کبھی سوچا کہ سمندر کی پرشور لہریں بے وجہ نہیں۔ وہ ساحل پر سر پٹخ کر محض اپنے طویل سفر کی تھکان ہی نہیں اتارتیں بلکہ ساحل کی بانہوں میں دم توڑنے سے پہلے وہ اپنے وجود کے ہونے کے احساس کا باوقار اظہار چاہتی ہیں۔
چودہویں کا روشن چاند اپنی بھرپور چاندنی زمین کو دان کر کے بظاہر اپنے آپ میں سمٹنا شروع کر دیتا ہے مگر اس کا سمٹنا بے معنی نہیں۔ اس کا یہ سفرِ مسلسل راٸیگانی کا اظہار ہرگز نہیں۔
کروٹ لیتے موسم کی ادائیں دیکھ کر اس کے ہم قدم ہونے کے لیے وسیع قلبی کے ساتھ اپنے عزیز از جاں خزاں رسیدہ پتوں سے دستبردار ہوتے درختوں کی اداسی آخر کوئی کب جان پائے گا؟
سورج کی تمازت کو بغیر کسی رکاوٹ کے برداشت کرتے ہوئے صدیوں سے ایستادہ پہاڑوں کی مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سراپا سوال ہیں، منتظر ہیں ان سراہنے والی آنکھوں کی جو معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے نظریں چرا جاتی ہیں۔
پہاڑوں کے سینے سے جدا ہوتی سبک خرامی سے بہتی ندی زمین کے نہ جانے کتنے ہی راز اپنے اندر دفن کر کے، زمین کے نوحے سنتے، دریا میں ضم ہو کر سمندر کی آغوش میں پناہ لے کر فنا سے بقا کا سفر طے کرتی ہے۔ خاموش پیغام دیتی ہے۔ اس پیغام کو سمجھے گا کون؟
گھنے جنگلوں کے بیچ و بیچ تاریک وادیوں میں بگولوں کی مانند چکراتی ہوئی ہوائیں نہ جانے کب سے منتظر ہیں ان سماعتوں کو چھونے کی جو ان ہواؤں کے سرسراتے شور کی بے زبانی کو محسوس کریں اور سن کر انہیں گویائی بخش دیں۔ ان کا انتظار بے وجہ تو نہیں۔
نہ جانے کتنی ہی گھاٹیاں اور کتنی ہی وادیاں بے چین ہیں اپنی ارتقائی داستان سنانے کے لیے، وہ وادیاں جنہیں کبھی انسانی نظروں اور قدموں نے نہیں چھوا۔ جنہیں کبھی پرجوشی سے نہ سراہا گیا۔
دشت میں چکراتے ریت کے بگولوں سے بننے والے بے شمار ٹیلے بے چین ہیں۔ اپنے سینے پر نقشِ پا چاہتے ہیں، قدرت کی فطری مصوری کے بے مثال شاہکار یہ بنتے مٹتے ٹیلے داد طلب ہیں اور سنانا چاہتے ہیں وہ ان کہی داستان جس میں ہر ذرہ صحرا کی خاک سے اٹھا اور پھر خاک بنا۔
ہماری سماعتوں سے روز جو آوازیں ٹکراتی ہیں ان میں پرندوں کی بولی مدھر اور حسین ہے۔ سمندر کی کہانی دلچسپ ہے۔ سمندر اپنی کہانی سنانا چاہتا ہے، بتانا چاہتا ہے کہ جلال کیوں اور جمال کب۔ ہے سمندر قطرہ یا قطرہ ہے سمندر۔ چاند اپنی چاندنی سے نہ صرف مسحور کرتا ہے بلکہ اس کی چاندنی سورج کی تمازت سے جھلسے بدن پر ابھر آئے آبلوں پر ٹھنڈے پھائے رکھ دیتی ہے۔ جنگلوں کا بولتا ہوا سناٹا بہت شور مچاتا ہے۔ ان پہاڑوں میں زندگی ہے جہاں سے ندی بہتی ہے۔
سنیے!! فطرت کی زبان بہت سادہ ہے اس کو بہت توجہ سے سنیے۔ فطرت کے رنگ دلکش و حسین ہیں ان کو دیکھیے اور محسوس کیجیے۔ فطرت ہم سے کچھ کہنا چاہتی ہے، کچھ بتانا چاہتی ہے، کچھ سکھانا چاہتی ہے، فطرت ہمیں ربِ کائنات کا واضح پیغام دینا چاہتی ہے۔ بس سمجھنے والوں کے لیے ہی تو واضح نشانیاں ہیں۔
فطرت سے دوستی فطری ہے اور فطرت سے دشمنی سرکشی۔ فطرت کو دوست بنا کر اس کے ہم قدم ہو کر چلنے والے معرکے سر انجام دیتے ہیں۔ وہ جان جاتے ہیں کہ دل کے اندر دنیا رکھنی ہے یا دنیا کے اندر دل۔ وہ جان جاتے ہیں کہ کائناتی سوچ کا محور مرتکز ہے کہ منتشر۔ فطرت کی ناراضگی کی پرواہ نہ کرنے والوں کا ربط عموماً خود سے بھی ٹوٹ جاتا ہے اور ان کی زندگی بے ربط و بے ترتیب ہو جاتی ہے۔
فطرت دراصل اپنی تسخیر چاہتی ہے۔ ربِ کائنات سے ملوانا چاہتی ہے۔ قہر و کرم کے قصے اور جلال و جمال کی داستان سنانا چاہتی ہے۔ وہ داستان جس کو انسان ہی اپنے قلب و نظر میں سمو سکتا ہے۔ انسان سے بہتر بھلا فطرت کو اور کون تسخیر کر سکتا ہے۔ فطرت ہم سے ہم کلام ہونا چاہتی ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم فطرت سے ہم کلام ہوں۔ فطرت کا سبق، سبقِ زندگی ہے اور فطرت کی تسخیر تب تک ممکن نہیں جب تک انسان خود پر نظرِ ثانی نہ کرے کہ ایک کائنات ہے جو خود انسان کے اندر آباد ہے۔ جستجو انسانی فطرت کا خاصہ ہے اور اسی جستجو کے ساتھ کائنات کی کھوج کے لیے انسان کو بہرحال فطرت کا ہی سہارا لینا ہوگا ورنہ وہ خود کو اسی کائنات میں گم کرتا چلا جائے گا۔۔۔۔ اتنا گم کہ اسے خود کو بھی ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا۔