نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ اچانک منسوخ ہوا کہ سب بھونچکے رہ گئے۔ چینلز پر بھونچال، بریکنگ نیوز، ٹرانسمیشن، کھلاڑی، کھیلوں کے ماہرین، سفارتکار، دفاعی ماہرین، وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس، جتنے منہ اتنی باتیں، وہی جذباتی مکالمے، قربانیوں کا تذکرہ، طعنے، کوسنے مگر بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ اچانک ہی ہوا؟ کیا اسکا تعلق صرف کرکٹ سے ہے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ دنیا ہمیں کچھ پیغام دے رہی ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ صرف کرکٹ نہیں بلکہ پاکستان کیلئے بڑا دھچکہ ہے، ہر پاکستانی کی طرح مجھے بھی شدید تکلیف ہے اور زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ سیکورٹی کو وجہ بنایا گیا جو کہ قطعی بے بنیاد دعوی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ کئی سالوں کی کڑی محنت کے بعد یہ امن و امان کی حوالے سے خدشات دور کر کے عالمی کھیلوں کا کامیاب انعقاد کیا۔ زمبابوے اور جنوبی افریقی ٹیموں کی آمد، فول پروف سیکورٹی، اس واقعے نے ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ ماضی میں اس معاملے پر حکومت، محکمے، سیکورٹی ادارے سب نے ملکر کام کیا اور کامیابی سے عالمی ایونٹ کروائے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان امن و امان کے حوالے محفوظ ملک ہے اور یہ ثابت کر چکا ہے۔ سیکورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر انٹرنیشنل سیریز منسوخ کرنے کی وجہ کچھ اور ہے، سیکورٹی خدشات بہرطور نہیں ہے۔
افغانستان کی تبدیل شدہ صورتحال کسی حد تک پاکستان اور خطے کی دیگر ممالک کے حق میں ہے۔ امریکہ، برطانیہ یا یورپ کو ہزیمت اٹھانی پڑی، بھارت خطے میں تنہا ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین، روس، ایران اور خطے کے دیگر ممالک کا رویہ اس حوالے سے اب تک نہایت محتاط ہے، حتی کہ چین کا بھی جو امریکہ کی رخصت کے بعد خطے کی واحد بڑی طاقت بن چکا ہے۔ پاکستان کا رویہ بھی ابتدا میں محتاط اور سفارتی رہا مگر رفتہ رفتہ حسب روایت جذبات غالب آتے رہے، خطبوں میں روانی آتی گئی، اب صورتحال یہ ہے کہ ہم دنیا میں طالبان کا مقدمہ لڑ رہے ہیں، عالمی برادری کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ افغانستان کا ساتھ دیا جائے، خطے کا کوئی بھی اور ملک شاید افغانستان بھی اتنا جذباتی نہیں جتنے سفارتی سطح پر ہم نظر آتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ان ممالک سے کہیں زیادہ محتاط رہتے کی ضرورت ہے چونکہ جو کچھ ہم بھگت چکے ہیں، ان میں سے کسی ملک نے نہیں جھیلا۔ پاکستان میں بھی طالبان کو عام معافی دینے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، گویا جن 70 ہزار شہدا، بلین ڈالرز معاشی نقصان ہم دنیا کو بار بار یاد دلاتے تھے، اب اسے بھولنے کا درس دیا جائیگا۔
ہمارا مسئلہ بڑا گھمبیر ہے، دنیا ہماری زبان نہیں سمجھتی یا پھر ہم دنیا کی زبان سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ مشیر، وزرا تڑپ تڑپ کر حیرت کا اظہار کرتے رہے کہ جو بائیڈن نے پاکستان جیسے ملک سے رابطہ نہیں کیا، وزیر اعظم کو فون نہیں کیا، جانے اعلی سطح پر ایسی سفارتی حماقت کا کیا جواز تھا ہاں مگر یہ ضرور ہوا کہ پاکستان کا دنیا بھر میں مذاق بن گیا۔ افغانستان سے واپسی پر تمام اہم ممالک سے رابطوں کے باوجود امریکہ کا پاکستان سے رابطہ نہ کرنا بھی تو ایک پیغام تھا۔ اب ذرا نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی معاملے کو قریب سے دیکھیں تو یہ سمجھا بوجھا فیصلہ ہے۔ برطانیہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ 24 سے 48 گھنٹوں میں کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان سے فیصلہ کریگا، اصل بات یہ ہے کہ فیصلہ ہو چکا، مغرب سرگرم ہے برطانوی ٹیم پاکستان نہیں آئیگی، رہی بات آئی سی سی کی تو یہ محاذ بھارت کی ذمہ داری ہے۔ گویا امریکہ، مغرب اور بھارت ہمارے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے جا رہے ہیں اور وجہ بن رہی ہے غیر محتاط سفارتی رویہ، جذباتی پالیسیاں، ناتجربہ کاری اور خودپسندی اور ضرورت سے بڑھا اعتماد، یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں شاہ محمود قریشی کی سفارتی صلاحتیں بھی کھل کر سامنے آ چکی ہیں۔
اس صورتحال میں صدر مملکت کے مشترکہ پارلیمنٹ سے فکر انگیز خطاب پر غور فرمائیں، صدر عارف علوی فرماتے ہیں کہ دنیا وزیر اعظم عمران خان کے تدبر اور بصیرت پر انکی شاگردی اور مرید بن جائے۔ ہر روز ٹی وی چینلز پر بیٹھے چھٹ بھئیے وزرا جس خضوع و خشوع سے وزیر اعظم کی سیاسی بصیرت کی تسبیح پڑھتے ہیں، خیر انکی تو نوکری ہے مگر بعض اوقات تو واقعی لگتا ہے کہ جلد عالمی مرشد بن جائینگے۔ مغرب کی بات تو چھوڑیں، سعودی عرب اور متحدہ امارات ہمیں اوقات یاد دلاتے رہتے ہیں، ترکی اور ملائیشیا اعتماد کرنا چاہتے ہیں مگر بوجوہ قاصر ہیں، ایران سے تعلقات اب تک برے نہیں تو اتنے اچھے بھی نہیں، رہی بات چین کی تو بہرحال چین نے بھرپور ساتھ دیا ہے مگر اسکی اولین ترجیح ون بیلٹ ون روڈ یا سی پیک ہے، خیر سے سی پیک چیئرمین بھرپور کارکردگی دکھا کر رخصت ہوئے، اب نئے معاون خصوصی خالد منصور فرماتے ہیں کہ چین سی پیک پر حکومتی محکموں اور کام کی رفتار سے مطمئن نہیں ہے۔
دنیا میں اپوزیشن اور خود ستائی کے علاوہ بھی اور بہت کچھ ہے، ملک تقریروں اور بلند بانگ دعووں سے نہیں چلا کرتے، جان کی امان پائوں تو عرض کروں کی سیاست ہو یا حکومت، ریاست سے افضل نہیں ہوتے، خدارا ہوش کے ناخن لیں، نوشتہ دیوار پڑھیں۔ بائیس کروڑ عوام کو پھر تجربے کی بھٹی میں نہ جھونکیں۔ آپ افغانستان میں طالبان حکومت کا ساتھ دینا چاہتے ہیں بیشک دیں، مگر ریاست اور بائیس کروڑ عوام کی قیمت پر ہرگز نہیں، پاکستان خاک و خون سے گزر کر آیا ہے، بقول وزیر اعظم ایک ایسی جنگ بھگت چکا ہے جو ہماری تھی ہی نہیں، تو پھر اب ایک ایسی جنگ میں کیوں کود رہا ہے جو ہماری ہے ہی نہیں؟
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے