تحریک انصاف میں صلاحیت موجود ہے کہ غور و فکر اور سوچ و بچار کے بعد غلط فیصلہ کر سکے، بس یہ ہے کہ پچھلوں کی طرح اس پر کبھی غرور نہیں کیا، وہ کہتے ہیں ناں
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
گزشتہ دو سالوں میں یہ صلاحیت قدم قدم نظر ایسی نظر آِئی ہے کہ تبدیلی کا بھیانک خواب تعبیر بن چکا ہے ۔ اس کے باوجود یقین جانیں آج کل تحریک انصاف والوں پر رحم آ رہا ہے، پہلے دن تو آدھے رہنما ایک سی سی پی او کے بیان کا دفاع کرتے نظر آئے، ایک ایسے پولیس افسر کا جس نے پاکستان کی محفوظ ترین شاہراہ پر خاتون کی ساتھ المناک واقعے پر ظالمانہ تبصرہ فرمایا، پھر اس پر ڈھٹائی سے قائم بھی رہا، وفاق اور صوبہ اس کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ حتی کہ معاون خصوصی شہزاد اکبر نے تو موصوف کےساتھ مسکرا مسکرا کر وضاحتی پریس بریفنگ بھی کر ڈالی۔ اسد عمر جیسے سمجھدار انسان نے بھی عمر شیخ کے بیان کو محتاط انداز میں صرف غیر ضروری قرار دینے پر اکتفا کیا۔ صرف اتنا ہی نہیں اس کے بعد جب کامران خان جیسے محفوظ و مامون پروگرام میں وزیر اعلی پنجاب نے تین بار اسی سوال پر ایسے گھمبیر جوابات داغے کہ کامران خان جیسا اینکر بھی سوال دہرا دہرا کر گڑبڑا گیا، یعنی سوال گندم، جواب چنا، ایک بار نہیں تین تین بار، بس جناب یہیں سمجھ آ گیا کہ عمر شیخ کا معاملہ کچھ ایسا اوپر کا ہے جہاں وزیر اعلی اور سینئر ترین وزیر کے پر جلتے ہیں۔
بہرحال یہ تو طے ہو گیا کہ تحریک انصاف ایک بار پھر عوامی جذبات جانچنے میں قطعی ناکام رہی، غیر عوامی رہنمائوں کی بہتات میں ایسا ہونا کچھ عجب تو نہیں، ایک روز بعد جب پورا پاکستان پھٹ پڑا تو یہی شہزاد اکبر اسی بیان پر تین دن میں وضاحت طلب کرتے نظر آئے۔ آئی جی پنجاب نے بھی خاموشی توڑی، انہیں کہنا پڑا کہ چوکیدار یہ نہیں کہہ سکتا کہ اپنے سامان کی حفاظت خود کریں، ویسے بیچارے آئی جی کریں بھی تو کیا کریں، دو سال میں چھٹے سربراہ ہیں پولیس کے، اب ایک آدھ دن میں فارغ ہونے کا ریکارڈ بن جائے تو پولیس کی مزید سبکی کا خطرہ تھا، مگر جب پانی سر سے اونچا ہوتے دیکھا تو بولنا ہی پڑا۔ انعام غنی نے بیان تو دیدیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عتاب کا شکار کب ہوتے ہیں، کیونکہ جس کے خلاف وزیر اعلی اور سینئر وزیر زبان کھولنے پر تیار نہ ہوں تو معاملہ ہلکا تو نہیں ہو سکتا۔ بہرحال میڈیا پہلے ہی بتا چکا ہے عمر شیخ پر کتنے سنگین اور گھنائونے الزام ہیں، یہ الزام سوشل میڈیا کے نہیں بلکہ سرکاری بورڈ کے ہیں، اسی باعث پروموشن سے بھی محروم رہے مگر جانے کیا جنتر منتر جانتے ہیں، کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ وفاق کی مجبوری اور عوامی ذلت کا استعارہ بن گئے۔ آپس کی بات ہے پنجاب میں جس پیمانے پر تقرر و تبادلے ہو رہے ہیں، خصوصی طور پر پولیس کے محکمے میں، اسے اپوزیشن بلدیاتی انتخاب سے جوڑ رہی ہے، اس تناظر میں سمجھ آتا کہ وفاق کے نمائندے شہزاد اکبر کو ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی کہ وزیر اعلیِ، وزیر قانون اور پنجاب کابینہ کو بائی پاس کرتے ہوِئے ایک سی سی پی او کیساتھ کھڑے ہو کر بیہودگی کا بے شرمی سے دفاع کریں۔ ویسے شام کو مختلف چینلز پر تحریک انصاف کے رہنمائوں کی درگت بنتے دیکھ کر ترس بھی آیا، جو بچے کھچے سیاستدان صف اول اور دوئم میں شامل ہیں انہیں ضرور سمجھ رہی ہو گی مگر المیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی باگ ڈور غیر عوامی ہائبرڈ نمائندوں کے ہاتھ ہے، بہرحال یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ کیا اب بھی تحریک انصاف پولیس کا سیاست سے پاک کرنے کا دعوی کرتی رہیگی یا پھر کوئی اور راگ ایجاد کیا جائیگا۔
فیصل واوڈا سمیت کئی وزرا پھٹ پڑے، فواد چوہدری نے بیچارگی سے نہ بولنے کا عہد دہرایا اب بھلا فیاض الحسن چوہان کی لسانی دہشتگردی کہاں تک جھیلیں، لہذا نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ گئے۔ مصیبت ان سیاسی رہنمائوں کی ہے جو کسی حلقے سے جیت کر آئے ہیں اور ووٹرز کو جوابدہ ہیں، موجیں ان رہنمائوں کی لگی ہیں جو ہائبرڈ پیراشوٹر ہیں، نہ کسی کو جوابدہ، نہ نتائج کی پرواہ، خیر اب تو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کمیٹیوں نے سی سی پی او کے استعفے کا مطالبہ کر ڈالا۔ فیصل جاوید تک ٹوئٹر پر ایکٹو رہے مگر مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اب تک والی ریاست مدینہ عزت مآب وزیر اعظم عمران خان کا خاتون سے زیادتی کے معاملے پر کوئی رد عمل آیا ہو، ویسے تو ریاست مدینہ اور کرپشن کے خاتمے پر بھاشن سن سن کر عوام عاجز آ چکے ہیں، خدارا عوام کا اتنا تو خیال کریں، چلیں چھوڑیں عوام کا خیال نہ کریں اپنے ووٹرز کا ہی خیال کر لیں، چلیں ووٹرز کا خیال بھی نہ کریں ان وزرا، رہنما اور کارکنان کا خیال تو کر لیں جو حکومت کی ہر غلط اور صحیح بات کا دفاع کرنے پر مامور ہیں۔ وسیم اکرم پلس کو اگر مزید تین سال رہنا ہے تو 9 آئی جیز اور لگ بھگ 7 چیف سکریٹریز کی ضرورت پڑیگی، ایک بار حاضر اسٹاک کو جانچ لیں، اپوزیشن تو جانے کب سے ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کو محاورہ استعمال کر رہی ہے، مگر خدشہ یہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ کپتان میچ ختم ہونیکے بعد اعلان کریں کہ میچ میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے، عوام کو اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔
کیا ہائبرڈ حکومت کا تجربہ کامیاب ہو گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جسکا جواب نہ ہائی کے پاس ہے اور نہ ہی برڈ کے ذھن میں، بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک بہت بڑی لیبارٹری ہے جہاں بائیس کروڑ عوام پر نظام کے تجربات آزمائے جا رہے ہیں۔