دو سال سے جاری جے یوآئی کی حکومت مخالف مہم اور اب پی ڈی ایم کی تحریک کے بارے میں سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس قسم کی تحریکوں سے جے یوآئی خود تو کوئی فائدہ اٹھا سکی ہے نہ آئندہ ایسا امکان ہے اب تک ان تحریکوں سے نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے فوائد کشید کئے ہیں آزادی مارچ کے دوران میاں محمد نواز شریف کو ریلیف ملا اور وہ لندن جانے میں کامیاب ہوئے جہاں نہ صرف وہ خود سکون سے زندگی گزار رہے ہیں بلکہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ انداز میں نشانہ بنا رہے ہیں۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور دیگر رہنماؤں کو بھی ان کے مقدمات میں اسی عوامی تحریک کی وجہ سے بہت ریلیف ملا۔ حال ہی میں لیاری گینگ وارکے سرغنہ عزیر بلوچ کو دو مقدمات میں بری کردیا گیا ہے جو دراصل پیپلز پارٹی ہی کو ریلیف دینے کے مترادف ہے حالانکہ ان کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے کی صورت میں پیپلز پارٹی کے اہم قائدین کے لیے مشکلات پیش آ سکتی تھیں۔ گویا یہ دو جماعتیں اور اس کے اہم رہنما مولانا کو استعمال کرکے اپنے کرپشن کیسز میں ریلیف حاصل کر رہے ہیں مولانا کو کرپٹ لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
معترضین کا یہ سوال بجائے خود مولانا ،جےیو آئی اور اپوزیشن کے بیانیے کی تصدیق کر رہا ہے کہ موجودہ احتساب گردی کا احتساب سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ احتساب کے نام پر سیاست اور سیاست دانوں کو کنٹرول کرنے کا پرانا حربہ ہے حالیہ احتسابی مہم ماضی کے مقابلے میں زیادہ متنازع اور سیلکٹڈ ہے جس کے پس پردہ حقائق سوشل میڈیا کی بدولت عوام کے سامنے آچکے ہیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جج ارشد ملک مرحوم جیسے لوگ عدالتی صفوں سے اس احتساب کا بھانڈہ پھوڑ چکے ہیں
سوال مولانا یا جے یوآئی سے نہیں ان لوگوں سے ہونا چاہیے جو احتساب کے چاچے مامے بنے ہوئے ہیں اگر یہ نیب گردی اور گزشتہ چند سالوں سے جاری احتسابی مہم کا مقصد ملک میں شفافیت لانا اور بدعنوانی کا راستہ روکنا ہے تو عوامی تحریک کی وجہ سے پسپائی کیوں اختیار کی جا رہی ہے؟ کیا حالت جنگ میں مخالف کے دباؤ میں آکر ہتھیار ڈالا جاتا ہے؟ مولانا فضل الرحمن کرپٹ ہیں نہ ان کی جماعت کے کسی رہنما پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں پھر کیا وجہ ہے مولانا کو تنہا کرنے کے لئے “چوروں” ڈاکووں” حتی کہ قاتلوں کو بھی ریلیف دینا گوارا ہے؟ مولانا کو زیر کرنے کے لیے “جرائم پیشہ” عناصر سے بیک ڈور رابطے ہو رہے ہیں ان کے سنگین قسم کے مقدمات ختم کئے جا رہے ہیں
سیدھی سی بات ہے کرپشن اور احتساب صرف ایک بہانہ ہے اصل مقصد اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی بالادستی کو قائم رکھنا ہے جس کے لیے ایک دھاندلی زدہ حکومت لائی گئی ہے خود پیچھے رہ کر ایک شو پیس وزیر اعظم کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جس کے سامنے سب سے پہلے مولانا سد سکندری بن کر کر کھڑے ہوئے ان کی دیکھا دیکھی دوسری جماعتیں بھی آگے آئیں۔ اب کوشش ہو رہی ہے مراعات کی پیشکش کے ذریعے اپوزیشن کو تقسیم کیا جائے، چاہے جھوٹے ہی کیا سچے مقدمات بھی کیوں واپس نہ لینے پڑیں اپنے سوال کا جواب احتساب کے علم برداروں سے لیجیے مولانا اور جے یوآئی سے نہیں۔