گلین میرا ہم عمر تھا۔ اس کا تعلق کینیڈا سے تھا۔ یہ بھی جاپان کے مختلف نجی تعلیمی اداروں میں جاپانیوں کو انگریزی سکھاتا تھا۔ بہت خوش مزاج، کتابوں کا شوقین اور سادہ طبیعت والا انسان تھا۔ نہ شراب نوشی کا شوق اور نہ ہی سگریٹ پیتا تھا۔ ہم ایک دو بار کلب بھی گۓ لیکن وہ بھی الکحل سے دور ہی رہا۔ گلین خدا پر تو یقین رکھتا تھا لیکن اس کا کوئی مذہب نہ تھا۔
اس نے بتایا کہ وہ بھی اپنی اعلی تعلیم کے حصول کے لیے پیسے جمع کرنا چاہتا ھے۔ اسے فلمیں بنانے کا بہت شوق تھا۔ وہ اٹلی جا کر Film making کی تعلیم حاصل کر کے فلم پروڈیوسر بننا چاہتا تھا۔ اسی لیے وہ ہر چیز کا مشاہدہ بہت باریک بینی سے کرتا تھا۔ پاکستان کے بارے میں وہ زیادہ نہیں جانتا تھا۔
آج کا دن ہمارا پارک جانے کا تھا۔ ہم مختلف جاپانیوں کا انٹرویو کرنا چاہتے تھے۔ دراصل گلین کو اپنا ایک Assignment مکمل کرنا تھا جس کے لیے وہ جاپانیوں کا انٹرویوکرنا چاہتا تھا۔اس کی جاپانی زبان مجھ سے کہیں بہتر تھی۔ یہ ایک مصروف دن تھا۔ عام جاپانیوں کی سوچ پاکستان کے بارے میں بہت حوصلہ شکن تھی۔ جاپانیوں کی اکثریت ہم پاکستانیوں کو لڑاکا، جنگجو اور اور انتہائی پسماندہ سمجھتی تھی۔
دوسری طرف جاپانی قوم امریکیوں کو سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ سمجھتی تھی۔اس میں رنگ ونسل کی بات نہ تھی بلکہ قوم کی بات تھی۔ کالے امریکی بھی ان کو اتنے ہی عزیز تھے جتنے گورے امریکی۔ میں نے کئ افریقیوں کو دیکھا جو اپنے آپ کو امریکی کہہ کر جاپانیوں کو خوب بے وقوف بناتے اور جاپانی ان کی خوب قدر دانی کرتے تھے۔ Glenn نے مختلف عمر کے کئ جاپانیوں کے انٹرویو کیے۔
چند باتیں جو میرے مشاہدے میں آئیں ان میں سب سے اھم بات یہ تھی کہ غیر ملکیوں کی اکثریت خواہ ان کا تعلق جاپان سے ھو ، امریکہ یا کینیڈاسے یا یورپ کے دیگر ممالک سے، جھوٹ نہیں بولتی۔جبکہ ہماری رگ رگ اور نس نس میں جھوٹ بھرا ھوا ھے۔ دوسرا ہم میں خود نمائی کا عنصر بہت زیادہ ھے۔ ہم کچھ نہ ھوتے ھوئے بھی اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے ہیں اور بہت غرور اور تکبر کرتے ہیں۔
دوپہر کو ہم نے ایک ساتھ لنچ کیا۔ اب گلین نے مجھے بتایا کہ اب ہم مفت سبزیاں اور پھل لینے جائیں گے۔ میں اس کی بات پر حیران ھوا لیکن اس کے ساتھ چل پڑا۔ چند سو میٹر فاصلہ طے کرنے کے بعد ہمارے سامنے ایک شاپنگ سینٹر تھا۔ گلین نے بتایا کہ اس شاپنگ سینٹر سے وہ کبھی کبھار سبزیاں اور پھل مفت لے کر جاتا ھے۔ ہم اس شاپنگ سینٹر کے پچھلے حصے میں گۓ جہاں بہت سے کریٹ رکھے ھوئے تھے اور کچھ جاپانی ان کریٹوں سے اپنی مطلوبہ سبزیاں اور پھل نکال رہے تھے۔ گلین نے بھی اپنا تھیلا نکالا اور سبزیاں اور پھل بھرنے لگا۔ درحقیقت یہ وہ سبزیاں اور پھل ھوتے تھے جن کی expiry date اسی دن کی ھوتی تھی۔ ایسی اشیاء شاپنگ سینٹر کے پچھلے حصے میں باہر crates میں رکھ دی جاتی تھیں۔ جہاں سے کوئ بھی شخص اپنی مرضی کی اشیاء مفت لے جا سکتا تھا۔ میں نے یہ حیران کن منظر پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ اس کے بعد میں اور گلین اکثر ایک ساتھ پروگرام بناتے۔
میرے پاکستان آنے کے ایک سال بعد بعد مجھے ایک دن گلین کی کال موصول ھوئی۔ اس نے بتایا کہ وہ اس نے پیسے جمع کرنے کا اپنا target پورا کر لیا ھے۔ اور اپنی تعلیم شروع کرنے سے پہلے وہ ایشیاء کے چند ممالک گھومنا چاہتا ھے جن میں پاکستان بھی شامل ھے۔
اس نے مجھے اپنے پروگرام سے آگاہ کر دیا تھا۔ وہ منیلا اور بینکاک سے ھوتے ھوۓ کراچی پہنچا تھا۔ اس نے کراچی میں میرے ساتھ دو دن گزارے۔ وہ YMCA کے ھوسٹل میں رہا۔ اسے کراچی کی بریانی، نہاری ، لسی اور گنے کا تازہ رس بہت ہسند آیا۔ میں نے اسے لیاری اور کورنگی سمیت کراچی کے کئ علاقوں کی سیر کروائ اور ہم نے کورنگی کے کلو ھوٹل سے چائے پی۔
کراچی کا گندا ساحل دیکھ کر وہ بہت افسردہ ھوا۔میں اسے عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر بھی لے گیا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور گندگی کے باوجود اسے کراچی اس لیے پسند آیا کہ یہ کینیڈا سے بالکل مختلف تھا۔اسے پاکستان میں سب کچھ دلچسپ و عجیب لگا۔ میں نے اسے زینب مارکیٹ سے خوب شاپنگ کروائی ، دو دن کراچی میں رکنے کے بعد وہ بہت سی خوشگوار یادوں کے ساتھ اپنی سفر کی اگلی منزل انڈیا کے لیے روانہ ھو گیا۔