میرے ابو، ماموں اور خالو بھی عمران سیریز پڑھا کرتے تھے۔ بتاتا چلوں کہ اردو بولنے والے بہاری ہونے کی وجہ سے پان اور سگریٹ کا استعمال ہمارے گھروں میں معمول کی بات ہے۔ میرے ابو، ماموں اور خالو سگریٹ پیتے رہے۔ میرے خالو ایک خاموش طبیعت اور کسی قدر پراسرار انسان تھے۔ روزگار کے سلسلہ میں کئی سال بیرون ملک رہے۔ ان کے پاس کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا اور مختلف رسائل اور جرائد کا پابندی سےمطالعہ کرتے تھے۔ تاریخ پر ان کی معلومات بہت ذیادہ تھیں۔ اپنے بچوں کے مقابلے میں ان کا رویہ میرے ساتھ بہت دوستانہ تھا۔ میں کئی کئی گھنٹے ان کے پاس بیٹھ کر ان سے مختلف کتابوں اور واقعات کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا اور وہ بہت تفصیل سے مجھے میرے سوالوں کے جوابات دیا کرتے تھے۔
بنگلہ دیش بننے سے پہلے ہی میرا ننھیال ہجرت کر کے کراچی آیا تو کچھ عرصہ لالو کھیت موجودہ لیاقت آباد میں مقیم رہا جہاں کچھ فاصلہ پر محترم ابن صفی صاحب کی رہائش تھی۔ اب مجھے صحیح سے یاد نہیں کہ میرے ماموں یا خالو میں سے کس کی ملاقات ابن صفی صاحب سے ہوئی تھی یا ایسی ہی کچھ بات تھی۔ ماموں اور خالو دنیا سے جا چکے اور یاداشت کی تصدیق نہیں ہو سکتی۔ میرے خالو ابن صفی صاحب کا تذکرہ اکثر کرتے تھے اور ابن صفی صاحب کے ناولوں کے انتظار اور ناول کے حصول کی جدوجہد کے بار ے میں بتایا کرتے تھے۔ سسپنس ، نئے افق ، جاسوسی اور ایکشن ڈائجسٹ پڑھنا ان کا معمول تھا ، مشتاق احمد قریشی صاحب ان دنوں میں کسی ڈائجسٹ میں عمران سیریز لکھا کرتے تھے جس کا تذکرہ شائد میں نے اپنے خالو سے سنا۔ انھوں نے بھی مظہر کلیم صاحب کے ناول پڑھے اور ان کو بھی ابن صفی صاحب کے بعد مظہر کلیم صاحب ہی پسند آئے۔ میں مظہر صاحب کی بچوں کی لکھی سیریز پڑھتا تھا اور اس میں لکھی باتوں کو ان سے اکثر ان سے پوچھتا تھا۔ تاریخ اور مذہب پر ان کی معلومات کی وجہ سے میں ان سے بہت متاثر تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
کرکٹ میں اعصام الحق جیسے با کردار کھلاڑی کیوں پیدا نہیں ہوتے؟
پاکستان میں نظریاتی جماعتوں کی ناکامی کی بنیادی وجوہات
میرا ایم بی اے مکمل ہوا تھا اور ملازمت کے ابتدائی سال تھے۔ عملی زندگی کی مصروفیات شروع ہوئی تھی کہ وہ کینسر کا شکار ہوگئےاور کچھ مہینے بستر پر رہے۔ میں ان کی بیماری کے دنوں میں اکشر ان کے پاس جا کر بیٹھتا تھا اور ان سے کافی باتیں کیا کرتا تھا۔ انتقال سے کچھ دن پہلے انھوں نے مجھے بلوایا اور کہا کہ تم مولوی بن گئے ہو میری ایک بات سن لو۔ میں بڑا گنہاگار انسان ہوں مگر میں نے زندگی میں اللہ کے سوا کسی کو معبود نہیں مانا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانا ہے۔ اس کی گواہی تم قیامت میں دے دینا، اب جائو ،اور کچھ روز کے بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔
میرےبڑے ماموں کا ایک جنرل اسٹور تھا ، مشرقی پاکستان سے ہجرت کی وجہ سے وہ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل نہیں کر سکے، گھر قریب ہونے کی وجہ سے وہ ہمارے گھر روزانہ آتے تھے۔ وہ کتابوں کے بہت شوقین تھے۔ اپنی دکان میں بیٹھ کر کتاب پڑھتے رہتے تھے۔ ان کےکتابوں سےتعلق کا اندازہ اس سےلگائیں کہ ہم بچوں کی بھی ساری کہانیوں کی کتابوں اور خواتین کے رسالوں کو بھی وہ پابندی سے پڑھتے تھے اور ہم پڑھنے کے بعد ہر کتاب ان کو پڑھنے کے لئے دیتے تھے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر پڑھی جانے والی کتاب پر تبصرہ کرتے تھے۔ جب وہ چھٹی والے دن ہمارے گھر آتے تو ابو کے ساتھ بیٹھ کر کتابوں اور پرانی فلموں اور پرانی فلموں میں کام کرنے والے اس وقت کے اداکاروں کے بارے میں باتیں کرتے تھے اور میں بیٹھ کر ان لوگوں کی باتیں سنا کرتا۔ جب میں نے مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز پڑھنی شروع کی تو ان کو بھی سن گن مل گئی ، میری امی کے کہنے پر انھوں نے مجھ سے تقاضا کیا کہ میں ناول پڑھ کر ان کو دوں تاکہ وہ پڑھ کر فیصلہ کریں گے کہ میری عمر ان کتابوں کو پڑھنے کی ہے بھی یا نہیں۔ میں اس دن جو ناول پڑھ رہا تھا ان کو دے دیا۔ انھوں نے وہ ناول پڑھا ان کو ناول اتنا پسند آیا کہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ میں صرف مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز پڑھا کروں گا اور پڑھ کر ان کو بھی دیا کروں گا تاکہ وہ بھی پڑھ لیا کریں۔ اب میرے لئے نئی مصیبت ہو گئی کیونکہ مجھے ناول پڑھنے کے بعد نئے ناول لانے کے لئے ایک دن مزید انتظار کرنا پڑتا تھا کہ بڑے ماموں ناول پڑھ کر مجھے دیں گے تو میں نیا ناول لائوں گا۔ پاور لینڈ اور بلیک تھنڈر کے ناولوں کی سیریز ان کو بہت پسند آئی تھی۔ مظہر کلیم صاحب کی لکھی مائورائی سیریز میں انہیں خاص دلچسپی رہی اور مجھ سے ان کے لکھے ہر ناول پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا اپنے انتقال سے کچھ پہلے تک وہ مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز پڑھتے رہے۔