ADVERTISEMENT
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے ؟
کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا؟
غالب ہمارے ادب کے ان خوش قسمت مشاہیر میں سے ایک ہیں جن کی شاعری،شخصیت اور ادبی کارناموں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔نہ فقط ذی علم حضرات بلکہ معمولی اردو جاننے والے بھی میرزا کی شخصیت اور کلام سے دلچسپی رکھتے ہیں۔غالب کے بارے میں اس وقت تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہےاور یہ سلسلہ جاری وساری رہے گا۔لوگ غالب کے کلام کے نئے نئے گوشوں کو متعارف کروائیں گے۔مرزا غالب کی شخصیت جس طرح جاذب توجہ ہے اسی طرح ان کی شاعری قابل مطالعہ ہے۔اگرچہ غالب کی وفات پر ایک سو سال سے زیادہ عرصہ گزرا لیکن اب تک جتنا کچھ ان پر لکھا گیا ہے وہ علامہ اقبال کے علاوہ کسی اور پر نہیں۔اقبال شناسی کی طرح غالب شناسی کی روایت بھی اب بین الاقوامی دستور عمل بن چکی ہے۔اقبال بیسویں صدی کا تو غالب انیسویں صدی کا اردو کا بلاشبہ سب سے بڑا شاعر ہے۔
زیر نظر کتاب “غالب شناسی کی تکون”جو یوسف نون صاحب کا ایم فل کا مقالہ ہے جو محترم ڈاکٹر قاضی عابد کی زیرنگرانی میں مکمل کیا گیا اور اسے کتابی شکل میں ٢٠٢٠ میں فکشن ہاٶس سے شائع کیا گیا جو تین سو تیرا صفحات پر مشتمل ہے- نگران مقالہ ڈاکٹر عابد اور دیگر اساتذہ کرام کی علمی،فکری اور تکنیکی رہنمائی سے پیش از پیش کسبِ فیض کیا ہے ۔یوسف نون نے ایک محنتی طالب علم کی حیثیت سے بہت اچھی سعی کی ہے ۔ انہوں نے اس پراجیکٹ کے دوران ایک سنجیدہ ریسرچ سکالر کے طور پر اپنی پہچان قائم کی ۔ان کے اس تحقیقی کام کو جو کتابی شکل میں آچکی ہے اسے بہت سراہا گیا ہے۔اپنی تحقیق کے علمی اور تنقیدی ثمرات کو زیر کتاب میں یکجا کردیا ہے۔کتاب کےایک ایک ورق سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف نے عمدہ تحقیقی کام کو سامنے لایا ہےکتاب میں تین اہم ادبی شخصیات جن میں گوپی چند نارنگ ،شمس الرحمن فاروقی اور اسلم انصاری کا تذکرہ غالب شناسی کے حوالے سے کیا گیا ہے۔مصنف نے تینوں شخصیات کا الگ الگ جائزہ پیش کیا ہے ۔
اول انہوں نے گوپی چند اور غالب شناسی کا تذکرہ کیا ہے ۔گوپی چند نارنگ کو عہد حاضر میں صفِ اول کا اردو نقاد،محقق اور ادیب گر دانا جاتا ہے۔غالب کے سلسلے میں ان کی رائے کو مصنف کچھ یوں بیان کرتے ہیں :
“گوپی چند نارنگ نے غالب کی نئی تعبیر پیش کی ہے جس سے واضح دکھائی دیتا ہے کہ غالب تفاعل نفی سے سامنے کی بات کو گھما کر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ حرکت میں آجاتی ہے اور گھومنے لگتی ہے جس سے معنی در معنی سے کئی پہلو عیاں ہوتے ہیں ۔”
دوسری جس شخصیت کا ذکر کیا ہے وہ شمس الرحمن فاروقی ہیں جن کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔اردوادب میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔تنقید میں ایک معتبر نام ہے ۔علاوہ ازیں شمس الرحمن فاروقی غالب شناسی میں میں بھی منفرد مقام رکھتے ہیں۔شمس الرحمن فاروقی کی غالب شناسی کے حوالے سے فکروخیال کو یوسف نون لکھتے ہیں:
“شمس الرحمن فاروقی “غالب اور جدید ذہن” میں غالب کو جدید ذہن اور ان کی شاعری کو بڑی شاعری قرار دیتے ہیں۔بڑی شاعری کیا ہوتی ہے ؟بڑی شاعری وہ ہوتی ہے جو ہر زمانے کا ساتھ دے،جس کے پرستار اس شاعری کی بڑائی کی وجہیں تلاش کرتے ہیں تو وہ ہر دور میں مختلف دریافت ہوتی ہیں۔فاروقی ہر بڑی شاعری کو آئندہ اور موجودہ ہر دور سے مربوط اور اس کے تقاضوں کی مرہون منت قرار دیتے ہیں،وہیں تنقید کے عمل کو مخصوص فکری رجحانات کی پیداوار بھی قرار دیتے ہیں۔”
تیسری جس شخصیت کا تذکرہ ہے وہ اسلم انصاری ہیں ۔دانشور و عظیم شاعر اور نقاد ڈاکٹر اسلم انصاری اقبال شناسی ہونے کے ساتھ ساتھ غالب شناس بھی ہیں۔ڈاکٹر اسلم انصاری کے تنقیدی زاویے کے متعلق مصنف لکھتے ہیں:
“اسلم انصاری ،غالب کو ماورائیت اور مابعد الطبیعات میں دیکھتے اور پاتے ہیں۔وہ غالب اور ان کے سماج کی تشنہ کامی کے باعث پیدا ہونے والی آرزو،کوشش اور تلاش وجستجو کو مابعد الطبیعاتی کوشش کا نام دیا ہے۔غالب کی فکر جو چاہتی اور سوچتی تھی وہ اس دور اور معاشرے میں ممکن نہ تھا۔”
مصنف نے تینوں غالب شناسوں کے فکری زاویے کو الگ الگ بیان کیا ہے اور اس کے مطالعہ کے بعد ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان تینوں غالب شناسوں کا فکروعمل الگ الگ ہے ۔تینوں نے اپنے اپنے انداز سے غالب کو پرکھا اور پیش کیا ہے۔ہر باب کے آخر میں حوالہ جات کو بہت تفصیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔اور تینوں غالب شناسوں (گوپی چند نارنگ،شمس الرحمن فاروقی،اسلم انصاری)کے مختصر تعارف کوبھی حوالہ جات میں تحریر کردیا گیا ہے تاکہ قاری کو کوئی دقت پیش نہ آئے۔زیر نظر کتاب کا اسلوب بھی قابل تحسین ہے ۔اس اسلوب میں عالمانہ اور محققانہ رنگ موجود ہے۔اور غالب شناسی میں یہ کتاب ایک قابلِ قدر اضافہ ثابت ہوگا۔
اس کتاب کے مطالعہ سے قاری غالب شناسی سے کماحقہ آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔طالب علموں کے ساتھ ساتھ یہ کتاب اساتذہ حضرات کے لیے بھی ضرورت کی کتاب بن جائے گی کیونکہ غالب شناسی کے حوالے سے عمدہ کام کیا گیا ہے۔مزید برآں سکالرز کے لیے یہ کتاب کسی خزانے سے کم نہیں ہے۔المختصر،یوسف نون کی اس کتاب کے مطالعے کے بعد اگر کہا جائے کہ یہ نئے نقاد ہیں تو بےجانہ ہوگا۔اُمید ہے یوسف نون صاحب آئندہ بھی اسی محنت ،جستجو اور صلاحیت کے ساتھ علمی و تحقیقی کام جاری رکھیں گے۔اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ۔