حالیہ دنوں کی بے چینی اور اضطراب سے اب صاف لگنے لگا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ اور اپنے اڑوس پڑوس پر بمباری و حملہ بازی اب امریکی جو بائیڈن انتظامیہ کو براہ راست اپنے اوپر بھی حملہ محسوس ہونے لگا ہے۔اس حملے کی اس انڈرسٹینڈنگ سے پہلے جس قدر زیادہ جاری رکھنا ضروری تھا، اب اس سے کہیں زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے روکا جائے۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اس موقعے کو آخری موقع قرار دے رہے ہیں۔امریکہ کی بے چینی نہیں ہے۔ یہ جو بائیڈن انتظامیہ اور ڈیموکریٹس کی ہے۔ڈیموکریٹس کو اس کی شدت کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب اسرائیلی جنگ میں کھلی جنگی، فوجی، اسلحے اور سفارتی و سیاسی کے ساتھ ساتھ مالی معاونت پر خود امریکہ میں ردعمل شدید ہو گیا۔ائیڈن کو اپنی دوسری صدارتی مدت کے لیے انتخابی مہم شروع کرتے ہوئے مختلف طبقوں کی طرف سے سخت مزاحمت اور مخالفت کی صورت حال ملنے لگی۔
امریکی سیاہ فام، عرب امریکن، امریکی مسلمان، خواتین، نوجوان، طلبہ ہی شامل نہیں تھے وہ ڈیموکریٹس اور ڈیموکریٹ ووٹرز بھی شامل تھے جن کے ہراول دستے کے طور پر کئی سفارت کار اسرائیل کے لیے حمایت کی پالیسی پر مستعفی ہو گئے تھے۔نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جو بائیڈن کا بطور صدارتی امیدوار میدان میں رہنا ممکن نہ رہا۔ جو بائیڈن کی جگہ کملا ہیرس کو آگے لانے کی حقیقی وجہ جو بائیڈن کا بڑھاپا نہ تھا بلکہ اسرائیل نواز پالیسی تھا، جس کے بعد عام ووٹرز ہی نہیں ڈیموکریٹس بھی پھٹ پڑے تھے۔وہ 21 جولائی سے پہلے تک باضابطہ صدارتی امیدوار تھے اور ماہ جون کے اواخر تک کوئی شور نہیں تھا۔غزہ میں اسرائیلی جنگ کی مسلسل حمایت کے خلاف امریکہ میں پایا جانے والا ردعمل جو اب ڈیموکریٹس کے اندر تک گھس چکا ہےجو بائیڈن غزہ میں اسرائیلی جنگ کی اپنی صدارتی مہم اور اور صدارتی انتخاب پر حملے کی شدت کو محسوس کر چکے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
میونسپل سروسز کوئٹہ، نج کاری نہیں مضبوط ادارہ
جنرل مشرف استعفے پر مجبور کیوں ہوئے؟
کیا ارشد ندیم کی کامیابیوں کو تسلسل برقرار رہے گا؟
انہوں نے جون سے بھی پہلے 31 مئی کو تین مراحل پر مشتمل ا جنگ بندی فارمولا پیش کیا تھا۔ یہ غیر معمولی یو ٹرن تھا۔
اجو بائیڈن انتظامیہ تین بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کر چکی تھی، مگر اب خود جو بائیڈن جنگ بندی فارمولا بنا کر پیش کر رہے تھے۔
اینٹنی بلنکن 20 اگست 2024 کو اسرائیل سے مصر کے لیے روانہ ہوئے دلچسپ حقیقت ہے کہ جو بائیڈن حماس کو دہشت گرد کہنے کے باوجود امریکہ اور اسرائیل دونوں اس کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ڈیمو کریٹ ووٹروں، سیاہ فام ووٹروں، عرب ووٹروں، مسلمان ووٹروں، خواتین ووٹروں اور طلبہ برادری کو الیکشن سے پہلے یہ باور کرانا ضروری ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ غزہ میں جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔جو بائیڈن انتظامیہ کے لیے غزہ جنگ بندی معاہدے کی اہمیت اس تناظر میں اور بھی زیادہ ہے کہ اس میں ایک سو سے زائد اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا معاملہ بھی شامل ہے۔
ابھی ایک روز قبل ہی 79 سالہ یرغمالی غزہ میں ہلاک ہوا ہے۔ جو بائیڈن فارمولے کے تحت اگر معاہدہ نہیں ہوتا تو امریکہ میں بہت سے یہودی ووٹر ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں میں آ سکتے ہیں۔ یوں غزہ کے حوالے سے معاہدے کا ہونا کملا ہیرس کی انتخابی ضرورت سے زیادہ مجبوری بن چکا ہے۔
اگر بلنکن خلائی فاصلے کو کم کرنے کی مہم سے کامیاب لوٹتے ہیں تو ٹرمپ کو نیچے کی طرف جمپ کرنے پر مجبور کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر 21 جولائی سے 21 اگست تک کملا ہیرس کی ایک ماہ کی مہم کے دوران جو بہتری کی علامات ہیں یہ اگلے اڑھائی ماہ میں تحلیل بھی ہو سکتی ہیں۔