عالمانہ جہالت، مذھبی تجارت، اخلاقی بغاوت، جہل کی شقاوت، جنت کی بشارت، کشکولیات میں مہارت، کرپشن کی نجابت، سیاسی شرافت اور طبقاتی ذلالت کے بیچ پھنسے بائیس کروڑ انسان منافقت کے سمندروں میں غوطہ زن ہیں۔ ہر غلطی کا ذمہ دار حکومت کو ٹہرا کر خود اطمینانی تو حاصل کی جا سکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ من الحیث القوم منافقت کی غلیظ دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ معاشرہ اگر تنزلی کا شکار ہے تو کہیں نہ کہیں ہم اور آپ بھی تو ذمہ دار ہیں۔ شاید ہم ادھورے سچ کا شکار ہیں، ادھورا سچ جو جھوٹ سے زیادہ سفاک اور تباہ کن ہوتا ہے اور اگر ادھورا سچ اپنے آپ سے بولا جائے تو ہولناک المیئے جنم لیتے ہیں۔
جمہوریت پر جان نچھاور اور آمریت کا استقبال کرنے کیلئے بیتاب، آئین اساس اور آئین شکن ہیرو، ستر سالوں آمریت و جمہوریت کی پر لطف چسکیاں لینے کے بعد چائے کی پیالی سے احیائے خلافت نمودار ہونیکی آس، تاریخ کی تعمیرنو میں انتھک محنت اور مستقبل کی تعبیر سے یکسر غفلت، مشرقی پاکستان یہود و ہنود اور روس مرد مومن، مرد حق ضیاالحق نے توڑا۔ طالبان جیسی انقلابی تنظیم بنائی اور طالبان جیسی فاشسٹ تنظیم کو برباد کیا، 60 ہزار گمنام شہری اور 7 ہزار فوجی شہادتوں کے بعد بھی سمجھ نہ آئے کہ جنگ اپنی تھی یا پرائی، کشمیر پر ثالث کی تلاش اور ہر عالمی مسئلے میں ثالث بننے کیلئے ہر دم تیار، عاصمہ جہانگیر کبھی راس نہ آئی مگر ارون دھتی رائے کی بہادری کے قائل، جہاں ہر آنیوالی حکومت صادق و امین اور جانیوالے کاذب و کمین پھر تو ایسی ہی موجیں ہوں گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ڈھیر سارے رہنما چی گویرا اور کچھ نیلسن منڈیلا بنے پھرتے ہیں مگر جانے کیوں آخر کار سب آنگ سان سوچی نکلتے ہیں۔
اپنے سارے کام خدا کے سپرد اور خدا کے کام خود انجام دینے کا عزم، دنیا کے تمام امتحانات میں فیل ہو کر بھی بہترین آخرت کی تلاش، برانڈڈ ریستوراں پر قطاریں اور سڑکیں بھکاریوں سے بھری ہوں۔ اپنے عقیدے پر چلو نہیں دوسرے کو اسکے عقیدے پر چلنے نہ دو، دین میں جبر کو حرام اور جابرانہ فتووں کو حلال سمجھا جاتا ہو، عقیدہ پڑھ کر نہیں سن کر راسخ کیا جائے۔ یقین جانیں بعض اوقات تو لگتا ہے کہ پوری قوم سلسلہ ملامتیہ سے تعلق رکھتی ہے، ملامتی صوفی باطن میں اجلا مگر ظاہر میلا، بس ذرا سا فرق ہے کہ ہمارا ظاہر اجلا اور باطن میلا رہتا ہے۔ جہاں چیخنا، چلانا دلیل اور جگت دانشوری تصور کی جائے، ون وے کے مخالف گاڑی چلانا بہادری اور قانون کا احترام بزدلی جانا جائے، کینسر کا علاج سنیاسی باوا اور کورونا کا دم سے کیا جائے، ٹیکس دھندہ حقیر اور نادھندہ کبیر مانا جائے۔ جو پولیو قطروں کو نسل کش اور سلاجیت کو نسل کشا، کتاب کو مشکوک اور سوشل میڈیا کو معتبر گردانیں، جہاں افواہ سچ اور حلفیہ سچ، جھوٹ نکلتا ہوں۔ ایسے میں کس پر الزام دھرا جائے، کس کا گریبان پکڑا جائے، اس حمام میں تو سب ننگے ہیں، ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے۔
سگنل توڑنے، غریب کا حق مارنے، بچوں پر ظلم و ستم، رشتوں اور تعلق کی اہمیت، بزرگوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت، رشوت دینے، ظلم سہنے، آواز اٹھانے، انصاف کرنے، تحمل، برداشت، رواداری، اخلاق، شائستگی، وضعداری، انصاف یہ سب حکومتوں کے نہیں، ذاتی اوصاف ہوا کرتے ہیں۔ کوئی معاشرہ کتنا ہی مذھبی کیوں نہ ہو انسانیت سے عاری ہے تو غول بیابانی ہی کہا جا سکتا ہے۔ جہاں اجتماعی مفاد پر ذاتی مفاد کی ترجیح دی جائے تو پھر یہی کچھ ہوا کرتا ہے جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ کبھی خود سے بھی بات کرنی چاہیئے، من میں اتر کر اپنا احتساب، اپنے آپ کی تلاش، بہت سارے جوابات تو ہماری ذات میں چھپے ہیں۔ آج اگر معاشرہ کرختگی، بیزاری، بے حسی بلکہ درندگی کی تصویر بنتا جا رہا ہے تو اسکا جواب بھی ہمارے اندر کہیں نہ کہیں موجود ہے، دبیز دھند کا دوشالا اوڑھے ہمارا ضمیر کبھی کبھار خواب غفلت سے اٹھکر انگڑائی لیتا ہے تو تھپک تھپک کر اسے دوبارہ سلا دیتے ہیں، کبھی کبھار ضمیر کی سن لیا کریں، اپنے آپ سے مل لیا کریں، اپنے من میں جھانک لیں تو یقین جانیں احساس ملامت معاشرے کو بدل سکتا ہے۔
معاشرے کی خرابی ایک بڑا سوال، سارے نہیں تو کچھ جوابات میرے اور آپ کے اندر بھی موجود ہیں، حکومتوں کو گالیاں دینے سے بہتر ہے ’کچھ‘ کو بہتر کر لیں، معاشرہ خودبخود سدھر جائیگا، احمد ندیم قاسمی نے کیا خوب کہا ہے
ظالموں کی عجیب منطق ہے
آسمان سے وبال آتے ہیں
اپنے اعمال کا وہ بار گراں
اپنے اللہ پہ ڈال آتے ہیں