Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
بچپن سے ہی جنوں بھوتوں اور جادوگروں کی کہانیاں پڑھتا رہا اور لڑکپن میں ایم اے راحت صاحب کی زیادہ تر کہانیاں جو میں نے پڑھی ہیں وہ جنوں بھوتوں، دیوی دیوتاؤں، پریوں اور جادو وغیرہ کے موضوعات پر تھیں۔ لڑکپن کے دنوں میں ایسی کہانیاں پڑھ پڑھ کر میرے دماغ کی چولیں ہل گئی تھیں اور جنات کے بارے میں عجیب و غریب خیالات بن گئے تھے۔ ان ہی دنوں میں مظہر کلیم صاحب نے اپنی اپنی عمران سیریز میں ماورائی سلسلے کے ناول لکھنے شروع کئے تھے۔ جناتی دنیا کے ناول پڑھنا شروع کیا اور جنات کے بارے میں کافی حد تک نئی باتیں پڑھیں۔
جناتی دنیا میں مظہر کلیم صاحب نے جنات کے بارے میں مستند کتابوں میں موجود مواد کو ہی ناول کی شکل میں ڈھالا ہے
سید چراغ شاہ صاحب کا کردار بنا کر انھوں نے عمران سے اوپر کی شخصیت یا کردار تخلیق کیا جس کو پڑھنے والوں نے بآسانی قبول کر لیا
میرے خیال میںمظہر کلیم صاحب ماورائی سلسلے کے ناول لکھنے سے پہلے ہی مذہبی ذہن کے ہو گئے تھے۔ سید چراغ شاہ کا کردار تخلیق کر کے انھوں نے دکھا دیا تھا کہ ملک کا سب سے طاقتور انسان بھی ایک مذہبی انسان اور روحانی شخصیات کے آگے کچھ بھی نہیں ہے اور اس کا سارا سیٹ اپ اس روحانی شخصیت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ قیدی جو بھوک ہڑتال کر سکتے ہیں
تیزاب کا تالاب اور سنگدل تماش بین
علی امین گنڈاپور اپنے ہی صوبے کے دشمن کیوں؟
۔۔۔۔ اور یہاں مظہر کلیم کا جنازہ ہوا تھا
جناتی دنیا میں انھوں نے جنات کی زندگی کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ناول میں بیان کئے گئے اکثر حالات و واقعات حقیقت سے قریب تر ہیں۔ میں نے اب تک جتنی دینی کتابیں جنات سے متعلق پڑھی ہیں ان میں جنات کے بارے میں بیان کردہ تفصیلات کی حدود کے اندر ہی مظہر کلیم صاحب کا قلم چلتا رہا۔
دو ہزار نو میں میں کے پی کے کے شہر ٹھل جو کہ ہنگو سے آگے ہے میں گیا۔ وہاں پر ایک مسجد کے مولانا صاحب نے دارالعلوم کراچی سے تعلیم حاصل کی تھی اور کچھ عرصہ کراچی میں بھی مقیم رہے تھے۔ کراچی کی نسبت سے ان سے گفتگو کی اچھی نشستیں رہیں۔ میں ان کے حجرے میں ان کی کتابوں کی لائبریری دیکھ رہا تھا کہ ایک کتاب پر نظر پڑی، کتاب کے نام نے جیسے میری نظروں کو اپنی جانب چپکا لیا۔
امام المصنفین علامہ جلال الدین سیوطی صاحب کی تصنیف کردہ مشہور زمانہ مستند ترین کتاب اور نادر تالیف لقط المرجان فی احکام الجان جس کا ترجمہ مولانا امداد صاحب نے “تاریخ جنات اور شیاطین” کے نام سے کیا ہے۔ کتاب پڑھنی شروع کی اور جیسے دنیا سے بے خبر ہو گیا۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد سے میرے دل سے جنات کا ڈر ہمیشہ کے لئے نکل گیا۔ سیوطی صاحب نے بڑی تفصیل سے جنات کے حالات زندگی، خوشی غمی، شادی بیاہ، زندگی موت اور ان کی خوراک، شکلیں تبدیل کرنا اور ان کی دوستی دشمنی سے متعلق ہر بات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ میں نے مظہر کلیم صاحب کا ناول جناتی دنیا سن اٹھانوے میں پڑھا تھا اور اس کے تقریبا گیارہ سالوں کے بعد جنات سے متعلق کوئی مستند اور بڑی کتاب پوری پڑھی تھی۔
مولانا یوسف لدھیانوی صاحب رحم اللہ کا ان کی شہادت سے پہلے تک روزنامہ جنگ میں سوال جواب کا کالم “آپ کے مسائل اور ان کا حل” شائع ہوتا تھا جس میں انھوں نے کئی مرتبہ جنات سے متعلق سوالات کے جوابات دئے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف اخبارات کے اسلامی صفحات میں جنات سے متعلق مضامین پڑھتا رہا مگر وہ سارے مختصر مضامین ہوتے تھے۔ علامہ سیوطی صاحب کی کتاب میں تفصیل سے ساری باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں مظہر کلیم صاحب نے اپنے ناول جناتی دنیا کی بیشتر حالات و واقعات کو ان ہی کتابوں سے اخذ کیا ہے۔ اگر قاری علامہ صاحب کی کتاب کو پڑھ لے اور اس کی ذہنی سطح جنات کے بارے میں بلند ہو اور اس کے پاس مستند معلومات ہوں تب بھی مظہر کلیم صاحب کے ناول میں بیان کئے واقعات فرضی نہیں لگتے۔ بعض اوقات کسی بھی کتاب کو پڑھنے والے قاری کی ذہنی سطح لکھنے والے سے بلند ہوتی ہے اور لکھنے والے سے زیادہ پڑھنے والے کے پاس معلومات کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ جنات کے بارے میں لکھنا ایک پیچیدہ، مشکل ترین اور حساس موضوع ہے اور اگر اس میں خیر و شر کا ٹکرائو بھی ہو تو اس میں پیچیدگی اور بڑھ جاتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ جناتی دنیا کےخیر و شر کے ٹکرائو میں انسانوں کی شمولیت۔ میں نے جنات کے موضوع پر کئی بڑی کتابیں پڑھیں ہیں اور عملیات کے کئی ماہرین سے ذاتی تعلق بھی ہے۔ انسانوں پر آئے جنات سے کئی مرتبہ بات چیت بھی کی ہے اور جنات سے متعلق کئی مرتبہ مسائل میں الجھ بھی چکا ہوں جس سے اللہ نے اپنے فضل سے نجات دی۔
عام جنوں بھوتوں کی کہانیاں اب مجھ سے پڑھی نہیں جاتی ہیں۔ جناتی دنیا پر اپنے تاثرات لکھنے سے پہلے ابھی میں نے اس ناول کو دوبارہ پڑھا ہے۔ مظہر کلیم صاحب نے اس ناول میں واقعی کمال کر دیا ہے کہ شروع سے آخر تک واقعات کے تسلسل کو اس طرح سے جوڑا ہے کہ پڑھنے والا ایک سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انسان اور جنات مل کر شیاطین جنات کے خلاف جنگ کریں کمال کا آئیڈیا اور زبردست انداز بیان۔
جنھیں عمران سیریز میں دلچسپی نہیں ہے وہ بھی اس ناول کو پڑھ کر محظوظ ہو سکتے ہیں کیونکہ اس ناول میں بیان کردہ جنات کے واقعات اور حالات حقیقت سے قریب ترین ہیں۔
جاسوسی ناول کے فرضی واقعات میں دینی باتوں اور باریکیوں کو بیان کرنا بھی ایک پیچیدہ اور حساس کام تھا۔ مظہر کلیم صاحب نے سید چراغ شاہ صاحب کا کردار تخلیق کر کے دینی باتوں کو سمجھانے اور بیان کرنے کا ایک بلکل الگ انداز اپنایا اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے دینی باتوں کو بیان کرتے وقت اپنے مذہبی ذہن کے کچھ اشارے تو دئیے ہیں مگر انداز بیان ایسا رکھا ہے کہ پاکستان جیسے مسلکوں اور مختلف فرقوں میں بٹے سارے لوگوں کے لئے یہ باتیں قابل قبول رہی ہیں اور مسلکی اختلاف کی گنجائش نہیں چھوڑی ۔ بہرحال جنات کے بارے میں مستند دینی معلومات کے حامل لوگوں کے لئے بھی یہ ایک مزیدار ناول ہے اور وہ اسے پڑھ کر لطف اندوز ہوں گے۔ جنات سے حفاظت کے طریقوں میں رزق حلال کا استعمال، فرائض و واجبات کی پابندی، جسمانی پاکیزگی، کردار کی مضبوطی، حفاظت کی آیات اور دعائیں یہ ہی وہ اعمال ہیں جن سے اللہ تعالی شیاطین جنات سے حفاظت کرتا ہے۔
بچپن سے ہی جنوں بھوتوں اور جادوگروں کی کہانیاں پڑھتا رہا اور لڑکپن میں ایم اے راحت صاحب کی زیادہ تر کہانیاں جو میں نے پڑھی ہیں وہ جنوں بھوتوں، دیوی دیوتاؤں، پریوں اور جادو وغیرہ کے موضوعات پر تھیں۔ لڑکپن کے دنوں میں ایسی کہانیاں پڑھ پڑھ کر میرے دماغ کی چولیں ہل گئی تھیں اور جنات کے بارے میں عجیب و غریب خیالات بن گئے تھے۔ ان ہی دنوں میں مظہر کلیم صاحب نے اپنی اپنی عمران سیریز میں ماورائی سلسلے کے ناول لکھنے شروع کئے تھے۔ جناتی دنیا کے ناول پڑھنا شروع کیا اور جنات کے بارے میں کافی حد تک نئی باتیں پڑھیں۔
جناتی دنیا میں مظہر کلیم صاحب نے جنات کے بارے میں مستند کتابوں میں موجود مواد کو ہی ناول کی شکل میں ڈھالا ہے
سید چراغ شاہ صاحب کا کردار بنا کر انھوں نے عمران سے اوپر کی شخصیت یا کردار تخلیق کیا جس کو پڑھنے والوں نے بآسانی قبول کر لیا
میرے خیال میںمظہر کلیم صاحب ماورائی سلسلے کے ناول لکھنے سے پہلے ہی مذہبی ذہن کے ہو گئے تھے۔ سید چراغ شاہ کا کردار تخلیق کر کے انھوں نے دکھا دیا تھا کہ ملک کا سب سے طاقتور انسان بھی ایک مذہبی انسان اور روحانی شخصیات کے آگے کچھ بھی نہیں ہے اور اس کا سارا سیٹ اپ اس روحانی شخصیت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ قیدی جو بھوک ہڑتال کر سکتے ہیں
تیزاب کا تالاب اور سنگدل تماش بین
علی امین گنڈاپور اپنے ہی صوبے کے دشمن کیوں؟
۔۔۔۔ اور یہاں مظہر کلیم کا جنازہ ہوا تھا
جناتی دنیا میں انھوں نے جنات کی زندگی کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ناول میں بیان کئے گئے اکثر حالات و واقعات حقیقت سے قریب تر ہیں۔ میں نے اب تک جتنی دینی کتابیں جنات سے متعلق پڑھی ہیں ان میں جنات کے بارے میں بیان کردہ تفصیلات کی حدود کے اندر ہی مظہر کلیم صاحب کا قلم چلتا رہا۔
دو ہزار نو میں میں کے پی کے کے شہر ٹھل جو کہ ہنگو سے آگے ہے میں گیا۔ وہاں پر ایک مسجد کے مولانا صاحب نے دارالعلوم کراچی سے تعلیم حاصل کی تھی اور کچھ عرصہ کراچی میں بھی مقیم رہے تھے۔ کراچی کی نسبت سے ان سے گفتگو کی اچھی نشستیں رہیں۔ میں ان کے حجرے میں ان کی کتابوں کی لائبریری دیکھ رہا تھا کہ ایک کتاب پر نظر پڑی، کتاب کے نام نے جیسے میری نظروں کو اپنی جانب چپکا لیا۔
امام المصنفین علامہ جلال الدین سیوطی صاحب کی تصنیف کردہ مشہور زمانہ مستند ترین کتاب اور نادر تالیف لقط المرجان فی احکام الجان جس کا ترجمہ مولانا امداد صاحب نے “تاریخ جنات اور شیاطین” کے نام سے کیا ہے۔ کتاب پڑھنی شروع کی اور جیسے دنیا سے بے خبر ہو گیا۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد سے میرے دل سے جنات کا ڈر ہمیشہ کے لئے نکل گیا۔ سیوطی صاحب نے بڑی تفصیل سے جنات کے حالات زندگی، خوشی غمی، شادی بیاہ، زندگی موت اور ان کی خوراک، شکلیں تبدیل کرنا اور ان کی دوستی دشمنی سے متعلق ہر بات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ میں نے مظہر کلیم صاحب کا ناول جناتی دنیا سن اٹھانوے میں پڑھا تھا اور اس کے تقریبا گیارہ سالوں کے بعد جنات سے متعلق کوئی مستند اور بڑی کتاب پوری پڑھی تھی۔
مولانا یوسف لدھیانوی صاحب رحم اللہ کا ان کی شہادت سے پہلے تک روزنامہ جنگ میں سوال جواب کا کالم “آپ کے مسائل اور ان کا حل” شائع ہوتا تھا جس میں انھوں نے کئی مرتبہ جنات سے متعلق سوالات کے جوابات دئے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف اخبارات کے اسلامی صفحات میں جنات سے متعلق مضامین پڑھتا رہا مگر وہ سارے مختصر مضامین ہوتے تھے۔ علامہ سیوطی صاحب کی کتاب میں تفصیل سے ساری باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں مظہر کلیم صاحب نے اپنے ناول جناتی دنیا کی بیشتر حالات و واقعات کو ان ہی کتابوں سے اخذ کیا ہے۔ اگر قاری علامہ صاحب کی کتاب کو پڑھ لے اور اس کی ذہنی سطح جنات کے بارے میں بلند ہو اور اس کے پاس مستند معلومات ہوں تب بھی مظہر کلیم صاحب کے ناول میں بیان کئے واقعات فرضی نہیں لگتے۔ بعض اوقات کسی بھی کتاب کو پڑھنے والے قاری کی ذہنی سطح لکھنے والے سے بلند ہوتی ہے اور لکھنے والے سے زیادہ پڑھنے والے کے پاس معلومات کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ جنات کے بارے میں لکھنا ایک پیچیدہ، مشکل ترین اور حساس موضوع ہے اور اگر اس میں خیر و شر کا ٹکرائو بھی ہو تو اس میں پیچیدگی اور بڑھ جاتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ جناتی دنیا کےخیر و شر کے ٹکرائو میں انسانوں کی شمولیت۔ میں نے جنات کے موضوع پر کئی بڑی کتابیں پڑھیں ہیں اور عملیات کے کئی ماہرین سے ذاتی تعلق بھی ہے۔ انسانوں پر آئے جنات سے کئی مرتبہ بات چیت بھی کی ہے اور جنات سے متعلق کئی مرتبہ مسائل میں الجھ بھی چکا ہوں جس سے اللہ نے اپنے فضل سے نجات دی۔
عام جنوں بھوتوں کی کہانیاں اب مجھ سے پڑھی نہیں جاتی ہیں۔ جناتی دنیا پر اپنے تاثرات لکھنے سے پہلے ابھی میں نے اس ناول کو دوبارہ پڑھا ہے۔ مظہر کلیم صاحب نے اس ناول میں واقعی کمال کر دیا ہے کہ شروع سے آخر تک واقعات کے تسلسل کو اس طرح سے جوڑا ہے کہ پڑھنے والا ایک سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انسان اور جنات مل کر شیاطین جنات کے خلاف جنگ کریں کمال کا آئیڈیا اور زبردست انداز بیان۔
جنھیں عمران سیریز میں دلچسپی نہیں ہے وہ بھی اس ناول کو پڑھ کر محظوظ ہو سکتے ہیں کیونکہ اس ناول میں بیان کردہ جنات کے واقعات اور حالات حقیقت سے قریب ترین ہیں۔
جاسوسی ناول کے فرضی واقعات میں دینی باتوں اور باریکیوں کو بیان کرنا بھی ایک پیچیدہ اور حساس کام تھا۔ مظہر کلیم صاحب نے سید چراغ شاہ صاحب کا کردار تخلیق کر کے دینی باتوں کو سمجھانے اور بیان کرنے کا ایک بلکل الگ انداز اپنایا اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے دینی باتوں کو بیان کرتے وقت اپنے مذہبی ذہن کے کچھ اشارے تو دئیے ہیں مگر انداز بیان ایسا رکھا ہے کہ پاکستان جیسے مسلکوں اور مختلف فرقوں میں بٹے سارے لوگوں کے لئے یہ باتیں قابل قبول رہی ہیں اور مسلکی اختلاف کی گنجائش نہیں چھوڑی ۔ بہرحال جنات کے بارے میں مستند دینی معلومات کے حامل لوگوں کے لئے بھی یہ ایک مزیدار ناول ہے اور وہ اسے پڑھ کر لطف اندوز ہوں گے۔ جنات سے حفاظت کے طریقوں میں رزق حلال کا استعمال، فرائض و واجبات کی پابندی، جسمانی پاکیزگی، کردار کی مضبوطی، حفاظت کی آیات اور دعائیں یہ ہی وہ اعمال ہیں جن سے اللہ تعالی شیاطین جنات سے حفاظت کرتا ہے۔
بچپن سے ہی جنوں بھوتوں اور جادوگروں کی کہانیاں پڑھتا رہا اور لڑکپن میں ایم اے راحت صاحب کی زیادہ تر کہانیاں جو میں نے پڑھی ہیں وہ جنوں بھوتوں، دیوی دیوتاؤں، پریوں اور جادو وغیرہ کے موضوعات پر تھیں۔ لڑکپن کے دنوں میں ایسی کہانیاں پڑھ پڑھ کر میرے دماغ کی چولیں ہل گئی تھیں اور جنات کے بارے میں عجیب و غریب خیالات بن گئے تھے۔ ان ہی دنوں میں مظہر کلیم صاحب نے اپنی اپنی عمران سیریز میں ماورائی سلسلے کے ناول لکھنے شروع کئے تھے۔ جناتی دنیا کے ناول پڑھنا شروع کیا اور جنات کے بارے میں کافی حد تک نئی باتیں پڑھیں۔
جناتی دنیا میں مظہر کلیم صاحب نے جنات کے بارے میں مستند کتابوں میں موجود مواد کو ہی ناول کی شکل میں ڈھالا ہے
سید چراغ شاہ صاحب کا کردار بنا کر انھوں نے عمران سے اوپر کی شخصیت یا کردار تخلیق کیا جس کو پڑھنے والوں نے بآسانی قبول کر لیا
میرے خیال میںمظہر کلیم صاحب ماورائی سلسلے کے ناول لکھنے سے پہلے ہی مذہبی ذہن کے ہو گئے تھے۔ سید چراغ شاہ کا کردار تخلیق کر کے انھوں نے دکھا دیا تھا کہ ملک کا سب سے طاقتور انسان بھی ایک مذہبی انسان اور روحانی شخصیات کے آگے کچھ بھی نہیں ہے اور اس کا سارا سیٹ اپ اس روحانی شخصیت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ قیدی جو بھوک ہڑتال کر سکتے ہیں
تیزاب کا تالاب اور سنگدل تماش بین
علی امین گنڈاپور اپنے ہی صوبے کے دشمن کیوں؟
۔۔۔۔ اور یہاں مظہر کلیم کا جنازہ ہوا تھا
جناتی دنیا میں انھوں نے جنات کی زندگی کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ناول میں بیان کئے گئے اکثر حالات و واقعات حقیقت سے قریب تر ہیں۔ میں نے اب تک جتنی دینی کتابیں جنات سے متعلق پڑھی ہیں ان میں جنات کے بارے میں بیان کردہ تفصیلات کی حدود کے اندر ہی مظہر کلیم صاحب کا قلم چلتا رہا۔
دو ہزار نو میں میں کے پی کے کے شہر ٹھل جو کہ ہنگو سے آگے ہے میں گیا۔ وہاں پر ایک مسجد کے مولانا صاحب نے دارالعلوم کراچی سے تعلیم حاصل کی تھی اور کچھ عرصہ کراچی میں بھی مقیم رہے تھے۔ کراچی کی نسبت سے ان سے گفتگو کی اچھی نشستیں رہیں۔ میں ان کے حجرے میں ان کی کتابوں کی لائبریری دیکھ رہا تھا کہ ایک کتاب پر نظر پڑی، کتاب کے نام نے جیسے میری نظروں کو اپنی جانب چپکا لیا۔
امام المصنفین علامہ جلال الدین سیوطی صاحب کی تصنیف کردہ مشہور زمانہ مستند ترین کتاب اور نادر تالیف لقط المرجان فی احکام الجان جس کا ترجمہ مولانا امداد صاحب نے “تاریخ جنات اور شیاطین” کے نام سے کیا ہے۔ کتاب پڑھنی شروع کی اور جیسے دنیا سے بے خبر ہو گیا۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد سے میرے دل سے جنات کا ڈر ہمیشہ کے لئے نکل گیا۔ سیوطی صاحب نے بڑی تفصیل سے جنات کے حالات زندگی، خوشی غمی، شادی بیاہ، زندگی موت اور ان کی خوراک، شکلیں تبدیل کرنا اور ان کی دوستی دشمنی سے متعلق ہر بات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ میں نے مظہر کلیم صاحب کا ناول جناتی دنیا سن اٹھانوے میں پڑھا تھا اور اس کے تقریبا گیارہ سالوں کے بعد جنات سے متعلق کوئی مستند اور بڑی کتاب پوری پڑھی تھی۔
مولانا یوسف لدھیانوی صاحب رحم اللہ کا ان کی شہادت سے پہلے تک روزنامہ جنگ میں سوال جواب کا کالم “آپ کے مسائل اور ان کا حل” شائع ہوتا تھا جس میں انھوں نے کئی مرتبہ جنات سے متعلق سوالات کے جوابات دئے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف اخبارات کے اسلامی صفحات میں جنات سے متعلق مضامین پڑھتا رہا مگر وہ سارے مختصر مضامین ہوتے تھے۔ علامہ سیوطی صاحب کی کتاب میں تفصیل سے ساری باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں مظہر کلیم صاحب نے اپنے ناول جناتی دنیا کی بیشتر حالات و واقعات کو ان ہی کتابوں سے اخذ کیا ہے۔ اگر قاری علامہ صاحب کی کتاب کو پڑھ لے اور اس کی ذہنی سطح جنات کے بارے میں بلند ہو اور اس کے پاس مستند معلومات ہوں تب بھی مظہر کلیم صاحب کے ناول میں بیان کئے واقعات فرضی نہیں لگتے۔ بعض اوقات کسی بھی کتاب کو پڑھنے والے قاری کی ذہنی سطح لکھنے والے سے بلند ہوتی ہے اور لکھنے والے سے زیادہ پڑھنے والے کے پاس معلومات کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ جنات کے بارے میں لکھنا ایک پیچیدہ، مشکل ترین اور حساس موضوع ہے اور اگر اس میں خیر و شر کا ٹکرائو بھی ہو تو اس میں پیچیدگی اور بڑھ جاتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ جناتی دنیا کےخیر و شر کے ٹکرائو میں انسانوں کی شمولیت۔ میں نے جنات کے موضوع پر کئی بڑی کتابیں پڑھیں ہیں اور عملیات کے کئی ماہرین سے ذاتی تعلق بھی ہے۔ انسانوں پر آئے جنات سے کئی مرتبہ بات چیت بھی کی ہے اور جنات سے متعلق کئی مرتبہ مسائل میں الجھ بھی چکا ہوں جس سے اللہ نے اپنے فضل سے نجات دی۔
عام جنوں بھوتوں کی کہانیاں اب مجھ سے پڑھی نہیں جاتی ہیں۔ جناتی دنیا پر اپنے تاثرات لکھنے سے پہلے ابھی میں نے اس ناول کو دوبارہ پڑھا ہے۔ مظہر کلیم صاحب نے اس ناول میں واقعی کمال کر دیا ہے کہ شروع سے آخر تک واقعات کے تسلسل کو اس طرح سے جوڑا ہے کہ پڑھنے والا ایک سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انسان اور جنات مل کر شیاطین جنات کے خلاف جنگ کریں کمال کا آئیڈیا اور زبردست انداز بیان۔
جنھیں عمران سیریز میں دلچسپی نہیں ہے وہ بھی اس ناول کو پڑھ کر محظوظ ہو سکتے ہیں کیونکہ اس ناول میں بیان کردہ جنات کے واقعات اور حالات حقیقت سے قریب ترین ہیں۔
جاسوسی ناول کے فرضی واقعات میں دینی باتوں اور باریکیوں کو بیان کرنا بھی ایک پیچیدہ اور حساس کام تھا۔ مظہر کلیم صاحب نے سید چراغ شاہ صاحب کا کردار تخلیق کر کے دینی باتوں کو سمجھانے اور بیان کرنے کا ایک بلکل الگ انداز اپنایا اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے دینی باتوں کو بیان کرتے وقت اپنے مذہبی ذہن کے کچھ اشارے تو دئیے ہیں مگر انداز بیان ایسا رکھا ہے کہ پاکستان جیسے مسلکوں اور مختلف فرقوں میں بٹے سارے لوگوں کے لئے یہ باتیں قابل قبول رہی ہیں اور مسلکی اختلاف کی گنجائش نہیں چھوڑی ۔ بہرحال جنات کے بارے میں مستند دینی معلومات کے حامل لوگوں کے لئے بھی یہ ایک مزیدار ناول ہے اور وہ اسے پڑھ کر لطف اندوز ہوں گے۔ جنات سے حفاظت کے طریقوں میں رزق حلال کا استعمال، فرائض و واجبات کی پابندی، جسمانی پاکیزگی، کردار کی مضبوطی، حفاظت کی آیات اور دعائیں یہ ہی وہ اعمال ہیں جن سے اللہ تعالی شیاطین جنات سے حفاظت کرتا ہے۔
بچپن سے ہی جنوں بھوتوں اور جادوگروں کی کہانیاں پڑھتا رہا اور لڑکپن میں ایم اے راحت صاحب کی زیادہ تر کہانیاں جو میں نے پڑھی ہیں وہ جنوں بھوتوں، دیوی دیوتاؤں، پریوں اور جادو وغیرہ کے موضوعات پر تھیں۔ لڑکپن کے دنوں میں ایسی کہانیاں پڑھ پڑھ کر میرے دماغ کی چولیں ہل گئی تھیں اور جنات کے بارے میں عجیب و غریب خیالات بن گئے تھے۔ ان ہی دنوں میں مظہر کلیم صاحب نے اپنی اپنی عمران سیریز میں ماورائی سلسلے کے ناول لکھنے شروع کئے تھے۔ جناتی دنیا کے ناول پڑھنا شروع کیا اور جنات کے بارے میں کافی حد تک نئی باتیں پڑھیں۔
جناتی دنیا میں مظہر کلیم صاحب نے جنات کے بارے میں مستند کتابوں میں موجود مواد کو ہی ناول کی شکل میں ڈھالا ہے
سید چراغ شاہ صاحب کا کردار بنا کر انھوں نے عمران سے اوپر کی شخصیت یا کردار تخلیق کیا جس کو پڑھنے والوں نے بآسانی قبول کر لیا
میرے خیال میںمظہر کلیم صاحب ماورائی سلسلے کے ناول لکھنے سے پہلے ہی مذہبی ذہن کے ہو گئے تھے۔ سید چراغ شاہ کا کردار تخلیق کر کے انھوں نے دکھا دیا تھا کہ ملک کا سب سے طاقتور انسان بھی ایک مذہبی انسان اور روحانی شخصیات کے آگے کچھ بھی نہیں ہے اور اس کا سارا سیٹ اپ اس روحانی شخصیت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ قیدی جو بھوک ہڑتال کر سکتے ہیں
تیزاب کا تالاب اور سنگدل تماش بین
علی امین گنڈاپور اپنے ہی صوبے کے دشمن کیوں؟
۔۔۔۔ اور یہاں مظہر کلیم کا جنازہ ہوا تھا
جناتی دنیا میں انھوں نے جنات کی زندگی کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ناول میں بیان کئے گئے اکثر حالات و واقعات حقیقت سے قریب تر ہیں۔ میں نے اب تک جتنی دینی کتابیں جنات سے متعلق پڑھی ہیں ان میں جنات کے بارے میں بیان کردہ تفصیلات کی حدود کے اندر ہی مظہر کلیم صاحب کا قلم چلتا رہا۔
دو ہزار نو میں میں کے پی کے کے شہر ٹھل جو کہ ہنگو سے آگے ہے میں گیا۔ وہاں پر ایک مسجد کے مولانا صاحب نے دارالعلوم کراچی سے تعلیم حاصل کی تھی اور کچھ عرصہ کراچی میں بھی مقیم رہے تھے۔ کراچی کی نسبت سے ان سے گفتگو کی اچھی نشستیں رہیں۔ میں ان کے حجرے میں ان کی کتابوں کی لائبریری دیکھ رہا تھا کہ ایک کتاب پر نظر پڑی، کتاب کے نام نے جیسے میری نظروں کو اپنی جانب چپکا لیا۔
امام المصنفین علامہ جلال الدین سیوطی صاحب کی تصنیف کردہ مشہور زمانہ مستند ترین کتاب اور نادر تالیف لقط المرجان فی احکام الجان جس کا ترجمہ مولانا امداد صاحب نے “تاریخ جنات اور شیاطین” کے نام سے کیا ہے۔ کتاب پڑھنی شروع کی اور جیسے دنیا سے بے خبر ہو گیا۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد سے میرے دل سے جنات کا ڈر ہمیشہ کے لئے نکل گیا۔ سیوطی صاحب نے بڑی تفصیل سے جنات کے حالات زندگی، خوشی غمی، شادی بیاہ، زندگی موت اور ان کی خوراک، شکلیں تبدیل کرنا اور ان کی دوستی دشمنی سے متعلق ہر بات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ میں نے مظہر کلیم صاحب کا ناول جناتی دنیا سن اٹھانوے میں پڑھا تھا اور اس کے تقریبا گیارہ سالوں کے بعد جنات سے متعلق کوئی مستند اور بڑی کتاب پوری پڑھی تھی۔
مولانا یوسف لدھیانوی صاحب رحم اللہ کا ان کی شہادت سے پہلے تک روزنامہ جنگ میں سوال جواب کا کالم “آپ کے مسائل اور ان کا حل” شائع ہوتا تھا جس میں انھوں نے کئی مرتبہ جنات سے متعلق سوالات کے جوابات دئے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف اخبارات کے اسلامی صفحات میں جنات سے متعلق مضامین پڑھتا رہا مگر وہ سارے مختصر مضامین ہوتے تھے۔ علامہ سیوطی صاحب کی کتاب میں تفصیل سے ساری باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں مظہر کلیم صاحب نے اپنے ناول جناتی دنیا کی بیشتر حالات و واقعات کو ان ہی کتابوں سے اخذ کیا ہے۔ اگر قاری علامہ صاحب کی کتاب کو پڑھ لے اور اس کی ذہنی سطح جنات کے بارے میں بلند ہو اور اس کے پاس مستند معلومات ہوں تب بھی مظہر کلیم صاحب کے ناول میں بیان کئے واقعات فرضی نہیں لگتے۔ بعض اوقات کسی بھی کتاب کو پڑھنے والے قاری کی ذہنی سطح لکھنے والے سے بلند ہوتی ہے اور لکھنے والے سے زیادہ پڑھنے والے کے پاس معلومات کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ جنات کے بارے میں لکھنا ایک پیچیدہ، مشکل ترین اور حساس موضوع ہے اور اگر اس میں خیر و شر کا ٹکرائو بھی ہو تو اس میں پیچیدگی اور بڑھ جاتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ جناتی دنیا کےخیر و شر کے ٹکرائو میں انسانوں کی شمولیت۔ میں نے جنات کے موضوع پر کئی بڑی کتابیں پڑھیں ہیں اور عملیات کے کئی ماہرین سے ذاتی تعلق بھی ہے۔ انسانوں پر آئے جنات سے کئی مرتبہ بات چیت بھی کی ہے اور جنات سے متعلق کئی مرتبہ مسائل میں الجھ بھی چکا ہوں جس سے اللہ نے اپنے فضل سے نجات دی۔
عام جنوں بھوتوں کی کہانیاں اب مجھ سے پڑھی نہیں جاتی ہیں۔ جناتی دنیا پر اپنے تاثرات لکھنے سے پہلے ابھی میں نے اس ناول کو دوبارہ پڑھا ہے۔ مظہر کلیم صاحب نے اس ناول میں واقعی کمال کر دیا ہے کہ شروع سے آخر تک واقعات کے تسلسل کو اس طرح سے جوڑا ہے کہ پڑھنے والا ایک سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انسان اور جنات مل کر شیاطین جنات کے خلاف جنگ کریں کمال کا آئیڈیا اور زبردست انداز بیان۔
جنھیں عمران سیریز میں دلچسپی نہیں ہے وہ بھی اس ناول کو پڑھ کر محظوظ ہو سکتے ہیں کیونکہ اس ناول میں بیان کردہ جنات کے واقعات اور حالات حقیقت سے قریب ترین ہیں۔
جاسوسی ناول کے فرضی واقعات میں دینی باتوں اور باریکیوں کو بیان کرنا بھی ایک پیچیدہ اور حساس کام تھا۔ مظہر کلیم صاحب نے سید چراغ شاہ صاحب کا کردار تخلیق کر کے دینی باتوں کو سمجھانے اور بیان کرنے کا ایک بلکل الگ انداز اپنایا اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے دینی باتوں کو بیان کرتے وقت اپنے مذہبی ذہن کے کچھ اشارے تو دئیے ہیں مگر انداز بیان ایسا رکھا ہے کہ پاکستان جیسے مسلکوں اور مختلف فرقوں میں بٹے سارے لوگوں کے لئے یہ باتیں قابل قبول رہی ہیں اور مسلکی اختلاف کی گنجائش نہیں چھوڑی ۔ بہرحال جنات کے بارے میں مستند دینی معلومات کے حامل لوگوں کے لئے بھی یہ ایک مزیدار ناول ہے اور وہ اسے پڑھ کر لطف اندوز ہوں گے۔ جنات سے حفاظت کے طریقوں میں رزق حلال کا استعمال، فرائض و واجبات کی پابندی، جسمانی پاکیزگی، کردار کی مضبوطی، حفاظت کی آیات اور دعائیں یہ ہی وہ اعمال ہیں جن سے اللہ تعالی شیاطین جنات سے حفاظت کرتا ہے۔