صوفی اور درویش، در حقیقت وہ جماعت ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا، دین اسلام کے یہ مبلغ صرف اسی خطے میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں وحدانیت کا پیغام پہنچاتے رہے۔ شاید یہ ہمارے ذھنی کمزور ہے کہ صوفیوں اور درویشوں کو معجزات اور کرشموں کے پیمانے میں تولتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ تن تنہا، خالی ہاتھ کسی بھی معاشرے کو رخ پھیرنے کی پیغمبرانہ صفت صرف اولیا کا ہی خاصہ ہے۔ قطب، غوث، قلندر، ابدال، تصوف کی دنیا کے عجب پیچ و خم ہیں۔ لعل شہباز قلندر کی سیوستان آمد اور ہندو راجہ چوپٹ سے معرکہ، آج بھی راجہ چوپٹ کا الٹا محل سیہون میں نشان عبرت ہے، یہ بھی درست ہے کہ محققین نے اس عظیم صوفی کا حق ادا نہیں کیا، قلندر پر بیشمار کتابیں موجود ہیں مگر بیشتر میں واقعات و کرامات کا احاطہ کیا گیا ہے، حضرت عثمان مروندی کے روحانی سلسلے کے بارے میں تاریخی کتب میں اتنے تضادات موجود ہیں کہ حقیقت اوجھل ہو جاتی ہے،،، دیکھتے ہیں عظیم صوفی لعل شہباز قلندر پر یہ ڈاکومنٹری: