Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
سورة بنی اسرائیل میں مالک ارض و سماء ٹیکنالوجی بیس معاشرے کی تشکیل و تعبیر نو کی بات کرتے ہوئے معراج و برق رفتار سفر کی بات کرتے ہیں –
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾
,,پاک ہے وہ ذات مبارکہ یعنی اللہ تعالٰی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔ جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں۔ یقیناً اللہ تعالٰی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے ۔
معراج کا لفظ عروج سے نکلا ہے۔ عربی میں معراج کا مطلب اوپر چڑھنے کی چیز یا سیڑھی ہے۔ اسراء سے مراد رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس تک لے جانا ہے۔ معراج سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
قصہ گوئی انسانی زندگی میں ہمیشہ سے اہم رہی ہے۔ زندگی میں ہم بے شمار کہانیاں پڑھتے اور سنتے ہیں۔ وہ کہانیاں ہمارے کردار پر اثر انداز ہوکر ہماری شخصیت کی تشکیل کر رہی ہوتی ہیں ۔
رب تعالی نے انسانی مزاج میں رکھی جانے والی اسی خصوصیت کے باعث قرآن مجید میں بہت سے خوبصورت قصے بیان فرمائے ہیں۔ جن میں سے ایک اور خوبصورت حقیقی واقعہ معراج ہے۔ اس واقعہ کا ذکر سورۃ النجم اورسورۃ بنی اسرائیل میں موجود ہے۔
معجزہ ایک ازلی صداقت کا نام ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو عقل انسانی کی پرواز سے مطلق بالا تر ہے۔ جہاں عقل کی حیثیت مجبور محض کی ہے۔ دنیا نے اس نظریہ اضافیت کو بہت بعد میں دریافت کیا۔ جب روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے نتائج کا مفروضہ اور نظریہ قائم کیا گیا۔
تو معنی والنجم نہ سمجھا
تو عجب کیا
ہے تیرا مدوجذر ابھی
چاند کا محتاج ،
معراج کے سفر کے تین
مراحل قرآن و حدیث میں ملتے ہیں :
پہلا ::
بیت الحرام سے
بیت المقدس تک،
دوسرا ::
بیت المقدس سے
سدرۃ المنتہی تک
تیسرا::
سدرہ سے آگے یکتا و تنہا۔
واقعہ معراج کی اہمیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ جہاں ایک طرف ایمان والوں کے ایمان کو پختگی دینے کا باعث ہے کہ ہمارا رب ایسا رب ہے جو وہ کر سکتا ہے۔ جہاں انسانی سوچ جا بھی نہیں سکتی۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ روشنی کی رفتار سے سفر کرنا اس وقت جب ٹیکنالوجی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا ایک عام ذہن کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ اس بات نے ایمان والوں اور کفر والوں کے درمیان واضح لکیرقائم کر دی تھی۔ کوئی صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بن جاتا ہے اور کوئی دین سے پھر جاتا ہے۔
رسول اللہ کا ان کے لیے بنائی گئی کائنات کا مشاہدہ کرنے کے دوران ذکر کی جانے والی تمام باتیں معاشرتی بقاء کے لئے لازمی ہیں اور تمام صحتمند معاشرے ان عوامل کو لازمی عنصر سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
اٹھائیس فروری: آج معروف مرثیہ نگار نسیم امروہوی کا یوم وفات ہے
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
آپ تصور کرسکتے ہیں کہ چودہ صدیاں پہلے برق رفتار سفر اور ٹیکنالوجی بیس معاشرے کے قیام کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور حکمت قرآنی و دانش مندی کا رجحان و دانش پیش کرنا کیسے ممکن تھا۔ انسانوں کے لئے اپنے معروضی اور حالات کی روشنی میں، اس لئے مکہ و عرب اور اس وقت کے دینا میں بھی معراج و اسراء کا سفر ایک زندہ موضوع بن گیا تھا۔ مکہ مکرمہ کی چھوٹی سی وادی اور رسالت و شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایک چیلنج بھی_
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اس صورتحال کا جائزہ کتنے خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ معراج کا یہ واقعہ درحقیقت تاریخِ انسانی کے ان بڑے واقعات میں سے ہے۔ جنھوں نے زمانے کی رفتار کو بدل ڈالا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا_ اس کی حقیقی اہمیت کیفیت معراج میں نہیں بلکہ مقصد اور نتیجہ معراج میں ہے۔
وہ بطور مثال لکھتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ کرہ زمین جس پر ہم آپ رہتے ہیں۔ خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے_ اس صوبے میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئے ہیں۔ ان کی حیثیت کچھ اس طرح کی سمجھ لیجئے جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔ ایک لحاظ سے دونوں میں بڑا بھاری فرق ہے۔ دینوی حکومتوں کے گورنر اور وائسراۓ محض انتظام ملکی کے لئے مقرر کیے جاتے ہیں۔ سلطان کائنات کے گورنر اور وائسرائے اس لئے مقرر ہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب، پاکیزہ اخلاق اور سچے علم و عمل کے وہ اصول بتائیں۔ جو روشنی کے مینار کی طرح انسانی زندگی کی شاہراؤں پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے رہیں_ مگر اس کے باوجود دونوں میں ایک طرح کی مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔
دنیا کی حکومتیں گورنری جیسے ذمہ داری کے منصب انہیں لوگوں کو دیتی ہیں جو ان کے معتمد علیہ ہوتے ہیں اور جب وہ انھیں اس منصب پر مقرر کرتی ہیں تو کو بتاتی ہیں کہ حکومت کا اندرونی نظام کس طرح کس پالیسی پر چل رہا ہے۔ ان کے سامنے اپنے وہ راز بے نقاب کردیتی ہیں جو عام رعایا پر ظاہر نہیں کئے جاتے_ ایسا ہی حال خدا کی سلطنت کا بھی ہے۔ وہاں بھی پیغمبری جیسے ذمہ داری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں۔ جو سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے۔ جب انھیں اس منصب پر مقرر کردیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور پر کائنات وہ اسرار ظاہر کئے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کئے جاتے _
مثال کے طور پر حضرت ابرہیم علیہ السلام کو آسمان اور زمین کے ملکوت یعنی اندرونی انتظام کا مشاہدہ کرایا گیا ( الاانعام آیت 75) ۔ یہ بھی آنکھوں سے دیکھایا گیا کہ خدا کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے ( البقرہ آیت نمبر 260)۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور پر جلوہ ربانی دکھایا گیا (الاعراف آیت 143)۔ ایک خاص بندے کے ساتھ کچھ مدت تک پھرایا گیا تاکہ اللہ کی مشیت کے تحت دینا کا انتظام جس طرح ہوتا ہے اس کو دیکھیں اور سمجھیں ( الکہف آیات 60 تا 82)۔
ایسے ہی کچھ تجربات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی تھے۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے مقرب فرشتے کو افق پر علانیہ دیکھتے ( التکویر 23)۔ کبھی وہ فرشتہ آپ ص سے قریب ہوتے ہوتے اس قدر قریب آجاتاہے کہ آپ ص کے اور اس کے درمیان دو کمانوں کے بقدر بلکہ اس سے بھی کم کچھ فاصلہ رہ جاتا( النجم 06 تا 09)۔ کبھی وہی فرشتہ آپ ص کو سدرہ المنتہیٰ یعنی عالم مادی کی آخری سرحد پر ملتا۔ وہاں آپ ص خدا کی عظیم الشان نشانیاں دیکھتے( النجم 13 تا 18)۔ لیکن معراج محض مشاہدہ و معائنہ تک محدود نہیں نہ تھی بلکہ اس سے بھی اونچے درجے کی چیز تھی_ اس کی مثال کچھ اس طرح کی سمجھیں جیسے اقتدار اعلیٰ اپنے مقرر کردہ حاکم کو کسی اہم موقع پر براہ راست دارالسلطنت میں بلا کر کسی کار خاص پر مامور کرتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہدایات دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح بارگاہ خداوندی میں طلب کیا گیا تھا کیونکہ عنقریب تحریک اسلامی ایک اہم موڑ مڑنے والی تھی اور اس موقع کی مناسبت سے آپ ص کو خاص ہدایات دینا مطلوب تھا_
احادیث مبارکہ میں سفر معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر دلچسپ اور معنی خیز تذکرے و مشاہدے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ جہاد والوں کی اہمیت کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ ایسے لوگوں کی صورت میں ہوتے ہیں جو ایسی کھیتی کاٹ رہے ہوتے ہیں جو جتنی کاٹتے ہیں اتنی بڑھتی جاتی ہے۔ نماز کے لئے نہ اٹھنے والوں،زبان سے فتنہ کھڑا کرنے والوں،دوسروں کے لیے زبان طعن دراز کرنے والوں،یتیم کا مال کھانے والے،سود خور اور حرام کھانے والےاور حرام کاموں کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کا تذکرہ کرنا۔ یقینا یہ غیر معمولی اہمیت کی حامل باتیں تھیں جن کا اس اہم سفر کے دوران خصوصی طور پر مشاہدہ کرائے جانا یقینا کوئی معمولی امر نہیں ہے۔ آج کے معاشرے میں صدیوں بعد بھی یہ باتیں مضبوط معاشروں کے حصے بخرے کر دیتی ہیں۔
بہت سے اور امور کی بجائے یہ باتیں بیان کرنا جن کا تعلق صرف اور صرف انسانوں کے درمیان تعلقات حقوق و فرائض اور انسانی شعور اور کردار سے ہے اس عظیم سفر معراج کے انسانی پہلو کی عکاسی کرتے ہیں۔ پھرآگے بڑھیں تو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار کی بلندی اور انفرادیت کی ایک اور تصویر واضح نظر آتی ہے۔ جب حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کو اس سفر کی روداد سنانے سے روکتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ضرور بیان کروں گا۔ آج تو بطور مسلم لمحہ فخر ہے کہ ہم پر اس رب کا احسان عظیم ہے کہ ہم اس نبی کے امتی ہیں جو ہمیشہ باطل کے سامنے ڈٹ جاتا ہے وہ میدان جنگ ہو یا ٹیبل ٹاک عقل و دانش کا عظیم مظاہرہ اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ہر ادا ہر ہر عمل سے جھلکتا ہے۔
لمحہ موجود میں حکمت قرآنی و دانش مندی کا احیاء و تجدید اسی نبی روئیے سے ہی ممکن ہے۔ سفر معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تفصیلات کھلی آنکھوں اور دانا و بینا دماغ کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مفید اور تعمیری ماحول تشکیل دیا جاسکے۔ برقی ذرائع ابلاغ و تفریح کے ساتھ ساتھ تہذیبی ارتقاء اور مستقبل گیری و مستقبل بینی کے لئے نئے عمرانی شعور و آگہی حاصل کرنے کا مثبت و ثمر بار سفر انسانوں کی بھلائی و عافیت کے لئے آغاز ہوسکے۔
سورة بنی اسرائیل میں مالک ارض و سماء ٹیکنالوجی بیس معاشرے کی تشکیل و تعبیر نو کی بات کرتے ہوئے معراج و برق رفتار سفر کی بات کرتے ہیں –
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾
,,پاک ہے وہ ذات مبارکہ یعنی اللہ تعالٰی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔ جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں۔ یقیناً اللہ تعالٰی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے ۔
معراج کا لفظ عروج سے نکلا ہے۔ عربی میں معراج کا مطلب اوپر چڑھنے کی چیز یا سیڑھی ہے۔ اسراء سے مراد رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس تک لے جانا ہے۔ معراج سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
قصہ گوئی انسانی زندگی میں ہمیشہ سے اہم رہی ہے۔ زندگی میں ہم بے شمار کہانیاں پڑھتے اور سنتے ہیں۔ وہ کہانیاں ہمارے کردار پر اثر انداز ہوکر ہماری شخصیت کی تشکیل کر رہی ہوتی ہیں ۔
رب تعالی نے انسانی مزاج میں رکھی جانے والی اسی خصوصیت کے باعث قرآن مجید میں بہت سے خوبصورت قصے بیان فرمائے ہیں۔ جن میں سے ایک اور خوبصورت حقیقی واقعہ معراج ہے۔ اس واقعہ کا ذکر سورۃ النجم اورسورۃ بنی اسرائیل میں موجود ہے۔
معجزہ ایک ازلی صداقت کا نام ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو عقل انسانی کی پرواز سے مطلق بالا تر ہے۔ جہاں عقل کی حیثیت مجبور محض کی ہے۔ دنیا نے اس نظریہ اضافیت کو بہت بعد میں دریافت کیا۔ جب روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے نتائج کا مفروضہ اور نظریہ قائم کیا گیا۔
تو معنی والنجم نہ سمجھا
تو عجب کیا
ہے تیرا مدوجذر ابھی
چاند کا محتاج ،
معراج کے سفر کے تین
مراحل قرآن و حدیث میں ملتے ہیں :
پہلا ::
بیت الحرام سے
بیت المقدس تک،
دوسرا ::
بیت المقدس سے
سدرۃ المنتہی تک
تیسرا::
سدرہ سے آگے یکتا و تنہا۔
واقعہ معراج کی اہمیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ جہاں ایک طرف ایمان والوں کے ایمان کو پختگی دینے کا باعث ہے کہ ہمارا رب ایسا رب ہے جو وہ کر سکتا ہے۔ جہاں انسانی سوچ جا بھی نہیں سکتی۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ روشنی کی رفتار سے سفر کرنا اس وقت جب ٹیکنالوجی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا ایک عام ذہن کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ اس بات نے ایمان والوں اور کفر والوں کے درمیان واضح لکیرقائم کر دی تھی۔ کوئی صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بن جاتا ہے اور کوئی دین سے پھر جاتا ہے۔
رسول اللہ کا ان کے لیے بنائی گئی کائنات کا مشاہدہ کرنے کے دوران ذکر کی جانے والی تمام باتیں معاشرتی بقاء کے لئے لازمی ہیں اور تمام صحتمند معاشرے ان عوامل کو لازمی عنصر سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
اٹھائیس فروری: آج معروف مرثیہ نگار نسیم امروہوی کا یوم وفات ہے
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
آپ تصور کرسکتے ہیں کہ چودہ صدیاں پہلے برق رفتار سفر اور ٹیکنالوجی بیس معاشرے کے قیام کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور حکمت قرآنی و دانش مندی کا رجحان و دانش پیش کرنا کیسے ممکن تھا۔ انسانوں کے لئے اپنے معروضی اور حالات کی روشنی میں، اس لئے مکہ و عرب اور اس وقت کے دینا میں بھی معراج و اسراء کا سفر ایک زندہ موضوع بن گیا تھا۔ مکہ مکرمہ کی چھوٹی سی وادی اور رسالت و شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایک چیلنج بھی_
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اس صورتحال کا جائزہ کتنے خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ معراج کا یہ واقعہ درحقیقت تاریخِ انسانی کے ان بڑے واقعات میں سے ہے۔ جنھوں نے زمانے کی رفتار کو بدل ڈالا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا_ اس کی حقیقی اہمیت کیفیت معراج میں نہیں بلکہ مقصد اور نتیجہ معراج میں ہے۔
وہ بطور مثال لکھتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ کرہ زمین جس پر ہم آپ رہتے ہیں۔ خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے_ اس صوبے میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئے ہیں۔ ان کی حیثیت کچھ اس طرح کی سمجھ لیجئے جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔ ایک لحاظ سے دونوں میں بڑا بھاری فرق ہے۔ دینوی حکومتوں کے گورنر اور وائسراۓ محض انتظام ملکی کے لئے مقرر کیے جاتے ہیں۔ سلطان کائنات کے گورنر اور وائسرائے اس لئے مقرر ہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب، پاکیزہ اخلاق اور سچے علم و عمل کے وہ اصول بتائیں۔ جو روشنی کے مینار کی طرح انسانی زندگی کی شاہراؤں پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے رہیں_ مگر اس کے باوجود دونوں میں ایک طرح کی مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔
دنیا کی حکومتیں گورنری جیسے ذمہ داری کے منصب انہیں لوگوں کو دیتی ہیں جو ان کے معتمد علیہ ہوتے ہیں اور جب وہ انھیں اس منصب پر مقرر کرتی ہیں تو کو بتاتی ہیں کہ حکومت کا اندرونی نظام کس طرح کس پالیسی پر چل رہا ہے۔ ان کے سامنے اپنے وہ راز بے نقاب کردیتی ہیں جو عام رعایا پر ظاہر نہیں کئے جاتے_ ایسا ہی حال خدا کی سلطنت کا بھی ہے۔ وہاں بھی پیغمبری جیسے ذمہ داری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں۔ جو سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے۔ جب انھیں اس منصب پر مقرر کردیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور پر کائنات وہ اسرار ظاہر کئے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کئے جاتے _
مثال کے طور پر حضرت ابرہیم علیہ السلام کو آسمان اور زمین کے ملکوت یعنی اندرونی انتظام کا مشاہدہ کرایا گیا ( الاانعام آیت 75) ۔ یہ بھی آنکھوں سے دیکھایا گیا کہ خدا کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے ( البقرہ آیت نمبر 260)۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور پر جلوہ ربانی دکھایا گیا (الاعراف آیت 143)۔ ایک خاص بندے کے ساتھ کچھ مدت تک پھرایا گیا تاکہ اللہ کی مشیت کے تحت دینا کا انتظام جس طرح ہوتا ہے اس کو دیکھیں اور سمجھیں ( الکہف آیات 60 تا 82)۔
ایسے ہی کچھ تجربات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی تھے۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے مقرب فرشتے کو افق پر علانیہ دیکھتے ( التکویر 23)۔ کبھی وہ فرشتہ آپ ص سے قریب ہوتے ہوتے اس قدر قریب آجاتاہے کہ آپ ص کے اور اس کے درمیان دو کمانوں کے بقدر بلکہ اس سے بھی کم کچھ فاصلہ رہ جاتا( النجم 06 تا 09)۔ کبھی وہی فرشتہ آپ ص کو سدرہ المنتہیٰ یعنی عالم مادی کی آخری سرحد پر ملتا۔ وہاں آپ ص خدا کی عظیم الشان نشانیاں دیکھتے( النجم 13 تا 18)۔ لیکن معراج محض مشاہدہ و معائنہ تک محدود نہیں نہ تھی بلکہ اس سے بھی اونچے درجے کی چیز تھی_ اس کی مثال کچھ اس طرح کی سمجھیں جیسے اقتدار اعلیٰ اپنے مقرر کردہ حاکم کو کسی اہم موقع پر براہ راست دارالسلطنت میں بلا کر کسی کار خاص پر مامور کرتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہدایات دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح بارگاہ خداوندی میں طلب کیا گیا تھا کیونکہ عنقریب تحریک اسلامی ایک اہم موڑ مڑنے والی تھی اور اس موقع کی مناسبت سے آپ ص کو خاص ہدایات دینا مطلوب تھا_
احادیث مبارکہ میں سفر معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر دلچسپ اور معنی خیز تذکرے و مشاہدے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ جہاد والوں کی اہمیت کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ ایسے لوگوں کی صورت میں ہوتے ہیں جو ایسی کھیتی کاٹ رہے ہوتے ہیں جو جتنی کاٹتے ہیں اتنی بڑھتی جاتی ہے۔ نماز کے لئے نہ اٹھنے والوں،زبان سے فتنہ کھڑا کرنے والوں،دوسروں کے لیے زبان طعن دراز کرنے والوں،یتیم کا مال کھانے والے،سود خور اور حرام کھانے والےاور حرام کاموں کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کا تذکرہ کرنا۔ یقینا یہ غیر معمولی اہمیت کی حامل باتیں تھیں جن کا اس اہم سفر کے دوران خصوصی طور پر مشاہدہ کرائے جانا یقینا کوئی معمولی امر نہیں ہے۔ آج کے معاشرے میں صدیوں بعد بھی یہ باتیں مضبوط معاشروں کے حصے بخرے کر دیتی ہیں۔
بہت سے اور امور کی بجائے یہ باتیں بیان کرنا جن کا تعلق صرف اور صرف انسانوں کے درمیان تعلقات حقوق و فرائض اور انسانی شعور اور کردار سے ہے اس عظیم سفر معراج کے انسانی پہلو کی عکاسی کرتے ہیں۔ پھرآگے بڑھیں تو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار کی بلندی اور انفرادیت کی ایک اور تصویر واضح نظر آتی ہے۔ جب حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کو اس سفر کی روداد سنانے سے روکتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ضرور بیان کروں گا۔ آج تو بطور مسلم لمحہ فخر ہے کہ ہم پر اس رب کا احسان عظیم ہے کہ ہم اس نبی کے امتی ہیں جو ہمیشہ باطل کے سامنے ڈٹ جاتا ہے وہ میدان جنگ ہو یا ٹیبل ٹاک عقل و دانش کا عظیم مظاہرہ اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ہر ادا ہر ہر عمل سے جھلکتا ہے۔
لمحہ موجود میں حکمت قرآنی و دانش مندی کا احیاء و تجدید اسی نبی روئیے سے ہی ممکن ہے۔ سفر معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تفصیلات کھلی آنکھوں اور دانا و بینا دماغ کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مفید اور تعمیری ماحول تشکیل دیا جاسکے۔ برقی ذرائع ابلاغ و تفریح کے ساتھ ساتھ تہذیبی ارتقاء اور مستقبل گیری و مستقبل بینی کے لئے نئے عمرانی شعور و آگہی حاصل کرنے کا مثبت و ثمر بار سفر انسانوں کی بھلائی و عافیت کے لئے آغاز ہوسکے۔
سورة بنی اسرائیل میں مالک ارض و سماء ٹیکنالوجی بیس معاشرے کی تشکیل و تعبیر نو کی بات کرتے ہوئے معراج و برق رفتار سفر کی بات کرتے ہیں –
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾
,,پاک ہے وہ ذات مبارکہ یعنی اللہ تعالٰی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔ جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں۔ یقیناً اللہ تعالٰی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے ۔
معراج کا لفظ عروج سے نکلا ہے۔ عربی میں معراج کا مطلب اوپر چڑھنے کی چیز یا سیڑھی ہے۔ اسراء سے مراد رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس تک لے جانا ہے۔ معراج سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
قصہ گوئی انسانی زندگی میں ہمیشہ سے اہم رہی ہے۔ زندگی میں ہم بے شمار کہانیاں پڑھتے اور سنتے ہیں۔ وہ کہانیاں ہمارے کردار پر اثر انداز ہوکر ہماری شخصیت کی تشکیل کر رہی ہوتی ہیں ۔
رب تعالی نے انسانی مزاج میں رکھی جانے والی اسی خصوصیت کے باعث قرآن مجید میں بہت سے خوبصورت قصے بیان فرمائے ہیں۔ جن میں سے ایک اور خوبصورت حقیقی واقعہ معراج ہے۔ اس واقعہ کا ذکر سورۃ النجم اورسورۃ بنی اسرائیل میں موجود ہے۔
معجزہ ایک ازلی صداقت کا نام ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو عقل انسانی کی پرواز سے مطلق بالا تر ہے۔ جہاں عقل کی حیثیت مجبور محض کی ہے۔ دنیا نے اس نظریہ اضافیت کو بہت بعد میں دریافت کیا۔ جب روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے نتائج کا مفروضہ اور نظریہ قائم کیا گیا۔
تو معنی والنجم نہ سمجھا
تو عجب کیا
ہے تیرا مدوجذر ابھی
چاند کا محتاج ،
معراج کے سفر کے تین
مراحل قرآن و حدیث میں ملتے ہیں :
پہلا ::
بیت الحرام سے
بیت المقدس تک،
دوسرا ::
بیت المقدس سے
سدرۃ المنتہی تک
تیسرا::
سدرہ سے آگے یکتا و تنہا۔
واقعہ معراج کی اہمیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ جہاں ایک طرف ایمان والوں کے ایمان کو پختگی دینے کا باعث ہے کہ ہمارا رب ایسا رب ہے جو وہ کر سکتا ہے۔ جہاں انسانی سوچ جا بھی نہیں سکتی۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ روشنی کی رفتار سے سفر کرنا اس وقت جب ٹیکنالوجی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا ایک عام ذہن کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ اس بات نے ایمان والوں اور کفر والوں کے درمیان واضح لکیرقائم کر دی تھی۔ کوئی صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بن جاتا ہے اور کوئی دین سے پھر جاتا ہے۔
رسول اللہ کا ان کے لیے بنائی گئی کائنات کا مشاہدہ کرنے کے دوران ذکر کی جانے والی تمام باتیں معاشرتی بقاء کے لئے لازمی ہیں اور تمام صحتمند معاشرے ان عوامل کو لازمی عنصر سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
اٹھائیس فروری: آج معروف مرثیہ نگار نسیم امروہوی کا یوم وفات ہے
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
آپ تصور کرسکتے ہیں کہ چودہ صدیاں پہلے برق رفتار سفر اور ٹیکنالوجی بیس معاشرے کے قیام کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور حکمت قرآنی و دانش مندی کا رجحان و دانش پیش کرنا کیسے ممکن تھا۔ انسانوں کے لئے اپنے معروضی اور حالات کی روشنی میں، اس لئے مکہ و عرب اور اس وقت کے دینا میں بھی معراج و اسراء کا سفر ایک زندہ موضوع بن گیا تھا۔ مکہ مکرمہ کی چھوٹی سی وادی اور رسالت و شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایک چیلنج بھی_
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اس صورتحال کا جائزہ کتنے خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ معراج کا یہ واقعہ درحقیقت تاریخِ انسانی کے ان بڑے واقعات میں سے ہے۔ جنھوں نے زمانے کی رفتار کو بدل ڈالا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا_ اس کی حقیقی اہمیت کیفیت معراج میں نہیں بلکہ مقصد اور نتیجہ معراج میں ہے۔
وہ بطور مثال لکھتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ کرہ زمین جس پر ہم آپ رہتے ہیں۔ خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے_ اس صوبے میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئے ہیں۔ ان کی حیثیت کچھ اس طرح کی سمجھ لیجئے جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔ ایک لحاظ سے دونوں میں بڑا بھاری فرق ہے۔ دینوی حکومتوں کے گورنر اور وائسراۓ محض انتظام ملکی کے لئے مقرر کیے جاتے ہیں۔ سلطان کائنات کے گورنر اور وائسرائے اس لئے مقرر ہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب، پاکیزہ اخلاق اور سچے علم و عمل کے وہ اصول بتائیں۔ جو روشنی کے مینار کی طرح انسانی زندگی کی شاہراؤں پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے رہیں_ مگر اس کے باوجود دونوں میں ایک طرح کی مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔
دنیا کی حکومتیں گورنری جیسے ذمہ داری کے منصب انہیں لوگوں کو دیتی ہیں جو ان کے معتمد علیہ ہوتے ہیں اور جب وہ انھیں اس منصب پر مقرر کرتی ہیں تو کو بتاتی ہیں کہ حکومت کا اندرونی نظام کس طرح کس پالیسی پر چل رہا ہے۔ ان کے سامنے اپنے وہ راز بے نقاب کردیتی ہیں جو عام رعایا پر ظاہر نہیں کئے جاتے_ ایسا ہی حال خدا کی سلطنت کا بھی ہے۔ وہاں بھی پیغمبری جیسے ذمہ داری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں۔ جو سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے۔ جب انھیں اس منصب پر مقرر کردیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور پر کائنات وہ اسرار ظاہر کئے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کئے جاتے _
مثال کے طور پر حضرت ابرہیم علیہ السلام کو آسمان اور زمین کے ملکوت یعنی اندرونی انتظام کا مشاہدہ کرایا گیا ( الاانعام آیت 75) ۔ یہ بھی آنکھوں سے دیکھایا گیا کہ خدا کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے ( البقرہ آیت نمبر 260)۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور پر جلوہ ربانی دکھایا گیا (الاعراف آیت 143)۔ ایک خاص بندے کے ساتھ کچھ مدت تک پھرایا گیا تاکہ اللہ کی مشیت کے تحت دینا کا انتظام جس طرح ہوتا ہے اس کو دیکھیں اور سمجھیں ( الکہف آیات 60 تا 82)۔
ایسے ہی کچھ تجربات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی تھے۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے مقرب فرشتے کو افق پر علانیہ دیکھتے ( التکویر 23)۔ کبھی وہ فرشتہ آپ ص سے قریب ہوتے ہوتے اس قدر قریب آجاتاہے کہ آپ ص کے اور اس کے درمیان دو کمانوں کے بقدر بلکہ اس سے بھی کم کچھ فاصلہ رہ جاتا( النجم 06 تا 09)۔ کبھی وہی فرشتہ آپ ص کو سدرہ المنتہیٰ یعنی عالم مادی کی آخری سرحد پر ملتا۔ وہاں آپ ص خدا کی عظیم الشان نشانیاں دیکھتے( النجم 13 تا 18)۔ لیکن معراج محض مشاہدہ و معائنہ تک محدود نہیں نہ تھی بلکہ اس سے بھی اونچے درجے کی چیز تھی_ اس کی مثال کچھ اس طرح کی سمجھیں جیسے اقتدار اعلیٰ اپنے مقرر کردہ حاکم کو کسی اہم موقع پر براہ راست دارالسلطنت میں بلا کر کسی کار خاص پر مامور کرتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہدایات دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح بارگاہ خداوندی میں طلب کیا گیا تھا کیونکہ عنقریب تحریک اسلامی ایک اہم موڑ مڑنے والی تھی اور اس موقع کی مناسبت سے آپ ص کو خاص ہدایات دینا مطلوب تھا_
احادیث مبارکہ میں سفر معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر دلچسپ اور معنی خیز تذکرے و مشاہدے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ جہاد والوں کی اہمیت کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ ایسے لوگوں کی صورت میں ہوتے ہیں جو ایسی کھیتی کاٹ رہے ہوتے ہیں جو جتنی کاٹتے ہیں اتنی بڑھتی جاتی ہے۔ نماز کے لئے نہ اٹھنے والوں،زبان سے فتنہ کھڑا کرنے والوں،دوسروں کے لیے زبان طعن دراز کرنے والوں،یتیم کا مال کھانے والے،سود خور اور حرام کھانے والےاور حرام کاموں کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کا تذکرہ کرنا۔ یقینا یہ غیر معمولی اہمیت کی حامل باتیں تھیں جن کا اس اہم سفر کے دوران خصوصی طور پر مشاہدہ کرائے جانا یقینا کوئی معمولی امر نہیں ہے۔ آج کے معاشرے میں صدیوں بعد بھی یہ باتیں مضبوط معاشروں کے حصے بخرے کر دیتی ہیں۔
بہت سے اور امور کی بجائے یہ باتیں بیان کرنا جن کا تعلق صرف اور صرف انسانوں کے درمیان تعلقات حقوق و فرائض اور انسانی شعور اور کردار سے ہے اس عظیم سفر معراج کے انسانی پہلو کی عکاسی کرتے ہیں۔ پھرآگے بڑھیں تو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار کی بلندی اور انفرادیت کی ایک اور تصویر واضح نظر آتی ہے۔ جب حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کو اس سفر کی روداد سنانے سے روکتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ضرور بیان کروں گا۔ آج تو بطور مسلم لمحہ فخر ہے کہ ہم پر اس رب کا احسان عظیم ہے کہ ہم اس نبی کے امتی ہیں جو ہمیشہ باطل کے سامنے ڈٹ جاتا ہے وہ میدان جنگ ہو یا ٹیبل ٹاک عقل و دانش کا عظیم مظاہرہ اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ہر ادا ہر ہر عمل سے جھلکتا ہے۔
لمحہ موجود میں حکمت قرآنی و دانش مندی کا احیاء و تجدید اسی نبی روئیے سے ہی ممکن ہے۔ سفر معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تفصیلات کھلی آنکھوں اور دانا و بینا دماغ کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مفید اور تعمیری ماحول تشکیل دیا جاسکے۔ برقی ذرائع ابلاغ و تفریح کے ساتھ ساتھ تہذیبی ارتقاء اور مستقبل گیری و مستقبل بینی کے لئے نئے عمرانی شعور و آگہی حاصل کرنے کا مثبت و ثمر بار سفر انسانوں کی بھلائی و عافیت کے لئے آغاز ہوسکے۔
سورة بنی اسرائیل میں مالک ارض و سماء ٹیکنالوجی بیس معاشرے کی تشکیل و تعبیر نو کی بات کرتے ہوئے معراج و برق رفتار سفر کی بات کرتے ہیں –
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾
,,پاک ہے وہ ذات مبارکہ یعنی اللہ تعالٰی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔ جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں۔ یقیناً اللہ تعالٰی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے ۔
معراج کا لفظ عروج سے نکلا ہے۔ عربی میں معراج کا مطلب اوپر چڑھنے کی چیز یا سیڑھی ہے۔ اسراء سے مراد رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس تک لے جانا ہے۔ معراج سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
قصہ گوئی انسانی زندگی میں ہمیشہ سے اہم رہی ہے۔ زندگی میں ہم بے شمار کہانیاں پڑھتے اور سنتے ہیں۔ وہ کہانیاں ہمارے کردار پر اثر انداز ہوکر ہماری شخصیت کی تشکیل کر رہی ہوتی ہیں ۔
رب تعالی نے انسانی مزاج میں رکھی جانے والی اسی خصوصیت کے باعث قرآن مجید میں بہت سے خوبصورت قصے بیان فرمائے ہیں۔ جن میں سے ایک اور خوبصورت حقیقی واقعہ معراج ہے۔ اس واقعہ کا ذکر سورۃ النجم اورسورۃ بنی اسرائیل میں موجود ہے۔
معجزہ ایک ازلی صداقت کا نام ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو عقل انسانی کی پرواز سے مطلق بالا تر ہے۔ جہاں عقل کی حیثیت مجبور محض کی ہے۔ دنیا نے اس نظریہ اضافیت کو بہت بعد میں دریافت کیا۔ جب روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے نتائج کا مفروضہ اور نظریہ قائم کیا گیا۔
تو معنی والنجم نہ سمجھا
تو عجب کیا
ہے تیرا مدوجذر ابھی
چاند کا محتاج ،
معراج کے سفر کے تین
مراحل قرآن و حدیث میں ملتے ہیں :
پہلا ::
بیت الحرام سے
بیت المقدس تک،
دوسرا ::
بیت المقدس سے
سدرۃ المنتہی تک
تیسرا::
سدرہ سے آگے یکتا و تنہا۔
واقعہ معراج کی اہمیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ جہاں ایک طرف ایمان والوں کے ایمان کو پختگی دینے کا باعث ہے کہ ہمارا رب ایسا رب ہے جو وہ کر سکتا ہے۔ جہاں انسانی سوچ جا بھی نہیں سکتی۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ روشنی کی رفتار سے سفر کرنا اس وقت جب ٹیکنالوجی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا ایک عام ذہن کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ اس بات نے ایمان والوں اور کفر والوں کے درمیان واضح لکیرقائم کر دی تھی۔ کوئی صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بن جاتا ہے اور کوئی دین سے پھر جاتا ہے۔
رسول اللہ کا ان کے لیے بنائی گئی کائنات کا مشاہدہ کرنے کے دوران ذکر کی جانے والی تمام باتیں معاشرتی بقاء کے لئے لازمی ہیں اور تمام صحتمند معاشرے ان عوامل کو لازمی عنصر سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
اٹھائیس فروری: آج معروف مرثیہ نگار نسیم امروہوی کا یوم وفات ہے
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
آپ تصور کرسکتے ہیں کہ چودہ صدیاں پہلے برق رفتار سفر اور ٹیکنالوجی بیس معاشرے کے قیام کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور حکمت قرآنی و دانش مندی کا رجحان و دانش پیش کرنا کیسے ممکن تھا۔ انسانوں کے لئے اپنے معروضی اور حالات کی روشنی میں، اس لئے مکہ و عرب اور اس وقت کے دینا میں بھی معراج و اسراء کا سفر ایک زندہ موضوع بن گیا تھا۔ مکہ مکرمہ کی چھوٹی سی وادی اور رسالت و شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایک چیلنج بھی_
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اس صورتحال کا جائزہ کتنے خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ معراج کا یہ واقعہ درحقیقت تاریخِ انسانی کے ان بڑے واقعات میں سے ہے۔ جنھوں نے زمانے کی رفتار کو بدل ڈالا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا_ اس کی حقیقی اہمیت کیفیت معراج میں نہیں بلکہ مقصد اور نتیجہ معراج میں ہے۔
وہ بطور مثال لکھتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ کرہ زمین جس پر ہم آپ رہتے ہیں۔ خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے_ اس صوبے میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئے ہیں۔ ان کی حیثیت کچھ اس طرح کی سمجھ لیجئے جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔ ایک لحاظ سے دونوں میں بڑا بھاری فرق ہے۔ دینوی حکومتوں کے گورنر اور وائسراۓ محض انتظام ملکی کے لئے مقرر کیے جاتے ہیں۔ سلطان کائنات کے گورنر اور وائسرائے اس لئے مقرر ہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب، پاکیزہ اخلاق اور سچے علم و عمل کے وہ اصول بتائیں۔ جو روشنی کے مینار کی طرح انسانی زندگی کی شاہراؤں پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے رہیں_ مگر اس کے باوجود دونوں میں ایک طرح کی مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔
دنیا کی حکومتیں گورنری جیسے ذمہ داری کے منصب انہیں لوگوں کو دیتی ہیں جو ان کے معتمد علیہ ہوتے ہیں اور جب وہ انھیں اس منصب پر مقرر کرتی ہیں تو کو بتاتی ہیں کہ حکومت کا اندرونی نظام کس طرح کس پالیسی پر چل رہا ہے۔ ان کے سامنے اپنے وہ راز بے نقاب کردیتی ہیں جو عام رعایا پر ظاہر نہیں کئے جاتے_ ایسا ہی حال خدا کی سلطنت کا بھی ہے۔ وہاں بھی پیغمبری جیسے ذمہ داری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں۔ جو سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے۔ جب انھیں اس منصب پر مقرر کردیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور پر کائنات وہ اسرار ظاہر کئے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کئے جاتے _
مثال کے طور پر حضرت ابرہیم علیہ السلام کو آسمان اور زمین کے ملکوت یعنی اندرونی انتظام کا مشاہدہ کرایا گیا ( الاانعام آیت 75) ۔ یہ بھی آنکھوں سے دیکھایا گیا کہ خدا کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے ( البقرہ آیت نمبر 260)۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور پر جلوہ ربانی دکھایا گیا (الاعراف آیت 143)۔ ایک خاص بندے کے ساتھ کچھ مدت تک پھرایا گیا تاکہ اللہ کی مشیت کے تحت دینا کا انتظام جس طرح ہوتا ہے اس کو دیکھیں اور سمجھیں ( الکہف آیات 60 تا 82)۔
ایسے ہی کچھ تجربات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی تھے۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے مقرب فرشتے کو افق پر علانیہ دیکھتے ( التکویر 23)۔ کبھی وہ فرشتہ آپ ص سے قریب ہوتے ہوتے اس قدر قریب آجاتاہے کہ آپ ص کے اور اس کے درمیان دو کمانوں کے بقدر بلکہ اس سے بھی کم کچھ فاصلہ رہ جاتا( النجم 06 تا 09)۔ کبھی وہی فرشتہ آپ ص کو سدرہ المنتہیٰ یعنی عالم مادی کی آخری سرحد پر ملتا۔ وہاں آپ ص خدا کی عظیم الشان نشانیاں دیکھتے( النجم 13 تا 18)۔ لیکن معراج محض مشاہدہ و معائنہ تک محدود نہیں نہ تھی بلکہ اس سے بھی اونچے درجے کی چیز تھی_ اس کی مثال کچھ اس طرح کی سمجھیں جیسے اقتدار اعلیٰ اپنے مقرر کردہ حاکم کو کسی اہم موقع پر براہ راست دارالسلطنت میں بلا کر کسی کار خاص پر مامور کرتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہدایات دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح بارگاہ خداوندی میں طلب کیا گیا تھا کیونکہ عنقریب تحریک اسلامی ایک اہم موڑ مڑنے والی تھی اور اس موقع کی مناسبت سے آپ ص کو خاص ہدایات دینا مطلوب تھا_
احادیث مبارکہ میں سفر معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر دلچسپ اور معنی خیز تذکرے و مشاہدے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ جہاد والوں کی اہمیت کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ ایسے لوگوں کی صورت میں ہوتے ہیں جو ایسی کھیتی کاٹ رہے ہوتے ہیں جو جتنی کاٹتے ہیں اتنی بڑھتی جاتی ہے۔ نماز کے لئے نہ اٹھنے والوں،زبان سے فتنہ کھڑا کرنے والوں،دوسروں کے لیے زبان طعن دراز کرنے والوں،یتیم کا مال کھانے والے،سود خور اور حرام کھانے والےاور حرام کاموں کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کا تذکرہ کرنا۔ یقینا یہ غیر معمولی اہمیت کی حامل باتیں تھیں جن کا اس اہم سفر کے دوران خصوصی طور پر مشاہدہ کرائے جانا یقینا کوئی معمولی امر نہیں ہے۔ آج کے معاشرے میں صدیوں بعد بھی یہ باتیں مضبوط معاشروں کے حصے بخرے کر دیتی ہیں۔
بہت سے اور امور کی بجائے یہ باتیں بیان کرنا جن کا تعلق صرف اور صرف انسانوں کے درمیان تعلقات حقوق و فرائض اور انسانی شعور اور کردار سے ہے اس عظیم سفر معراج کے انسانی پہلو کی عکاسی کرتے ہیں۔ پھرآگے بڑھیں تو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار کی بلندی اور انفرادیت کی ایک اور تصویر واضح نظر آتی ہے۔ جب حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کو اس سفر کی روداد سنانے سے روکتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ضرور بیان کروں گا۔ آج تو بطور مسلم لمحہ فخر ہے کہ ہم پر اس رب کا احسان عظیم ہے کہ ہم اس نبی کے امتی ہیں جو ہمیشہ باطل کے سامنے ڈٹ جاتا ہے وہ میدان جنگ ہو یا ٹیبل ٹاک عقل و دانش کا عظیم مظاہرہ اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ہر ادا ہر ہر عمل سے جھلکتا ہے۔
لمحہ موجود میں حکمت قرآنی و دانش مندی کا احیاء و تجدید اسی نبی روئیے سے ہی ممکن ہے۔ سفر معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تفصیلات کھلی آنکھوں اور دانا و بینا دماغ کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مفید اور تعمیری ماحول تشکیل دیا جاسکے۔ برقی ذرائع ابلاغ و تفریح کے ساتھ ساتھ تہذیبی ارتقاء اور مستقبل گیری و مستقبل بینی کے لئے نئے عمرانی شعور و آگہی حاصل کرنے کا مثبت و ثمر بار سفر انسانوں کی بھلائی و عافیت کے لئے آغاز ہوسکے۔