آج اس بات پر بات نہیں کرنی کہ خوش کیسے رہا جائے بس یہ اعتراف کرنا ہے کہ اس دنیا میں کم و بیش ہر شخص ہی اداس ہے- اس تحریر کو لکھنے کا قطعی یہ مقصد نہیں کہ آپ کی اداسی کو مزید بڑھایا جائے یا یہ بتایا جائے کہ آپ جانے انجانے میں ایک ان دیکھی خطرناک بیماری جسے ڈپریشن کہتے ہیں، کی جانب بڑھ رہے ہیں بلکہ اس تحریر کا مقصد ہمارے اندر جاری اس مزاحمت کو ختم کرنا ہے جس میں ہم دنیا کے ساتھ ساتھ خود کو بھی یہ جھوٹا یقین دلانے میں ہلکان ہو جاتے ہیں کہ ہم اداس نہیں-
اپنی اداسی کا خود سے سادہ سا اعتراف کیجیے اور دل کھول کر اداس رہیے، کس نے منع کیا ہے- یہ آپ کا بنیادی حق ہے-
اداسی میں خود سے نظریں چرانے کی کیا ضرورت ہے؟
میں ٹھیک نہیں ہوں اور یہ بات بالکل ٹھیک ہے- اس میں غلط کیا ہے؟ غلط تو تب ہو جب آپ یہ سوچیں کہ میں ٹھیک نہیں اور یہ بالکل بھی ٹھیک نہیں- خود کو لفظوں کے جال میں الجھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اداسی کو نظر انداز کرنے کے بجائے اداس لمحوں میں اداسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا سیکھیں کیوں کہ اداسی بھی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے-
یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ ہر وقت خوش رہیں اور دنیا کے سامنے مضبوط بھی نظر آئیں- اداس ہونا ایک فطری عمل ہے اور اس سے فرار ممکن نہیں تو پھر اس کیفیت کو فراخ دلی سے قبول کیجیے-
دیکھا جائے تو اپنی اداسی سے پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں کیوں کہ اداس ایک مثبت جذبہ بھی ہے اور انسانی فطرت کا ایک اہم حصہ بھی- ہماری زندگی میں اس کا آنا جانا لگا رہتا ہے جیسے بہار کے ساتھ خزاں جڑی ہے- اسی طرح آپ کی اداسی بھی تو کسی خوشی کے ساتھ وابستہ ہے؟ یعنی اداسی اپنے پیچھے خوشی لاتی ہے یا پھر خوشی کے ساتھ چمٹ کر اداسی بھی آجاتی ہے- بل کہ اکثر اداسی کے بعد خوشی کو زیادہ بھرپور طریقے سے محسوس کیا جاتا ہے- خوشی کے ساتھ خوشی ملنا خوش قسمتی ہے لیکن اگر اداسی اپنے ساتھ مزید اداسیاں کھینچ لاتی ہے اور اس کا دورانیہ طویل اور مستقل ہوجائے تو پھر یہ اداسی الارمنگ بھی ہے اور دماغی صحت کے لیے خطرناک بھی-
خوشی کی کیفیات میں آپ بارش کے پانی کو اپنے بدن پر محسوس کرتے ہیں جبکہ اداسی میں بارش کا ہر ہر قطرہ آپ اپنی روح پر برستا محسوس کرتے ہیں- دراصل اداسی کی کیفیات آپ کو فطرت کے قریب لے جاتی ہے- وہ چیزیں اور وہ باتیں جو خوشی کے لمحات میں آپ شاید نظر انداز کر جاتے ہیں- لیکن اداسی میں آپ کو بادل، چاند، ہوا اور بارش سب خود سے بہت قریب محسوس ہوتے ہیں-
فرینک اوشین کا کہنا ہے ” جب آپ خوش ہوتے ہیں تو آپ موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن جب آپ اداس ہوتے ہیں تو آپ کو اس گانے کے بول سمجھ میں آتے ہیں-”
کبھی غور کیا کہ آپ اداس کیوں ہوجاتے ہیں اور آپ کی اداسی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟
اداسی عموماً کسی پسندیدہ شخصیت کا دیا ہوا تحفہ ہوتی ہے تو اصولاً تو اس کو بھی اہمیت دینا چاہیے، نظر انداز کرنا اداسی کا حل نہیں –
لیکن درحقیقت کوئی بھی آپ کی اداس کیفیت کے لیے مکمّل ذمہ دار نہیں- یہ اداسی تو آپ کی اپنی ایک حساس کیفیت ہے اور اداسی کے ذمہ دار بھی آپ خود ہی ہیں- اطراف کے لوگ تو بس ایک راستہ اور بہانہ بن جاتے ہیں- کبھی غور کیا ہے کہ کیوں اکثر بیٹھے بیٹھے بغیر کسی تحریک کے یا بغیر کسی وجہ کے بھی اداسی آپ پر حملہ آور ہو جاتی ہے- ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اچانک سے اچھی بھلی کیفیت میں یہ اداسی کہاں سے آ جاتی ہے؟
احمد مشتاق نے کیا خوب کہا ہے کہ….
زمیں سے اُگتی ہے یا آسماں سے آتی ہے
یہ بے ارادہ اُداسی کہاں سے آتی ہے !!!
شاید اداسی آپ کو پسند کرتی ہے-
حیران نہ ہوں- جب آپ اداسی کی خوب خاطر مدارات کریں گے اور اس کو مہمان بنا کر رکھیں گے تو فطری سی بات ہے کہ اداسی بھی آپ کو پسند کرنا شروع کر دے گی- بعض مہمان بلائے جان ہوتے ہیں تو اداسی کو بھی اسی فہرست میں رکھا جا سکتا ہے مگر یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس بلائے جان، مہمان کو کیسے اپنا مہربان بناتے ہیں-
مختصر وقت میں اداسی دراصل خود سے خود کی ملاقات کا ایک بہانہ بن جاتی ہے- آپ اپنی ذات کے ان گم گشتہ رازوں کو تسخیر کر پاتے ہیں جو خوشی کی عام کیفیات میں ممکن نہیں بشرطیکہ آپ واقعی ایسا کرنا چاہتے ہوں- اداس کیفیت میں آپ کو چیزوں کی گہرائیوں میں اترنے کا موقع ملتا ہے، تو جب بھی اداس ہوں اس سے ضرور فائدہ اٹھائیں- اپنی ذات سے متعلق زندگی کے زیادہ تر فیصلے عموماً اداس کیفیت میں کیے جاتے ہیں لیکن ان کی کامیابی کا تناسب نسبتاً کم ہوتا ہے-
اداس کیفیت میں تخلیقی کیفیات حیرت انگیز طور پر اپنے عروج پر ہوتی ہیں اور یقین مانیں اپنی زندگی کا بہترین تخلیقی کام آپ اس وقت ہی کرتے ہیں جب آپ اداس ہوتے ہیں- لہٰذا اداسی کی کیفیت میں خود پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے اور دوسروں کو کوسنے کے بجائے اس کیفیت کو بہترین انداز میں استعمال کریں- آپ کی تخلیق اس کیفیت کے خاتمے پر آپ کو کبھی نہ ختم ہونے والی سرشاری کی کیفیت سے روشناس کرائے گی اور لوگوں سے ملنے والی ستائش کے نتیجے میں آپ کی ساری اداسی کہیں غائب ہوجاتی ہے-
آپ کی اداسی کو محسوس کرتے ہوئے اکثر قریبی دوست احباب آپ کا کندھا تھپتھپا کر آپ کو حوصلہ دیتے ہیں کہ مضبوط رہو اور اس کیفیت سے باہر نکلو مگر اس وقت اس دوست کا ساتھ سب سے زیادہ خوبصورت لگتا ہے جو آپ کی اس کیفیت کو سمجھداری سے قبول کرتا ہے اور بغیر نصیحتیں کیے آپ کے شانہ بشانہ اداسی کے اس بوجھل سفر میں آپ کے ساتھ چلتا ہے کہ اداسی اس لمحے کی سب سے بڑی سچائی ہوتی ہے-
اداسی نظرانداز کرنے والی کیفیت بالکل بھی نہیں- اداسی منفی جذبات کا ایک گہرا سمندر ہے تو اس کی گہرائی میں اتر کر اس کے مثبت پہلوؤں کو تلاش کرنا نہایت ضروری ہے- خود سے سوال کیجئے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے جو اس لمحے آپ کو اداسی کے سمندر میں غوطے لگانے پر مجبور کر رہا ہے- اس کیفیت کا بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہو جانا آپ کے لیے مزید ذہنی مشکلات پیدا کر سکتا ہے-