میرے ابو کا پسندیدہ کردار کرنل فریدی ہے ۔ ابن صفی صاحب نے پہلے جاسوسی دنیا فریدی اور حمید سیریز لکھی اور بعد میں عمران کا کردار تخلیق کیا تو شاید اس کی وجہ سے انھیں کرنل فریدی زیادہ پسند رہا، انھوں نے مظہر کلیم صاحب کے بھی کچھ ناول پڑھے، جب میں نے عمران سیریز پڑھنی شروع کی تو ان کو بھی دی اور ان کو مظہر کلیم صاحب کے کرنل فریدی پر لکھے ناول پسند آئے۔
ٹیکسٹائل مصنوعات کی کمپنی میں ایکسپورٹ مینیجر کے عہدے پر کام کرنے کی وجہ سے امریکہ سے آنے والے اکثر لوگوں سے امریکن سگار منگواتے تھے اور سگار پیتے ہوئے کرنل فریدی کا ذکر کرتے تھے۔ کرنل فریدی کا سگار ہمارے گھر میں ہمیشہ زیر بحث رہا۔ سگار پیتے کسی بھی شخصیت کی اخبار میں چھپی تصویر پر ہمارے گھر میں تبصرے ضرور ہوتے تھے اور ابو کرنل فریدی کے سگار کا ذکر کرتے تھے۔ اخبار میں چھپی مقامی سیاست دان شیخ رشید احمد صاحب کی انگلیوں میں یا ہونٹوں میں موجود سگار کے ساتھ تصویر ابو ہمیں ضرور دکھاتے تھے۔
جب پرویز مشرف صاحب اقتدار میں آئے تو کمانڈو ٹریننگ یافتہ طاقتور ترین فوجی جنرل کی سگار پیتے تصویر میں ابو کرنل فریدی اور سچ میں میں ایکسٹو کو ڈھونڈتے رہے۔ ابو کو شاید کرنل فریدی کی یاد آتی تھی۔ جنرل صاحب کے بات کرنے اور حکم دینے کے انداز پر میں سوچتا تھا کہ ایکسٹو کے پاس بھی اتنے ہی یا شائد اس سے بھی ذیادہ اختیارات ہوتے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھئے:
کرکٹ کی رسوائیوں میں کوریا سے ایک اچھی خبر
مذاکرات_ ایلچیوں کو رسوا نہ کریں
مظہر کلیم کی عمران سیریز اور میرا خاندان
کرکٹ میں اعصام الحق جیسے با کردار کھلاڑی کیوں پیدا نہیں ہوتے؟
میرے ابو ہمیشہ کہتے رہے کہ اگر کرنل فریدی پر فلم بنائی جائے تو ان کے خیال میں اس کے لئے مناسب شخصیت اداکار محمد علی صاحب ہوتے اور کیپٹن حمید کے کردار کے لئے ان کے خیال میں اداکار لہری۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ابو کے اسکول کے زمانے میں اداکار محمد علی صاحب ایکشن ہیرو کے طور پر سامنے آئے تھے اور اسی زمانے میں وہ ابن صفی صاحب کے کرنل فریدی، کیپٹن حمید اور عمران کو بھی پڑھتے تھے۔ کرنل فریدی اور کیپٹن حمید کے کرداروں کو ادا کرنے کے لئے اداکاروں کے انتخاب کے بارے میں میرے ابو کے خیالات سے میرے بڑے ماموں بھی اتفاق کیا کرتے تھے مگر علی عمران کے کردار کو ادا کرنے کے لئے موزوں اداکار کے انتخاب پر دونوں کا اختلاف تھا۔ ابو کا کہنا تھا کہ عمران کے کردار کے لئے ہندوستانی فلموں کے مشہور اداکار دیوآنند مناسب رہیں گے جبکہ بڑے ماموں کی نظر اداکار وحید مراد پر تھی۔ میں ابو، ماموں اور خالو کی زبانی ان باتوں کو سنتے بڑا ہوا تو میرے دل دماغ پر بھی عمران کا کردار حاوی رہا۔
مظہر کلیم صاحب کے ناولوں میں عمران ہمیشہ کرنل فریدی کو اپنا پیر و مرشد کہتا رہا جس کی وجہ سے میرے ذہن میں تاثر بن گیا کہ کرنل فریدی کا رتبہ بڑا ہے۔ ان کے ناولوں میں جب عمران اور کرنل فریدی کا ٹکرائو ہوتا تو میری خواہش ہوتی تھی کہ کرنل فریدی عمران سے آگے بڑھ جائے۔ مظہر کلیم صاحب نے عمران اور کرنل فریدی کے کرداروں کو زیادہ تر ہم پلہ دکھایا اور کبھی عمران کو آگے کر دیا۔ شائد ان کی مجبوری تھی کہ وہ عمران سیریز لکھتے تھے تو ان کے قارئین عمران کے مقابلہ میں کرنل فریدی کی جیت کو ہضم نہیں کرپاتے۔
ہمارے گھر میں رسائل اور اخبارات کی بھرمار ہوتی تھی۔ امی کو ہمیشہ شکایت رہی کہ ابو آفس سے گھر آ کر اخبار پڑھتے ہیں، ابو ہمیشہ گھر وقت پر آتے تھے اور جس دن انھیں دیر سے آنا ہو تو میری اور میری بہن کی ڈیوٹی رات کو پی ٹی وی پر خبرنامہ سن کر انھیں سنانے کی ہوتی تھی اور اگر مزید دیر ہو تو وہ ٹھیک نو بج کر اکتیس منٹ پر فون کر کے ہم سے خبروں کی تفصیلات معلوم کرتے تھے۔
ہمارے گھر میں فلمی اخبار ہفت روزہ نگار آتا تھا جس کے ایڈیٹر انچیف الیاس رشیدی صاحب تھے اور علی سفیان آفاقی صاحب اس کے مستند اور بڑے لکھاری تھے۔ میں نے ہفت روزہ نگار کے ہی کسی ایڈیشن میں پڑھا تھا کہ ستر یا اسی کی دہائی میں عمران سیریز کے عمران اور دیگر کرداروں پر کوئی پاکستانی فلم بنی تھی۔ لڑکپن کے زمانے میں پڑھےاس مضمون کی تفصیلات مجھے یاد نہیں۔ یہ تحریر لکھنے کے ارادہ سے جب میں نے کل رات کے کھانے پر ابوسے اپنی یاداشت میں موجود باتوں کی تصدیق کی تو وہ دوبارہ بتانے لگے کہ کرنل فریدی اور عمران سیریز کے لئے کس قدر وہ لوگ بے چین رہتے تھے۔ میرے ابو کو مطالعہ کا شوق میرے دادا سے ملا۔ ابو کی عمر تین سال تھی تو میری دادی کا انتقال ہوا اور دادا نے دوسری شادی کرلی اورابو جب گیارہ بارہ سال کے تھے تو میرے دادا کا انتقال ہو گیا تھا۔ ابو بتاتے ہیں کہ میرے دادا بھی کثرت سے کتابیں پڑھتے تھے ساٹھ کے عشرے میں ابن صفی صاحب کی کتابیں پڑھتے رہے۔
میرے دادا کے بھائی نے ابو کی تعلیم و تربیت کی۔ وہ ایک اعلی تعلیم یافتہ انسان تھے اور ان کا بھی جوانی میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ بقول ابو ان کی بغل میں ہر وقت کوئی نا کوئی کتاب دبی رہتی تھی۔ ابو کی غیر نصابی سرگرمیوں اور ناول خریدنے کے لئے وہ الگ سے خرچ دیتے تھے۔میرے دادا کے انتقال کے بعد میری سوتیلی دادی اماں کی دوسری شادی ہوئی اور وہ لوگ ہجرت کے بعد کراچی میں ہی رہائش پزیر رہے۔ آپس کے خاندانی اختلافات کے باوجود میری سوتیلی دادی اماں کے میری امی سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ میری سوتیلی پھپھو اور چچا سب نے کم از کم گریجویشن کیا۔ میری ایک سوتیلی پھپھو اور سوتیلی چچی نے اردو ادب میں ماسٹرز کیا ہوا تھا۔ میں جب وہاں جاتا تھا تو ان لوگوں کی باتوں سے بہت متاثر ہوتا تھا ، سوتیلی چچی سے میری ملاقاتیں بہت کم رہی۔ں، ان سے میں اردو شاعری اور عمران سیریز پر باتیں کرتا تھا۔