Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری ہے جہاں 22 کروڑ اشراف الارض پر تجربات کئے جا رہے ہیں۔ یہ لا یعنی اور مضحکہ خیز سلسلہ تہتر سال سے جاری ہیں۔ ایک مرتبہ ملا نصیر الدین بڑی سی پگڑی باندھے بیٹھے تھے کہ ایک شخص خط لیکر انکے پاس آیا اسے پڑھ کر سنا دیں۔ ملا نصیر الدین بولے میں بھی تیری طرح ان پڑھ ہوں۔ دیہاتی نے حیرانی سے دیکھا اور کہا کہ پھر سر پر اتنی بڑی پگڑی کیوں پہنی ہوئی ہے۔ ملا نصیر الدین اٹھے اپنی پگڑی اتار کر دیہاتی کے سر پر رکھی اور کہا اب تو خود ہی پڑھ لے اپنا خط۔ پاکستان میں بھی خود ساختہ دانشور ایسی بحثیں چھیڑتے رہتے ہیں جسکا نہ سر ہے نہ پیر، اب نیا سلسلہ صدارتی نظام کا مطالبہ ہے۔
صدارتی نظام کے بارے یہ بھی دیکھئے:
صدارتی نظام کے حق میں بڑے بڑے پگڑ سر پر جمانے والے قائدین اور دانشور دلائل کا انبار لگا رہے ہیں۔ میری ناقص رائے میں ہمارا مسئلہ صدارتی یا پارلیمانی نہیں بلکہ نظام کا ہے۔ نظام ہی اصل مسئلہ ہے چونکہ ہم کسی نظام کا حصہ بننے پر تیار ہی نہیں ہیں۔
نظام لاکھ پارلیمانی ہو اگر آصف زرداری صدر ہیں تو یہ صدارتی بن جاتا ہے۔ اگر ممنون حسین صدر ہو تو یہ نرا پارلیمانی رہتا ہے۔ نظام کو قصور وار ٹہرانے سے پہلے ایک بار یہ جائزہ تو لے لیں کہ کہیں ناچ نہ جانے آنگین ٹیڑھا والا معاملہ تو نہیں ہے۔
صدارتی نظام کے حق میں فوجی آمروں کے حکومتوں کو ترقی و خوشحالی کی مثال بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حضور یہ فوجی حکومت ہی تھی جس میں ون یونٹ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کھویا۔ یہ فوجی حکومت جس نے اسلام کے نام پر افغانستان کی جنگ کا حصہ بنایا گیا۔ طالبان بنائے گئے اور آج تیسری نسل دہشتگردی اور فرقہ پرستی جھیل رہی ہے۔
یہ فوجی حکومت ہی تھی جس میں روشن خیالی کے نام پر طالبان مٹائے گئے۔ پورا ملک لہو لہو ہوا۔ معیشت تباہ ہوئی۔ ملکی سلامتی دائوں پر لگی۔ برطانیہ سمیت ڈھیر سارے ممالک میں پارلیمانی نظام ہے۔ امریکہ سمیت کئی ممالک میں صدارتی نظام ہے۔ دونوں جمہوری نظام حکومت ہیں اور کامیاب ہیں۔ مگر کامیابی کیلئے نظام پر کاربند رہنا پڑتا ہے۔ آئین پر چلنا پڑتا ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا خواہ سیاسی قائدین ہوں یا عسکری ماہرین، کوئی حکومت، کوئی ادارہ ملک کا مالک نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں۔
کیا کوئی شک ہے کہ تہتر سال بعد بھی دانستہ یا غیر دانستہ ہم ایک کنفیوزڈ قوم ہیں۔ جس ملک میں فوجی آمریت کے گن گائے جاتے ہوں۔ خلافت کی بحالی کی بات کی جاتی ہے۔ بعض اوقات تو بادشاہت کے حق میں بھی دلائل دئیے جاتے ہوں۔ سنگین ملزمان کو این آر او دیئے جاتے ہوں۔ ہر احتساب سیاسی انتقام ہو۔ سنگین غداری کے ملزمان کو بچایا جاتا ہو۔ وہاں کوئی بھی نظام کارامد نہیں ہو سکتا۔
ہمارا سب سے بڑا خطرہ یہی کنفیوژن یا ابہام ہے جو اب حکومتوں سے ہوتا ہوا ریاست تک جا پہنچا ہے۔ جنرل ضیاالحق کے دور قومی بیانیہ یہ تھا کہ طالبان بنانا قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں قومی بیانیہ تبدیل ہوا طالبان مٹانا قومی سلامتی کا تقاضہ ٹہرا۔ دو بیانیوں کا کنفیوژن آج تک جاری ہے۔ اس درمیان 8 ہزار فوجی جوانوں سمیت 70 ہزار بیگناہ سویلین، پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ 120 ارب ڈالر کا نقصان، ملکی معیشت آئی سی یو پر آ گئی، اسکے باوجود ہم آج بھی ابہام کا شکار ہیں کہ طالبان دوست ہیں یا دشمن۔
ہمیں بتایا گیا کہ رد الفساد اور ضرب عضب میں دشمن کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی گئی۔ پھر آج اسی دشمن سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ یہاں بھی ایک زبردست کنفیوژن ہے۔ ہمارا بیانیہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان دو الگ تنطیمیں ہیں۔ الگ مقاصد ہیں، مگر یہ صرف ہمارا بیانیہ ہے طالبان افغانستان اور پاکستان کا نہیں۔ انکا بیانیہ بڑا واضح ہے۔ ٹی ٹی پی کا امیر افغان طالبان کے امیر کی بیعت میں ہوتا ہے اور بیعت کا مطلب مکمل اطاعت ہے۔
افغانستان میں امریکہ کے جانے پر ہم نے جشن منایا۔ ہم دنیا میں افغانستان میں طالبان حکومت کے سب سے بڑے وکیل نظر آتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت ٹی ٹی پی دہشتگرد کارروائیوں سے روکنے پر تیار نہیں۔ صرف دو دنوں میں طالبان کے سات حملے ہوئے ہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہونیکے بعد مزید دہشتگردی کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ گویا دو بیانیوں کے کنفیوژن میں ساری قربانیاں رائیگاں گئیں۔ اب دہشتگردی کی نئی لہر شاید سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گی۔ چونکہ کرزئی اور اشرف غنی حکومت میں تو شاید ٹی ٹی پی کیلئے افغانستان اتنی محفوظ پناہ گاہ نہ ہو جتنی طالبان حکومت کے دور میں ثابت ہو گی۔ میرے منہ میں خاک مگر شاید یہ خطرہ ماضی سے کہیں زیادہ خطرناک نوعیت کا ہے۔
ہمیں بھارت، امریکہ اور روس سے خطرہ نہیں، اصل خطرات بیرونی نہیں اندرونی ہیں، ٹی ٹی پی اور بگڑی معیشت، یہی سب سے بڑے چیلنج ہیں، بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے؟ اتنی گھمبیر صورتحال میں ہمارا رد عمل یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے قومی اسمبلی تک صدارتی اور پارلیمانی نظام گونج رہا ہے۔ حکومتی وزرا سسکتی معیشت اور ہوشربا مہنگائی کو عالمی وبا قرار دیگر اطمینان کا سانس لے چکے ہیں۔ بے ضرر اپوزیشن دھرنوں اور ریلیوں کے خواب دیکھ رہی ہے۔ ادارے کیا کر رہے ہیں یہ پوچھنا چونکہ توہین کے زمرے میں آتا ہے لہذا چھوڑ دیں۔ سیاست، سیاست اور سیاست، ریاست کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ کیا کہیں سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر خوفناک دور میں داخل ہو رہا ہے، کیا کہیں سے ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی کے مارے بائیس کروڑ عوام ایک بار پھر خاک و خون، دھواں، بارود کے رحم و کرم پر ہونگے۔ کیا کہیں ایسا لگتا ہے کہ ان خوفناک چیلنجز سے نمنٹنے کیلئے کوئی پالیسی بنائی جا رہی ہے، کوئی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے؟ یا پھر دنیا کی عظیم ترین لیبارٹری میں ایک اور تجربہ ہونے جا رہا ہے؟
شاید ہمارا اصل مسئلہ جہالت نہیں بلکہ عالمانہ جہالت ہے یا پھر ایسا تو نہیں کہ بڑے بڑے قائدین، دانشوروں، ماہرین اور جاہل عوام کے درمیان فرق صرف پگڑی کا ہے؟
جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری ہے جہاں 22 کروڑ اشراف الارض پر تجربات کئے جا رہے ہیں۔ یہ لا یعنی اور مضحکہ خیز سلسلہ تہتر سال سے جاری ہیں۔ ایک مرتبہ ملا نصیر الدین بڑی سی پگڑی باندھے بیٹھے تھے کہ ایک شخص خط لیکر انکے پاس آیا اسے پڑھ کر سنا دیں۔ ملا نصیر الدین بولے میں بھی تیری طرح ان پڑھ ہوں۔ دیہاتی نے حیرانی سے دیکھا اور کہا کہ پھر سر پر اتنی بڑی پگڑی کیوں پہنی ہوئی ہے۔ ملا نصیر الدین اٹھے اپنی پگڑی اتار کر دیہاتی کے سر پر رکھی اور کہا اب تو خود ہی پڑھ لے اپنا خط۔ پاکستان میں بھی خود ساختہ دانشور ایسی بحثیں چھیڑتے رہتے ہیں جسکا نہ سر ہے نہ پیر، اب نیا سلسلہ صدارتی نظام کا مطالبہ ہے۔
صدارتی نظام کے بارے یہ بھی دیکھئے:
صدارتی نظام کے حق میں بڑے بڑے پگڑ سر پر جمانے والے قائدین اور دانشور دلائل کا انبار لگا رہے ہیں۔ میری ناقص رائے میں ہمارا مسئلہ صدارتی یا پارلیمانی نہیں بلکہ نظام کا ہے۔ نظام ہی اصل مسئلہ ہے چونکہ ہم کسی نظام کا حصہ بننے پر تیار ہی نہیں ہیں۔
نظام لاکھ پارلیمانی ہو اگر آصف زرداری صدر ہیں تو یہ صدارتی بن جاتا ہے۔ اگر ممنون حسین صدر ہو تو یہ نرا پارلیمانی رہتا ہے۔ نظام کو قصور وار ٹہرانے سے پہلے ایک بار یہ جائزہ تو لے لیں کہ کہیں ناچ نہ جانے آنگین ٹیڑھا والا معاملہ تو نہیں ہے۔
صدارتی نظام کے حق میں فوجی آمروں کے حکومتوں کو ترقی و خوشحالی کی مثال بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حضور یہ فوجی حکومت ہی تھی جس میں ون یونٹ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کھویا۔ یہ فوجی حکومت جس نے اسلام کے نام پر افغانستان کی جنگ کا حصہ بنایا گیا۔ طالبان بنائے گئے اور آج تیسری نسل دہشتگردی اور فرقہ پرستی جھیل رہی ہے۔
یہ فوجی حکومت ہی تھی جس میں روشن خیالی کے نام پر طالبان مٹائے گئے۔ پورا ملک لہو لہو ہوا۔ معیشت تباہ ہوئی۔ ملکی سلامتی دائوں پر لگی۔ برطانیہ سمیت ڈھیر سارے ممالک میں پارلیمانی نظام ہے۔ امریکہ سمیت کئی ممالک میں صدارتی نظام ہے۔ دونوں جمہوری نظام حکومت ہیں اور کامیاب ہیں۔ مگر کامیابی کیلئے نظام پر کاربند رہنا پڑتا ہے۔ آئین پر چلنا پڑتا ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا خواہ سیاسی قائدین ہوں یا عسکری ماہرین، کوئی حکومت، کوئی ادارہ ملک کا مالک نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں۔
کیا کوئی شک ہے کہ تہتر سال بعد بھی دانستہ یا غیر دانستہ ہم ایک کنفیوزڈ قوم ہیں۔ جس ملک میں فوجی آمریت کے گن گائے جاتے ہوں۔ خلافت کی بحالی کی بات کی جاتی ہے۔ بعض اوقات تو بادشاہت کے حق میں بھی دلائل دئیے جاتے ہوں۔ سنگین ملزمان کو این آر او دیئے جاتے ہوں۔ ہر احتساب سیاسی انتقام ہو۔ سنگین غداری کے ملزمان کو بچایا جاتا ہو۔ وہاں کوئی بھی نظام کارامد نہیں ہو سکتا۔
ہمارا سب سے بڑا خطرہ یہی کنفیوژن یا ابہام ہے جو اب حکومتوں سے ہوتا ہوا ریاست تک جا پہنچا ہے۔ جنرل ضیاالحق کے دور قومی بیانیہ یہ تھا کہ طالبان بنانا قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں قومی بیانیہ تبدیل ہوا طالبان مٹانا قومی سلامتی کا تقاضہ ٹہرا۔ دو بیانیوں کا کنفیوژن آج تک جاری ہے۔ اس درمیان 8 ہزار فوجی جوانوں سمیت 70 ہزار بیگناہ سویلین، پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ 120 ارب ڈالر کا نقصان، ملکی معیشت آئی سی یو پر آ گئی، اسکے باوجود ہم آج بھی ابہام کا شکار ہیں کہ طالبان دوست ہیں یا دشمن۔
ہمیں بتایا گیا کہ رد الفساد اور ضرب عضب میں دشمن کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی گئی۔ پھر آج اسی دشمن سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ یہاں بھی ایک زبردست کنفیوژن ہے۔ ہمارا بیانیہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان دو الگ تنطیمیں ہیں۔ الگ مقاصد ہیں، مگر یہ صرف ہمارا بیانیہ ہے طالبان افغانستان اور پاکستان کا نہیں۔ انکا بیانیہ بڑا واضح ہے۔ ٹی ٹی پی کا امیر افغان طالبان کے امیر کی بیعت میں ہوتا ہے اور بیعت کا مطلب مکمل اطاعت ہے۔
افغانستان میں امریکہ کے جانے پر ہم نے جشن منایا۔ ہم دنیا میں افغانستان میں طالبان حکومت کے سب سے بڑے وکیل نظر آتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت ٹی ٹی پی دہشتگرد کارروائیوں سے روکنے پر تیار نہیں۔ صرف دو دنوں میں طالبان کے سات حملے ہوئے ہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہونیکے بعد مزید دہشتگردی کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ گویا دو بیانیوں کے کنفیوژن میں ساری قربانیاں رائیگاں گئیں۔ اب دہشتگردی کی نئی لہر شاید سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گی۔ چونکہ کرزئی اور اشرف غنی حکومت میں تو شاید ٹی ٹی پی کیلئے افغانستان اتنی محفوظ پناہ گاہ نہ ہو جتنی طالبان حکومت کے دور میں ثابت ہو گی۔ میرے منہ میں خاک مگر شاید یہ خطرہ ماضی سے کہیں زیادہ خطرناک نوعیت کا ہے۔
ہمیں بھارت، امریکہ اور روس سے خطرہ نہیں، اصل خطرات بیرونی نہیں اندرونی ہیں، ٹی ٹی پی اور بگڑی معیشت، یہی سب سے بڑے چیلنج ہیں، بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے؟ اتنی گھمبیر صورتحال میں ہمارا رد عمل یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے قومی اسمبلی تک صدارتی اور پارلیمانی نظام گونج رہا ہے۔ حکومتی وزرا سسکتی معیشت اور ہوشربا مہنگائی کو عالمی وبا قرار دیگر اطمینان کا سانس لے چکے ہیں۔ بے ضرر اپوزیشن دھرنوں اور ریلیوں کے خواب دیکھ رہی ہے۔ ادارے کیا کر رہے ہیں یہ پوچھنا چونکہ توہین کے زمرے میں آتا ہے لہذا چھوڑ دیں۔ سیاست، سیاست اور سیاست، ریاست کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ کیا کہیں سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر خوفناک دور میں داخل ہو رہا ہے، کیا کہیں سے ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی کے مارے بائیس کروڑ عوام ایک بار پھر خاک و خون، دھواں، بارود کے رحم و کرم پر ہونگے۔ کیا کہیں ایسا لگتا ہے کہ ان خوفناک چیلنجز سے نمنٹنے کیلئے کوئی پالیسی بنائی جا رہی ہے، کوئی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے؟ یا پھر دنیا کی عظیم ترین لیبارٹری میں ایک اور تجربہ ہونے جا رہا ہے؟
شاید ہمارا اصل مسئلہ جہالت نہیں بلکہ عالمانہ جہالت ہے یا پھر ایسا تو نہیں کہ بڑے بڑے قائدین، دانشوروں، ماہرین اور جاہل عوام کے درمیان فرق صرف پگڑی کا ہے؟
جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری ہے جہاں 22 کروڑ اشراف الارض پر تجربات کئے جا رہے ہیں۔ یہ لا یعنی اور مضحکہ خیز سلسلہ تہتر سال سے جاری ہیں۔ ایک مرتبہ ملا نصیر الدین بڑی سی پگڑی باندھے بیٹھے تھے کہ ایک شخص خط لیکر انکے پاس آیا اسے پڑھ کر سنا دیں۔ ملا نصیر الدین بولے میں بھی تیری طرح ان پڑھ ہوں۔ دیہاتی نے حیرانی سے دیکھا اور کہا کہ پھر سر پر اتنی بڑی پگڑی کیوں پہنی ہوئی ہے۔ ملا نصیر الدین اٹھے اپنی پگڑی اتار کر دیہاتی کے سر پر رکھی اور کہا اب تو خود ہی پڑھ لے اپنا خط۔ پاکستان میں بھی خود ساختہ دانشور ایسی بحثیں چھیڑتے رہتے ہیں جسکا نہ سر ہے نہ پیر، اب نیا سلسلہ صدارتی نظام کا مطالبہ ہے۔
صدارتی نظام کے بارے یہ بھی دیکھئے:
صدارتی نظام کے حق میں بڑے بڑے پگڑ سر پر جمانے والے قائدین اور دانشور دلائل کا انبار لگا رہے ہیں۔ میری ناقص رائے میں ہمارا مسئلہ صدارتی یا پارلیمانی نہیں بلکہ نظام کا ہے۔ نظام ہی اصل مسئلہ ہے چونکہ ہم کسی نظام کا حصہ بننے پر تیار ہی نہیں ہیں۔
نظام لاکھ پارلیمانی ہو اگر آصف زرداری صدر ہیں تو یہ صدارتی بن جاتا ہے۔ اگر ممنون حسین صدر ہو تو یہ نرا پارلیمانی رہتا ہے۔ نظام کو قصور وار ٹہرانے سے پہلے ایک بار یہ جائزہ تو لے لیں کہ کہیں ناچ نہ جانے آنگین ٹیڑھا والا معاملہ تو نہیں ہے۔
صدارتی نظام کے حق میں فوجی آمروں کے حکومتوں کو ترقی و خوشحالی کی مثال بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حضور یہ فوجی حکومت ہی تھی جس میں ون یونٹ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کھویا۔ یہ فوجی حکومت جس نے اسلام کے نام پر افغانستان کی جنگ کا حصہ بنایا گیا۔ طالبان بنائے گئے اور آج تیسری نسل دہشتگردی اور فرقہ پرستی جھیل رہی ہے۔
یہ فوجی حکومت ہی تھی جس میں روشن خیالی کے نام پر طالبان مٹائے گئے۔ پورا ملک لہو لہو ہوا۔ معیشت تباہ ہوئی۔ ملکی سلامتی دائوں پر لگی۔ برطانیہ سمیت ڈھیر سارے ممالک میں پارلیمانی نظام ہے۔ امریکہ سمیت کئی ممالک میں صدارتی نظام ہے۔ دونوں جمہوری نظام حکومت ہیں اور کامیاب ہیں۔ مگر کامیابی کیلئے نظام پر کاربند رہنا پڑتا ہے۔ آئین پر چلنا پڑتا ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا خواہ سیاسی قائدین ہوں یا عسکری ماہرین، کوئی حکومت، کوئی ادارہ ملک کا مالک نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں۔
کیا کوئی شک ہے کہ تہتر سال بعد بھی دانستہ یا غیر دانستہ ہم ایک کنفیوزڈ قوم ہیں۔ جس ملک میں فوجی آمریت کے گن گائے جاتے ہوں۔ خلافت کی بحالی کی بات کی جاتی ہے۔ بعض اوقات تو بادشاہت کے حق میں بھی دلائل دئیے جاتے ہوں۔ سنگین ملزمان کو این آر او دیئے جاتے ہوں۔ ہر احتساب سیاسی انتقام ہو۔ سنگین غداری کے ملزمان کو بچایا جاتا ہو۔ وہاں کوئی بھی نظام کارامد نہیں ہو سکتا۔
ہمارا سب سے بڑا خطرہ یہی کنفیوژن یا ابہام ہے جو اب حکومتوں سے ہوتا ہوا ریاست تک جا پہنچا ہے۔ جنرل ضیاالحق کے دور قومی بیانیہ یہ تھا کہ طالبان بنانا قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں قومی بیانیہ تبدیل ہوا طالبان مٹانا قومی سلامتی کا تقاضہ ٹہرا۔ دو بیانیوں کا کنفیوژن آج تک جاری ہے۔ اس درمیان 8 ہزار فوجی جوانوں سمیت 70 ہزار بیگناہ سویلین، پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ 120 ارب ڈالر کا نقصان، ملکی معیشت آئی سی یو پر آ گئی، اسکے باوجود ہم آج بھی ابہام کا شکار ہیں کہ طالبان دوست ہیں یا دشمن۔
ہمیں بتایا گیا کہ رد الفساد اور ضرب عضب میں دشمن کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی گئی۔ پھر آج اسی دشمن سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ یہاں بھی ایک زبردست کنفیوژن ہے۔ ہمارا بیانیہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان دو الگ تنطیمیں ہیں۔ الگ مقاصد ہیں، مگر یہ صرف ہمارا بیانیہ ہے طالبان افغانستان اور پاکستان کا نہیں۔ انکا بیانیہ بڑا واضح ہے۔ ٹی ٹی پی کا امیر افغان طالبان کے امیر کی بیعت میں ہوتا ہے اور بیعت کا مطلب مکمل اطاعت ہے۔
افغانستان میں امریکہ کے جانے پر ہم نے جشن منایا۔ ہم دنیا میں افغانستان میں طالبان حکومت کے سب سے بڑے وکیل نظر آتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت ٹی ٹی پی دہشتگرد کارروائیوں سے روکنے پر تیار نہیں۔ صرف دو دنوں میں طالبان کے سات حملے ہوئے ہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہونیکے بعد مزید دہشتگردی کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ گویا دو بیانیوں کے کنفیوژن میں ساری قربانیاں رائیگاں گئیں۔ اب دہشتگردی کی نئی لہر شاید سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گی۔ چونکہ کرزئی اور اشرف غنی حکومت میں تو شاید ٹی ٹی پی کیلئے افغانستان اتنی محفوظ پناہ گاہ نہ ہو جتنی طالبان حکومت کے دور میں ثابت ہو گی۔ میرے منہ میں خاک مگر شاید یہ خطرہ ماضی سے کہیں زیادہ خطرناک نوعیت کا ہے۔
ہمیں بھارت، امریکہ اور روس سے خطرہ نہیں، اصل خطرات بیرونی نہیں اندرونی ہیں، ٹی ٹی پی اور بگڑی معیشت، یہی سب سے بڑے چیلنج ہیں، بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے؟ اتنی گھمبیر صورتحال میں ہمارا رد عمل یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے قومی اسمبلی تک صدارتی اور پارلیمانی نظام گونج رہا ہے۔ حکومتی وزرا سسکتی معیشت اور ہوشربا مہنگائی کو عالمی وبا قرار دیگر اطمینان کا سانس لے چکے ہیں۔ بے ضرر اپوزیشن دھرنوں اور ریلیوں کے خواب دیکھ رہی ہے۔ ادارے کیا کر رہے ہیں یہ پوچھنا چونکہ توہین کے زمرے میں آتا ہے لہذا چھوڑ دیں۔ سیاست، سیاست اور سیاست، ریاست کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ کیا کہیں سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر خوفناک دور میں داخل ہو رہا ہے، کیا کہیں سے ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی کے مارے بائیس کروڑ عوام ایک بار پھر خاک و خون، دھواں، بارود کے رحم و کرم پر ہونگے۔ کیا کہیں ایسا لگتا ہے کہ ان خوفناک چیلنجز سے نمنٹنے کیلئے کوئی پالیسی بنائی جا رہی ہے، کوئی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے؟ یا پھر دنیا کی عظیم ترین لیبارٹری میں ایک اور تجربہ ہونے جا رہا ہے؟
شاید ہمارا اصل مسئلہ جہالت نہیں بلکہ عالمانہ جہالت ہے یا پھر ایسا تو نہیں کہ بڑے بڑے قائدین، دانشوروں، ماہرین اور جاہل عوام کے درمیان فرق صرف پگڑی کا ہے؟
جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری ہے جہاں 22 کروڑ اشراف الارض پر تجربات کئے جا رہے ہیں۔ یہ لا یعنی اور مضحکہ خیز سلسلہ تہتر سال سے جاری ہیں۔ ایک مرتبہ ملا نصیر الدین بڑی سی پگڑی باندھے بیٹھے تھے کہ ایک شخص خط لیکر انکے پاس آیا اسے پڑھ کر سنا دیں۔ ملا نصیر الدین بولے میں بھی تیری طرح ان پڑھ ہوں۔ دیہاتی نے حیرانی سے دیکھا اور کہا کہ پھر سر پر اتنی بڑی پگڑی کیوں پہنی ہوئی ہے۔ ملا نصیر الدین اٹھے اپنی پگڑی اتار کر دیہاتی کے سر پر رکھی اور کہا اب تو خود ہی پڑھ لے اپنا خط۔ پاکستان میں بھی خود ساختہ دانشور ایسی بحثیں چھیڑتے رہتے ہیں جسکا نہ سر ہے نہ پیر، اب نیا سلسلہ صدارتی نظام کا مطالبہ ہے۔
صدارتی نظام کے بارے یہ بھی دیکھئے:
صدارتی نظام کے حق میں بڑے بڑے پگڑ سر پر جمانے والے قائدین اور دانشور دلائل کا انبار لگا رہے ہیں۔ میری ناقص رائے میں ہمارا مسئلہ صدارتی یا پارلیمانی نہیں بلکہ نظام کا ہے۔ نظام ہی اصل مسئلہ ہے چونکہ ہم کسی نظام کا حصہ بننے پر تیار ہی نہیں ہیں۔
نظام لاکھ پارلیمانی ہو اگر آصف زرداری صدر ہیں تو یہ صدارتی بن جاتا ہے۔ اگر ممنون حسین صدر ہو تو یہ نرا پارلیمانی رہتا ہے۔ نظام کو قصور وار ٹہرانے سے پہلے ایک بار یہ جائزہ تو لے لیں کہ کہیں ناچ نہ جانے آنگین ٹیڑھا والا معاملہ تو نہیں ہے۔
صدارتی نظام کے حق میں فوجی آمروں کے حکومتوں کو ترقی و خوشحالی کی مثال بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حضور یہ فوجی حکومت ہی تھی جس میں ون یونٹ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کھویا۔ یہ فوجی حکومت جس نے اسلام کے نام پر افغانستان کی جنگ کا حصہ بنایا گیا۔ طالبان بنائے گئے اور آج تیسری نسل دہشتگردی اور فرقہ پرستی جھیل رہی ہے۔
یہ فوجی حکومت ہی تھی جس میں روشن خیالی کے نام پر طالبان مٹائے گئے۔ پورا ملک لہو لہو ہوا۔ معیشت تباہ ہوئی۔ ملکی سلامتی دائوں پر لگی۔ برطانیہ سمیت ڈھیر سارے ممالک میں پارلیمانی نظام ہے۔ امریکہ سمیت کئی ممالک میں صدارتی نظام ہے۔ دونوں جمہوری نظام حکومت ہیں اور کامیاب ہیں۔ مگر کامیابی کیلئے نظام پر کاربند رہنا پڑتا ہے۔ آئین پر چلنا پڑتا ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا خواہ سیاسی قائدین ہوں یا عسکری ماہرین، کوئی حکومت، کوئی ادارہ ملک کا مالک نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں۔
کیا کوئی شک ہے کہ تہتر سال بعد بھی دانستہ یا غیر دانستہ ہم ایک کنفیوزڈ قوم ہیں۔ جس ملک میں فوجی آمریت کے گن گائے جاتے ہوں۔ خلافت کی بحالی کی بات کی جاتی ہے۔ بعض اوقات تو بادشاہت کے حق میں بھی دلائل دئیے جاتے ہوں۔ سنگین ملزمان کو این آر او دیئے جاتے ہوں۔ ہر احتساب سیاسی انتقام ہو۔ سنگین غداری کے ملزمان کو بچایا جاتا ہو۔ وہاں کوئی بھی نظام کارامد نہیں ہو سکتا۔
ہمارا سب سے بڑا خطرہ یہی کنفیوژن یا ابہام ہے جو اب حکومتوں سے ہوتا ہوا ریاست تک جا پہنچا ہے۔ جنرل ضیاالحق کے دور قومی بیانیہ یہ تھا کہ طالبان بنانا قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں قومی بیانیہ تبدیل ہوا طالبان مٹانا قومی سلامتی کا تقاضہ ٹہرا۔ دو بیانیوں کا کنفیوژن آج تک جاری ہے۔ اس درمیان 8 ہزار فوجی جوانوں سمیت 70 ہزار بیگناہ سویلین، پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ 120 ارب ڈالر کا نقصان، ملکی معیشت آئی سی یو پر آ گئی، اسکے باوجود ہم آج بھی ابہام کا شکار ہیں کہ طالبان دوست ہیں یا دشمن۔
ہمیں بتایا گیا کہ رد الفساد اور ضرب عضب میں دشمن کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی گئی۔ پھر آج اسی دشمن سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ یہاں بھی ایک زبردست کنفیوژن ہے۔ ہمارا بیانیہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان دو الگ تنطیمیں ہیں۔ الگ مقاصد ہیں، مگر یہ صرف ہمارا بیانیہ ہے طالبان افغانستان اور پاکستان کا نہیں۔ انکا بیانیہ بڑا واضح ہے۔ ٹی ٹی پی کا امیر افغان طالبان کے امیر کی بیعت میں ہوتا ہے اور بیعت کا مطلب مکمل اطاعت ہے۔
افغانستان میں امریکہ کے جانے پر ہم نے جشن منایا۔ ہم دنیا میں افغانستان میں طالبان حکومت کے سب سے بڑے وکیل نظر آتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت ٹی ٹی پی دہشتگرد کارروائیوں سے روکنے پر تیار نہیں۔ صرف دو دنوں میں طالبان کے سات حملے ہوئے ہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہونیکے بعد مزید دہشتگردی کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ گویا دو بیانیوں کے کنفیوژن میں ساری قربانیاں رائیگاں گئیں۔ اب دہشتگردی کی نئی لہر شاید سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گی۔ چونکہ کرزئی اور اشرف غنی حکومت میں تو شاید ٹی ٹی پی کیلئے افغانستان اتنی محفوظ پناہ گاہ نہ ہو جتنی طالبان حکومت کے دور میں ثابت ہو گی۔ میرے منہ میں خاک مگر شاید یہ خطرہ ماضی سے کہیں زیادہ خطرناک نوعیت کا ہے۔
ہمیں بھارت، امریکہ اور روس سے خطرہ نہیں، اصل خطرات بیرونی نہیں اندرونی ہیں، ٹی ٹی پی اور بگڑی معیشت، یہی سب سے بڑے چیلنج ہیں، بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے؟ اتنی گھمبیر صورتحال میں ہمارا رد عمل یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے قومی اسمبلی تک صدارتی اور پارلیمانی نظام گونج رہا ہے۔ حکومتی وزرا سسکتی معیشت اور ہوشربا مہنگائی کو عالمی وبا قرار دیگر اطمینان کا سانس لے چکے ہیں۔ بے ضرر اپوزیشن دھرنوں اور ریلیوں کے خواب دیکھ رہی ہے۔ ادارے کیا کر رہے ہیں یہ پوچھنا چونکہ توہین کے زمرے میں آتا ہے لہذا چھوڑ دیں۔ سیاست، سیاست اور سیاست، ریاست کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ کیا کہیں سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر خوفناک دور میں داخل ہو رہا ہے، کیا کہیں سے ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی کے مارے بائیس کروڑ عوام ایک بار پھر خاک و خون، دھواں، بارود کے رحم و کرم پر ہونگے۔ کیا کہیں ایسا لگتا ہے کہ ان خوفناک چیلنجز سے نمنٹنے کیلئے کوئی پالیسی بنائی جا رہی ہے، کوئی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے؟ یا پھر دنیا کی عظیم ترین لیبارٹری میں ایک اور تجربہ ہونے جا رہا ہے؟
شاید ہمارا اصل مسئلہ جہالت نہیں بلکہ عالمانہ جہالت ہے یا پھر ایسا تو نہیں کہ بڑے بڑے قائدین، دانشوروں، ماہرین اور جاہل عوام کے درمیان فرق صرف پگڑی کا ہے؟