Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
گھر میں اور گھر کے باہر جب میں عمران سیریز کی باتیں سنتا تھا تو عمران سیریز پڑھنے کا خیال رہتا تھا اور جب عمران سیریز پڑھنی شروع کی تو پڑھتا ہی چلا گیا۔ سن اٹھانوے میں جب عمران سیریز کے تقریبا سارے ناول پڑھ چکا تو ساتھ ساتھ ڈائجسٹوں میں چھپنے والی کہانیوں کو کتابی شکل میں پڑھنا شروع کی۔ محی الدین نواب صاحب کی مشہور زمانہ دیوتا کے بہت سارے حصے پڑھے۔ فرہاد علی تیمور کی ٹیلی پیتھی پر مہارت کا تقابل میں عمران سے کرتا رہا۔ میں سوچتا تھا کہ فریاد علی تیمور تو صرف ٹیلی پیتھی کا ماہر ہے مگر علی عمران تو ہپناٹائزم کے ساتھ دیگر علوم پر بھی دسترس رکھتا تھا۔
میرے بڑے ماموں کو کامل یقین تھا کہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ٹیلی پیتھی جانتے ہیں اس کے لئے وہ مختلف بزرگوں کے واقعات کے حوالے دیا کرتے تھے۔ دیوتا کے ساتھ ساتھ ہی میں نے دیگر مصنفین کے دیگر سلسلےصدیوں کا بیٹا، سمندروں کا بیٹا, شکاری کی پوری اٹھارہ جلدیں اور دوسری بہت سی کہانیاں پڑھتا رہا۔ بڑےماموں کے مشورے پر ہی میں نے نسیم حجازی صاحب کی تقریبا ساری کتابیں پڑھ ڈالیں۔ ان کی کتاب “اور تلوار ٹوٹ گئی” کے آخری صفحات پڑھ کر میری روتے روتے ہچکی لگ گئی تھی، بعد میں جب تاریخ کی مستند کتابوں کو پڑھا تو خیالات میں کافی تبدیلی ہوئی۔
یہ بھی پڑھئے:
امریکی قرارداد__ پی ٹی آئی کی بڑی کامیابی
عمران سیریز: عمران بڑا جاسوس تھا یا کرنل فریدی؟
کرکٹ کی رسوائیوں میں کوریا سے ایک اچھی خبر
مذاکرات_ ایلچیوں کو رسوا نہ کریں
مذہبی کتابوں سے ہٹ کر پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ کتاب پڑھتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آئے پہلی مرتبہ جب نسیم حجازی صاحب کی کتاب اور تلوار ٹوٹ گئی اور دوسری مرتبہ مظہر کلیم صاحب کے انتقال پر مبشر زیدی صاحب کی سو لفظوں کی کہانی میں جب انھوں نے لکھا کہ” جولیانا جدا ہوئی اور جہاز کی طرف بڑھ گئی ایک ایک کرکے سب سیڑھیاں چڑھتے رہے۔ سیکرٹ سروس کے ارکان ، چلوسک ملوسک ، آنگلو بانگلو ،چھن چھنگلو، ٹارزن ، عمرو عیار۔
میں نے ہاتھ ہلا کر روانہ کیا۔
اب ؟
میں نے دریافت کیا۔
خاک نشیں مظہر کلیم نے آنکھیں موند کر کہا،
اب میں آرام کروں گا۔
اسے پڑھتے مجھے ایسا لگا تھا کہ کسی نے میرا دل مٹھی میں پکڑ کر دبا نا شروع کر دیا ہے اور سیکرٹ سروس کے ارکان اور دیگر دوسرے کرداروں کے ساتھ ہی جہاز میں میرا بچپن ، لڑکپن اور نوجوانی کے دن کے وہ خوبصورت کردار ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور چلے گئے ہیں، میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور گلا رندھ گیا۔ خاک نشیں مظہر کلیم کے آنکھیں موندتے ہی بچپن کے یہ بہترین تخیلاتی کردار اور ان سے جڑی حسین یادیں مظہر کلیم صاحب کے ساتھ ہی قبرمیں جا سوئے ہیں۔
پیکیجنگ کمپنی میں مارکیٹنگ کے شعبے میں کام کرنے کی وجہ سے سال میں کئی مرتبہ کسٹمرز سے ملنے کیلئے مختلف شہروں میں بشمول ملتان جانا ہوتا ہے۔ پاک گیٹ سے ذرا آگے اندر کی طرف جائیں تو مشتاق ہربل دوا خانہ ہے جس کے مالک اخلاق صاحب بڑی ہنس مکھ طبیعت کے مالک ہیں اور مجھ پر بڑی شفقت فرماتے ہیں، انکو ہماری کمپنی پیکیجنگ کا سامان مہیا کرتی ہے۔ میں ان سے ملنے جاتا ہوں تو گاڑی ذرا فاصلہ پر کھڑی کر کے ان کے دواخانہ کی طرف تنگ گلیوں میں پیدل چلتے ہوئے سوچتا ہوں کہ یہاں مظہر کلیم صاحب بیٹھ کر عمران سیریز لکھا کرتے تھے اور ایک دنیا کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔
ملتان جانا ہو تو تبلیغی احباب سے ملاقات کے لئے تبلیغی مرکز ابدالی مسجد میں بھی ضرور جاتا ہوں، اکثر مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر بائیں ہاتھ کی طرف کھلی جگہ کی طرف دیکھتا ہوں اور کبھی اس کھلی جگہ پر ٹہلتے ہوئے سوچتا ہوں کہ یہاں مظہر کلیم صاحب کی نماز جنازہ ہوئی تھی۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
مظہر کلیم صاحب کی کتابیں پڑھنا میری زندگی کا ایک دور تھا اور کتب بینی کا دوسرا دورسن دو ہزار کے اوائل میں جب ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا تو مذہبی کتابوں کو پڑھنے پر شروع ہوا۔ علماء کرام سے دوستی کی وجہ سے مسجد سے متصل ان کےحجرے میں اکثر بیٹھا رہتا تھا اور ان کے کتب خانہ سے کتابیں لے کر پڑھتا تھا اور مختلف دینی اخبارات اور رسائل کا مطالعہ کرتا تھا۔ ان دنوں میں جامعۃ الرشید والوں کا اخبار روزنامہ اسلام اور ہفت روزہ ضرب مومن کا پابندی سے مطالعہ کرتا تھا جس میں جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ صاحب اکثر کالم لکھا کرتے تھے اور مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب موجودہ دور کے مختلف قسم کے فتنوں کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا کرتے تھے۔ ان دنوں میں ہفت روزہ ضرب مومن میں ایک سلسلہ بولتے نقشے کے نام سے چلا کرتا تھا جس میں مشرق وسطی اور دیگر تاریخی مقامات کی تصویریں چھپا کرتی تھی۔ مظہر کلیم صاحب کے کافرستان اور اسرائیل پر لکھے ناولوں میں بیان کئے گئے مقامات کا ایک نقشہ سا میرے ذہن میں بنا ہوا تھا۔ “بولتے نقشے ” سلسلے میں مجھے بڑی دلچسپی ہوتی تھی اور میں اس سلسلے کابہت انتظار کرتا تھا۔
ان دنوں میں مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب نےاپنی مشہور زمانہ کتاب “دجال، کون، کب کہاں” لکھی جس کو ہفت روزہ ضرب مومن میں قسط وار سلسلے میں شائع کیا گیا۔ اس کتاب میں انھوں نے بتایا کہ یہودی کس بے چینی سے دجال کا انتظار کر رہے ہیں اور اس کے لئے یہودیوں کی کی گئی اور کرنے والی تیاریوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔دجال کے متعلق تفصیلات لکھنے کے بعد انھوں نے تفصیل سے دجال کے استعمال میں آنے والی ممکنہ ٹیکنالوجی کی تفصیلات لکھی، برمودہ ٹرائینگل میں جہازوں کا غائب ہونا، خلائی مخلوق کا زمین پر آنا، ہارپ ٹیکنالوجی کے ذریعے موسم کو تبدیل کرنا، یہودیوں کی عالمی منصوبہ بندی، یہودیوں کا دنیا بھر کی کرنسی کو کنٹرول کرنا، مصنوعی طور پر خوراک کا بحران پیدا کرنا اور اس جیسے بہت سارےموضوعات کا احاطہ بڑی تفصیل سے ثبوتوں کے ساتھ کیا۔ مفتی صاحب نے اس موضوع پر مزید کتابیں تصنیف کی ہیں اور دیگر مصنفین نے بھی لکھا ہے۔ میں نے اس زمانے میں چھپنے والی تقریبا ساری کتابیں پڑھی ہیں۔
آپ یقین کریں کہ احادیث اور دیگر دینی باتوں کے علاوہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے لکھی چیزوں کے بارےمیں پڑھ کر میں مظہر کلیم صاحب کے مطالعہ کی گہرائی اور قوت تخیل کا قائل ہو گیا تھا کہ ٹیکنالوجی پر ہونے والی جدید ریسرچ پر مظہر کلیم صاحب کی گہری نظر تھی، اور وہ مستقبل میں ہونے والی ایجادات کو بڑی خوبی سے اپنے موجودہ ناولوں میں استعمال کر لیتے تھے اورسائنسدانوں کی طرف سے پیش کئے جانے والے آئیڈیاز کو، جس کی ایجاد میں بہت سال باقی ہوتے تھے مظہر کلیم صاحب اسے اسطرح بیان کرتے تھے جیسا کہ وہ عام استعمال میں ہو۔
آج کے زمانے میں ہمارے سامنے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا بڑا ذکر چل رہا ہے ، آپ ذرا ان کے پاور لینڈ سلسلے کے ناول کو یاد کریں جس میں عمران ہیڈ کوارٹر کو تباہ کرنے جاتا ہے اورماسٹر کمپیوٹرخود سے پوری دنیا پرقبضہ کرنے کے لئے آخری اقدام کا اعلان کر دیتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ کوئی کمپیوٹر خود سے کوئی فیصلہ کیسے کرسکتا ہے اور مظہر کلیم صاحب نے اس کو کیوں بیان کیا تھا، مگر آج آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے بارے میں آپ خود پڑھ لیں کہ اسے بنانے والے کہہ رہے ہیں کہ کہیں یہ ہمارے کنٹرول سے باہر نہ ہوجائے۔۔بہرحال گزشتہ کچھ برسوں سے عمران سیریز دوبارہ پڑھنی شروع کی ہے اور خواہش ہے کہ میرے بچے بھی اسے پڑھیں مگر شاید ایسا نہیں ہوگا کیونکہ میرے بچوں کی دلچسپی کا محور موبائل اور کمپیوٹر ہے اور میری دلچسپی کتابوں میں تھی۔