انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری زندگی میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افادی و عصری اہمیت اور آج کے لائف سٹائل میں اسوہ حسنہ کی موجودگی کتنے فیصد ہے؟ اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاملات زندگی میں کیا اہمیت رکھتی ہے؟؟ آئیے آج ہم اپنی شخصیات اور معاشرے کے اس پہلو کو کھنگالتے ہیں ۔کیا ہم امتی ہونے پر صرف خوش قسمتی کا ڈھنڈورا ہی پیٹتے نظر آتے ہیں یا واقعی اس نعمت عظمیٰ کی اہمیت کا احساس رکھتے ہیں۔ 21 ویں صدی کے معروف مصنف و دانش ور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان لکھتے ہیں:
,, بحثیت امت ہماری پہچان محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں_
بحثیت مسلمان ہماری وفاداری محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے_
بحثیت محب ہمارا عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے_
بحثیت انسان ہمارا محرک ذات محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے_
عصر جدید کا انسان ہمارے اس نصب العین سے ناواقف ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا جدید کردار ہماری پہچان،ہماری وفاداری اور ہمارے عشق کا عکاس نہیں ہے اور ہمارے کردار کا عملی مظاہرہ دنیا کے معیار و میزان سے بہت پست ہے کیونکہ ہماری حرکت نصب العین سے عاری ہے_ امتی کہلانے والے موجودہ قومتی گروہ دینا کے معیار و میزان کی روشنی میں بے سمت و بے نتیجہ زندگی گزار رہے ہیں_ مسلمان جو کہلاتے ہیں بدقسمتی سے انھیں یہ معلوم نہیں کہ اسلام کیا ہے؟ عقائد و عبادات کو اسلام سمجھ لیا گیا ہے اور معاملات کو الگ کرلیا گیا ہے ایسی صورت میں نہ عقائد و عبادات سے کوئی نتیجہ آرہا ہے اور نہ معاملات سے_
ہمارے عقیدے کی راہ گزر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں_
ہماری عبادت کی راہ گزر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں_
ہمارے معاملات کی راہ گزر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں_
سوال یہ ہے کہ آج کا انسان فطرت اور عصر قدیم و جدید کے تقاضوں سے مختلف زندگی گزار رہا ہے لیکن اس زندگی کی آبیاری کے لیے جس نرم زمین کی ضرورت ہے وہ آج بھی ویسی ہی ہے جیسی 1400 سو سال پہلے چاہئے تھی۔جہالت سے اٹے اندھیرے دلوں کی روشنی کے لیے جو سامان درکار تھا آج بھی اسی نور کی ضرورت ہے ۔ہمارے ہاں یہ بنیادی نوعیت کا سوال موجود ہے کہ ہم نے نیکیوں کو مخصوص مہینوں سے مشروط کیوں کر رکھا ہے؟یعنی کہ عبادات اور کچھ معاملات کو رمضان سے،مخصوص تسبیحات کو ذوالحج سے،اہل بیت رسول اللہ کی محبت کو محرم سے اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ربیع الاول سے۔جیسے یہ الماری کے کچھ خانے ہوں ضرورت پڑنے پر کھول لیا اور ضرورت ختم ہونے پر واپس خانہ بند کر دیا۔
ایک طرح سے یہ اچھی مشق ہے تجدید عہد کی اور کئی لوگوں کے طرز عمل کو اس سے بدلتے بھی دیکھا ہے کہ ان مہینوں میں اپنائی جانے والی نیکیوں اور خیر کے اعمال کوعادات کا حصہ بنا لینے سے زندگی کا رخ ہی نیا موڑ اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن ایک طرح سے لمحہ فکریہ بھی ہے حدیث مبارکہ ہے کہ ” اللہ کو تھوڑا مگر مستقل عمل پسند ہے۔” عشق رسول کی تجدید کا یہ وقت بلکل بھی نامناسب نہیں لیکن باقی دنوں میں اس پریکٹس سے دور ہونا انتہائی قابل اعتراض و قابل مذمت ہے۔جب تک رسول اللہ ہر شے سے عزیز نہ ہو جائیں شعور نبوت ورسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی و دانش مندی عصری سوالات سے جوڑ نہ جائے ایمان کامل نہیں ہو سکتا ۔احکام الہی کی تشریح ہو،قوانین کا اجراء ہو، قرآن کی تقریر ہو ، یا اس کی تفسیر ہو،طرز تمدن ہو،دور معیشت ہو،یا طور سیاست ہو اگر دین الہی کی حدود میں آنا ہے تو عشق رسول کی چابی کو ساتھ لانا ہو گا اور اگر عشق رسول کو سمجھنا ہے تو صرف زبان کا اقرار کافی نہیں ہو گا صرف ایک مہینہ کی مناجات کافی نہیں ہوں گی بلکہ اپنی ہر سانس کے ساتھ اس احساس کو اپنی رگ رگ میں اجاگر کرنا ہو گا۔ہمارے معاشرے میں ہم نے لوگوں کو اس رویے کا شکار پایا ہے کہ ہم کونسا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام سنتوں پر عمل کرتے ہیں لیکن اس احساس کو مضبوط کرنا ہو گا کم از کم ایک سنت کو تو پورا کرتے ہیں ۔اللہ اور اس کے رسول کی طرف چھوٹے اور کمزور قدم ہماری آخرت سنوار دیں گے۔
ہو کی ضربیں تب ہی کارگر ہوں گی جب حق کی پہچان کا چینل درست ہوگا۔
دل پر ہی فقط موقوف نہیں ہر شے پہ تصرف ہے ان کا
کونین کا رخ پھر جاتا ہے جس دم وہ اشارہ کرتے ہیں_
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف ہماری شخصیات کس قدر مزین ہیں سیرت اور سنت رسول سے۔یہ موضوع ہمیں اصل موضوع سے جوڑتا ہے کہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں سماجیات کی تشکیل نو کیسے ہو گی؟کیونکہ انفرادی اعمال اجتماعی معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔
دور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک قصہ ہے کہ ایک شخص کھجوروں کے ایک باغ کا مالک تھا اس نے وصیت کی کہ اس کی موت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس باغ کو صدقہ کر دیں اور مدینہ کےغریبوں میں بانٹ دیں۔جب اس کی وصیت کے مطابق تمام کھجوریں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم کروا دیتے ہیں تو آخر میں جاتے ہوئے وہاں پر ایک کھجور جو کھانے کے قابل نہیں ہوتی فرش پر دیکھتے ہیں تو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اٹھا کر صحابہ کو فرماتے ہیں کہ اگر وہ شخص اپنی پوری زندگی میں صرف یہ بھی صدقہ کر دیتا تو اس سے زیادہ اجر و ثواب کا حقدار ٹھہرتا۔
یہی طرز و انداز ہماری زندگیوں اور معاشرتی رویوں و فیصلوں کے درمیان موجود ہیں جب تک میں زندہ ہوں ساری دولت میری ہے میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے کمایا ہے اور موت کے بعد ثواب کے لئے اسے مختلف کاموں کے لیے مختص کر دیتے ہیں۔پر اپنی زندگی میں کسی ضرورت مند کی ضرورت کو جاننے سے قاصر رہتے ہیں۔اپنی ترجیحا ت سے نکلنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔یہ معمولی رویے ہیں جو بہت سوں کو گمراہ کرتے ہیں اور ان پر قابو پانے کا درس دینے والے زیادہ اس طرح کے رویوں کا شکا ر نظر آتے ہیں ۔
سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں کہ یہی تو سبق مل رہا ہے کہ جس کی خاطر کونین کی تخلیق ہوئی اس کو اس دنیا کے سازوسامان سے نوازنا اس رب کے لیے کوئی مشکل امر تھا؟یقینا نہیں۔پھر وہ ہستی کیوں اس بےسروسامانی کا شکار نظر آتی ہے۔جہاں کئی دن چولہا نہیں جلتا ،کئی دن بنا کھائے روزہ رکھتے ہیں ،لباس پر پیوند لگے ہوتے ہیں،دنیا کے شہنشاہ ہیں مگر کوئی انداز سے محسوس نہیں کر سکتا۔ سیرت رسول کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے جو آج کے نوجوان کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنے میں مدد دے ۔مادیت پرستی کی جو بے جا ہوا چل پڑی ہے اس کے تباہ کن عناصر سے صرف رسول اللہ کے دامن کی پناہ ہی ہمیں بچا سکتی ہے۔آج کے دور میں صرف ان علوم کی طرف رغبت دلائی جاتی ہے جو انکم جنریٹ کرنے میں مدد دے سکیں، اخلاقیات کے بہت سے تانے بانے نئے سرے سے بنے جارہے ہیں جو انسانی ہوس اور لالچ کے دھاگوں سے جڑیں گے۔
تبدیلی ہر دور کا تقاضا ہے جو قومیں اس تقاضے کو پورا نہیں کرتی صفحہ ہستی سے غائب ہو جاتی ہیں ۔ان تقاضوں کی روشنی میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کونئی صورت دینی ہو گی۔علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی یہ خواہش تھی اور جو انہوں نے پوری بھی کی “میں چاہتا ہوں کہ ہر قسم کے مباحث سیرت میں آ جائیں یعنی تمام مہمات مسائل پر ریویو قرآن مجید پر پوری نظر غرض سیرت نہ ہو بلکہ انسائکلوپیڈیا ہو۔”
استاد محترم جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان نے 21 ویں صدی میں عصر جدید اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی و روشنی میں تحقیق و جستجو اور تخلیق و تدبیر کی نئی جہتیں متعارف کرانے کے لئے,,, مطالعہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ 21 ویں صدی میں،، بارہ قیمتی اور موثر لیکچرز دئیے ہیں جو قابل قدر اور لائق مطالعہ ہیں_ آج اس پیغام کو نئے معنی دینے ہوں گے۔ ریاست مدینہ کو اس کے اصل معنوں میں سمجھنا ہو گا تاکہ میں آپ اور ہم سب اس نبی بے مثال کے کردار اور افعال کی برکت سے فیض یاب ہو سکیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس تعلیم کو لے کر آئے ہیں اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انسان کی نجات دو چیزوں پر موقوف ہے ایک ایمان اور دوسری عمل صالح۔جہاں عمل کی کمی ہے اس کے بقدر ایمان میں بھی کمزوری ہے۔فلاح محض ذہنی عقیدہ اور ایمان سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ ہم عبادات میں جس قدر ڈسٹریکشن کا شکار ہیں اتنے ہی ہمارے معاملات خراب ہیں۔اس کی وجہ اپنے مرکز و محور سے دوری ہے جب تک عشق رسول کا طواف مکمل نہیں ہو گا انسانیت ادھوری رہے گی۔ اور ادھورے ایمان و عمل کے نتیجے میں انسانیت کی رہبری و دانش مندی کی منزل حاصل نہیں کر سکتے ۔اس لئے کمزور و ناتواں ہی صحیح لیکن ربیع الاول کے مہینے میں ایک بھرپور کوشش اور محنت شاقہ کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و فیصلوں کے نتیجے میں روایتی طریقہ مطالعہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اوپر اٹھ کر نئی دنیا کی ضروریات اور زندہ سوالات کے جوابات فراہم کرنے کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور منصفانہ سماجی شعور کی بیداری اور انسانوں کے درمیان مشترکات و اطمینان کے لئے نئے سرے سے تعمیر و ترقی اور خوشحالی و اطمینان کے لئے جستجو و دانش مندی کی آرزو مندی شروع کرسکیں۔