Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
چار سال ’ہائبرڈ نظام‘ نے سیاست تو سیاست، ریاست کو بھی ہلکان کر ڈالا۔ تحرک عدم اعتماد اس نظام کی ناکامی کا اعلان ہے۔ اس ناکامی کا ذمہ دار کون؟ یہ تو قومی راز ہے مگر یہ ضرور ہے کہ وقت دور نہیں جب عمران خان بھی سابق حکمرانوں کی طرح شکایات کا پنڈورا کھولیں گے۔
ہاتھ بندھے تھے۔ کام نہیں کرنے دیا گیا۔ سچ جانیں تو پاکستانی سیاست کا مرغ باد نما ’ریاستی سیاسی جماعتیں‘ ہیں جو اپنا رخ تبدیل کرتیں ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کی انگڑائی لیتی خواہشات چھب دکھلاتی ہے۔ ق لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم کے آئینے پر چار سال اقتدار میں شراکت کے بعد جس تیزی سے عمران خان سے شکایات و تحفظات نمودار ہو رہے ہیں۔ پس آئینہ کہانی واضح ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک شیخ رشید صاحب دھڑلے سے گواہی دیتے تھے کہ عمران خان کے سر پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ موجود ہے۔ شاید انہیں پتہ نہ تھا کہ دوسرا ہاتھ اپوزیشن کے سر پر بھی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
بہرحال جناب کس کے سر پر دست شفقت اور کس پر دست عبرت، یہ تو وقت بتائیگا مگر یہ ضرور ہے کہ ریاستی سیاست کرنیوالی جماعتیں بہتر سیاسی ڈیل کی تلاش میں ہر جوہڑ، تالاب اور کنویں میں ڈول ڈال رہی ہیں۔ ق لیگ گو کہ ٹرین مس کر چکی ہے مگر پھر بھی پرویز الہی کو وزیر اعلی بنانے کی ضد پر سیاست کے کاررواں میں شامل ہے۔ ایم کیو ایم حسب معمول سندھ میں گورنر، وزارت بلدیات، کراچی ایڈمنسٹریٹر یا میئر کراچی کی سیاسی یقین دہانیوں پر خوش ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پی میں حکومتی اتحاد سے خلع لے چکی ہے اور نئی سیاسی ٹرین میں نشستیں ڈھونڈ رہی ہے۔
جہانگیر ترین اور علیم خان مائنس بزدار سے کم پر راضی نہیں مگر اب یہ معاملہ اسلام آباد کی دھول میں روپوش ہو چکا ہے۔ آج شیخ رشید اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ عمران خان کے سر پر والی بات نہیں دھراتے مگر چوہدری پرویز الہی یہ ضرور کہتے نظر آتے ہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات خراب ہو چکے ہیں، تعلقات خراب ہونیکے وجوہات نواز شریف جیسی ہیں۔ وفاقی وزرا کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے تو وزیر اعظم نیوٹرل کو جانوروں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ سیاسی نقار خانے میں ایسا غل غپاڑہ غلغلہ مچا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ؎
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
یہ بھی پڑھئے:
تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے ؟
شاہد رشید مرحوم: عاشق نظریہ پاکستان
قرارداد مقاصد: وہ کلمہ جسے پڑھ کر ریاست پاکستان مسلمان ہوئی
فی الحال تو پشاور اور پنڈی کے بیچ اسلام آباد کا سندھ ہائوس سیاسی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دو درجن سے زائد پی ٹی آئی کے ناراض ارکان قومی اسمبلی سامنے آنے کے بعد حکومتی حلقوں کی بیچینی واضح ہے۔ ہر گزرتے دن کیساتھ عمران خان اور حکومت کا لہجہ تلخ اور اعتماد لڑکھڑاتا جا رہا ہے۔ دونوں جانب کڑواہٹ دشمنی تک جا پہنچی ہے۔ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتی ہے۔ کبھی ووٹ دینے کیلئے دس لاکھ لوگوں کے بیچ سے ارکان پارلیمنٹ کو گزر کر جانے کا چیلنج دیا جاتا ہے تو کبھی سندھ میں گورنر راج کی بات کی جاتی ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد نہ تو گورنر راج کوئی آسان کام ہے اور نہ ہی دس لاکھ لوگوں کا مشتعل ہجوم مسئلے کا حل ہے۔ فواد چوہدری اور شیخ رشید جیسے سیاسی بڑبولوں نے ہی نوبت یہاں تک پہنچائی ہے کہ اپوزیشن کے دروازے بند کر ڈالے۔ شہباز گل اور فیاض چوہان جیسے سیاسی بونوں نے تحریک انصاف کی اعلی قیادت کو اس طرح بازاری رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ عوام اب کسی کو سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ سیاست میں ہمیشہ فضول اور بیہودہ زبان استعمال کی جاتی رہی مگر تحریک انصاف نے اس روش کو جتنا زہریلا اور لچر بنایا ہے یہ ایک مثال ہے۔ سو آج پی ٹی آئی صفوں میں کوئی ایسی وضعدار شخصیت موجود نہیں جو اپوزیشن کیلئے قابل تکریم یا قابل قبول ہو۔
اداروں کی سیاست میں نیوٹرل یا دور رہنے کی بات اتنے تواتر اور یقین کی ساتھ بار بار دہرائی جاتی ہے کہ بلاوجہ شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اب تک کسی وزیر اعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ عمران خان وزیر اعظم رہیں گے یا نہیں یہ فیصلہ تو تحریک عدم اعتماد کریگی مگر یہ ضرور ہے کہ دونوں سیاسی دھڑے تخت یا تختہ والی صورتحال سے دوچار ہیں۔
اپوزیشن ناکام ہوتی ہے تو آئندہ انتخابات میں کہیں بھی نہیں ہو گی. تحریک انصاف حکومت عدم اعتماد کا شکار ہوتی ہے تو عمران خان کہہ چکے ہیں کہ سڑکوں پر زیادہ خطرناک ہونگے۔ سارا نقصان عوام اور سیاست کا، جمہوریت کا بلکہ یوں جانیں ریاست کا ہے. اسٹیبلشمنٹ کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سیاسی صورتحال لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے کہ کچھ پتہ نہیں کب کیا ہو جائے۔ خدشات، تحفظات، بیانات، الزامات، سیاسی میدان میں گھمسان کا رن پڑا ہے۔ میڈیا پر مباحثے، مذاکرے، سیاسی قائدین، اینکرز، دانشور نما تجزیہ کاروں کی دھماچوکڑی میں ریٹنگ کی جنگ، مگر ایک لمحے کو سوچیں سارے سیاسی دھمال میں عوام اور عوامی مسائل کہاں ہیں؟
سیاسی پیش منظر گو کہ بہت گھمبیر مگر دھندلا ہے لیکن پس منظر نہایت واضح ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ پاکستانی سیاست میں سامری کا سحر جاودانی ہے۔ مضبوط ترین وزیر اعظم کسی وقت بھی معجزانہ طور پر کمزور ترین ثابت کر دیا جاتا ہے۔ ایوانوں میں قوی اکثریت یکایک چمتکار سے ننھی اقلیت میں سکڑ جاتی ہے۔ ماضی میں کیوں جائیں۔ عمران خان کے خلاف گزشتہ تحریک عدم اعتماد کیسے ناکام ہوئی؟ سب کو یاد ہے۔
گمنام صادق سنجرانی کس طرح سینیٹ کے چیئرمین بنے یہ بھی غیر سیاسی یادداشت کا حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی رہنما جب تک غیر سیاسی بادشاہ گروں کا دامن تھامے رہینگے لنگڑی لولی جمہوریت عوامی اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہیگی۔ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ ایک اٹل حقیقت ہے جسکی تردید ایک بھونڈا مذاق بن چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ قومی سلامتی کے خلاف ہونے یا فیک نیوز کا ٹیگ لگایا جائے، یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اپنے فرزند لال حویلی شیخ رشید صاحب ببانگ دہل اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہر سیاستداں گیٹ چار کی پیداوار ہے۔ شیخ رشید جیسے معتبر گواہ کو دل چاہے تو نظر اندار کر دیں مگر اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آمریت کو کاندھا دینے والے سیاستداں وطن عزیز میں ہمیشہ ہی موجود رہے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو آگے کیا ہو گا؟ اس سوال کا جواب نہ تو اپوزیشن کے پاس ہے اور نہ ہی ہائبرڈ منیجمنٹ کے پاس۔ ہو سکتا ہے ان حربی ماہرین کے پاس ہو جو ہر شام چینلز پر دھواں دھار سیاسی تجزیہ فرماتے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا موسم سدا بہار ہے ماسوا دور آمریت کے۔ گزشتہ چار سال کے دوران اپوزیشن کی کامیابی یہ ہے کہ عوام میں تحریک انصاف حکومت کو ناتجربہ کار، سیاست میں نابلد اور کار سرکار میں نااہل ہونیکا تاثر پیدا کر چکی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کو سنگین بدعنوان اور اقربا پرور ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ دونوں صورتوں میں نقصان جمہوریت کا ہوا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے غلغلے میں میڈیا پر سنگین ہاہاکار، ایوانوں میں شدید ہلچل ہے مگر مہنگائی اور مسائل تلے دبے عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے، تو کیا یہ سراسر عوامی عدم اعتماد نہیں ہے؟
چار سال ’ہائبرڈ نظام‘ نے سیاست تو سیاست، ریاست کو بھی ہلکان کر ڈالا۔ تحرک عدم اعتماد اس نظام کی ناکامی کا اعلان ہے۔ اس ناکامی کا ذمہ دار کون؟ یہ تو قومی راز ہے مگر یہ ضرور ہے کہ وقت دور نہیں جب عمران خان بھی سابق حکمرانوں کی طرح شکایات کا پنڈورا کھولیں گے۔
ہاتھ بندھے تھے۔ کام نہیں کرنے دیا گیا۔ سچ جانیں تو پاکستانی سیاست کا مرغ باد نما ’ریاستی سیاسی جماعتیں‘ ہیں جو اپنا رخ تبدیل کرتیں ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کی انگڑائی لیتی خواہشات چھب دکھلاتی ہے۔ ق لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم کے آئینے پر چار سال اقتدار میں شراکت کے بعد جس تیزی سے عمران خان سے شکایات و تحفظات نمودار ہو رہے ہیں۔ پس آئینہ کہانی واضح ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک شیخ رشید صاحب دھڑلے سے گواہی دیتے تھے کہ عمران خان کے سر پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ موجود ہے۔ شاید انہیں پتہ نہ تھا کہ دوسرا ہاتھ اپوزیشن کے سر پر بھی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
بہرحال جناب کس کے سر پر دست شفقت اور کس پر دست عبرت، یہ تو وقت بتائیگا مگر یہ ضرور ہے کہ ریاستی سیاست کرنیوالی جماعتیں بہتر سیاسی ڈیل کی تلاش میں ہر جوہڑ، تالاب اور کنویں میں ڈول ڈال رہی ہیں۔ ق لیگ گو کہ ٹرین مس کر چکی ہے مگر پھر بھی پرویز الہی کو وزیر اعلی بنانے کی ضد پر سیاست کے کاررواں میں شامل ہے۔ ایم کیو ایم حسب معمول سندھ میں گورنر، وزارت بلدیات، کراچی ایڈمنسٹریٹر یا میئر کراچی کی سیاسی یقین دہانیوں پر خوش ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پی میں حکومتی اتحاد سے خلع لے چکی ہے اور نئی سیاسی ٹرین میں نشستیں ڈھونڈ رہی ہے۔
جہانگیر ترین اور علیم خان مائنس بزدار سے کم پر راضی نہیں مگر اب یہ معاملہ اسلام آباد کی دھول میں روپوش ہو چکا ہے۔ آج شیخ رشید اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ عمران خان کے سر پر والی بات نہیں دھراتے مگر چوہدری پرویز الہی یہ ضرور کہتے نظر آتے ہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات خراب ہو چکے ہیں، تعلقات خراب ہونیکے وجوہات نواز شریف جیسی ہیں۔ وفاقی وزرا کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے تو وزیر اعظم نیوٹرل کو جانوروں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ سیاسی نقار خانے میں ایسا غل غپاڑہ غلغلہ مچا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ؎
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
یہ بھی پڑھئے:
تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے ؟
شاہد رشید مرحوم: عاشق نظریہ پاکستان
قرارداد مقاصد: وہ کلمہ جسے پڑھ کر ریاست پاکستان مسلمان ہوئی
فی الحال تو پشاور اور پنڈی کے بیچ اسلام آباد کا سندھ ہائوس سیاسی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دو درجن سے زائد پی ٹی آئی کے ناراض ارکان قومی اسمبلی سامنے آنے کے بعد حکومتی حلقوں کی بیچینی واضح ہے۔ ہر گزرتے دن کیساتھ عمران خان اور حکومت کا لہجہ تلخ اور اعتماد لڑکھڑاتا جا رہا ہے۔ دونوں جانب کڑواہٹ دشمنی تک جا پہنچی ہے۔ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتی ہے۔ کبھی ووٹ دینے کیلئے دس لاکھ لوگوں کے بیچ سے ارکان پارلیمنٹ کو گزر کر جانے کا چیلنج دیا جاتا ہے تو کبھی سندھ میں گورنر راج کی بات کی جاتی ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد نہ تو گورنر راج کوئی آسان کام ہے اور نہ ہی دس لاکھ لوگوں کا مشتعل ہجوم مسئلے کا حل ہے۔ فواد چوہدری اور شیخ رشید جیسے سیاسی بڑبولوں نے ہی نوبت یہاں تک پہنچائی ہے کہ اپوزیشن کے دروازے بند کر ڈالے۔ شہباز گل اور فیاض چوہان جیسے سیاسی بونوں نے تحریک انصاف کی اعلی قیادت کو اس طرح بازاری رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ عوام اب کسی کو سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ سیاست میں ہمیشہ فضول اور بیہودہ زبان استعمال کی جاتی رہی مگر تحریک انصاف نے اس روش کو جتنا زہریلا اور لچر بنایا ہے یہ ایک مثال ہے۔ سو آج پی ٹی آئی صفوں میں کوئی ایسی وضعدار شخصیت موجود نہیں جو اپوزیشن کیلئے قابل تکریم یا قابل قبول ہو۔
اداروں کی سیاست میں نیوٹرل یا دور رہنے کی بات اتنے تواتر اور یقین کی ساتھ بار بار دہرائی جاتی ہے کہ بلاوجہ شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اب تک کسی وزیر اعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ عمران خان وزیر اعظم رہیں گے یا نہیں یہ فیصلہ تو تحریک عدم اعتماد کریگی مگر یہ ضرور ہے کہ دونوں سیاسی دھڑے تخت یا تختہ والی صورتحال سے دوچار ہیں۔
اپوزیشن ناکام ہوتی ہے تو آئندہ انتخابات میں کہیں بھی نہیں ہو گی. تحریک انصاف حکومت عدم اعتماد کا شکار ہوتی ہے تو عمران خان کہہ چکے ہیں کہ سڑکوں پر زیادہ خطرناک ہونگے۔ سارا نقصان عوام اور سیاست کا، جمہوریت کا بلکہ یوں جانیں ریاست کا ہے. اسٹیبلشمنٹ کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سیاسی صورتحال لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے کہ کچھ پتہ نہیں کب کیا ہو جائے۔ خدشات، تحفظات، بیانات، الزامات، سیاسی میدان میں گھمسان کا رن پڑا ہے۔ میڈیا پر مباحثے، مذاکرے، سیاسی قائدین، اینکرز، دانشور نما تجزیہ کاروں کی دھماچوکڑی میں ریٹنگ کی جنگ، مگر ایک لمحے کو سوچیں سارے سیاسی دھمال میں عوام اور عوامی مسائل کہاں ہیں؟
سیاسی پیش منظر گو کہ بہت گھمبیر مگر دھندلا ہے لیکن پس منظر نہایت واضح ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ پاکستانی سیاست میں سامری کا سحر جاودانی ہے۔ مضبوط ترین وزیر اعظم کسی وقت بھی معجزانہ طور پر کمزور ترین ثابت کر دیا جاتا ہے۔ ایوانوں میں قوی اکثریت یکایک چمتکار سے ننھی اقلیت میں سکڑ جاتی ہے۔ ماضی میں کیوں جائیں۔ عمران خان کے خلاف گزشتہ تحریک عدم اعتماد کیسے ناکام ہوئی؟ سب کو یاد ہے۔
گمنام صادق سنجرانی کس طرح سینیٹ کے چیئرمین بنے یہ بھی غیر سیاسی یادداشت کا حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی رہنما جب تک غیر سیاسی بادشاہ گروں کا دامن تھامے رہینگے لنگڑی لولی جمہوریت عوامی اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہیگی۔ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ ایک اٹل حقیقت ہے جسکی تردید ایک بھونڈا مذاق بن چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ قومی سلامتی کے خلاف ہونے یا فیک نیوز کا ٹیگ لگایا جائے، یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اپنے فرزند لال حویلی شیخ رشید صاحب ببانگ دہل اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہر سیاستداں گیٹ چار کی پیداوار ہے۔ شیخ رشید جیسے معتبر گواہ کو دل چاہے تو نظر اندار کر دیں مگر اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آمریت کو کاندھا دینے والے سیاستداں وطن عزیز میں ہمیشہ ہی موجود رہے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو آگے کیا ہو گا؟ اس سوال کا جواب نہ تو اپوزیشن کے پاس ہے اور نہ ہی ہائبرڈ منیجمنٹ کے پاس۔ ہو سکتا ہے ان حربی ماہرین کے پاس ہو جو ہر شام چینلز پر دھواں دھار سیاسی تجزیہ فرماتے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا موسم سدا بہار ہے ماسوا دور آمریت کے۔ گزشتہ چار سال کے دوران اپوزیشن کی کامیابی یہ ہے کہ عوام میں تحریک انصاف حکومت کو ناتجربہ کار، سیاست میں نابلد اور کار سرکار میں نااہل ہونیکا تاثر پیدا کر چکی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کو سنگین بدعنوان اور اقربا پرور ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ دونوں صورتوں میں نقصان جمہوریت کا ہوا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے غلغلے میں میڈیا پر سنگین ہاہاکار، ایوانوں میں شدید ہلچل ہے مگر مہنگائی اور مسائل تلے دبے عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے، تو کیا یہ سراسر عوامی عدم اعتماد نہیں ہے؟
چار سال ’ہائبرڈ نظام‘ نے سیاست تو سیاست، ریاست کو بھی ہلکان کر ڈالا۔ تحرک عدم اعتماد اس نظام کی ناکامی کا اعلان ہے۔ اس ناکامی کا ذمہ دار کون؟ یہ تو قومی راز ہے مگر یہ ضرور ہے کہ وقت دور نہیں جب عمران خان بھی سابق حکمرانوں کی طرح شکایات کا پنڈورا کھولیں گے۔
ہاتھ بندھے تھے۔ کام نہیں کرنے دیا گیا۔ سچ جانیں تو پاکستانی سیاست کا مرغ باد نما ’ریاستی سیاسی جماعتیں‘ ہیں جو اپنا رخ تبدیل کرتیں ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کی انگڑائی لیتی خواہشات چھب دکھلاتی ہے۔ ق لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم کے آئینے پر چار سال اقتدار میں شراکت کے بعد جس تیزی سے عمران خان سے شکایات و تحفظات نمودار ہو رہے ہیں۔ پس آئینہ کہانی واضح ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک شیخ رشید صاحب دھڑلے سے گواہی دیتے تھے کہ عمران خان کے سر پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ موجود ہے۔ شاید انہیں پتہ نہ تھا کہ دوسرا ہاتھ اپوزیشن کے سر پر بھی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
بہرحال جناب کس کے سر پر دست شفقت اور کس پر دست عبرت، یہ تو وقت بتائیگا مگر یہ ضرور ہے کہ ریاستی سیاست کرنیوالی جماعتیں بہتر سیاسی ڈیل کی تلاش میں ہر جوہڑ، تالاب اور کنویں میں ڈول ڈال رہی ہیں۔ ق لیگ گو کہ ٹرین مس کر چکی ہے مگر پھر بھی پرویز الہی کو وزیر اعلی بنانے کی ضد پر سیاست کے کاررواں میں شامل ہے۔ ایم کیو ایم حسب معمول سندھ میں گورنر، وزارت بلدیات، کراچی ایڈمنسٹریٹر یا میئر کراچی کی سیاسی یقین دہانیوں پر خوش ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پی میں حکومتی اتحاد سے خلع لے چکی ہے اور نئی سیاسی ٹرین میں نشستیں ڈھونڈ رہی ہے۔
جہانگیر ترین اور علیم خان مائنس بزدار سے کم پر راضی نہیں مگر اب یہ معاملہ اسلام آباد کی دھول میں روپوش ہو چکا ہے۔ آج شیخ رشید اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ عمران خان کے سر پر والی بات نہیں دھراتے مگر چوہدری پرویز الہی یہ ضرور کہتے نظر آتے ہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات خراب ہو چکے ہیں، تعلقات خراب ہونیکے وجوہات نواز شریف جیسی ہیں۔ وفاقی وزرا کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے تو وزیر اعظم نیوٹرل کو جانوروں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ سیاسی نقار خانے میں ایسا غل غپاڑہ غلغلہ مچا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ؎
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
یہ بھی پڑھئے:
تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے ؟
شاہد رشید مرحوم: عاشق نظریہ پاکستان
قرارداد مقاصد: وہ کلمہ جسے پڑھ کر ریاست پاکستان مسلمان ہوئی
فی الحال تو پشاور اور پنڈی کے بیچ اسلام آباد کا سندھ ہائوس سیاسی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دو درجن سے زائد پی ٹی آئی کے ناراض ارکان قومی اسمبلی سامنے آنے کے بعد حکومتی حلقوں کی بیچینی واضح ہے۔ ہر گزرتے دن کیساتھ عمران خان اور حکومت کا لہجہ تلخ اور اعتماد لڑکھڑاتا جا رہا ہے۔ دونوں جانب کڑواہٹ دشمنی تک جا پہنچی ہے۔ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتی ہے۔ کبھی ووٹ دینے کیلئے دس لاکھ لوگوں کے بیچ سے ارکان پارلیمنٹ کو گزر کر جانے کا چیلنج دیا جاتا ہے تو کبھی سندھ میں گورنر راج کی بات کی جاتی ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد نہ تو گورنر راج کوئی آسان کام ہے اور نہ ہی دس لاکھ لوگوں کا مشتعل ہجوم مسئلے کا حل ہے۔ فواد چوہدری اور شیخ رشید جیسے سیاسی بڑبولوں نے ہی نوبت یہاں تک پہنچائی ہے کہ اپوزیشن کے دروازے بند کر ڈالے۔ شہباز گل اور فیاض چوہان جیسے سیاسی بونوں نے تحریک انصاف کی اعلی قیادت کو اس طرح بازاری رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ عوام اب کسی کو سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ سیاست میں ہمیشہ فضول اور بیہودہ زبان استعمال کی جاتی رہی مگر تحریک انصاف نے اس روش کو جتنا زہریلا اور لچر بنایا ہے یہ ایک مثال ہے۔ سو آج پی ٹی آئی صفوں میں کوئی ایسی وضعدار شخصیت موجود نہیں جو اپوزیشن کیلئے قابل تکریم یا قابل قبول ہو۔
اداروں کی سیاست میں نیوٹرل یا دور رہنے کی بات اتنے تواتر اور یقین کی ساتھ بار بار دہرائی جاتی ہے کہ بلاوجہ شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اب تک کسی وزیر اعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ عمران خان وزیر اعظم رہیں گے یا نہیں یہ فیصلہ تو تحریک عدم اعتماد کریگی مگر یہ ضرور ہے کہ دونوں سیاسی دھڑے تخت یا تختہ والی صورتحال سے دوچار ہیں۔
اپوزیشن ناکام ہوتی ہے تو آئندہ انتخابات میں کہیں بھی نہیں ہو گی. تحریک انصاف حکومت عدم اعتماد کا شکار ہوتی ہے تو عمران خان کہہ چکے ہیں کہ سڑکوں پر زیادہ خطرناک ہونگے۔ سارا نقصان عوام اور سیاست کا، جمہوریت کا بلکہ یوں جانیں ریاست کا ہے. اسٹیبلشمنٹ کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سیاسی صورتحال لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے کہ کچھ پتہ نہیں کب کیا ہو جائے۔ خدشات، تحفظات، بیانات، الزامات، سیاسی میدان میں گھمسان کا رن پڑا ہے۔ میڈیا پر مباحثے، مذاکرے، سیاسی قائدین، اینکرز، دانشور نما تجزیہ کاروں کی دھماچوکڑی میں ریٹنگ کی جنگ، مگر ایک لمحے کو سوچیں سارے سیاسی دھمال میں عوام اور عوامی مسائل کہاں ہیں؟
سیاسی پیش منظر گو کہ بہت گھمبیر مگر دھندلا ہے لیکن پس منظر نہایت واضح ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ پاکستانی سیاست میں سامری کا سحر جاودانی ہے۔ مضبوط ترین وزیر اعظم کسی وقت بھی معجزانہ طور پر کمزور ترین ثابت کر دیا جاتا ہے۔ ایوانوں میں قوی اکثریت یکایک چمتکار سے ننھی اقلیت میں سکڑ جاتی ہے۔ ماضی میں کیوں جائیں۔ عمران خان کے خلاف گزشتہ تحریک عدم اعتماد کیسے ناکام ہوئی؟ سب کو یاد ہے۔
گمنام صادق سنجرانی کس طرح سینیٹ کے چیئرمین بنے یہ بھی غیر سیاسی یادداشت کا حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی رہنما جب تک غیر سیاسی بادشاہ گروں کا دامن تھامے رہینگے لنگڑی لولی جمہوریت عوامی اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہیگی۔ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ ایک اٹل حقیقت ہے جسکی تردید ایک بھونڈا مذاق بن چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ قومی سلامتی کے خلاف ہونے یا فیک نیوز کا ٹیگ لگایا جائے، یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اپنے فرزند لال حویلی شیخ رشید صاحب ببانگ دہل اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہر سیاستداں گیٹ چار کی پیداوار ہے۔ شیخ رشید جیسے معتبر گواہ کو دل چاہے تو نظر اندار کر دیں مگر اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آمریت کو کاندھا دینے والے سیاستداں وطن عزیز میں ہمیشہ ہی موجود رہے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو آگے کیا ہو گا؟ اس سوال کا جواب نہ تو اپوزیشن کے پاس ہے اور نہ ہی ہائبرڈ منیجمنٹ کے پاس۔ ہو سکتا ہے ان حربی ماہرین کے پاس ہو جو ہر شام چینلز پر دھواں دھار سیاسی تجزیہ فرماتے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا موسم سدا بہار ہے ماسوا دور آمریت کے۔ گزشتہ چار سال کے دوران اپوزیشن کی کامیابی یہ ہے کہ عوام میں تحریک انصاف حکومت کو ناتجربہ کار، سیاست میں نابلد اور کار سرکار میں نااہل ہونیکا تاثر پیدا کر چکی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کو سنگین بدعنوان اور اقربا پرور ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ دونوں صورتوں میں نقصان جمہوریت کا ہوا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے غلغلے میں میڈیا پر سنگین ہاہاکار، ایوانوں میں شدید ہلچل ہے مگر مہنگائی اور مسائل تلے دبے عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے، تو کیا یہ سراسر عوامی عدم اعتماد نہیں ہے؟
چار سال ’ہائبرڈ نظام‘ نے سیاست تو سیاست، ریاست کو بھی ہلکان کر ڈالا۔ تحرک عدم اعتماد اس نظام کی ناکامی کا اعلان ہے۔ اس ناکامی کا ذمہ دار کون؟ یہ تو قومی راز ہے مگر یہ ضرور ہے کہ وقت دور نہیں جب عمران خان بھی سابق حکمرانوں کی طرح شکایات کا پنڈورا کھولیں گے۔
ہاتھ بندھے تھے۔ کام نہیں کرنے دیا گیا۔ سچ جانیں تو پاکستانی سیاست کا مرغ باد نما ’ریاستی سیاسی جماعتیں‘ ہیں جو اپنا رخ تبدیل کرتیں ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کی انگڑائی لیتی خواہشات چھب دکھلاتی ہے۔ ق لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم کے آئینے پر چار سال اقتدار میں شراکت کے بعد جس تیزی سے عمران خان سے شکایات و تحفظات نمودار ہو رہے ہیں۔ پس آئینہ کہانی واضح ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک شیخ رشید صاحب دھڑلے سے گواہی دیتے تھے کہ عمران خان کے سر پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ موجود ہے۔ شاید انہیں پتہ نہ تھا کہ دوسرا ہاتھ اپوزیشن کے سر پر بھی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
بہرحال جناب کس کے سر پر دست شفقت اور کس پر دست عبرت، یہ تو وقت بتائیگا مگر یہ ضرور ہے کہ ریاستی سیاست کرنیوالی جماعتیں بہتر سیاسی ڈیل کی تلاش میں ہر جوہڑ، تالاب اور کنویں میں ڈول ڈال رہی ہیں۔ ق لیگ گو کہ ٹرین مس کر چکی ہے مگر پھر بھی پرویز الہی کو وزیر اعلی بنانے کی ضد پر سیاست کے کاررواں میں شامل ہے۔ ایم کیو ایم حسب معمول سندھ میں گورنر، وزارت بلدیات، کراچی ایڈمنسٹریٹر یا میئر کراچی کی سیاسی یقین دہانیوں پر خوش ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پی میں حکومتی اتحاد سے خلع لے چکی ہے اور نئی سیاسی ٹرین میں نشستیں ڈھونڈ رہی ہے۔
جہانگیر ترین اور علیم خان مائنس بزدار سے کم پر راضی نہیں مگر اب یہ معاملہ اسلام آباد کی دھول میں روپوش ہو چکا ہے۔ آج شیخ رشید اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ عمران خان کے سر پر والی بات نہیں دھراتے مگر چوہدری پرویز الہی یہ ضرور کہتے نظر آتے ہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات خراب ہو چکے ہیں، تعلقات خراب ہونیکے وجوہات نواز شریف جیسی ہیں۔ وفاقی وزرا کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے تو وزیر اعظم نیوٹرل کو جانوروں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ سیاسی نقار خانے میں ایسا غل غپاڑہ غلغلہ مچا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ؎
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
یہ بھی پڑھئے:
تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے ؟
شاہد رشید مرحوم: عاشق نظریہ پاکستان
قرارداد مقاصد: وہ کلمہ جسے پڑھ کر ریاست پاکستان مسلمان ہوئی
فی الحال تو پشاور اور پنڈی کے بیچ اسلام آباد کا سندھ ہائوس سیاسی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دو درجن سے زائد پی ٹی آئی کے ناراض ارکان قومی اسمبلی سامنے آنے کے بعد حکومتی حلقوں کی بیچینی واضح ہے۔ ہر گزرتے دن کیساتھ عمران خان اور حکومت کا لہجہ تلخ اور اعتماد لڑکھڑاتا جا رہا ہے۔ دونوں جانب کڑواہٹ دشمنی تک جا پہنچی ہے۔ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتی ہے۔ کبھی ووٹ دینے کیلئے دس لاکھ لوگوں کے بیچ سے ارکان پارلیمنٹ کو گزر کر جانے کا چیلنج دیا جاتا ہے تو کبھی سندھ میں گورنر راج کی بات کی جاتی ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد نہ تو گورنر راج کوئی آسان کام ہے اور نہ ہی دس لاکھ لوگوں کا مشتعل ہجوم مسئلے کا حل ہے۔ فواد چوہدری اور شیخ رشید جیسے سیاسی بڑبولوں نے ہی نوبت یہاں تک پہنچائی ہے کہ اپوزیشن کے دروازے بند کر ڈالے۔ شہباز گل اور فیاض چوہان جیسے سیاسی بونوں نے تحریک انصاف کی اعلی قیادت کو اس طرح بازاری رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ عوام اب کسی کو سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ سیاست میں ہمیشہ فضول اور بیہودہ زبان استعمال کی جاتی رہی مگر تحریک انصاف نے اس روش کو جتنا زہریلا اور لچر بنایا ہے یہ ایک مثال ہے۔ سو آج پی ٹی آئی صفوں میں کوئی ایسی وضعدار شخصیت موجود نہیں جو اپوزیشن کیلئے قابل تکریم یا قابل قبول ہو۔
اداروں کی سیاست میں نیوٹرل یا دور رہنے کی بات اتنے تواتر اور یقین کی ساتھ بار بار دہرائی جاتی ہے کہ بلاوجہ شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اب تک کسی وزیر اعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ عمران خان وزیر اعظم رہیں گے یا نہیں یہ فیصلہ تو تحریک عدم اعتماد کریگی مگر یہ ضرور ہے کہ دونوں سیاسی دھڑے تخت یا تختہ والی صورتحال سے دوچار ہیں۔
اپوزیشن ناکام ہوتی ہے تو آئندہ انتخابات میں کہیں بھی نہیں ہو گی. تحریک انصاف حکومت عدم اعتماد کا شکار ہوتی ہے تو عمران خان کہہ چکے ہیں کہ سڑکوں پر زیادہ خطرناک ہونگے۔ سارا نقصان عوام اور سیاست کا، جمہوریت کا بلکہ یوں جانیں ریاست کا ہے. اسٹیبلشمنٹ کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سیاسی صورتحال لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے کہ کچھ پتہ نہیں کب کیا ہو جائے۔ خدشات، تحفظات، بیانات، الزامات، سیاسی میدان میں گھمسان کا رن پڑا ہے۔ میڈیا پر مباحثے، مذاکرے، سیاسی قائدین، اینکرز، دانشور نما تجزیہ کاروں کی دھماچوکڑی میں ریٹنگ کی جنگ، مگر ایک لمحے کو سوچیں سارے سیاسی دھمال میں عوام اور عوامی مسائل کہاں ہیں؟
سیاسی پیش منظر گو کہ بہت گھمبیر مگر دھندلا ہے لیکن پس منظر نہایت واضح ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ پاکستانی سیاست میں سامری کا سحر جاودانی ہے۔ مضبوط ترین وزیر اعظم کسی وقت بھی معجزانہ طور پر کمزور ترین ثابت کر دیا جاتا ہے۔ ایوانوں میں قوی اکثریت یکایک چمتکار سے ننھی اقلیت میں سکڑ جاتی ہے۔ ماضی میں کیوں جائیں۔ عمران خان کے خلاف گزشتہ تحریک عدم اعتماد کیسے ناکام ہوئی؟ سب کو یاد ہے۔
گمنام صادق سنجرانی کس طرح سینیٹ کے چیئرمین بنے یہ بھی غیر سیاسی یادداشت کا حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی رہنما جب تک غیر سیاسی بادشاہ گروں کا دامن تھامے رہینگے لنگڑی لولی جمہوریت عوامی اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہیگی۔ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ ایک اٹل حقیقت ہے جسکی تردید ایک بھونڈا مذاق بن چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ قومی سلامتی کے خلاف ہونے یا فیک نیوز کا ٹیگ لگایا جائے، یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اپنے فرزند لال حویلی شیخ رشید صاحب ببانگ دہل اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہر سیاستداں گیٹ چار کی پیداوار ہے۔ شیخ رشید جیسے معتبر گواہ کو دل چاہے تو نظر اندار کر دیں مگر اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آمریت کو کاندھا دینے والے سیاستداں وطن عزیز میں ہمیشہ ہی موجود رہے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو آگے کیا ہو گا؟ اس سوال کا جواب نہ تو اپوزیشن کے پاس ہے اور نہ ہی ہائبرڈ منیجمنٹ کے پاس۔ ہو سکتا ہے ان حربی ماہرین کے پاس ہو جو ہر شام چینلز پر دھواں دھار سیاسی تجزیہ فرماتے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا موسم سدا بہار ہے ماسوا دور آمریت کے۔ گزشتہ چار سال کے دوران اپوزیشن کی کامیابی یہ ہے کہ عوام میں تحریک انصاف حکومت کو ناتجربہ کار، سیاست میں نابلد اور کار سرکار میں نااہل ہونیکا تاثر پیدا کر چکی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کو سنگین بدعنوان اور اقربا پرور ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ دونوں صورتوں میں نقصان جمہوریت کا ہوا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے غلغلے میں میڈیا پر سنگین ہاہاکار، ایوانوں میں شدید ہلچل ہے مگر مہنگائی اور مسائل تلے دبے عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے، تو کیا یہ سراسر عوامی عدم اعتماد نہیں ہے؟