کہتے ہیں جب آپ سیاحت کے دوران مظاہر فطرت کو قریب سے دیکھتے ہیں تو آپ بے زبان ہو جاتے ہیں اور جیسے ہی آپ سیر مکمل کرتے ہیں تو آپ ایک کہانی نگار بن جاتے ہیں۔سیا حت کے متعلق اس قول کی صداقت کو سیاحوں سے بڑھ کر کوئی نہیں جان سکتا۔ 27ستمبر کو یونائٹڈ نیشن ولڈ ٹور آرگنائزیشن کے تحت عالمی یو م سیاحت منایا جاتا ہے۔ اس روایت کا آغاز1980ء میں کیا گیا لیکن 2017سے اس دن کو محض ایک روایتی دن منانے کی بجائے سیاحت کے با مقصد مرکزی ایجنڈا سے منسوب کرنا شروع کیا گیا جس کے تحت سال 2017کو”پائیدار سیاحت“ سال2018ء کو”ٹور ایزم اینڈ ڈیجیٹل ٹراسفارمیشن“ اور سال2019 کو ”سیاحت اور نوکریاں“کے مرکزی نکات کے مطابق لے کر چلا گیا جب کہ اس سال 2020میں سیاحت کے عالمی دن کا مرکزی ایجنڈا”سیاحت اور دیہی ترقی“ مقرر کیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو سیا حت سے متعلق یہ تمام گولز کسی بھی ملک کی مستحکم معشیت کیلئے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور انفردیت سے اجتماعیت تک اس پیشہ سے وابستہ افراد کے لئے خوشحالی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
اس سال پاکستان میں بھی عالمی یوم سیا حت روایتی انداز میں منایا گیا لیکن ان سب میں سے اپنی نو عیت کی نمایاں اور منفرد تقریب آزا د جمو ں کشمیر کے ضلع میر پور خاص کی تحصیل ڈڈیال کے رام کوٹ قلعہ میں منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں شمولیت کے لئے سیا حت کے ذاتی مشاہدات اور تجربات میرے جیسے کئی لکھاریوں کو اکسانے کے لئے کافی ہیں اس ضمن میں پاکستان فیڈریشن آف کا لمسٹ نے ٹورزم ڈیپار ٹمنٹ کے مشترکہ تعاون سے ہمیشہ ہی پاکستان میں سیا حت کے فروغ کے لئے مصروف عمل رہی ہے۔ 26ستمبر کو آزاد جمو ں کشمیر حکومت کی جانب سے دعوت پر لاہور اور اسلام آبادکے 40کے قریب سنیئر ممبران صحافی اورنیوز ا ینکرز جن میں برادر علی احمد ڈھلوں، محسن گورایہ فیضل درانی،صابر بخاری، خالد گرد یزی اور ملک سیلمان سمیت دیگر بھی تھے پر مشتمل وفد روانہ ہوا جہاں کشمیری بھائیوں نے روایتی میزبانی کرتے ہوئے اے سی ڈڈیال سردار ذیشان نثارنے پر تکلف عشایہ دیا جبکہ ڈڈیال پرس کلب اورشہر کی نمایاں شخصیت چوہدری امجد کی جانب سے ناشتہ اور ظہرانہ دیا گیا۔
اس مو قع پر آزاد جمو ں کشمیر کے وزیر کے برائے جنگلات وفشر ی رانا جاوید نے ڈڈیال سے نکلنے والی سینکروں کاروں پر مشتمل کار ریلی کی قیا دت کی اور رام کوٹ قلعہ میں منعقد ہ سیف الملوک ادبی و موسیقی فیسٹیول کی صدارت کی۔ سیاحت کے فروغ کے حوالے سے آزاد جمو ں کشمیر حکومت کی یہ تقریب اور انداز اس لئے منفرد تھا کہ اسے دریا نیلم اور منگلا جھیل کے سنگم پر واقع شہر ڈڈیال سے قریبا 20کلو میٹر دورپہاڑی جزیرہ کی چوٹی پر قائم رام کوٹ قلعہ کو ایکسپلور کر نے کی خاطر ترتیب دیا گیا تھا۔
اس دلفریب سیاحتی مقام کو کو قریب سے دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ یہ جگہ پاکستان کے چند خاص سیاحتی عجوبوں میں سے ایک عجوبہ ہے اور جس تک پہنچنے کیلئے کوئی زمینی راستہ نہیں ہے۔ زمین سے قریباََ سات کلو میٹر کشتی کے سفر کر کے پہنچا جا سکتا ہے سر سبز وشاداب پہاڑی کی بلندی پر قائم رام کوٹ قلعہ چاروں اطراف سے پانی سے گھرا ہوا ہے منگلا جھیل میں بہت سے ایسے چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لاہور اور اسلام آباد سے آئے تمام صحافی دوست میری طرح اس خوبصورت سیاحتی مقام سے اس سے قبل لا علم تھے او ر غالباََ کشمیر کے باسیوں کے سوا یہ حال سب پاکستانیوں کا ہے اور اس کی وجہ پاکستا ن کے سیاحتی مقامات کی طرف عدم توجہی اور صیح معنوں میں ان کے فروغ کرنے کی غیر سنجیدہ پالیسیاں ہیں لیکن یہاں پر آزاد جموں کشمیر کا یہ قدم قابل تحسین ہے کہ انہوں نے سن 1600 سے قائم شدہ گمنام رام کوٹ قعلہ کے تاریخی ورثہ کو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر میڈیا پرسن کے ذریعے متعارف کروانے کی کوشش کی ان آبی اور پہاڑی وادیوں کی سیر کے بعد تمام سیاح دوستوں کی رائے تھی کہ اگر منگلہ جھیل /ڈیم سے متصل چھوٹے چھوٹے جزیروں کو ترکی،آسڑیلیا،سویرڑزلینڈاور دیگر ایسے کئی ممالک طرز کی کمرشل فیریز اور چئیر لفٹس چلایں جایئں تو نہ صرف سے مقامی لوگوں کی نقل و حرکت آسان ہو گی اور روزگار میں اضافہ ہو گا بلکہ پاکستانی اور بین الاقوامی سیاحوں کوسیاحت کے لئے کھینچا جا سکتا ہے اور ملکی معشیت کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔
اس وقت اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کی جانب سے پاکستان میں موجود چھ تاریخی مقامات جن میں موہنجوداڑو، ٹیکسلا، تخت بھائی(بدھ یادگار)، لاہور کا شاہی قلعہ، شالیمار باغ، ٹھٹھہ کا مکلی قبرستان اور جہلم کا قلعہ روہتاس شامل ہیں کو عالمی تاریخی ورثہ قرار دیا گیا ہے جبکہ 2004ء میں وفاقی وزارت سیاحت نے مزید 26 پاکستانی تاریخ مقامات کو یونیسکو کی عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کرنے کے لئے سفارشات مرتب کی اور2016ء میں انکی درجہ بندی کی گئی اور یہ سفارشات ابھی تک اقوام متحدہ کی جانب سے منظوری کی منتظر ہیں۔ اگر ان مقامات کو بھی اقوام متحدہ عالمی ورثہ قرار دے دیتا ہے تو یقینی طور پر سیاحت کو مزید فروغ ملے گا۔
سیاحت ایک انڈسٹری ہے اور ملک کی معشیت میں اس کا کرداربہت اہمیت رکھتا ہے۔ 2017 میں ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مجموعی جی ڈی پی کا 2.8فیصد سیر و سیاحت کی شراکت داری تھی جو کہ تین سوانتیس ملین امریکی ڈالر اور پاکستانی پنتالیس ارب کے قریب ہے۔ اسی رپورٹ کی چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ 2025ء تک یہ مجموعی جی ڈی پی میں بڑھ کر9.5 بلین امریکی ڈالر یعنی ایک کھرب بتالیس ارب کے قریب ہو جائے گا جو کہ پاکستان میں سیاحتی انڈسٹری کا روشن مستقبل کی خبر دیتا ہے لیکن کرونا وائرس کی بنا پر بین الاقوامی سطح پر سیاحت کی صنعت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور نئے چیلنج درپیش ہیںUNWTO کے حالیہ سروے کے مطابق دنیا میں 2020میں 80%تک سیاحوں میں کم واقع ہو سکتی ہے جو کہ سیاحت سے وابستہ افراد کے لئے بہت بڑے جھٹکے سے کم نہیں۔کسی بھی ملک میں سیاحت روزگار پیداکرنے کا ایک بہت مناسب ذریعہ ہوتا ہے دنیا کے 196میں سے 44 مما لک ایسے ہیں جو اپنی کل ملازمتوں کا 15%فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان میں ہر دو سیاحوں کے آنے سے دو ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں یعنی اوسطاً سو سیاح آنے پر ایک سو چون لوگوں کو روزگار فراہم ہوتا ہے۔اس حوالے سے پاکستانی سیاحت پہلے ہی دہشت گردی کی نحوست کے خاتمہ کے ڈیڑھ دہائی کے بعد اللہ اللہ کر کے بحال ہوئی ہے لیکن اب اس پر کرونا وبا نے سب نظام درھم برھم کر دیا۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جو تاریخی ثقافتی سیاحتی ورثوں سے مالا مال ہے اور بیک وقت کئی موسموں کے رنگ رکھتا ہے لیکن صیح معنوں میں سیاحت کو متعارف کروانے اور کمائی کرنے میں بہت پیچھے ہے سیاحت کوبھر پور فروغ دینے اور ماضی کی طرح دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیئے پاکستان کو دنیا کے سب سے زیادہ سیر کیئے جانے والے ممالک کو رول ماڈل بنانا ہو گا اور وزارت سیاحت کو تعلیم اور صحت جیسے ٹاپ ایجنڈا میں شامل کرنا چاہیے کیونکہ سیاحت ہی ایسا ذریعہ ہے جس سے دنیا میں سوفٹ امیج پیدا کیا جاتا ہے۔
Aدنیا میں فرانس سیاحت کے حوالے سے پہلے نمبر پرہے جہاں 2018میں 90ملین یعنی نو کروڑ سیاح سیر کی غرض سے گئے اس کے بعد چین اور پھر امریکہ۔سوال یہ ہے کہ ہماری حکومتیں کب اس اہل ہو سکیں گی کہ پاکستان کو سیاحت کے حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل کی جا سکے؟