اسلام میں عبادات کا ایک مضبوط نظام ہے روزہ،اعتکاف یا طاق راتوں کی تلاش اس نظام عبادات کا ایک جز ہے۔ یہ الگ سے ایک نظام نہیں ہے۔
روزہ تو امت مسلمہ پر فرض کیا گیا کیونکہ اس کی اہمیت ہمہ گیر اور آفاقی ہے اس کا پہلا افادہ انسان کے مادی جسم کو حاصل ہوتا ہے اور دوسرا باطنی قوت میں اضافے کا باعث بنتا ہے روزہ ماضی کے ناپید یا حال میں باقی رہ جانے والے تمام مذاہب کا حصہ رہا ہے اور اب بھی کسی نہ کسی صورت میں رائج ہیں اعتکاف دراصل آخری عشرے یا زندگی کی آخری لمحے تک راتوں میں ایک لمحے کی تلاش کا اہتمام ہے جو عبادات،وصل اور دعاء کے حوالے سے کامیاب و کمال افادہ کی ضمانت رکھتا ہے۔
یہ تمام مذاہب کی روایت ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر چالیس دن بھوک و پیاس سے گذرے اور توریت پائی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جنگل میں چالیس دن کا روزہ رکھا_ ہندو مت میں چوبیس دن تک کا ثبوت ہے جبکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں معمولی خوردونوش کے اہتمام کے ساتھ اس عمل سے گذرے اور قرآن کے نزول کا آغاز بھی اسی حالت مجاہدہ میں ہوا۔ اسے روزہ اور اعتکاف کہہ سکتے ہیں۔ نتیجہ خیزی کلی اور جز کے توازن قائم رکھنے سے ہیں۔ ہمارے نظام عبادات میں یہ توازن کمزور پڑ چکا ہے۔ نتیجتاً روزہ تو رکھا جاتا ہے لیکن اس کے اثرات نہ شخصیت سازی پر کارامد دکھائی دیتے ہیں اور نہ تمدن سازی میں موثر ہیں۔ اگر ہم ان سوالات کا جائزہ لینے سے کتراتے رہے اور گھبراتے رہے تو عبادات کے ارکان محض عادتاً یا رسوم و ظاہر تک محدود رہیں گے بلکہ بقول ڈاکٹر برہان احمد فاروقی عبادات رسوم و ظاہر میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ وعظ بے اثر ہوچکے ہیں اور زندگی یقین سے عاری ہوچکی ہے۔ پیمانہ تو یہی ہے کہ اراکین عبادات یا روزہ اور اس کے لوازمات و اجتماعی مشقت آپ کی تعمیر شخصیت، تعمیر معاشرت اور تعمیر دنیا میں کس قدر کارگر ہیں؟
فرد انسانی ( خلیفہ) کا نصب العینی فریضہ تعمیر دینا ہے_
اسی دینا میں اسے مادی و غیر مادی قوتوں کے ساتھ لیس کرکے بھیجا گیا ہے_ حکمت الٰہی جو ,,, کن،،، کے ذریعے ترتیب پا کر رواں ہے وہ فردیت سے اجتماعیت کے عمل میں پنہاں ہے اس لئے فردیت یعنی فرد خلیفہ کی سطح پر تعمیر شخصیت کا اہتمام ضروری قرار پایا ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ تربیت و تنظیم کے بغیر تعمیر معاشرت اور تعمیر دینا ممکن ہو سکے- فرد کی شخصی تربیت و تعمیر سے ہی خیر کا یہ قافلہ ایک اجتماعی معاشرت و قومیت میں ڈھلتا جاتا ہے اور آج ہم اکسیویں میں بیٹھے اپنی رفتار کار کا جائزہ لینے کے لئے کوشاں ہے_ ماہ رمضان کی برکتوں اور فضیلتوں سے صراط مستقیم اور پھر اس پر کاربند ہونے کی آرزو رکھتے ہیں_ فرد انسانی کی تربیت و تنظیم کو عبادت کے ذریعے منسلک کیا گیا ہے_
دینا کا ہر فرد انسانی شخصیت کی داخلی تعمیر کو اپنے عقیدے اور عبادات سے مضبوط بناتا ہے اور پھر اجتماعی معاشرت کا فعال کردار بنتا ہے_
فرد مسلمانی کے لئے ایک مضبوط اور نتیجہ خیز عباداتی نظام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے قائم و دائم ہے_ ایک مسلمان کی تعمیر شخصیت کا یہی دائرہ ہے_
فلاح آخرت کی غرض سے عبادات و روزہ یا اعتکاف کا مجاہدہ یا طاق راتوں کی طرح زندگی بھر کی راتوں کی جستجو کا ایک ماحول قائم کرنے کی ضرورت ہے خدا کرے کہ آخرت کے مقاصد حاصل ہوں اور اس امید پر یہ عادت قائم رہے کہ شاید کبھی دوبارہ تعمیر شخصیت، تعمیر معاشرت اور تعمیر دنیا کا کام لیا جاسکے_
عبادت کا مقصود
عبادات کا بحثیت کل مقصود نفس انسانی کے اندر قوت بہیمیہ کو کمزور کرنا اور قوت ملکیہ میں اضافہ کرنا ہے_
بہیمیت،ج بلت و حیوانیت کا مطب رکھتی ہے_ اٹھارویں صدی و بعد کے تناظر میں آپ اسے مادی یا مادیت کی جدید اصطلاح دے کر عام فہم بناسکتے ہیں_ ملاکیت یا قوت ملکیہ ایک لطیف روحانی قوت کا مطلب رکھتی ہے_ مادی کے مقابلے میں آپ اسے
غیر مادی کی اصطلاح دے کر عام فہم بناسکتے ہیں اس طرح جاریہ علم میں غیر مانوس نہیں ہوں گے_
نفس انسانی کے اندر ان دونوں طوفانی و منہ زور طاقتوں کا اعتراف موجود ہے، قوت بہمیہہ منفی فعالیت کی نمائندہ ہے اور وقت ضائع کرتی ہے اسے سادہ اور جدید الفاظ میں جبلت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ خود رو ہے اور خارجی ہدایت یا اثرات کی مزاحمت کرتی ہے_ دوسری طرف نفس انسانی کے اندر قوت ملکیہ ہےاسے ملائکہ سے نسبت دے کر غیر مادی قوت باور کیا گیا ہے مگر یہ مادی جسم کے باہر نہیں،بلکہ جبلت کی طرح نفس انسانی کا حصہ ہے البتہ یہ قوت انسان کے کمالی اوصاف کو کمال کی طرف گامزن رکھنے کی ضمانت ہے_
تعمیر شخصیت، تعمیر معاشرت اور تعمیر دنیا
اس کے میدان ہیں بدنصیبی کی بات ہے کہ امت میں قوت ملکیہ سے تعمیر شخصیت، تعمیر معاشرت اور تعمیر دنیا
کا رحجان اٹھ چکا ہے امت کو باقی رہنا ہے تو کمالی اوصاف پیدا کرنے ہونگے دینا کے بہت سے اقوام نے کمالی اوصاف پیدا کرکے بیسویں صدی میں کمال کو پروان چڑھایا اور اکیسویں صدی بھی مسلمانوں کی نہیں لگتی یہ بدقسمتی کی بات ہے۔
قوت ملکیہ ہو یا قوت بہیمیہ، یہ دونوں انسان کے ذاتی اوصاف ہیں محض مسلمانوں سے ہی مخصوص نہیں ہیں ہر مذہب یا قوم میں بنیادی طور پر تعمیر شخصیت، تعمیر معاشرت اور تعمیر دنیا کے لئے تربیت دی جاتی ہے، قومی مقاصد اور طریق کار ہر ایک کا اپنا ہے بحث نتائج کی ہے یہی پیمانہ ہے دوسری اقوام نے بلاشبہ گزشتہ صدی میں خصوصاً مزکورہ تینوں پہلوؤں میں کامیابی حاصل کی ہے۔
مان لینا چاہیے کہ امت کے میکنزم میں بہت کمزوری آ چکی ہے_ عبادات رسوم و ظاہر کی صورت اختیار کرکے بے اثر ہوچکی ہیں، اس کا حل کیا ہے؟ ہمیں پورے نظام فکر و عبادت کو نئے سرے سے دیکھنا ہوگا۔
اسلام میں عبادات کی تنظیم میں ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرکزی رول ہے_ عبادات کے,,,کل،،،کا مقصود,,,حصول معبودیت،،، ہے جس کی نسبت واحد و مطلق خدا سے ہے ،
سورت الااخلاص مطلق خدا کی تصدیق کی قطعی دلیل ہے، جبکہ سورت البقرہ میں خلیفتہ اللہ کے تحت آدم کی فردیت و انفرادیت، تخلیقی رو و ارتقاء اور پھر موت کے ساتھ بقاء کی نوید ہے_ یوں فعال و بیدار چار کردار وجود میں آتے ہیں یہی کردار کائناتی کردار ہیں اور کائناتی مقاصد کی تکمیل کے اراکین ہیں یعنی
& خدا واحد مطلق
& ملائکہ خدا کی فعال نوری مخلوق جو خود ملکی ہیں،،
& انبیاء اور امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم
جو ملکی قوت سے لیس ہوتے ہیں،،
& اولاد آدم یا نائب حق،
جو قوت بہمیہہ اور قوت ملکیہ دونوں اوصاف کا مالک ہے،،
روزہ، اعتکاف یا طاق راتوں میں ملکی لمحہ کی تلاش دراصل قوت ملکیہ کے حصول کا موثر ذریعہ ہے سب اقوام میں یہ نسخہ استعمال ہوتا ہے_ سن دو ہجری میں روزہ مسلمانوں پر فرض ہوا اور بلا انقطاع جاری ہے_ ہر سال اہتمام بھرپور نظر آتا ہے جس کا ثبوت رمضان میں مہنگائی ہے مساجد بھی ہر گلی محلے میں بن گئی ہیں اسپیکر پر ہر وقت وعظ یا شور ایک ثبوت ہے اعتکاف میں بھی لوگ بیٹھتے ہیں،تراویح بھی اضافی عبادت کے طور پر پڑھی جاتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ساری مشق نتائج دے رہی ہے؟
کیا تعمیر شخصیت میں پختگی اور مثالیت کے نتائج آتے ہیں آگر نہیں تو کیوں نہیں؟ کیا تعمیر معاشرت و تمدن میں انسانیت پروان چڑھتی ہے آگر نہیں تو کیوں نہیں؟؟
کیا تعمیر دنیا میں جو جفا کشی باقی دنیا کرتی ہے،ہم بھی کرتے ہیں،اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
روزہ دار،اعتکاف یا طاق راتوں کی تلاش اور دوسری عبادات کی مشق برداشت کرتے ہیں،زندگی کا بہت سا قیمتی وقت صرف کرتے ہیں اور نتیجہ پھر بھی نہ آئے تو کیوں؟؟؟
اتنی مشقت و قیمتی وقت کا ضیاع اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قوت ملکی میں اضافہ ہونے کے بجائے ہم بہمیت یا جبلی سرگرمیوں میں زیادہ محو ہوجاتے ہیں ایسا کیوں ہورہا ہے؟
یوں ہمارا جو تلخ سوال قائم ہوتا ہے کہ کیا ہمارا پورا نظام عبادات اپنی اہمیت کھو چکا ہے؟ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے جاریہ فیضان بند ہو چکا ہے؟ کیا قرآن حکیم اپنی مدت پوری کرچکا ہے؟
روزہ یا عبادات و دعاء کی افادیت کا انکار کسی کو نہیں مگر مادی اصول کے اختیار کئے جانے کے بعد اور مادی تبدیلی کے واقع ہوجانےکےبعد عبادات عملی کی افادیت باقی نہیں رہی ہے مذہبی اصول کے تحت عباداتی عمل کی قدر،اثر اور نتیجہ خیزی تاریخ کا امر واقعہ ہے مگر یہ غیر مادی دور کی بات ہے مادی اصول کے اختیار کئے جانے کے بعد اور مادی دنیا میں تیز رفتار مادی تبدیلی کے بعد عباداتی عمل کی قدر،اثر اور نتیجہ خیزی امر واقع نہیں ہے_ امر واقع تھی اور اب امر واقع نہیں ہے اور ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور محض تاریخ کے نتائج و قیاس آرائی پر زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتے ہیں؟
یہ ذمہ داری امت کی ہے کہ وہ تاریخ کے امر واقع کو حال کا بھی حقیقی واقع بنائیں،روزہ ایک بدنی عبادت و ریاضت ہے گویا یہ مادی جسم پر مادی اثر بھی مرتب کرتا ہے جو مشقت شمار ہوتا ہیں اسی مادی جسم کے داخل و باطن میں بھی ایک گہری تبدیلی پیدا ہوتی ہیں جو نفسیاتی لحاظ سے انسانی شخصیت کی تعمیر، معاشرتی و تمدنی اصلاح اور تعمیر دنیا
کے لئے ملکی قوت کا باعث بنتی ہے۔
مسلمانوں نے ملکی قوت کو بعد از موت افادے کے لئے مخصوص کیا تو تعمیر دنیا سے دست کش ہوگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مطلوبہ شخصی تعمیر اور معاشرتی و تمدنی اصلاح کا دعویٰ کھو کھلا ہو کر رہ گیا حالانکہ ملکی قوت کا تعلق اس دینا میں انسان کو طاقت دینا ہے کہ وہ بہیمیت کے منہ زور ارادوں پر قابو پائے آخرت سازی دراصل دنیا سازی کے ساتھ مشروط ہے_ الگ سے آخرت سازی کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ بنیادی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں_ یوں ایک عجیب سا منظر دینا میں نظر آرہا ہے کہ مسلمان کافری کرتا نظر آتا ہے اور کافر مسلمانی کرتا نظر آرہا ہے دونوں طرف کردار کا عجیب سا تضاد ہے،،
ایمانیات و عبادات کا بنیادی مقصد انسان کے فعال و سرگرم جسم میں موجود قوت بہیمیہ پر قوت ملکیہ کو حاوی کرنا ہے یہ کشمکش جسم و جان میں ہمیشہ برقرار رہی ہے_ امت کے اجتماعی رویے سے جو نتائج گزشتہ آٹھ دس صدیوں میں سامنے آئے ہیں،ان کا نتیجہ یہ بتارہا ہے کہ قوت بہیمیہ قوت ملکیہ پر حاوی ہے اور امت دینا سازی سے کنارہ کش ہو کر کسی نہ کسی پہلو سے گداگری میں پڑی ہے_ یہ حالت انسانیت کے معیار پر پوری نہیں اترتی ہے،نہ ہی معیار دنیا کے مطابق اور نہ ہی محمدی ص اسلام کے مطابق ایسا ہے_ دوسری طرف غیر اسلام اقوام کی فعالیت و کار گزاری سے آنے والے نتائج واضح ثابت کر رہے ہیں کہ انھوں نے قوت ملکیہ کو قوت بہیمیہ پر حاوی کرلیا ہے اس پر تدبر درکار ہیں،،،
تدبر درکار ہے،تدبر پر پہرے درکار نہیں ہیں،گزشتہ چند صدیوں میں مغرب نے نئے تجربات کئے اور کامیاب تجربات کئے_ انھوں نے ایمانیات و عبادات کی روح کو مادی اصطلاح دے کر اپنے آپ کو,,,تعمیر دنیا،،، میں جھونک دیا اور آخرت سازی کے روایتی تصور سے کنارہ کشی اختیار کی_ دینا سازی کے ضمن میں انسان کو آگاہی و بیداری دی اور اسے دینا میں خوف و غم اور بھوک و افلاس کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرلیا،،
اسلام میں حکماء نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی اصطلاحوں کے تحت یہی کہانی بیان کر رکھی ہے اور دینا سازی و آخرت سازی کو ایک ہی عمل سے مربوط رکھا ہے، ہمیں آزادنہ تدبر کی ضرورت ہے،،
دوسری طرف مسلمانوں کا دعویٰ ایمانیات و عبادات تو ہیں،ایک حد تک عمل پذیری بھی ہے اور کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ کئی صدیوں سے کچھ اسی طرح کا عمل جاری ہے مگر نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نہیں آرہا ہے_
قوت بہیمیہ حاوی ہے اور قوت ملکیہ کمزور ہے،اب بات زبانی دعوؤں اور گلی محلے تک محدود نہیں ہے ہر شخص جدید الیکٹرانک و سوشل میڈیا سے ان باتوں کے کھوکھلے پن کو پا چکا ہے جدید سائنس نے انسان و قوموں کے روئیے کو معیار کی کسوٹی پر چڑھا دیا ہے ہر انسان و قوم کے رویوں کو ایک پیمانے سے مشروط کردیا گیا ہے زیر نظر سطور میں عبادات کے جز کے طور پر روزہ،اعتکاف اور طاق راتوں کی اہمیت و فضیلت زیر بحث ہے سوال یہ ہے کہ اسلام کی رو سے ہمیں کونسا رویہ مطلوب ہے اور کیا وہ ہم موجودہ عباداتی نظام سے حاصل کر پارہے ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں تو کیوں؟ اور یہ کہ نتیجہ خیزی کے لئے ہمیں کیا کچھ نئا کرنا ہوگا،،،
ایمانیات و عبادات سے مطلوبہ رویہ جو ایک پیمانہ ہے اور ہماری اصطلاحوں ہی سے مطلوب رہا ہے چند مثالوں سے سوالیہ صورت میں تدبر کے لئے چند پیمانوں کا اظہار
یوں ممکن ہے؛:؛
01؛!
ایمانیات و عبادات بمعہ روزہ و اس کے لوازمات سے,,, تقویٰ،،،کا حصول مقصود ہے_ کسی ایسی شخصیت میں تقوی جس روئیے سے عیاں ہوتا ہے،وہ حلیمی ہے،دعوی تقویٰ اپنی جگہ درست مگر شخصی روئیے میں,,,حلیمی،، ناپید ہوگی تو دعویٰ تقویٰ پر سوال اٹھ جائے گا آپ کا رویہ آپ کی شخصیت کا تعین کرتا ہے،,,,حلیمی،،، تقوی کا معیار قائم کرتی ہے،،
02:؛
اخلاص،
اخلاص نیت سے بھی بات موسوم ہوتی ہے یہ ایمانیات و عبادات کا نتیجہ ہے کتنے فیصد لوگوں میں یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے اخلاصِ قلبی نورانیت و نیت ہے اور یہ آپ کے عمل و روئیے سے اظہار پاتی ہے دعویٰ کافی نہیں ہے،،
03؛!
توکل،
ایمانیات و عبادات کا ایک نتیجہ خدا پر بھروسہ ہے اور جب یہ قائم ہو جاتا ہے تو آپ کو اپنی ذات پر بھروسہ عیاں ہو جاتا ہے پھر جو دینا سازی کے عمل میں آپ پڑھیں گے،دینا سازی میں آپ کامران ہوتے جائیں گے اور وہ کامرانی پیمانہ ہوگا کہ آپ کو توکل حاصل ہو چکا ہے ذہین میں یہ رکھنا ہے کہ توکل،،، یا,,, بھروسہ،،، عبادات یا روزہ لوازمات سے حاصل ہوا اور حاصل ہوا دینا سازی کے امور سرگرمی و کامیابی کے لئے_
یہاں دعویٰ،رویہ اور
عمل ایک ہی ٹھہرا ہے،،
04!؛
صبر،
غصے و جذبات کا علاج ہے،
مگر صبر ایک روئیے کا نام ہے جو آپ کی شخصی،تمدنی اور دوسرے دنیاوی معاملات سے متعلق ہے ،
بہیمیت طاقت ور ہوگی تو تکبر و غرور کا پہلو حاوی ہوگا ایسی شخصیت میں غصہ و جذبات ابھرتے اور اچھلتے نظر آئیں گے امت میں شخصی صبر ناپید چلا آرہا ہے مگر غلامی و افلاس پر قناعت و صبر کی ہم نئی طویل تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں۔
ہماری عبادات شخصیت میں صبر کا موجب کیوں نہیں بن رہی ہیں، تدبر درکار ہے_
05!؛ شکر ۔ یہ ایک رویہ و وصف ہے اور یہ بیان کردہ دوسرے رویہ جات کے مضمرات میں سے ہیں_شکر اگر خدا سے متعلق استوار ہو تو وہ دوسرے بندوں سے بھی استوار ہوجاتا ہے۔
شکریہ یا Thanks پھر محض زبانی الفاظ نہیں رہ جاتے بلکہ ایک رویہ و قدر کا روپ اختیار کرلیتے ہیں۔
روزہ۔ اس کے بعد اس کے لوازمات یا بحیثیت مجموعی عبادات پر ہر دور میں حکماء اسلام نے دوررس نکات پیدا کئے اور اپنے فرائض نبھائے۔ البتہ امت کا نظم فعال ہو کر نتیجہ دینے سے قاصر رہا ہے۔
ہندوستان میں روایتی طریقہ کار تبدیل کرکے براہ راست فیضان محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سے تجدیدی روشنی حاصل کرنے کی روش اپنائی گئی۔ ایسی ہی کوشش ترکی و ایران میں پروان چڑھی__
ہندوستان میں صوفیاء نے براہ راست فیضان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روش اپنائی اور علماء و حکماء نے قرآن کریم میں تدبر کی روش لی ان میں اولین امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کا خانوادہ ہے جبکہ آگے امام احمد رضا خان بریلوی، علماء دیوبند، سر سید احمد خان ، شبلی نعمانی، مین احسن اصلاحی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولاناعبد الماجد دریابادی، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ، غلام احمد پرویز، مولانا مفتی محمد شفیع، پیر سید کرم شاہ،ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم،ڈاکٹر طاہر القادری،اور کئی دوسروں نے جاری بے تاثیری سے نکلنے کی تدابیر کیں۔ جبکہ علامہ محمد اقبال اور ان کے شجرہ علمی کوآگے بڑھانے والے
ڈاکٹر محمد خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین کشمیری مرحوم،ڈاکٹر برھان احمد فاروقی،اور ڈاکٹر محمود احمد غازی رح،ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اور کئی دوسرے اہل فکر نے اسلام کے نظام عبادات کی جاریہ بے تاثیری کو دور کرنے کی سعی کی ہے۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مشہور زمانہ خطبات اقبال میں تیسرے خطبے میں عبادات و دعاء میں تدبر کے لئے نیا زاویہ بھی رکھا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی بے عملی اور دینا سازی سے بے اعتنائی پوری طرح قائم ہے اس کے باوجود مایوسی و ناامیدی ابھی گہری واقع نہیں ہوئی ہے فیضان محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے امید اور قرآن حکیم سے میسر عقیدہ و ولولہ ٹوٹا نہیں ہے۔ یہی بات ہمیں تجدیدی تدبر پر مجبور کر رہی ہے۔
( پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان نے یہ قیمتی مقالہ 23 رمضان المبارک کو آن لائن ڈائیلاگ و مباحثے میں پیش کیا تھا جس کی صدارت ڈاکٹر شکیل احمد روشن، صدر الحمد اسلامک یونیورسٹی نے کی اور انتظام و انصرام مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے کے زیر اہتمام کیا گیا تھا جسے مجلس فکر و دانش کی ٹیم نے عام استفادہ حاصل کرنے کے لئے مرتب کیا ہے)