مایوسی کی دھند میں کبھی امید کی کرن بھی پھوٹتی ہے اور یاس کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کبھی آس کا جگنو بھی نمودار ہوتا ہے ایک طرف ملک میں نا امیدیوں اور محرومیوں کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں تو دوسری طرف کچھ دل خوش کن خبریں بھی نسیم صبح گاہی بن کر سماعتوں سے ٹکرا رہی ہیں اور مشام جاں کو سرشار اور قلب و روح کو مسرور کر رہی ہیں خبر ہے کہ پاکستانی خاتون آئی سرجن “ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ” کی کتاب دنیا کی بہترین اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی تین کتابوں شامل ہوگئ ہے
“آپٹکس میڈ ایزی: دی لاسٹ ریویو آف کلینیکل آپٹکس” کے عنوان سے لکھی گئی اس کتاب کو بین الاقوامی آن لائن شاپنگ سروس ایمیزون نے اپنی تین بہترین فروخت ہونے والی کتابوں میں سے ایک قرار دیا ہےجس کے بعد ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ ’بُک اتھارٹی‘ کی فہرست میں جگہ بنانے والی پہلی پاکستانی ڈاکٹر بن گئی ہیں
یہ خبر سننے اور پڑھنے کے بعد میں دوہری خوشی محسوس کر رہا ہوں ایک خوشی اس بات پر کہ یہ اعزاز وطن عزیز اسلامی جمہوری پاکستان کے نام ہوا ہے دوسری خوشی یہ ہے کہ ڈاکٹر زبیدہ سرنگ کا تعلق چترال سے ہے اس خبر نے بلا مبالغہ میرا سیروں خون بڑھا دیا ہے چترال کی سرزمین بڑی زرخیز ہے پہاڑوں کے باسی دوسروں کے مقابلے میں فطرت کے زیادہ قریب رہتے ہیں اس لیے ان کی خداداد صلاحیتیں بھی زیادہ ہوتی ہیں لیکن وسائل کی کمی ،مواقع کی عدم دستیابی اور درست سمت رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے” انسان کانوں کے مانند ہیں جس طرح سونے اور چاندی کے کان ہوتے ہیں” حدیث شریف کی حسب موقع تشریح یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر مختلف قسم کی صلاحیتیں پوشیدہ ہوتی ہیں اگر ان کی کھوج لگائی جائے اور مثبت رخ دی جائے تو وہ نکھر کر سامنے آتی ہیں ان سے وہ انسان خود بھی فائدہ اٹھاتا ہے اور خلق خدا کو بھی مستفید کرتا ہے بہ صورت دیگر وہ صلاحیتیں کسی کان کے اندر چھپے سونے اور چاندی کی طرح بے فیض ثابت ہوتی ہیں ڈاکٹر زبیدہ سرنگ کے پاس ٹیلنٹ تو تھا ہی تعلیم یافتہ والدین کی صورت میں درست رہنمائی بھی میسر تھی ٹیلنٹ اور رہنمائی کے اکٹھ سے ان کے لیے آگے بڑھنے کا در بھی وا ہوا
ڈاکٹر زبیدہ سرنگ نے خود کو آنکھوں کی ایک ماہر سرجن ہی ثابت نہیں کیا ہے بلکہ ایک تخلیق کار بھی ثابت کیا ہے اسی تخلیقی صلاحیت ہی نے ان کو اپنے ہم عصر ڈاکٹروں میں ممتاز کر دیا ہے ایک تخلیق کار نہ صرف خود نام کماتا ہے بلکہ اپنے ملک، اپنی قوم اور اپنے علاقے کا نام بھی روشن کرتا ہے وہ خود بھی تاریخ کے اوراق میں زندہ رہتا ہے اور خود سے جڑی نسبتوں کو بھی زندہ وجاوید رکھتا ہے ڈاکٹر زبیدہ کی کتاب جب بھی اور جہاں بھی پڑھی جائے گی تو پاکستان اور چترال کابھی ضرور تذکرہ ہوگا ایک پاکستانی اور ایک چترالی ہونے کی حیثیت سے مجھے ڈاکٹر زبیدہ پر فخر ہے شاباش بہت شاباش!!!