بلھے شاہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری دل کو چھو جاتی ہے جن کی جرات پر رشک آتا ہے۔ جو سوال اٹھانا آج جرم جانا جاتا ہے بلھے شاہ ڈھائی سو سال پہلے آواز بلند کرتے ہیں اور گھبراتے ہیں پھر اس کی قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔
صوفیا کی تاریخ میں ایسا کردار شاید ہی کوئی اور ہو جس نے اپنے زمانے کی فرعون صفت اشرافیہ کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس عزم سے للکارا ہو۔ بلھے شاہ کے سوالوں سے پریشان ملاؤں نے انھیں کافر اور زندیق قرار دیا تو اشرافیہ نے قومی سلامتی کے خلاف خطرہ، مگر بلھے شاہ رکے نہیں، ڈرے نہیں، جھکے نہیں، انتقال ہوا تو نماز جنازہ کے خلاف فتوی، شہر میں تدفین پر پابندی سو شہر سے باہر ویرانے میں دو گز جگہ ملی، مگر کیا کیا جائے کہ آج شہر قصور بلھے شاہ کے مزار کے گرد رقص کرتا ہے۔
کیا کیا جائے کہ وہ ملا ، چوہدری اور جاگیر دار آج بے نام ہیں اور بلھے شاہ کا نام ہر سو گونجتا ہے۔ بلھے شاہ کی زندگی میں بڑے پیچ و خم ہیں، ایک طرف وحدت الوجود ہے تو دوسری طرف وجود کا بھرپور اظہار، ایک طرف علم ہے تو دوسری جانب جذب، بڑی ہمہ جہت شخصیت ہے اس صوفی کی، بلھا کیہہ جاناں میں کون؟ یہ سوال صرف بلھے کا نہیں، ہم سب کا ہے، ذات کی تلاش، حق کی پہنچان اور خدا کی تلاش، بلھے شاہ کی زندگی کے پیچ و خم کی داستان دیکھتے ہیں، سنتے ہیں باغی صوفی کی للکار، اس ڈاکومنٹری میں جانتے ہیں بلھے شاہ کے بارے میں