑوں میں بیکٹریا ہوتے ہیں جو نوڈیولز بناتے ہیں اور ہوا سے نائٹروجن اکٹھی کرکے پودوں کو مہیا کرتے ہیں۔ جس سے مٹی میں مصنوعی طور پر نائٹروجن داخل کرنے کے لیے استعمال ہونے والی مصنوعی کھادوں پر انحصار کو کم سے کم کرکے ان کی تیاری سے خارج ہونے والی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرکے موسمیاتی تبدیلیوں کو محدود کرنے میں بہت بڑا حصہ ڈالتی ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق عالمی سطح پر تقریباً 190 ملین ہیکٹر پر کاشتہ دالیں 5 سے 7 ملین ٹن نائٹروجن کو مٹی کا حصہ بناتی ہیں۔مقامی دالوں کا استعمال کرتے ہوئے انٹرکراپنگ سسٹم کے ذریعے مٹی میں کاربن کی ضبطی کی صلاحیت کو مونو کراپ سسٹم کے مقابلے میں بہتر کیا جاسکتا ہے۔ دالوں کی پیداوارپروٹین کے دیگر ذرائع( جو زیادہ تر جانوروں پر مشتمل ہیں ) کی پیداوارکے مقابلے میں کم کاربن کے فٹ پرنٹس کا باعث بنتی ہیں ۔
ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایک کلو دالیں(پھلی) کی پیداوار سے صرف 0.5 کلو کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کااخراج ہوتا ہے۔ جب کہ 1 کلو گائے کے گوشت کی تیاری سے9.5 کلو کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔مزید برآں جب دالوں کومویشیوں کی خوراک میں شامل کیا جاتا ہے تو اِن کا اعلیٰ پروٹین پر مبنی مواد جانوروں میںfood conversion کے تناسب کو بڑھانے میں معاون ہوتا ہے اور چگالی کر نے والے جانوروں (ruminants)سے میتھین کے اخراج کو کم کرتا ہے ۔اس طرح دالیں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو بھی کم کرتی ہیں۔دالوں کی انواع میں وسیع جینیاتی تنوع ہوتا ہے جسکی بدولت آب و ہوا کی مناسبت سے اقسام کا انتخاب کرکے اِسے کاشت کیا جاسکتا ہے خاص کر کلائیمیٹ چینج سے متاثرہ علاقوں میں ماحول سے مطابقت رکھنے والی قسم کو کاشت کیا جاسکتا ہے۔
دالیں آب و ہوا کے لحاظ سے سمارٹ ہیں وہ بیک وقت موسمیاتی تبدیلیوں کو اپناتی ہیں اور اس کے اثرات کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔مثلاً خشک سالی کے خلاف مزاحمت کرنے والی دالیں خشک آب و ہوا میں کاشت کی جا سکتی ہیں کیونکہ پروٹین کے دیگر ذرائع کے مقابلے دالوں کی پانی کی ضروریات بھی قدرے کم ہے۔ اس حوالے سے تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ایک کلو مسور کی دال(Lentils) کی پیداوار میں1250 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ ایک کلو مرغ کے گوشت(Chiken) کی تیاری میں 4325 لیٹر، چھوٹے گوشت(Mutton) کی تیاری میں 5520 لیٹر اور بڑے گوشت(Beef) کی تیاری میں 13000لیٹر پانی صرف ہوتا ہے۔

٭ دالیں اور زرعی فوائد
دالیں چونکہ پھلی دار اجناس ہیں ان کی جڑیں گلنے سڑنے کے بعد زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں۔ لہذا دالوں کی کاشت سے زمین کی زرخیزی کو بحال رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ کماد کی بہاریہ کاشت اور مونڈھی فصل میں مخلوط طور پر کاشت کی جاسکتی ہیں۔ کماد ،چاول اور کپاس والے علاقوں میں جہاں گندم یا ربیع کی فصلات کاشت نہ ہوسکتی ہوں اس رقبے پر دالوں کی بہاریہ کاشت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دالیں مٹی میں اپنی نائٹروجن کو ٹھیک کر سکتی ہیں اس لیے انہیں نامیاتی اور مصنوعی دونوں طرح کی کم کھاد کی ضرورت ہوتی ہے ۔
دالوں کی نائٹروجن ٹھیک کرنے والی خصوصیات مٹی کی زرخیزی کو بہتر بنا تی ہے جو کھیتوں کی پیداوار کو بہتر اور بڑھاتی ہے۔مزید برآں دالیں ساتھی فصلوں کو زمینی پانی فراہم کر سکتی ہیں جب انھیں انٹرکراپنگ سسٹم میں کاشت کیا جائے۔اس سسٹم میں دالوں کو شامل کرنے سے مٹی کے کٹاؤ اور تنزلی کے خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ مقامی دالوں کا استعمال کرتے ہوئے انٹرکراپنگ سسٹم کے ذریعے مٹی میں کاربن کی ضبطی کی صلاحیت کو مونو کراپ سسٹم کے مقابلے میں بہتر کیا جاسکتا ہے۔ دالوں کو دیگر فصلوں کے مقابلے میں کم زرعی مداخل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پرچنے کی فصل کو ایک سے دو آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ گندم کو چار سے پانچ آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی طرح چنے کو 9 کلو گرام نائٹروجن اور 23 کلوگرام فاسفورس فی ایکڑ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ گندم کی نائٹروجن کی ضرورت 54 کلوگرام، فاسفورس کی ضرورت 34 کلو اور پوٹاشیم کی ضرورت 25 کلوگرام ہے۔ مزید برآں چنے کی جڑوں پر نوڈولز بنتے ہیں جو زمین میں فضا میں موجود نائٹروجن کو حاصل کرکے زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔
٭ دالیں اور غربت
دالیں پروٹین اور غذائی اجزاءکا بھرپور ذریعہ ہیں اور خاص طور پر اسے علاقوں میں جہاں روزمرہ کی اشیاءاور گوشت آسانی سے اور اقتصادی طور پر قابل رسائی نہیں ہو وہاں یہ پروٹین کا بڑا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔بہت سے ممالک میں گوشت، ڈیری اور مچھلی مہنگی ہے اور اس طرح بہت سے لوگوں خاص طور پر غریبوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس لیے یہ آبادی اپنی پروٹین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پودوں کی خوراک پر انحصار کرتی ہے جس میں سے دال سب سے اہم پیداوار ہے۔ دال کی پیداوار کم زرعی مداخل کی متقاضی ہونے کی وجہ سے چھوٹے کسان کوکسی معاشی دباﺅ میں مبتلا نہیں کرتی اور جانوروں سے حاصل شدہ پروٹین کے مقابلے میں کہیں زیادہ سستی ہے۔
انھیں سخت موسمی حالات میں بھی کاشت کیا جاسکتا ہے۔ چھوٹا کسان نہ صرف دال کو نقد آور فصل کے طور پر فروخت کرسکتا ہے بلکہ اپنی غذائیت کی ضروریات کی تکمیل کے لیے استعمال بھی کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دال کی فصل کی باقیات کو اپنے مویشیوں کی چارے کی ضروریات کے لیے بھی استعمال میں لاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں دالوں کو بغیر غذائیت کھوئے طویل عرصے تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے ۔ یعنی ان کو ذخیرہ کرنے کے لیے اضافی وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی یوں اس سے غریب افراد کے خوراک کے تنوع کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔
کیونکہ غربت غذائی عدم توازن کا باعث بنتی ہے جس سے کام کی صلاحیت اور انسانی سرمائے میں کمی واقع ہوتی ہے۔ نتیجتاً غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔دالیں پروٹین اور معدنیات کا سستا ذریعہ ہیں جو غریب افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے ان کی کام کی صلاحیتوں کو متاثر ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ اُنھیں بیماری سے محفوظ رکھتی ہیں یوں یہ اپنے غریب استعمال کنندہ کو مزید غربت کا شکار ہونے سے اور بھوک سے بچاتی ہیں۔
٭ دالیں اور انسانی صحت و غذائیت
دالیں ایک صحت مند، متوازن غذا کا حصہ ہیں یہ ہاضمے کو بہتر بنانے، خون میں گلوکوز کو کم کرنے، سوزش کو کم کرنے، خون میں کولیسٹرول کو کم کرنے، اور دائمی صحت کے مسائل جیسے ذیابیطس، کینسر ،دل کی بیماری اور موٹاپے کو روکنے میں مدد کرتی ہیں۔ یہ کہنا ہے لاہور سے تعلق رکھنے والی ماہر غذائیت جویریہ محمود قریشی کا ۔ اُنھوں نے بتا یا کہ”دالیں ہڈیوں کی صحت کو فروغ دیتی ہیں۔ان میں فائبر کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جس میں حل پذیر اور ناقابل حل دونوں ریشے ہوتے ہیں۔ حل پذیر فائبر خون میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے اور خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے اور ناقابل حل ریشہ پاخانہ کی مقدار اور نقل و حمل میں اضافہ کرتاہے اور آنتوں میں موجود زہریلے مادوں کوجسم سے نکالنے میں معاون ہوتا ہے۔
دالیں بلڈ شوگر اور انسولین کی سطح کو مستحکم کرنے میں مدد کرتی ہیں جس سے دالیں وزن کے انتظام کے لیے ایک مثالی غذا بنتی ہیں۔دالوں میں سوڈیم بھی کم ہوتا ہے۔ سوڈیم کلورائڈ یا نمک ہائی بلڈ پریشر کا باعث ہوتاہے اور سوڈیم کی کم سطح والی غذائیں جیسے دالیں کھا کر اس سے بچا جا سکتا ہے۔دالوں میں پوٹاشیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جو دل کی صحت کو سہارا دیتی ہے اور ہاضمہ اور پٹھوں کے افعال کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔دالیں بائیو ایکٹیو مرکبات جیسے فائٹو کیمیکلز اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتی ہیں جن میں کینسر کے خلاف خصوصیات ہوسکتی ہیں۔
ماہر غذائیت جویریہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ”غذائیت کی کمی کئی قسم کی بیماریوں میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل میں سے ایک ہے اور بعض صورتوں میں موت کا باعث بنتی ہے۔ غذائیت کی کمی بہت کم، بہت زیادہ کھانے یا غیر متوازن غذا کھانے کا نتیجہ ہے جس میں صحت مند رہنے کے لیے غذائی اجزاءکی صحیح مقدار اور معیار موجود نہیں ہوتا۔دالیں غذائیت سے بھرپور خوراک ہیں یہ پودوں پر مبنی پروٹین اور مائیکرو نیوٹرینٹس کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔ صحت مند غذا کے حصے کے طور پر دالیں کھانے سے غذائیت کی کمی کے متعدد پہلوؤں کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔جس میں غذائیت اور مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی سے لے کر زیادہ وزن اور موٹاپا شامل ہیں۔
پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی نیشنل ہیلتھ سروسز کے مطابق متوازن غذا کے لیے ضروری ہے کہ ہماری خوراک میں روزانہ80 گرام دال شامل ہو“۔جویریہ قریشی کہتی ہیں کہ ”دالیں پروٹین، غذائی ریشہ، وٹامنز، معدنیات، فائٹو کیمیکلز اورکاربوہائیڈریٹ فراہم کرتی ہیں۔ دالیں خاص طور پر فولیٹ، آئرن، کیلشیم، میگنیشیم، زنک اور پوٹاشیم سے بھرپور ہوتی ہیں۔ آئرن پورے جسم میں آکسیجن پہنچانے میں مدد کرتا ہے جو توانائی کی پیداوار اور میٹابولزم کو بڑھاتا ہے۔ دالیں آئرن کا ایک اچھا ذریعہ ہیں۔ آئرن کی کمی کو غذائی قلت کی سب سے زیادہ عام شکلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور یہ خون کی کمی کی سب سے عام وجوہات میں سے ایک ہے۔ دالوں میں آئرن کی زیادہ مقدار انہیں خواتین اور بچوں میں آئرن کی کمی کی وجہ سے ہونے والی خون کی کمی کو روکنے کے لیے ایک طاقتور غذا بناتی ہے۔ خاص طور پر اسے جب وٹامن سی پر مشتمل کھانے کے ساتھ ملا کراستعمال کیا جائے تو اس سے فولاد کو جذب کرنے کی صلاحیت کو مزید بہتر کیا جاسکتاہے۔
دالوں میں کیلوریز کم ہوتی ہیں (260-360 kcal/100 g خشک دالیں) یہ آہستہ آہستہ ہضم ہوتی ہیں اور سیر پن کا احساس دیتی ہیں۔ 100 گرام خشک دال میں 25 گرام پروٹین ہوتی ہے ۔کھانا پکانے کے دوران دالیں کافی مقدار میں پانی جذب کرتی ہیں اس طرح ان کی پروٹین کی مقدار تقریباً 8 فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجودآپ پکی ہوئی دالوں کی پروٹین کوالٹی کو اپنے کھانے میں اسے اناج کے ساتھ ملا کر بڑھا سکتے ہیں مثال کے طور پرچاول کے ساتھ دال۔دالیں دیکھنے میں توچھوٹی سی ہوتی ہیں لیکن پروٹین سے بھری ہوئی ہیں یہ نعمت گندم سے دگنا اور چاول سے تین گنا زیادہ پروٹین کی حامل ہیں۔ جانوروں سے حاصل پروٹین کے ذرائع گوشت یا دودھ کے برعکس دالوں میں جانوروں کی پیداوار میں استعمال ہونے والے ہارمونز یا اینٹی بائیوٹکس کی باقیات نہیں ہوتی ہیں۔دالیں قدرتی طور پر گلوٹین(gluten) سے پاک ہوتی ہیں“۔
٭ دالیں عالمی منظر نامہ
دالوں کی کاشت ہزاروں سالہ پرانی تاریخ کی حامل ہے یہ صدیوں سے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کررہی ہیں۔دالیں11 ہزار سال قبل ابتدائی اناج کے ساتھ کاشت کی جانے والی اوائل فصلوں میں شامل تھیں ۔ دالیں دنیا کے تقریباً ہر کونے میں اُگائی جاتی ہیں ایف اے او کے اعدادوشمار کے مطابق2020 میں دنیا کے 169 ممالک میں دالوں کی کاشت کی گئی۔ جس سے 94621001ٹن دالیں حاصل ہوئیں۔مذکورہ سال دنیا میں دالوں کی پیداوار کے بڑے تین ممالک میں انڈیا اول، کینڈا دوم اور چین تیسرے نمبر پر رہے۔ عالمی پیداوار کا 24.7 فیصد بھارت میں پیدا ہوا، 8.6 فیصد کینڈا اور 5.1 فیصد چین میں پیدا ہوا۔بھارت دنیا میں دالوں کا سب سے بڑا پیدا کنندہ ، صارف اور درآمد کنندہ ہے۔دنیا میں دالوں کی کھپت کا 27 فیصد بھارت میں استعمال ہوتا ہے اور دنیا میں دالوں کی درآمدات کا 14 فیصد بھارت کرتا ہے۔جبکہ کینڈا دنیا بھر میں دالوں کا سب سے بڑا بر آمد کنندہ ہے 2018 میں کینڈا نے 4359946 میٹرک ٹن دالیں برآمد کیں جن کی مالیت 2000 ملین ڈالر تھی۔دنیا میں دالوں کے استعمال کی اوسط 8 کلوگرام فی کس سالانہ ہے۔
دالیں صدیوں سے انسانی خوراک کا اگرچہ ایک لازمی حصہ رہی ہیں اس کے باوجود ان کی غذائی قدر کو عام طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور دالوںکی پیداوار کی اوسط سطح دنیا بھر میں کم رہتی ہے۔پچھلے 50 سالوں میں مکئی، گندم، چاول اور سویابین کی پیداوار میں جتنا اضافہ ہوا دالوں نے اس کے مقابلے میں بہت معمولی اضافہ حاصل کیا۔ 1961 سے 2012 کے درمیان سبز انقلاب کی پیشرفت نے کاشتکاری میں ہونے والی جدت کی بدولت بہت سی بنیادی غذائی اشیاءکی پیداوار میں بڑے پیمانے پر اضافہ حاصل کیا۔ اس مدت کے دوران مکئی، گندم، چاول اور سویا بین کی مجموعی پیداوار میں 200 فیصدسے 800 فیصد کے درمیان اضافہ دیکھا گیا جب کہ اسی مدت کے دوران دالوں کی پیداوار میں صرف 59 فیصد اضافہ ہوا۔اگرچہ سبز انقلاب کو دنیا بھر میں اربوں اضافی لوگوں کو کھانا کھلانے کا سہرا دیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سی دیگر فصلوں کی بہتر اقسام اور کاشت کے طریقے تیار کرنے کے لیے مساوی کوششیں نہیں کی گئیں ۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق آج صرف چاول، مکئی اور گندم عالمی غذائی توانائی کی 60 فیصد سے زیادہ مقدار فراہم کرتے ہیں۔ لیکن دنیا میں 50000 قسم کے خوردنی پودے دستیاب ہیں۔
دالوں کے کل استعمال کا 60 فیصد سے زیادہ اگرچہ انسانی استعمال میں آتا ہے۔ لیکن انسانی خوراک میں دالوں کی اہمیت خطے سے دوسرے خطے اور ملک کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔کم آمدنی والے ممالک میں عموماًزیادہ کھپت کا عمومی رجحان موجود ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں دالوں کے کل استعمال میں خوراک کے لیے استعمال کا حصہ 75 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 25 فیصد ہے۔ عالمی ماہرین کے مطابق دالوں کی کھپت میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک میں سست لیکن مسلسل کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کے برعکس دودھ کی مصنوعات اور گوشت کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اس میں اضافہ جاری رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ جبکہ دالوں کی فی کس کھپت میں کسی بڑی تبدیلی کی پیشین گوئی نہیں کی گئی ہے اس وقت دنیا میں دالوںکا اوسط استعمال تقریباً 21 گرام فی کس یومیہ ہے ۔
٭ دالیں اور پاکستانی منظر نامہ
عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سال2020 کے دوران دالوں کی 747004ٹن پیداورا حاصل ہوئی جو عالمی پیداورا کاصفر عشاریہ سات نو فیصد (0.79%)ہے۔ پاکستان مذکورہ سال دنیا بھر میں دالوں کی پیداوار کے حوالے سے 21 ویں نمبر پر رہا۔مذکورہ سال دنیا میں چنے کی تیسری بڑی پیداوار پاکستان میں ہوئی جو 497608ٹن تھی۔پاکستان ایگری کلچرریسرچ کونسل کے مطابق دالیں ملک کے کاشت شدہ رقبہ کے صرف 5 فیصد حصہ پر اُگائی جاتی ہیں۔ پاکستان نے مالی سال21-2020 کے دوران ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق 1266287 میٹرک ٹن دالیں درآمد کیں جن کی مالیت 70 کروڑ 97 لاکھ 31 ہزارڈالر تھی۔ دالوں کی یہ درآمد گزشتہ مالی سال یعنی20-2019کے مقابلے میں مقدار کے حوالے سے 4.5 فیصد اور مالیت کے حوالے سے 15.4 فیصد زائد تھی۔ 2020 کے دوران چنے کی دوسری سب سے بڑی درآمد پاکستان نے ہی کی۔اس کے علاوہPeas, dry کی بھی تیسری بڑی درآمد وطنِ عزیز نے کی۔Beans, dry کی چوتھی بڑی درآمد ہم نے کی۔مسور (Lentils)کی پانچویں بڑی مقدار پاکستان میں مانگوائی گئی۔جبکہ ملک میں دالوںکا استعمال 7 کلوگرام فی کس سالانہ ہے۔پاکستان میں دالوں کے زیر کاشتہ فصلوں کا کل رقبہ 19-2018 میں 11 لاکھ67 ہزار ہیکٹر رہا۔ ان دالوں میں چنا سردیوں کی اہم پھلی ہے اور مونگ موسم گرما کی اہم پھلیاں ہیں۔ مذکورہ مالی سال چنے دالوں کے کاشتہ رقبہ کے81 فیصد حصہ پر کاشت ہوئے اور یہ دالوں کی کل پیداوارکے65 فیصد پر مشتمل رہے۔ مونگ دالوں کے کل رقبہ کے 14 فیصد پر کاشت ہوئی اوراُس نے د الوں کی کل پیداوار میں 17 فیصد حصہ ڈالا۔مسور اور ماش کی دال ہر ایک کو دالوں کے کل رقبہ کے 1.2فیصد پر کاشت کیاگیا اور ان میں سے ہر ایک دالوں کی کل پیداوار میں1 فیصد کا حصہ ڈالا۔
بدقسمتی سے ملک کے زرعی شعبے میں دالوں کی کاشت کس قدر نظر انداز شدہ شعبہ ہے اس کا اندازہ وفاقی ادارہ شماریات کی دستایز 50 ائیرز آف پاکستان والیم ون (1947-1997)اور پاکستان کی وفاقی وزارت برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کی دستاویز ” ایگریکلچرل اسٹیٹسٹکس آف پاکستان19-2018 “ سے حاصل اعدادوشمار کے تجزیہ سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے 71 سالوں میں ملک میں مکئی، گندم، چاول، کپاس اورگنا کی پیداوار میں جتنا اضافہ ہوا دالوں نے اس کا عشر عشیر بھی اضافہ حاصل نہیں کیا۔48-1947 سے 19-2018 کے دوران زرعی شعبے میں ہونے والی جدت اور ترجیحات کی بدولت بہت سی بنیادی اجناس کی پیداوار میں بڑے پیمانے پر اضافہ حاصل ہوا۔ اس مدت کے دوران مکئی، گندم، چاول، کپاس اورگنا کی مجموعی پیداوار میں 941فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ ان فصلوں کے زیر کاشت رقبہ میں مجموعی طور پر 151 فیصد اضافہ ہوا ۔ جب کہ اسی مدت کے دوران دالوں کی مجموعی پیداوار میں اضافہ کی بجائے4.5 فیصدکمی واقع ہوئی۔یعنی جتنی دالیں ہم نے48-1947 میں پیدا کیں19-2018میں ہم اُس سے بھی کم دالیں پیدا کرسکے۔ اس طرح مذکورہ عرصہ کے دوران دالوں کے زیر کاشتہ مجموعی رقبہ میں بھی 9.2 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اب سوال یہ ہے کہ دوسری فصلوں کی طرح دالوں کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ حاصل کیوں نا کیا جا سکا؟اس بارے میں ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت (توسیع)پنجاب ڈاکٹرمحمد انجم علی بٹر نے بتایا کہ ” اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ملک میں دالوں کے معیاری بیج کی کمی ہے کیونکہ نجی شعبہ دالوں کے بیج تیار کرنے میں دلچسپی نہیں لیتا ۔ دوسرا دال کی کاشت اور کٹائی کے لیے مشینی ذرائع کی بھی کمی ہے اور زیادہ تر کام ہاتھوں سے انجام پاتا ہے جس کی وجہ سے لیبر کاسٹ بڑھ جاتی ہے۔اس کے علاوہ دال کی کاشت میں درکار خصوصی مداخل پر سبسڈی میں کمی اور فصل کی امدادی قیمت کہ نا ہونے کی وجہ سے کسانوں کی توجہ دالوں کی کاشت پر دیگر فصلوں کے مقابلے میں کم ہے ۔ ہمارے یہاں دالیں عموماً ایسے علاقوں میں کاشت کی جاتی ہیں جنہیں زرعی حوالے سے کمزور علاقے کہا جاتا ہے۔یہ علاقے عموماً بارانی ہوتے ہیں جہاں بارشوں کے نظام پرموسمیاتی تبدیلیاں اثر انداز ہورہی ہیں۔زمین زیادہ تر ریتیلی ہونے کی وجہ سے جڑی بوٹیوں کی افزائش اور پانی کی دستیابی میں کمی دالوں کی پیداوار کو غیر یقینی صورتحال کی حامل بنادیتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں ایسی دالیں بھی درآمد کی جارہیں جو کم قیمت میں آتی ہیں “۔انہوں نے کہا کہ” پنجاب میں ہم زمیندار کی حالت بہتر بنانے کے لیے ان کے وسائل میں اضافہ کر رہیں تووہ دالوں کی کاشت کی طرف کیوں آئیں۔ ملک کے ایسے علاقوں میں جہاں اراضی موجود ہے اور بیکار پڑی ہے وہاں دالوں کی کاشت کی جائے تاکہ پورے ملک میں دالوں کی فصل بڑھے“۔ دالوں کی پیداوار میں اضافہ کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت (توسیع)پنجاب ڈاکٹرمحمد انجم علی بٹر کاکہنا ہے کہ ”وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے دالوں کی کاشت میں اضافہ کے لیے کئی ایک اقدامات اور منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔ اسی تناظر میں پنجاب میں دالوں کی کاشت کے فروغ کے لیےدالوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے تحقیق کو فروغ دینے“ کے نام سے ایک پانچ سالہ منصوبہ پر کام جاری ہے جس کے تحت پورے پنجاب میں دالوں کے سرٹیفائیڈ بیج اور مشنری/ سامان فراہم کیا جارہا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس منصوبہ کے تحت میانوالی، بھکر،لیہ اور خوشاب(نورپور تھل تحصیل صرف)میں پورٹیبل سولر ایریگیشن سسٹم بھی فراہم کیے جارہے ہیں“۔اس پراجیکٹ کے تحت بیجوں کی تبدیلی، رقبہ میں اضافہ، مشینری کی تقسیم اور دالوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے بہتر پیداواری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے مونگ، ماش، چنے، مسورکے 64208 کاشتکاروں کا انتخاب کیا جائے گا ۔اِن دالوں کی اعلیٰ اور نئی منظور شدہ اقسام کے بنیادی اور تصدیق شدہ بیج کی 63608 بوریوں کی پیداوار اور 63608 ایکڑ پر اِن کی کاشت کے لیے کاشتکاروں کو 50 فیصد لاگت کے اشتراک کی بنیاد پر تصدیق شدہ بیج کی فراہمی پراجیکٹ کا حصہ ہے ۔اس کے علاوہ دالوں کے کاشتکاروں میں 50فیصد لاگت کے اشتراک کی بنیاد پر مشینری کی تقسیم یعنی200 سیڈ ڈرل 100 ملٹی کراپ تھریشر، جڑی بوٹیوں کی صفائی کے لیے 500 چھوٹی مشینیں(Small Weeders) ،300 مکینیکل ویڈراور20 پورٹیبل سولر ایریگیشن سسٹم فراہم کیے جائیں گے۔جبکہ دالوں کی بہتر اقسام اور کاشت کے طریقوں پر مبنی72 نمائشی پلاٹ بھی تیار کیے جائیں گے“۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ” اس پراجیکٹ کے تحت اب تک چنے کی کاشت کے غالب علاقوں میں 14221 ایکڑ چنے کا بیج اور پنجاب کے مونگ اگانے والے سرفہرست دس اضلاع میں 7548 ایکڑ مونگ کا بیج 50 فیصد لاگت کے اشتراک کی بنیاد پر تقسیم کیا جا چکا ہے۔پنجاب میں اڈاپٹیو ریسرچ فارمز پر بیج کی پیداوار کے مقصد کے لیے 164.5 ایکڑ پرچنے کا بیج بویا گیا جس سے 21-2020 میں سے 642.24 من پیداوار فی ایکڑ حاصل ہوئی ۔ مزید برآں293.5 ایکڑ پر مونگ کا بیج کاشت کیا گیا اور اس کی پیداوار 723.72 من فی ایکڑ رہی “۔اُنہوں نے بتاتے ہوئے کہا کہ ”سال21-2020 کے دوران دالوں کی فصل میں میکانائزیشن کو فروغ دینے کے لیے پورٹ ایبل سولر اریگیشن سسٹم کے 10 یونٹ، 18 سیڈ ڈرلز، 17 ملٹی کراپ تھریشر، 6 مکینیکل ویڈر اور 55 چھوٹے ویڈرز تقسیم کیے جاچکے ہیں۔جبکہ رواں مالی سال کے دوران 182 سیڈ ڈرلز، 83 ملٹی کراپ تھریشر، 445 سمال ویڈرز اور 294 مکینیکل ویڈرز کی تقسیم کا عمل شروع کیا گیا ہے اور پورٹ ایبل سولر اریگیشن سسٹم کے 10 یونٹ بھی رواں مالی سال میں تقسیم کیے جائیں گے“۔
ملک میں دالوں کے لیے کاشت کی گئی زمین کا رقبہ اور دالوں کی پیداوار گزشتہ کافی سالوں سے جمود کا شکار ہے۔جبکہ آبادی میں اضافہ کی وجہ سے کھپت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ یوں پیداوار اور کھپت کے درمیان کمی کو پورا کرنے کے لیے دالوں کی درآمدات میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے پر تشویش کے باعث 2007 میں پاکستانی حکومت نے گھریلو استعمال کے لیے ملکی پیداوار کو محفوظ بنانے کے ارادے سے دالوں کی برآمدات پر 35 فیصد ٹیکس لگادیا۔ چونکہ ہم اپنی دالوں کی کھپت کے ایک بڑے حصے کو درآمدی دالوں کے ذریعے پورا کرتے ہیں توجب دالوں کی بین الاقوامی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور دالیں مہنگی درآمد ہوتی ہیں توپاکستان میں دالوں کی قیمتیں غریب صارفین کے لیے تشویش کا باعث بن جاتی ہیں۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں غریب شہری شدید موسمی حالات، قدرتی آفات اور کئی ایک انسانی عوامل کی وجہ سے خوراک کی تواترکے ساتھ دستیابی اور استحکام کے حوالے سے اکثر غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتے ہیں۔ جسمانی طور پر خوراک تک رسائی کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر خوراک کا دسترس میں ہونا بھی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے۔ اس حوالے سے شہری مکین اور شہروں کے مضافاتی علاقوں کے باسی دیہی افراد کی نسبت زیادہ غیرسود مند صورتحال کا شکار رہتے ہیں۔ کیونکہ انھیں اکثر اپنی خوراک خریدنا پڑتی ہے جس کی وجہ سے انھیں فوڈ مارکیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ قیمتوں میں اضافہ کے خطرے کا زیادہ شکار رہتے ہیں۔ ایسے میں خوراک کی قیمتیں اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ خوراک کیسی اور کتنی حاصل اور استعمال کی جائے۔خوراک کی قیمتوں میں اضافہ سے یا تو صارف اپنی خوراک کی مقدارکم کر دیتے ہیں اور کم خوراکی سے اُن کی صحت کو خطرات لاحق رہتے ہیں یا پھر وہ غیر معیاری خوراک کا استعمال کرتے ہیں جو اُن کی صحت کے لئے غیر محفوظ ہوتی ہے۔ایسے میں پاکستان جس کے52 فیصد شہری گھرانے جو نیشنل نیوٹریشن سروے2011 کے مطابق خوراک کے حوالے سے پہلے ہی غیر محفوظ ہیں۔ان کے لئے ملک میں مہنگائی کی موجودہ لہر اور خاص کر شہری علاقوں میں خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی32 فیصد آبادی (سوشل پالیسی اینڈ ڈیویلپمنٹ سینٹر کی دستاویز پاورٹی اینڈ ویلنربیلٹی اسٹیمیٹس پاکستان2016) جو اپنی آمدن کا پہلے ہی 50 سے 80 فیصد خوراک پر خرچ کرتے ہیں اُن کے لئے فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے دالوں تک رسائی اور ان کا کافی مقدار میں استعمال مزید بے معنی ہو گیا ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ہمیں دالوں کی مقامی پیداوار میں اضافہ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کو ششوں کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ ہم دالوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرتے ہوئے اپنی فوڈ سیکورٹی کو یقینی بناسکیں۔
٭….٭….٭