دنیا ایک اور سرد جنگ میں داخل ہو چکی ہے اور بہت جلد دو حصوں میں تقسیم نظر آئیگی۔ سپر پاور کو سپر پاور رہنے کیلئے مستقل و مسلسل دشمن کی ضرورت ہوتی ہے، خوف کا کاروبار نہ ہو تو سپر پاور کا دبدبہ ختم ہو جاتا ہے، دہشت پھیلانا بھی مسیحائی اور مٹانا بھی، دنیا کو مسلسل خوف میں گرفتار رکھنا ہی عالمی طاقت کی خاصیت ہوا کرتی ہے۔ روس یوکرین جنگ کی صورت میں امریکہ دنیا کو ایک اور سرد جنگ کی طرف لے جا رہا ہے مگر اس جنگ کا اصل ہدف عالمی معاشی میدان ہے، جہاں چین اور امریکہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔
افغانستان اور عراق سے امریکہ نکل گیا، کیوں اور کیسے نکلا یہ ایک طویل داستان ہے، شام میں دال نہ گلی، گویا سپر پاور کے پاس اب ایسا کوئی دشمن نہ تھا جس کے ذریعے دنیا کو طاقت سے مرعوب رکھا جائے۔ سپر پاور بننا آسان مگر اس منصب پر رہنا ہر روز ایک چیلنج ہے۔ سپر پاور کو ایک نئے دشمنی کی تلاش ہے، امریکہ نے روس یوکرین جنگ کا طبل ایک کثیر جہتی نتائج کیلئے منظم منصوبے کے تحت بجایا ہے۔ گزشتہ قسط میں ہم اس حوالے سے مفصل بات کر چکے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کے منصوبے کا اصل ہدف روس نہیں بلکہ چین ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
اس سے پہلے بھی امریکہ نے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوشش کر چکا ہے مگر یورپ نے مخالفت کی، اب چند سال بعد یہ کوشش پھر کی گئی، اس بار یورپ ساتھ تھا اور مقصد یہی تھا کہ جب روس کا عسکری گھیرائو کیا جائیگا تو ماضی کی سپر پاور فوری رد عمل دیگی۔ اس جنگ میں یورپ اور امریکہ براہ راست کبھی نہیں کودیں گے مگر یہ ضرور ہے کہ دنیا میں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ضرور ہو جائیگا۔
سابق امریکی صدر جمی کارٹر کہتے ہیں 242 سال کی تاریخ میں امریکہ کی قسمت میں صرف 16 سال ایسے ہیں جب مکمل امن رہا، گویا اسکا مطلب یہ ہے کہ امریکہ مسلسل عالمی محاذور پر مصروف رہا ہے۔ جدید تاریخ میں سرد جنگ، پراکسی وارز اسی عمل کا حصہ ہیں۔
صرف 2001 سے ابتک امریکہ جنگوں پر 8 ٹریلین ڈالرز خرچ کر چکا ہے، معیشت زبردست خسارے کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ جان چھڑا کر ان جنگوں سے باہر نکلا ہے جن میں براہ راست شامل تھا۔ یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں مضبوط معیشت کے بغیر سپر پاور رہنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ چین کی تجارتی و معاشی ترقی کا سفر 1979 میں شروع ہوا اور جس وقت امریکہ اپنے وسائل جنگوں پر خرچ کر رہا تھا چین مسلسل معاشی ترقی حاصل کرتا گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
قرارداد مقاصد: وہ کلمہ جسے پڑھ کر ریاست پاکستان مسلمان ہوئی
تحریک عدم اعتماد: اپوزیشن کے انڈے کوئی کوا نہ کھا جائے
امریکامیں ٹرمپ کی واپسی کا امکان پیدا ہو گیا
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چین سالانہ ڈھائی ٹریلین ڈالرز کا سامان دنیا کو فروخت کرتا ہے، امریکہ اور یورپ اسکے سب سے بڑے خریدار ہیں، ٹیکنالوجی میں مغرب سے فرق تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آئندہ چند عشروں میں عالمی اقتصادیات کی قیادت چین کے پاس ہو گی۔ 500 کی جدوجہد کے بعد آج چین دنیا کی بڑی قوت ہے، اتنی بڑی کے غلام بنانے والے ممالک اسکی مصنوعات خریدنے پر مجبور ہیں۔
پہلے امریکہ کو سب سے زیادہ خطرہ روس سے تھا، 50 کی دہائی میں شروع ہونیوالی سرد جنگ 40 سال بعد روس ٹوٹنے پر ختم ہوئی۔ امریکہ اور روس دنیا کیلئے سپر پاور تھے، جنگ، ہتھیار، ایٹمی صلاحیت، میزائل ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کی دوڑ بالاخر مغرب جیت گیا، کمیونسٹ خطرہ ختم، دنیا کی واحد سپر پاور سرمایہ دارانہ نظام کیساتھ یہ جنگ جیت گئی۔
سابق امریکہ صدر جمی کارٹر کہتے ہیں ’’242 سالہ تاریخ میں امریکہ کی قسمت میں صرف 16 سال ایسے ہیں جب مکمل امن تھا۔‘‘ اس مطلب یہ بھی ہے کہ امریکہ سپر پاور بننے کیلئے مسلسل روایتی جنگوں میں مصروف رہا ہے، براہ راست یا بیشتر پراکسی وارز اور سرد جنگ، امریکہ اور یورپ روایتی جنگوں کا فائدہ اٹھانے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں مگر اس بار میدان اور ہتھیار مختلف ہیں۔
معاشی میدان میں روایتی تجربہ ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ چین اور امریکہ یہ جنگ خاصی مختلف ہے، چین کبھی دنیا پر اپنی طاقت جتانے کیلئے جنگ میں نہیں کودا بلکہ امریکہ کے برعکس ساری توجہ معاشی و تکنیکی محاذ پر رکھی۔ چین عالمی معیشت میں امریکہ سے بڑا کھلاڑی بن چکا ہے، روس اور چین کمزور ہوتے نیو ورلڈ آرڈر کیلئے بڑا خطرہ بن رہے ہیں، سرمایہ دارانہ نظام کیلئےبھی خطرہ بن چکے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کا ذھن واضح ہے کہ اگر چین کا راستہ نہیں روکا گیا تو بہت جلد عالمی چوہدراہٹ کا خاتمہ ہو جائیگا چونکہ آج کے دور میں سپر پاور رہنے کیلئے سب سے بڑا ہتھیار اکنامک لیڈر شپ ہے۔
چین اور امریکہ کا مقابلہ کریں تو بچپن میں سنائی گئی کہانی یاد آ جاتی ہے، کچھوے اور خرگوش کی، آج اس کہانی میں چین کچھوا اور امریکہ خرگوش ہے۔ چین نہایت سست روی مگر استقامت کیساتھ معاشی محاذوں پر قبضہ کر چکا ہے۔ امریکہ اپنی جارحیت اور تیزی کے باعث معاشی میدان میں دیوالیہ سیٹھ کی طرح سر پکڑے بیٹھا ہے۔
اس صورتحال میں چین، یورپ اور امریکہ کا مشترکہ دشمن ہے۔ چین علاقائی اتحاد کی جانب بڑھ رہا ہے جس کی بنیاد معاشی ترقی ہے، ممکنہ اتحادیوں میں روس، ترکی، پاکستان، ایران، وسط ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ اگلے مرحلے میں ون بیلٹ، ون روڈ، جس میں ممکنہ طور پر دنیا کے 64 سے 78 ممالک شریک ہو جائینگے۔
ایک ایسا عالمی منصوبہ جو دنیا بھر کو چین سے جوڑ دیگا۔ مغرب کا خدشہ بے جا نہیں کہ نہ صرف امریکہ اور یورپ کی بالادستی خطرے میں ہے بلکہ معیشت بھی خدشات سے دوچار ہے، عالمی چوہدراہٹ کا خاتمہ مغرب کیلئے خوف کی علامت ہے۔ چین امریکہ سرد جنگ کا آغاز ٹرمپ دور میں ہوا جہاں امریکہ اور یورپ نے چین پر غیر معمولی اقتصادی پابندیاں عائد کیں، اب جو بائیڈن بھی انہی پالیسیوں کو آگے بڑھا رہے جس میں انہیں یورپ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
مغرب کیلئے چین کی معاشی ترقی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کمیونسٹ معیشت، سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے ایک طویل جنگ لڑ کر دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط کیا ہے اور یہی مغرب کی بقا کی ضمانت ہے۔ اس صورتحال میں چین ہر ہر معاشی محاذ پر سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دے رہا ہے۔
ٹیکنالوجی میں مغربی برتری کو چیلنج کر رہا ہے۔ یوکرین جیسے چھوٹے سے ملک کو لالچ دیکر روس جیسے بڑے ملک کے دروازے پر نیٹو فوجی اڈوں کے قیام کی کوشش سے وہی نتائج برامد ہوئے ہیں جو مغرب کی سازش کے مطلوبہ اہداف تھے۔ روس پر اقتصادی پابندیاں، درحقیقت چین کیلئے پیغام ہے، چین کے معاشی اتحاد کو روکنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کے شہروں میں چینی مصنوعات کی بھر مار ہے، مغرب کے بڑے بڑے کاروباری ادارے چینی سرمایہ دار خرید چکے ہیں۔
40 سالہ روس امریکہ سرد جنگ کے بعد دنیا ایک اور سرد جنگ میں داخل ہو چکی ہے، گویا دنیا ایک بار پھر دو دھڑوں میں تقسیم نظر آئیگی، شاید ابھی مزید جنگیں چھیڑی جائیں، روس، یوکرین کی طرح پراکسی وارز کا بازار گرم ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے سپر پاور کی حیثیت میں روایتی جنگوں سے خاصا فائدہ اٹھایا ہے مگر اس بار میدان مختلف ہے، معاشی محاذ پر امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں سمیت چین کا مقابلہ کرنے میں سنگین ناکامی کا شکار ہے۔
چین کو بطور سپر پاور کب تسلیم کیا جاتا ہے یہ فیصلہ تو وقت کریگا مگر یہ طے ہے کہ ہر گزرتے سال کیساتھ مغرب، چین کا راستہ روکنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہا ہے۔ ہمیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ نئی سرد جنگ بھی خاصی مختلف ہو گی چونکہ آج کی دنیا نظریات سے نہیں بلکہ معاشی مفادات سے جڑی ہے، یہی وہ نکتہ ہے جہاں امریکہ چین کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ بقول تاجدار عادل
وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک