خوشی اور سمجھوتے کا آپس میں بہت گہرا مگر بڑا ہی عجیب سا تعلق ہے اور وہ تعلق یہ ہے کہ سمجھوتہ آپ کرتے ہیں اور خوشی دوسرے کو حاصل ہوتی ہے۔ ایسا شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ جس نے سمجھوتہ کیا وہ خوش بھی رہا۔ یعنی ایک کی خوشی کسی دوسرے کے سمجھوتے میں پنہاں ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ سمجھوتہ کرنے والا خود خوش بھی ہو۔ اور بالفرض وہ خوش بھی ہو تو زمانہ بھی اس بات سے خوش ہو۔
عموما محبت اور تعلقات سمجھوتوں کی بنیاد پر نبھائے جاتے ہیں اور نتیجتا بہت کم لوگ زندگی کو دل سے جی پاتے ہیں۔ سمجھوتوں کی بنیاد پر بنائے گئے رشتوں میں زہر تو وافر مقدار میں ملتا ہے مگر تریاق نہیں۔ اگر صرف محبت کی بات کریں تو زیادہ تر لوگوں کی آدھی عمر اسی افسوس اور حسرت میں گزر جاتی ہے کہ جنہیں اُن کو ملنا ہوتا ہے وہ انہیں مل نہیں پاتے اور وہ جن کو مل جاتے ہیں وہ اُن کے ہو نہیں پاتے-
یہ بھی دیکھئے:
سمجھوتہ شاید اسی دکھ سے صلح کرنے کا نام ہے- جو اپنے دکھ سے سمجھوتہ نہیں کر پاتے وہ جلد ٹوٹ بھی جاتے ہیں مگر اکثریت کے نزدیک مکمل ٹوٹ جانے سے کہیں بہتر جھک جانے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اپنی زندگی کی خوشیوں سے دستبردار ہوجانا معمولی فیصلہ نہیں ہوتا اور عملی طور پر یہ فیصلہ کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ صرف مضبوط اعصاب کے لوگ ہی ایسا فیصلہ کر پاتے ہیں۔ بظاہر پرسکوں رواں ندی اپنے اندر ایک تلاطم چھپا کر بہتی ہے۔ اس کے اندر جو جوار بھاٹے اٹھ رہے ہوتے ہیں وہ کسی کو کبھی دکھائی نہیں دیتے۔ بالکل اسی طرح ہمیں بھی اپنے اطراف ایسے بے تحاشا لوگ نظر آئیں گے جو بظاہر بہت مطمئن زندگی جی رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ان کے اندر کی حسرتیں، خواہشات کے ساحلوں پر سر پٹخ پٹخ کر انہیں اُن کی ہی محرومیوں کا احساس دلا رہی ہوتی ہیں-
یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ اس دنیا میں 90 فی صد سے زیادہ لوگ اپنی زندگی سمجھوتے کرتے کرتے گزار دیتے ہیں، اپنے پیاروں کے لیے اپنی خواہشات قربان کر ڈالتے ہیں، دوسروں کی خوشی کے لیے اپنی ذات، اپنی ترجیحات، اپنی پسند نا پسند کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
دعوت اسلامی کے مولانا الیاس قادری نے حج کا ارادہ کیوں توڑا؟
ستائیس جون: اداکارہ خورشید بیگم کی آج برسی ہے
ان کے لیے بس یہی بات اطمینان بخش اور باعثِ فرحت ہوتی ہے کہ ان کے قریبی ان کی ذات سے خوش ہیں مگر المیہ یہ ہوتا ہے کہ اتنا کچھ کرنے پر بھی اُن سے خوش کوئی بھی نہیں ہوتا اور بہت کم لوگ ان کی دی گئی ان قربانیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔
آج اگر آپ خوش ہیں تو ان خوشیوں کے آپ اکیلے ہی ذمہ دار نہیں۔ ان خوشیوں کو کشید کرنا صرف آپ اکیلے کا ہی حق نہیں۔ اپنے اطراف اپنے پیاروں کی طرف اک نگاہ ضرور دوڑائیں ان کی قربانیوں اور سمجھوتوں کو آپ کے خراجِ تحسین کی یقینا کوئی طلب تو نہ ہوگی مگر ان کی قدر کرنا اور کھلے دل سے اعتراف کرنا بہرحال بنتا ہے کہ اپنی زندگی اپنے حساب سے، اپنے طریقے سے اور اپنی مرضی سے نہ جینا بڑے ہی دل گردے کا کام ہے۔