کسی بھی ملک کی ترقی میں دو عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ توانائی کی مسلسل اور سستی فراہمی اور امن وامان کی صورتحال۔ امن وامان کی صورتحال تو گزشتہ کئی سالوں سے بہتر ھوتی جا رہی ھے لیکن ملک میں توانائی کا مسئلہ سنگین سے سنگین ھوتا جا رہا ھے یا جان بوجھ کر کیا جا رہا ھے۔ پہلے لوگ رو رہے تھے کہ بجلی مہنگی ھے اور اب اللہ کے فضل سے بجلی ھے ہی نہیں۔ نہ ھو گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ جب ہم 60 گز کا ایک مکان بھی تعمیر کرتے ہیں تو اس میں بھی بجلی نہ ھونے کی صورت میں جنریٹر کا انتظام متبادل کے طور پر کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
کے الیکٹرک کے جھوٹ کا پول کھل گیا
کراچی مر رہا ہے
لیکن دوسری طرف پاکستان کے معاشی حب کراچی کو بجلی کی فراہمی کی ذمہ داری کے الیکٹرک کے پاس ھے جس کے پاس شھر کو دینے کے لیے نہ تو بجلی اور نہ ہی اس کا کوئ اور متبادل اور یوں پاکستان کی معیشت پر اتنی کاری ضرب لگائی جا رہی ھے کہ جہاں سے واپسی ناممکن نہیں تو انتہائ مشکل ضرور ھو گی۔
حکومت تماشائی بنی ھوئی ہے یا شائد کراچی اور ملک کی تباہی میں برابر کی شریک ھے۔ جب کراچی کے مجبور لوگ بہت زیادہ شور شرابہ کرتے ہیں تو حکومت کے چند وزراء کے مذمتی بیان سامنے آ جاتے ہیں، ایک علامتی دھرنا دیا جاتا ھے اور پھر ایک لمبی چپ۔۔۔۔۔۔
ایسا لگتا ھے جان بوجھ کر کراچی سے تمام صنعتوں کو یا تو دوسرے شھروں میں اور یا پھر دیگر ممالک منتقل کیا جا رہا ھے اور کراچی الیکٹرک کارخانوں اور صنعتوں کی منتقلی اور بندش میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ھے۔
یاد کیجیے۔۔ وہ دور جب ہمارے بیروزگار بنگالی بھائی ملازمت کے لیے کراچی آیا کرتے تھے۔ لیکن ان بنگلہ دیشی بھائیوں کو کراچی الیکٹرک، عمر ایوب ، اسد عمر اور pti کے کراچی کے دیگر MNAs اور MPAs کا شکر گزار ھونا چاہیے جن کی انتھک کاوشوں سے کراچی کی صنعتیں مسلسل ان کے اپنے ملک بنگلہ دیش منتقل ھو رہی ہیں اور یوں ہمارے بنگالی بھائیوں کو اپنے گھر کے قریب روزگار کی فراہمی کو ممکن بنایا جا رہا ھے۔
کراچی الیکٹرک لوڈ شیڈنگ، لوڈ مینیجمنٹ اور مہنگی بجلی کی ہالیسی کی بدولت کراچی سے 90 فیصد ٹیکسٹائل کی صنعت دیگر شھروں،ممالک اور خاص طور پر بنگلہ دیش کو منتقل ھو چکی ھے۔ اور یوں کراچی الیکٹرک نے ایک طرف تو روشنیوں کے شھر کراچی کو اندھیروں میں بدل دیا ھے تو دوسری طرف کراچی کے لوگوں کو بیروزگار کرنے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ھے۔
بنگلہ دیش کو ایشین ٹائیگر بنانے میں بنگلہ حکومت سے کہیں زیادہ کراچی الیکٹرک اور ہماری موجودہ حکومت کا ہاتھ ھے۔ اس کے لیے بھی ہمارے بنگالی بھائیوں کو کے الیکٹرک کا مشکور ھونا چاہیے۔
ہم کراچی کے رہنے والے کے الیکٹرک اور pti کے حکومتی ارکان سے گزارش کرتے ہیں کہ اپنی موجودہ پالیسیوں کو اس وقت تک جاری رکھیں جب تک یہاں کی ایک ایک صنعت کہیں اور منتقل نہ ھو جاۓ اور بنگلہ دیش ایشین ٹائیگر نہ بن جاۓ۔
ہم کراچی کے لوگوں نے تبدیلی کا جو خواب دیکھا تھا وہ کراچی الیکٹرک اور pti کی حکومت نے سچ کر دکھایا۔۔۔فرق اتنا ھے کہ ہم نے جو تبدیلی پاکستان کے لیے دیکھی تھی وہ بنگلہ دیش میں رفتہ رفتہ آ رہی ھے۔ اس تبدیلی کو آپ دونوں ممالک کی کرنسیوں کا موازنہ کر کے بھی محسوس کر سکتے ہیں۔
well done K- electric!
well done PTI.