پلڈاٹ کے جائزے کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ جمہوریت پر سے ملوکیت کا آسیبی شکنجہ ہٹانا ہے تو عوام نے ہٹانا ہے۔ باقی سب تو محض شعبدہ بازی ہے
ہمیشہ سے ہمیں شنہشاہوں اور بادشاہوں کے قصے سنائے جاتے ہیں۔ ان قصوں میں چونکہ ہر بادشاہ ہیرو ہوتا ہے۔ اس لیے نہایت عادل، سخی، کفایت شعار، نرم دل، رعایا پر جان فدا کرنیوالا ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو ٹوپیاں سی کر زندگی گزارنے والا۔ بعض رات رات بھر عبادت کرتے اور دن بھر دربار میں رعیت کے خدمت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی داستانوں میں بر بنائے احتیاط واجب تاریخ کے بعض حصوں کو سنسر کر دیا جاتا ہے۔ وہ حصے جن میں ٹیکس، لگان، شراب، شباب، رقص و سرود، حرم زدگیاں اور شاہی قتال کا تذکرہ ہو۔
اگر کچھ کسر رہ بھی جائے تو پھر بادشاہ کو خدا کا روپ یا عکس بتا کر، ہر حکمراں کو اولوالامر قرار دیکر، ہر تنقید سے بالاتر کر دیا جاتا ہے۔ عوام کا خون چوس کر محل میں عیش کرنے والا ہر بادشاہ عادل ہوتا ہے۔ تخت کیلئے بھائیوں کو قتل کرنیوالا ہر شہنشاہ نرم دل اور خوف خدا سے معمور ہوا کرتا ہے۔ سو ہماری اجتماعی سوچ آج بھی ملوکیت کے گرد گھومتی ہے۔ جمہوری روایات، آزاد معاشرہ، بنیادی حقوق، سوال اٹھانے کا حق، فکر و خیال، سب کچھ قصر سلطانی کے گنبد میں گونج کر فنا ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان حکومت: خاتمے کی راہ میں حائل ایک اور رکاوٹ دور
سلگتا بلوچستان: حساس موضوع پر چشم کشا کالمز کا مجموعہ
پندرہ جنوری : آج نامور شاعر جناب محسن نقوی کی برسی ہے
محمود و ایاز کے خاصے قصے ہم نے سن رکھے ہیں۔ محمود غزنوی سلطان، ایاز ایک غلام، دونوں کی قربت سے درباری امرا حسد میں مبتلا تھے۔ سلطان کے کان بھرا کرتے۔ ایک بار سلطان محمود غزنوی نے دربار میں عالی نسب وزیر کو شاہی خزانے کا قیمتی ہیرا اور ہتھوڑا دیا کہ ہیرا توڑ دے۔ وزیر نے کہا بادشاہ سلامت یہ بیش قیمت ہیرا، ریاست کی امانت ہے اسے نہ توڑیں۔ حکم سلطانی پر نظر ثانی فرمائیں۔ سلطان نے ایاز کو طلب کیا اور وہی حکم اسے دیا۔ ایاز نے وہ ہیرا حکم ملتے ہی توڑ دیا۔ پورے دربار میں دہائی مچ گئی۔ ایک غلام نے کم عقلی کے باعث اتنا بڑا نقصان کر دیا۔
سلطان محمود نے ایاز سے پوچھا کہ انکار کیوں نہ کیا۔ ایاز نے جواب دیا بادشاہ سلامت کا حکم میرے لئے اس ہیرے سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ جانے قصہ سچا ہے یا جھوٹا مگر ہمارے ذھنوں میں اس حکایت کا سبق یہ انڈیلا جاتا ہے کہ خلق خدا کی۔ حکم بادشاہ کا۔ حکم سلطانی اٹل ہے۔ بنا سوچے سمجھے اطاعت فرض ہے۔ اگرچہ واضح منطقی نتیجہ تو یہ ہے کہ غلامانہ سوچ جیتی اور عقل ہار گئی۔ حاکم جیتا اور ریاست ہار گئی۔
سر ونسٹن چرچل کہتے ہیں جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے۔ اس کے باوجود اُن نظاموں سے بہتر ہے جو اب تک دنیا آزما چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے مگر مسلم دنیا آج بھی کنفیوژن کا شکار ہے۔ اکثر ممالک میں تو بادشاہت رائج ہے۔ جہاں جمہوریت ہے وہاں بھی خالص نہیں بلکہ شاہانہ جمہوریت کہنا بہتر ہو گا۔ پاکستان میں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہر حکمراں کے گرد ایک مقدس ہالہ بنایا جاتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ ہر سیاسی قائد کو مقدس دیوتا تسلیم کیا جاتا ہے۔ مقدس قائد کا ہر حکم آسمانی، اختلاف، بحث، دلائل کی گنجائش موجود نہیں۔
اسی ہالے سے کچھ نور مستعار لیکر جانشینوں اور خاندان کو بھی تقدس کے نورانی جامے میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ یوں موروثیت کا جبر عوام پر مسلط رہتا ہے۔ تمامتر اختلافات کے باوجود ہر سیاسی جماعت ایک پیج پر ہے۔ سبز ہو یا سرخ، سیکولر ہو یا مذھبی، ملوکیت پر کامل ایمان ہے۔ مفتی محمود کی دائیں اور ولی خان کی بائیں بازو کی جماعت۔ سندھ کی پیپلز پارٹی ہو یا پنجاب کی ن لیگ۔ آفتاب شیر پائو ہوں یا خادم رضوی۔ سب اسی زلف کے اسیر نظر آتے ہیں اور جمہوریت منہ چھپائے سسکیاں لیتی ہے۔
آمریت میں تو الحمداللہ موروثیت کی گنجائش نہیں۔ جن پر تکیہ ہو وہی پتے جب ہوا دینے لگیں تو محاذ چھوڑا جاتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر آمر کا خاندان بفضل خدا شاہانہ زندگی گزارتا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آمریت، جمہوریت کی نہیں بلکہ جمہور کی ازلی دشمن ہے۔ مگر جمہوری قائدین اور جماعتیں کیوں جمہوریت سے اسقدر دور بھاگتے ہیں؟ اسکا جواب ہنوز نہ مل سکا۔ آمریت پر دس ہزار بار لعنت مگر حضور جمہوری غلطیوں کو بھی تو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بقول رئیس فروغ
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
یہی جمہوری ملوکیت کا حسن ہے کہ ایوب سے ضیا اور پھر مشرف تک، بیشتر سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طور آمروں کو کندھا فراہم کرتی رہیں۔ ہر دور کے سیاسی ایاز عسکری صفوں میں بندگی کرتے نظر آئے۔ بزعم خود پاکستان کے سینئر ترین جمہوری رہنما شیخ رشید کی وعدہ معاف گواہی کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ تمام سیاستدان جی ایچ کیو گیٹ چار کی پیداوار ہیں۔ اب پتہ نہیں اتنا خوفناک الزام قومی سلامتی پر طبع نازک پر گراں کیوں نہ گزرا؟ مگر یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جتنا انکار کیا جاتا ہے اتنی ہی عیاں ہوتی ہے۔
پلڈاٹ کے مطابق پاکستان میں جمہوریت کو پانچ اہم ترین خطرات لاحق ہیں۔ شفاف نظام حکومت اور قانون کی حکمرانی نہ ہونا۔ جمہوری جماعتوں میں جمہوریت کا فقدان اور شخصیات کے گرد گھومتی سیاست دوسرا خطرہ قرار دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جبر اور آمریت کی فضا جو جوان نسل کو سیاست سے دور رکھتا ہے۔ غیر فعال یا کمزور پارلیمان ایک اور خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ فوج کی جانب سے جمہوری عمل کے تسلسل کی اہمیت سے انکار و مداخلت بھی سنگین خطرہ ہیں۔
آخری وجہ شاید سب سے زیادہ سنگین مگر باقی چار نکات سیاسی جماعتوں سے متعلق ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بھٹو صاحب نے پہلی بار عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا۔ مگر آج عوام سیاسی ڈسکنیکٹ کا شکار ہیں۔ آمر تو خیر آمر ہے۔ جمہوری رہنما بھی عوام الناس سے دور ہیں۔ ہر پانچ سال بعد انتخابات جمہوریت نہیں، جمہور کی قوت کیساتھ کھڑی حکومت ہی جمہوری کہلاتی ہے۔ برنارڈ شا نے کہا ہے کہ جمہوریت ایسا عمل ہے جس کے تحت ویسے ہی حکمراں ملتے ہیں جس کے ہم لائق ہوتے ہیں۔ جمہوریت پر سے ملوکیت کا آسیبی شکنجہ ہٹانا ہے تو عوام نے ہٹانا ہے۔ باقی سب تو محض شعبدہ بازی ہے۔