کیڑے، رینگتے ہوئے، سرسراتے ہوئے، کلبلاتے ہوئے، بل کھا کر پلٹنے والے، اڑنے والے، ڈسنے والے، کاٹنے والے… ان کیڑوں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ کیڑے نہ صرف دکھائی دیتے ہیں بلکہ آپ ان سے خود کو بچانے کے لئے حفاظتی اقدامات بھی کر سکتے ہیں- لیکن ایک کیڑا ایسا بھی ہوتا ہے جو ہمیشہ چھپا رہتا ہے، دکھائی نہیں دیتا اور جب کُلبُلاتا ہے تو ہر طرف کھجلی مچا کر رکھ دیتا ہے- جب کاٹتا ہے تو اس کا کاٹا پانی بھی نہیں مانگتا- جاننا چاہیں گے کہ یہ کس کیڑے کی بات ہو رہی ہے اور یہ کہاں رہتا ہے؟؟
تو جناب اس کیڑے کا نام ہے دماغی کیڑا اور یہ رہتا ہے آپ کے دماغ میں- جب موقع ملتا ہے کاٹتا ہے اور جب یہ کاٹتا ہے تو پھر کچھ سُجھائی نہیں دیتا- شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ بنا دیتا ہے- محل سے جھگی میں لا کر بٹھا دیتا ہے اور سڑک چلتے کو تخت و تاج کا مالک بنا دیتا ہے- فرش سے عرش پر پہنچا دیتا ہے یا پھر عرش سے واپس فرش پر لا پٹختا ہے- ملکہ کو کنیز بنا کر بااختیار سے بے اختیار کر دیتا ہے- اچھی بھلی حکومت کرتے حکمرانوں کا تختہ پلٹ دیتا ہے اور ان کو تختہِ دار پر لا کھڑا کرتا ہے- اسی دماغی کیڑے نے نہ جانے کتنے شہنشاہوں کو جیل میں چکی پیسنے کی مشقت جھیلنے پر مجبور کیا اور بڑے بڑے امراء و رؤسا کو بیش قیمتی قباء سے محروم کر کے غربت کا چولا پہنایا- دماغی کیڑے کے کاٹنے سے کوئی بھی تو نہ بچ سکا- ہم سب کو زندگی میں کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی مقام پر اس کیڑے کی شرفِ میزبانی ضرور حاصل ہوتی ہے- بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو اس کیڑے کی تباہ کاریوں سے خود کو انکساری کی ڈھال استعمال کر کے محفوظ رکھتے ہیں-
دماغی کیڑے کے کاٹنے کے بعد اس کے اثرات واضح طور پر متاثرہ شخص پر محسوس کیے جا سکتے ہیں- یہ کسی کی بھی بسی بسائی زندگی تباہ کر سکتا ہے اور متاثرین کے لیےصرف پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے- اکثر اوقات تو مداوا بھی ممکن نہیں ہوتا- اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ کیڑا اندر ہی اندر دماغ کو کھا چکا ہوتا ہے اور سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتوں کو سلب کر کے آپکی آنکھوں پر ” بس میں” کی عینک پہنا دیتا ہے- اب جناب اس عینک سے دنیا میں اپنے سوا کوئی بھی دوسرا دکھائی نہیں دیتا- اپنے سامنے سب حقیر، کم تر اور کم عقل دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ اس عینک کو پہن کر خود ساختہ عقل اچانک سے تیز ہوجاتی ہے-
یہ کیڑا دماغ میں بیٹھ کر پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے- اکثر زبان اس کا ہتھیار ہوتی ہے، بس پھر زبان نہ موقع دیکھتی ہے اور نہ محل بس اس کے زیرِ اثر دو دھاری تلوار کی طرح چل پڑتی ہے اور بغیر کچھ سوچے سمجھے وہ کچھ کہہ جاتی ہے جس کا عام حالات میں نہ کہنا ہی عقلمندی ہے- بہرحال نتیجتاً جوابی حملوں میں پھر باقی سب مل کر آپ کو “کاٹتے” ہیں لیکن اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چُگ گئ کھیت-
دماغی کیڑے کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ عمر کے کسی بھی حصے میں کاٹ سکتا ہے- اور عموماً اس کا شکار بڑی عمر کے سمجھدار اور تجربہ کار لوگ ہی بنتے ہیں- کم عمر لوگ نا سمجھی کا سرٹیفکیٹ دکھا کر صاف بچ جاتے ہیں لیکن اس دماغی کیڑےکی کلبلاہٹ کا شکار بڑی عمر کے لوگ بھی بچہ بن جاتے ہیں اور پھر بچے ان کو حیرت سے دیکھ کر کہتے ہیں کہ…
“ارے ان کو کیا ہوا ہے جو بچوں کی طرح ضد کر رہے ہیں- جبکہ ہم اس عمر میں بھی کافی سمجھدار ہیں -“
دماغ رب سبحان تعالیٰ کی سب سے بڑی عطا ہے۔ عقل و شعور کی بنیاد پر ہی تو انسان کا مقام طے ہوا اور اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا۔ عقل کو استعمال کرنے کا سلیقہ دیا گیا کہ اسی سلیقے میں انسانی ترقی کا راز پوشیدہ ہے- اسی عقل کو بہترین انداز میں استعمال کر کے انسان اپنے اطراف میں موجود چیزوں کو دیکھتا ہے، سمجھتا ہے، سوچتا ہے نت نئے تجربے اور تجزیے کرتا ہے اور اپنے ساتھ دوسروں کے لیے بھی مفید ثابت ہوتا ہے- مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دماغ میں یہ کیڑا پیدا کیسے ہوتا ہے اور کن حالات میں اس کیڑے کو پنپنے کے بھرپور مواقع ملتے ہیں؟
اسکی توجیہہ اس طرح پیش کی جا سکتی ہے جب دماغ میں علم اور عہدے کا غرور پیدا ہو جائے، سینہ چوڑا ہو جائے اور تکبر اپنی جگہ بنانا شروع کر دے تو سمجھ جائیں کہ دماغ میں یہ کیڑا پیدا ہوچکا ہے- اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ علم کا غرور کیسے پیدا ہوتا ہے؟ علم کا غرور اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ کے گرد موجود موقع پرست اور چاپلوس قسم کے لوگ آپ کی ذہانت اور علمی استعداد کی واہ واہ کرنے لگ جاٸیں۔ جب تعریف خوشی دینے لگے تو سمجھ جائیں کہ کیڑا پیدا ہوچکا- اس کی موجودگی آپ کو ہواؤں میں اڑانا شروع کر دیتی ہے اور زمین پر قدم نہیں رکتے۔ تخلیقی صلاحیتیں جو آپ کی اصل طاقت تھیں، متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہیں- ذہن پر تعریف کی مستی اور خمار چھا جاتا ہے- صلاحیتوں اور کارکردگی کو زنگ یہیں سے لگنا شروع ہوتا ہے- ایسے کیسز میں تعریفیں درحقیقت زہرِ قاتل ثابت ہوتی ہیں- آگے بڑھنے کی جستجو یا تو ختم ہو جاتی ہے یا پھر سست روی کا شکار ہو جاتی ہے، کیونکہ آپ عہدے اور مقام کو اپنا حق سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں- یہی سوچ آگے چل کر کسی بڑی غلطی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے- کارکردگی متاثر ہوتی ہے- تعریفوں کے زیرِ اثر غلط فیصلے بھی درست لگتے ہیں- کسی دوسرے شخص کی عقلمندی مشکوک لگتی ہے اور صلاح مشورہ لینا زمین پر ناک رگڑنے جیسا محسوس ہوتا ہے-
اس کیفیت کا شکار ہو کر اپنے اطراف میں موجود لوگ زمین پر رینگتے ہوئے معمولی کیڑے مکوڑے محسوس ہونے لگتے ہیں اور جب آپ خود کو کچھ سمجھنے لگیں تو سمجھ لیں کہ اب آپ کے برے دن شروع ہونے والے ہیں۔ کیونکہ جب آپ میں علم کا غرور پیدا ہوتا ہے تو تکبر اور گھمنڈ کا شکار ہو کر آپ ہر جگہ انانیت دکھانے لگ جاتے ہیں۔ اور پھر کل تک جو لوگ آپ کی واہ واہ کرتے تھے وہی آپ کی اس مغروریت اور دکھاوے پر اپنا شدید ردعمل دیتے ہیں اور آپ سے کٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ علم تو بانٹنے سے بڑھتا ہے ۔عجز و انکساری سے عزت ملتی ہے۔ مگر دماغ میں پیدا ہونے والا یہ کیڑا آپ کی منکسرالمزاجی کو ختم کرکے غرور و تکبر کے بیج بو دیتا ہے۔
عہدے کا کیڑا اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ ماتحت جن کی وجہ سے آپ اس کرسی تک پہنچے ہوتے ہیں، آپ کو اپنے آگے حقیر اور کم عقل لگنا شروع ہوجاتے ہیں- آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ کو آگے بڑھانے میں آپ کی محنت سے زیادہ ان لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے جو آپ کے حصے کے کام کا بوجھ اٹھا کر آپ کو آگے لائے ہوتے ہیں- اور یہی وہ ماتحت ہوتے ہیں جو چاہتے یا نا چاہتے ہوئے بھی آپ کی جی حضوری کر کے دراصل آپ کے اس عہدے کو برقرار رکھنے میں آپ کی مدد کر رہے ہوتے ہیں-
اور اب اگر علم اور عہدے سے ہٹ کر زندگی کے باقی معاملات میں اس کیڑے کا عمل دخل دیکھا جائے تو
انا کا کیڑا، تنقید کا کیڑا اور میں کا کیڑا رشتوں کو آہستہ آہستہ کھاتا جاتا ہے- محبتوں اور رشتوں کے آگے خود کو جھکا دینا ہی محبت کی معراج ہوتی ہے لیکن..۔آپ کے اندر کا وہ “میں نا مانوں” والا کیڑا ان محبتوں کو بھی کھا جاتا ہے- تنقیدی دماغی کیڑے آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں نظر آٸیں گے- گھر سے لے کر آفس تک، کھیل کے میدان سے لے کر امتحان گاہ تک، ننھیال و ددھیال سے لے کر سسرال تک، غرضیکہ تنقیدی کیڑے ہمارے اطراف میں جا بجا بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس کیڑے کی کاٹ کا اثر زیادہ تکلیف دیتا ہے- تنقیدی کیڑے سے متاثر شدہ لوگوں کو دوسرے کی ہر بات میں ٹانگ اڑانا اپنا ذاتی حق لگتا ہے- یہ تنقیدی کیڑا دوسرے کا جگر چھلنی کر کے تسکین حاصل کرتا ہے- سوشل میڈیا ہو یا عام زندگی ہر جگہ تنقیدی کیڑا دماغ میں کسی کو اچھا کام کرتے دیکھ کر کلبلانا شروع کر دیتا ہے- سوشل میڈیا پر یہ لوگ زندگی کے ہر پہلو کی منفی تصویر کشی کر کے معاشرے میں مایوسی پھیلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جو لوگ منفی ہتھکنڈے استعمال کر کے ذہنوں کو خراب کریں اُن سے دور رہا جائے۔ نظر انداز کرنا ہی بہتر راستہ ہے۔
دماغی کیڑے کے متاثرین کو اپنی ذات کے علاوہ ہر ایک میں کیڑے نظر آتےہیں۔ دماغی کیڑا یوں سمجھیں کہ ایک واٸرس کی طرح تیزی سے پھیل کر اپنے جیسے ذہنوں کو بھی بیمار کر دیتا ہے- اس کا دائرہ کار بہت جلدی وسیع ہو جاتا ہے اور پورا ماحول گھٹن زدہ محسوس ہوتا ہے-
بہرحال دماغی کیڑا جب ” بس میں” کے شکار لوگوں سے سب کچھ چھین لیتا ہے، تو بہت کم لوگ عرش سے فرش تک واپسی کے تکلیف دہ سفر میں سب کچھ گنوا کر ان وجوہات پر غور کرتے ہیں جس نے انہیں یکایک آسمان سے زمین پر لا پٹخا- ایک عام مشاہدہ یہ بھی ہے کہ فرش پر بیٹھ کر بھی یہ کیڑا کچھ لوگوں کے اندر بری طرح کلبلاتا رہتا ہے اور ان کی گردن کو اکڑا کر رکھتا ہے- معاملہ یہ رہتا ہے کہ رسی جل جاتی ہے پر بل نہیں جاتے، جبکہ درحقیقت سب کَس بل اچھی طرح سیدھے ہو چکے ہوتے ہیں- مزے کی بات یہ ہے کہ اس حالت میں بھی اس دماغی کیڑے کے زیرِ اثر موردِ الزام دوسروں کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے اور اپنی تباہی کی ذمہ داری تک کبھی خود اپنے کاندھوں پر نہیں لی جاتی- ایسے لوگوں کے لیے لوگ پہلے بھی کیڑے تھے اور بعد میں بھی-
البتہ کچھ ایسے عقلمند لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے دماغ سے جب یہ کیڑا نکل جاتا ہے تو ان کو اپنی غلطیوں کا شدت سے احساس ہوتا ہے- وہ اپنی شکست کی وجوہات پر غور کرتے ہوئے شرمندگی اور ندامت محسوس کرتے ہیں- ٹھوکر کھا کر سنبھلنے والے اور دردمند دل رکھنے والے اس کیڑے کی تباہ کاریوں کی بابت دوسروں کو متنبہ کرتے ہیں لیکن تب بھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا- دماغی کیڑا ان پر تو اپنا وار کرچکا ہوتا ہے اور کسی اور دماغ کی تلاش میں نکل چکا ہوتا ہے-
ارے ذرا دیکھیں تو سہی آپ کے دماغ میں بھی کہیں کوئی کیڑا کُلبُلا تو نہیں رہا؟