محترم عمیر صاحب اور محترمہ سجل فاطمہ صاحبہ نے تفصیل سے اپنی شادی کے احوال لکھے تو میری بھی ہمت ہوئی ہے کہ میں بھی اس بارے میں لکھوں۔
میں لڑکوں کے اسکول اور پھر لڑکوں کے کالج میں پڑھتا رہا ہوں جس کی وجہ سے لڑکیوں سے میرا رابطہ نہیں رہا تھا۔ اسکول کے زمانے سے ہی تبلیغ والوں کے ساتھ ملنا جلنا شروع ہو گیا تھا اور کالج میں باقاعدہ تبلیغ میں لگ گیا ۔ یونیورسٹی گیا تو باقاعدہ داڑھی تھی. وہاں بھی تبلیغ والوں نے پکڑ لیا. اب ایک عجیب کشمکش میں وقت گزرا. ایک طرف یونیورسٹی کا آزاد ماحول دوسری طرف تبلیغ والوں کے ساتھ میل جول ۔ بچپن سے ہی مطالعہ کرنے کی عادت نے چھچورے پن سے باز رکھا ۔ جو لڑکی پسند آئی بہت زیادہ امیر ترین گھرانے کی تھی۔ داڑھی اور تبلیغ والوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے تیرا بھائی میرا بھائی معین بھائی معین بھائی والا حساب تھا تو دل میں چھپے جذبات دل میں ہی دبے رہ گئے۔
دو ہزار پانچ میں یونیورسٹی ختم ہوئی تو تبلیغ والے پکڑ کر چالیس دنوں کے لئے لے گئے. واپسی ہوئی تو لباس بھی بدل گیا ۔ میرا ارادہ چار مہینوں کے لئے جانے کا تھا مگر ابو نے اجازت صرف چالیس دنوں کے لئے دی تھی تو واپس آنا پڑا۔ دو ہزار چھ میں میری دوسری بہن کا رشتہ لگا تو ابو نے گھر میں کہا کہ معین کا بھی رشتہ ڈھونڈو دونوں بہن بھائی کی ساتھ ساتھ شادی کر دیں گے. میں نے انکار کر دیا کہ میں پہلے تبلیغ میں چار مہینے لگائوں گا پھر شادی ہوگی۔ دو ہزار سات میں دوسری بہن کی شادی ہوئی اور اس کے اگلے ہفتے میں چار مہینے کے لئے چلا گیا۔ دو ہزار آٹھ میں واپس آیا تو دماغ میں بات بیٹھ چکی تھی کہ دودھ کھجور پر ولیمہ کرنا ہے.
یہ بھی پڑھئے:
فٹ بال فیڈریشن اپنا کام کیوں نہیں کرتی؟
ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان کیوں آئیں؟
اَنہونی کے خوف سے جنم لیتا بحران
وہ دن جب اجمل سراج مرتے مرتے بچا
میرے پیرو مرشد اور شیخ مولا نامحمد عقیل صاحب گلگتی نے مہم چلائی ہوئی تھی کہ شادی بغیر جہیز اور ولیمہ دودھ کھجور پر ہو نا چاہیئے ۔ ان کی اپنی شادی سادگی سے ہوئی تھی اور وہ ہر جگہ ہر بیان میں اس کا ذکر کرتے تھے۔ میرے واپس آنے کے بعد میری تیسری بہن کا رشتہ لگ گیا تو بہنوں نے گھر میں شور مچا دیا کہ اب بھیا کا رشتہ ڈھونڈنا ہے اور میری تین شرائط کہ لڑکی عالمہ ہو ، میں جہیز یا پیسے کچھ نہیں لوں گا اور شادی میں صرف گھر والے ہونگے۔ اب نیا مسئلہ شروع ہو گیا بہن کی شادی ایک سال بعد دو ہزار نو میں طے ہوئی اور میں نے شادی کے لئے شرائط رکھ دیں۔ میں نے کہا کہ بہن کی شادی ہونے دیں میں بعد میں کروں گا مگر گھر میں بحث کہ امی گھر میں اکیلی کیسے رہیں گی۔ میری چھوٹی بہن نے گریجویشن کے بعد عالمہ کا کورس شروع کیا تھا. اس کا آخری سال چل رہا تھا. اس کے ذمہ لگا کہ تم ہی عالمہ لڑکی تلاش کرو. امی نے ایک اور شرط رکھ دی کہ وہ کہیں لڑکی دیکھنے نہیں جائیں گی اور جائیں گی تو بات پکی کر کے آئیں گی. کہیں جا کر کھا پی کر لڑکی مسترد نہیں کرنی ہے۔ اب صورتحال بہت پیچیدہ ہو گئی۔ لڑکی عالمہ ہو۔ جہیز نہیں لینا ۔ شادی میں صرف گھر والے ہونگے۔ ولیمہ دودھ کھجور پر ہوگا۔ لڑکی دیکھنے نہیں جانا ہے۔ بہنوں نے مجھ سے جھگڑنا شروع کر دیا کہ یہ کیا ڈرامہ ہے ۔آپ کے لئے تو آسمان سے ہی کوئی لڑکی اترے گی ۔ یہ معاملہ چل رہا تھا کہ میرے پٹھان دوست اور بزرگ بخاری شریف کے استاد مفتی احسان اللہ شاہ صاحب میرے گھر آگئے اور امی ابو کو کہا کہ معین کے لئے رشتہ ہے لڑکی نے ماسٹرز کیا ہوا ہے اردو اسپیکنگ اور تبلیغی فیملی ہے شرعی پردہ کرتی ہے میری نظر میں رشتہ بہت مناسب ہے ۔آپ نے بس ہاں کرنی ہے دونوں خاندانوں کی طرف سےضمانت میری ہے۔ابو نے کہا کہ معین تو عالمہ کا کہہ رہا ہے تو مفتی صاحب نے کہا کہ عالمہ سے تو کوئی بھی شادی کر لے گا یہ پوری فیملی آپ لوگو ں کی طرح تعلیم یافتہ ہےاور دین دار ہے ایسی تعلیم یافتہ لڑکیا ں جوشرعی پردہ کرتی ہیں ان کا رشتہ معین جیسے لڑکوں کے ساتھ مناسب ہے یہ رشتہ میری طرف سے پکا ہے معین کو میں خود سنبھال لوں گا آپ ہاں کر دیں۔ ابو نے کہا کہ میں گھر میں مشورہ کرکے بتائوں گا۔
اس دوران میں رائیونڈ مرکز میں گیا تھا کہ وہاں میرے محلے کے ایک صاحب جو کینڈا شفٹ ہو گئے تھے اور مجھے گود کھلا چکے تھے ان سے ملاقات ہوئی انھوں نے گلے لگایا تعلیم کا پوچھا اور کہا کہ میرے دوست کی بیٹی ہے تمہارا رشتہ پکا، میں نے کہا کہ مجھے عالمہ سے شادی کرنی ہے انکل، انکل نے کہا ابے وہ عالمہ ہے تو کینیڈا جانے کی تیاری کر، میں نے کہا کہ میں امی ابو کے ساتھ رہوں گاکینیڈا نہیں جائوں گا، انھوں نے کہا کہ تمھارے امی ابو کو بھی وہیں بلا لیں گے بیٹا۔ میں نے کہا کہ میں کینیڈا نہیں جائوں گا، انھوں نے کہا کہ وہ یہاں پاکستان آجائے گی ، اپنے ابو کا نمبر دو۔میں پریشان ہو گیا کہ کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں اب کیا ہو گا میں کیوں رائیونڈ آیا اور آیا تو ان سے کیوں ملاقات ہوئی خیر بڑی مشکلوں سے ان کو ٹالا تو انھوں نے کہا کہ میں کچھ دنوں بعد کراچی جائوں گا تو تمھارے گھر جا کر رشتہ پکا کردوں گا۔
میں کراچی پہنچا تو معلوم ہوا کہ میرے ایک تبلیغی بزرگ نے اپنے امیروکبیر اور اثر ورسوخ کے حامل مشہور معروف مولانا بھتیجے کی بیٹی یعنی اپنی عالمہ پوتی کا رشتہ میرے لئے دے دیا ہے۔ میں عجیب شش و پنج میں پڑ گیانماز حاجت پڑھ کر دعا کی کہ اللہ خیر کا معاملہ کر، دعا مانگ کر مسجد سے نکلا تو مسجد کے ایک ساتھی نے اپنی عالمہ بھانجی کے بارے میں مجھ سے براہ راست کہہ دیا اور اس کے تقوی کی داستانیں سنائی کہ وہ دس دس سپارے کی تلاوت کرتی ہے اور ر وزانہ نو وقت کی نمازیں پڑھتی ہے. یعنی فجر ، اشراق، چاشت،ظہر، عصر، مغرب، اوابین، عشاء اور تہجد ۔
میں نے سوچا کہ یار اس کے ساتھ تو گزارہ بہت مشکل سے ہوگا میں ٹہرا فری اسٹائل بندہ، ہنسی مذاق،چائے ، کولڈڈرنک ، پان، سگریٹ ، ہوٹلوں میں بیٹھنا اور یہ اتنی بڑی رابعہ بصریہ۔ اب میری کشمکش اور بڑھ گئی ایک طرف سوچتا کہ اتنی عبادت گزار لڑکی دوسری طرف میری اپنی افتادطبع طبیعت۔ مزید معلومات پر پتا چلا کہ وہ محترمہ تو میرے ایک دوست کے دوست کی بہن ہے ۔کچھ مہینوں کے اندر اندر یہ سارے معاملات چل رہے تھے کہ میں جمعرات کو شب جمعہ کے لئے مدنی مسجد عائشہ منزل گیا تھا کہ میرے ابو کے ایک جان پہچان والے صاحب کے تبلیغی رشتہ دار نےجس سے میری بھی خاصی دوستی تھی اپنی چھوٹی بہن کے لئے مجھے کہہ دیا۔ بہت اعلی ، تعلیم یافتہ اور مذہبی خاندان کی شاندار اور خوبصورت ترین ڈاکٹر لڑکی۔ میں نے گھر میں ذکر کیا اور بتایا کہ میں نے منع کر دیا تو گھر میں ایک اور ہنگامہ کھڑا ہو گیاکہ یہ آخر چاہتا کیا ہے ؟
میں کیا چاہ رہا تھا یہ اگلی قسط میں۔