• مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home فکر و خیال

جمہوریت اور جمہوری ملوکیت کا حسن

پلڈاٹ کے جائزے کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ جمہوریت پر سے ملوکیت کا آسیبی شکنجہ ہٹانا ہے تو عوام نے ہٹانا ہے۔ باقی سب تو محض شعبدہ بازی ہے

معصوم رضوی by معصوم رضوی
January 16, 2022
in فکر و خیال
0
جمہوریت
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

پلڈاٹ کے جائزے کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ جمہوریت پر سے ملوکیت کا آسیبی شکنجہ ہٹانا ہے تو عوام نے ہٹانا ہے۔ باقی سب تو محض شعبدہ بازی ہے

ہمیشہ سے ہمیں شنہشاہوں اور بادشاہوں کے قصے سنائے جاتے ہیں۔ ان قصوں میں چونکہ ہر بادشاہ ہیرو ہوتا ہے۔ اس لیے نہایت عادل، سخی، کفایت شعار، نرم دل، رعایا پر جان فدا کرنیوالا ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو ٹوپیاں سی کر زندگی گزارنے والا۔ بعض رات رات بھر عبادت کرتے اور دن بھر دربار میں رعیت کے خدمت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی داستانوں میں بر بنائے احتیاط واجب تاریخ کے بعض حصوں کو سنسر کر دیا جاتا ہے۔ وہ حصے جن میں ٹیکس، لگان، شراب، شباب، رقص و سرود، حرم زدگیاں اور شاہی قتال کا تذکرہ ہو۔

اگر کچھ کسر رہ بھی جائے تو پھر بادشاہ کو خدا کا روپ یا عکس بتا کر، ہر حکمراں کو اولوالامر قرار دیکر، ہر تنقید سے بالاتر کر دیا جاتا ہے۔ عوام کا خون چوس کر محل میں عیش کرنے والا ہر بادشاہ عادل ہوتا ہے۔ تخت کیلئے بھائیوں کو قتل کرنیوالا ہر شہنشاہ نرم دل اور خوف خدا سے معمور ہوا کرتا ہے۔ سو ہماری اجتماعی سوچ آج بھی ملوکیت کے گرد گھومتی ہے۔ جمہوری روایات، آزاد معاشرہ، بنیادی حقوق، سوال اٹھانے کا حق، فکر و خیال، سب کچھ قصر سلطانی کے گنبد میں گونج کر فنا ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:

عمران خان حکومت: خاتمے کی راہ میں حائل ایک اور رکاوٹ دور

ADVERTISEMENT

سلگتا بلوچستان: حساس موضوع پر چشم کشا کالمز کا مجموعہ

پندرہ جنوری : آج نامور شاعر جناب محسن نقوی کی برسی ہے

محمود و ایاز کے خاصے قصے ہم نے سن رکھے ہیں۔ محمود غزنوی سلطان، ایاز ایک غلام، دونوں کی قربت سے درباری امرا حسد میں مبتلا تھے۔ سلطان کے کان بھرا کرتے۔ ایک بار سلطان محمود غزنوی نے دربار میں عالی نسب وزیر کو شاہی خزانے کا قیمتی ہیرا اور ہتھوڑا دیا کہ ہیرا توڑ دے۔ وزیر نے کہا بادشاہ سلامت یہ بیش قیمت ہیرا، ریاست کی امانت ہے اسے نہ توڑیں۔ حکم سلطانی پر نظر ثانی فرمائیں۔ سلطان نے ایاز کو طلب کیا اور وہی حکم اسے دیا۔ ایاز نے وہ ہیرا حکم ملتے ہی توڑ دیا۔ پورے دربار میں دہائی مچ گئی۔ ایک غلام نے کم عقلی کے باعث اتنا بڑا نقصان کر دیا۔

سلطان محمود نے ایاز سے پوچھا کہ انکار کیوں نہ کیا۔ ایاز نے جواب دیا بادشاہ سلامت کا حکم میرے لئے اس ہیرے سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ جانے قصہ سچا ہے یا جھوٹا مگر ہمارے ذھنوں میں اس حکایت کا سبق یہ انڈیلا جاتا ہے کہ خلق خدا کی۔ حکم بادشاہ کا۔ حکم سلطانی اٹل ہے۔ بنا سوچے سمجھے اطاعت فرض ہے۔ اگرچہ واضح منطقی نتیجہ تو یہ ہے کہ غلامانہ سوچ جیتی اور عقل ہار گئی۔ حاکم جیتا اور ریاست ہار گئی۔

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

سر ونسٹن چرچل کہتے ہیں جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے۔ اس کے باوجود اُن نظاموں سے بہتر ہے جو اب تک دنیا آزما چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے مگر مسلم دنیا آج بھی کنفیوژن کا شکار ہے۔ اکثر ممالک میں تو بادشاہت رائج ہے۔ جہاں جمہوریت ہے وہاں بھی خالص نہیں بلکہ شاہانہ جمہوریت کہنا بہتر ہو گا۔ پاکستان میں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہر حکمراں کے گرد ایک مقدس ہالہ بنایا جاتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ ہر سیاسی قائد کو مقدس دیوتا تسلیم کیا جاتا ہے۔ مقدس قائد کا ہر حکم آسمانی، اختلاف، بحث، دلائل کی گنجائش موجود نہیں۔

اسی ہالے سے کچھ نور مستعار لیکر جانشینوں اور خاندان کو بھی تقدس کے نورانی جامے میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ یوں موروثیت کا جبر عوام پر مسلط رہتا ہے۔ تمامتر اختلافات کے باوجود ہر سیاسی جماعت ایک پیج پر ہے۔ سبز ہو یا سرخ، سیکولر ہو یا مذھبی، ملوکیت پر کامل ایمان ہے۔ مفتی محمود کی دائیں اور ولی خان کی بائیں بازو کی جماعت۔ سندھ کی پیپلز پارٹی ہو یا پنجاب کی ن لیگ۔ آفتاب شیر پائو ہوں یا خادم رضوی۔ سب اسی زلف کے اسیر نظر آتے ہیں اور جمہوریت منہ چھپائے سسکیاں لیتی ہے۔

آمریت میں تو الحمداللہ موروثیت کی گنجائش نہیں۔  جن پر تکیہ ہو وہی پتے جب ہوا دینے لگیں تو محاذ چھوڑا جاتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر آمر کا خاندان بفضل خدا شاہانہ زندگی گزارتا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آمریت، جمہوریت کی نہیں بلکہ جمہور کی ازلی دشمن ہے۔ مگر جمہوری قائدین اور جماعتیں کیوں جمہوریت سے اسقدر دور بھاگتے ہیں؟ اسکا جواب ہنوز نہ مل سکا۔ آمریت پر دس ہزار بار لعنت مگر حضور جمہوری غلطیوں کو بھی تو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بقول  رئیس فروغ

حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے

یہی جمہوری ملوکیت کا حسن ہے کہ ایوب سے ضیا اور پھر مشرف تک، بیشتر سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طور آمروں کو کندھا فراہم کرتی رہیں۔ ہر دور کے سیاسی ایاز عسکری صفوں میں بندگی کرتے نظر آئے۔ بزعم خود پاکستان کے سینئر ترین جمہوری رہنما شیخ رشید کی وعدہ معاف گواہی کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ تمام سیاستدان جی ایچ کیو گیٹ چار کی پیداوار ہیں۔ اب پتہ نہیں اتنا خوفناک الزام قومی سلامتی پر طبع نازک پر گراں کیوں نہ گزرا؟ مگر یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جتنا انکار کیا جاتا ہے اتنی ہی عیاں ہوتی ہے۔

پلڈاٹ کے مطابق پاکستان میں جمہوریت کو پانچ اہم ترین خطرات لاحق ہیں۔ شفاف نظام حکومت اور قانون کی حکمرانی نہ ہونا۔ جمہوری جماعتوں میں جمہوریت کا فقدان اور شخصیات کے گرد گھومتی سیاست دوسرا خطرہ قرار دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جبر اور آمریت کی فضا جو جوان نسل کو سیاست سے دور رکھتا ہے۔ غیر فعال یا کمزور پارلیمان  ایک اور خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ فوج کی جانب سے جمہوری عمل کے تسلسل کی اہمیت سے انکار و مداخلت بھی سنگین خطرہ ہیں۔

آخری وجہ شاید سب سے زیادہ سنگین مگر باقی چار نکات سیاسی جماعتوں سے متعلق ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بھٹو صاحب نے پہلی بار عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا۔ مگر آج عوام سیاسی ڈسکنیکٹ کا شکار ہیں۔ آمر تو خیر آمر ہے۔ جمہوری رہنما بھی عوام الناس سے دور ہیں۔ ہر پانچ سال بعد انتخابات جمہوریت نہیں، جمہور کی قوت کیساتھ کھڑی حکومت ہی جمہوری کہلاتی ہے۔ برنارڈ شا نے کہا ہے کہ جمہوریت ایسا عمل ہے جس کے تحت ویسے ہی حکمراں ملتے ہیں جس کے ہم لائق ہوتے ہیں۔ جمہوریت پر سے ملوکیت کا آسیبی شکنجہ ہٹانا ہے تو عوام نے ہٹانا ہے۔ باقی سب تو محض شعبدہ بازی ہے۔

Previous Post

پندرہ جنوری : آج نامور شاعر جناب محسن نقوی کی برسی ہے

Next Post

اسلامی انقلاب کے لیے مر مٹنے والا کے ایک گم نام انقلابی، علی حیدر مرحوم

معصوم رضوی

معصوم رضوی

Next Post
انقلاب

اسلامی انقلاب کے لیے مر مٹنے والا کے ایک گم نام انقلابی، علی حیدر مرحوم

محشر خیال

کیا یہ کانٹے نواز شریف کی راہ کے ہیں؟
محشر خیال

کیا یہ کانٹے نواز شریف کی راہ کے ہیں؟

نواز شریف بھٹو پر کیسے بھاری ہیں؟
محشر خیال

نواز شریف بھٹو پر کیسے بھاری ہیں؟

جناب سہیل وڑائچ کی مہا بھارت اور سینیٹر عرفان صدیقی
محشر خیال

جناب سہیل وڑائچ کی مہا بھارت اور سینیٹر عرفان صدیقی

انتخابی منشور محض کاغذ کا ٹکڑا ہے یا آئینی دستاویز؟
محشر خیال

انتخابی منشور محض کاغذ کا ٹکڑا ہے یا آئینی دستاویز؟

تبادلہ خیال

پپو تنگ کیوں نہیں کرتا؟
تبادلہ خیال

پپو تنگ کیوں نہیں کرتا؟

یوم دفاع کیسے منائیں؟
تبادلہ خیال

یوم دفاع منانے کے چھ طریقے

شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست
تبادلہ خیال

شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست

کراچی، مرتضیٰ وہاب اور حافظ نعیم، ایک سے بھلے دو
تبادلہ خیال

کراچی، مرتضیٰ وہاب اور حافظ نعیم، ایک سے بھلے دو

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • ٹیکنالوجی
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

    No Result
    View All Result
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions