کارل مارکس ,میں سلونی, ماوزے تنگ, نپولین بونا پارٹ, امام خمینی, جی گویرا ,مصطفی کمال پاشا نینسن منڈیلا اپنی اقوام کے لیے حقیقی انقلابی لیڈر تھے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کے نظریات و تفکرات کیا تھے۔ ان کا خطہ کیا تھا۔ ان کا لایا گیا انقلاب کتنا دیر پا تھا ہے اور رہے گا مگر ایک چیز ان میں قدر ے مشترک تھی۔ وہ اپنے نظریات پر ثابت قدم اور با اصول تھے اور تا مرگ اس پر ڈٹے رہے۔ قید و بند کی صعوبتیں اور ازمائشیں انہیں غیر متزلزل نہ کر سکیں گو کہ ان تمام انقلابوں کے دوران ان کی اپنی اپنی اقوام کو بہت بھاری قیمت بھی چکانی پڑی۔ پر لیکن وہ پیچھے نہ ہٹے نہ بکے نہ کسی سے ڈرے نہ کسی سے مدد طلب کی نہ کسی دوسری قوم کے اگے گڑگڑائے کہ انہیں بھنور سے نکالا جائے۔ حتی کہ خونی انقلاب کے دوران بھی کبھی اپنی ریاست کے اندرونی معاملات میں کسی بیرونی قوت کے نہ الہ کار بنے نہ مدد گار بنے۔
یہاں ماضی کے ان تمام انقلابیوں کا ذکر ان کی تعریف و توصیف ہرگز نہیں ہے اصل مدعا پاکستان میں وقوع پذیر ہونے والے دو بلکہ 10 نمبر انقلاب کا ذکر کرنا ہے جو کہ ہائبرڈ نظام کے ذریعے پاکستان پر مسلط کرنے کی ناکام کوشش کی گئی جس کی تیاری اور بنیاد جنرل مشرف کے امرانہ دور میں شروع کی گئی۔ پھر بالآخر 2017 میں اس پکی ہوئی سیاسی فصل کی کٹائی کا وقت اگیا جس سے مقتدرہ نے اپنے انقلاب کا خواب پورا کرنا تھا۔ مگر کیا ہوا کہ محض ساڑھے تین سال بعد ہی لانے والوں کے انقلاب کو جلاب لگ گئے پھر پتہ چلا کہ اگر اس انقلابی جلاب کا فوری علاج نہ کیا گیا تو یہ انقلابی وبال جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ پھر چاروں ناچار طے یہ ہوا کہ ہمیشہ کے لیے قوم کو اس طرح کے انقلاب سے دور رکھا جائے مگر انقلاب ایک نمبر ہو یا 10 نمبر اپنے اثرات تو مرتب کرتا ہے۔ چونکہ ہم دس نمبری انقلابی تھے اس لیے ہمارا انقلاب کے اثرات بھی 160 ڈگری کی طرح بالکل برعکس تھا۔ کیونکہ اچھے ثمرات تو ہمارے مقدر میں تھے۔ نہیں، اس لیے ہماری ریاست کو اس ہائیبرڈ انقلاب نے جاتے جاتے وہ نقصان پہنچائے کہ رہے رب کا نام۔
یہ بھی پڑھئے:
اسماعیل ہنیہ کی شہادت، حکومت اپنا رویہ تبدیل کرے
کیسا ہو گا بنگلہ دیش حسینہ واجد کے بعد؟
بارہ جولائی کا فیصلہ _ حقیقی نظرثانی لازم ہے
اسمٰعیل ہنیہ کی قربانی اور راستہ
اخلاقیات کیا معاشیات کیا سیاسیات کیا یہاں تک کہ قومی ادارے بھی نہ بچ پائے ہر کوئی ہر جگہ منقسم نظر آنے لگا شعور کے نام پر بد تہذیب نسل کی ابیاری، سیاسی عدم برداشت کا خاتمہ ،چوراہوں میں سیاسی مخالفین اور ان کے اہل خانہ کو گالم گلوچ ،عدلیہ کی تقسیم ریاستی اداروں میں تقسیم کی ناکام کوشش، ملک کی تاریخ میں سب سے زیاد قرض کا حجم بڑھنا، اقربا پروری کے ہمراہ لوٹ مار کی لازوال مثالیں اور ان کا ثابت ہونا ،قومی معیشت کو ڈیفالٹ کے دہانے پر لانا اور پتہ نہیں کیا کیا یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز اج ایسی بہت سی بیماریوں سے دو چار ہے جن کا بھرپور علاج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگرمرض اتنا بڑھ چکا ہے کوئی بھی بیماری قابو میں نہیں آ رہی اور یہ دس نمبر انقلابی ابھی تک اپنے اپ کو حقیقی نجات دہندہ تصور کر کے اس تکلیف میں بھی ہم جیسے دکھی یاران وطن کے ہاسےپہ ہاسا نکلوا رہا ہے۔ جو یہ کہتا ہے کہ میں ایک سیاسی قیدی ہوں۔ مجھ پر سب مقدمات جھوٹے ہیں۔
خیر جب ان کے مخالفین کی جانب سے یہ کہا جاتا تھا کہ اس انقلاب کی شاخسانے امریکہ یورپ سے ملتے ہیں تو انقلابی بریگیڈ اور ہم نوا ٹولہ بد تہذیبی اور گالم گلوچ پر اتر اتا تھا۔ آج بلی تھیلے سے باہر ا چکی ہے۔ عمران خان نیازی کی سزاؤں اور قید پر اس وقت جتناامریکہ و برطانیہ اور یہودی لابی سیخ پا ہے اور اتاولی ہو رہی ہے اس کی اس کی بھی کوئی مثال نہیں ہے۔ آپ کو یاد ہوگا جب عمران حکومت کو گھر چلتا کیا گیا تو انہوں نے 10 نمبری انقلاب کے ضابطے پر چلتے ہوئے ایک طرف تو امریکہ کو سائفر کے نام پر آڑے ہاتھوں لے کر امریکہ مخالف مطلب ایبسولوٹلی ناٹ کا بیانیہ بنانے کی بھرپور برینڈنگ شروع کر دی تو دوسری طرف ایک نامور امریکی پی ار فرم ہائر کر کے امریکی ایوان نمائندگان اورامریکی ریاست میں اپنا سوفٹ امیج بنانے کے لیے کم چک (کام اٹھا ) کر رکھ دیا۔ جس کو سب نے بہت نارمل جانا لیکن امریکہ کی اس تگڑی پی ار فرم کی ورکنگ کیا رنگ لائے گی اور اس فرم پر 10 نمبری انقلابیوں کی اتنے بڑے پیمانے پر ڈالروں میں سرمایہ کاری کیا طلسم دکھائے گی۔ آج سب فرط حیرت میں ہیں۔
منظم اور تسلسل کے ساتھ ایک سال کے قلیل عرصہ میں ریاستی سطح پر چار اداروں کی جانب سے پاکستان کے خلاف پیش کی جانے والی قراردادیں اور بل اور ان کے پیچھے چھپی ہوئی تکلیف و کرب اس بات کی عینی شاہد ہے کہ عمرانی انقلاب کا اصل سرچشمہ انکل سام کے دیس سے نکل کر لندن وتل ابیب کے راستے پاکستان پہنچا ہے اور سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ سب اتنا آسان اور ممکن کیوں کر ہو سکا تو اس کے پیچھے ففتھ جنریشن اور پراکسی وار کا بہت بڑا عمل دخل ہے جو کہ ایک الگ موضوع ہے۔ فی الوقت ان اداروں کی بات کرلی جائے جو کہ دنیا کو رول آف لا اور تہذیب کا درس دیتے ہیں۔ خود سب سے بڑے بد تہذیب اور فسادی ہیں دوسروں ممالک کے ائین اور قانون کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔
بے عمرانی اور بغض پاکستان کے حوالے سے ان کے بلوں اور قراردادوں پر اپ بھی میرے ساتھ ایک نظر ڈالیے نمبر ایک سب سے پہلے 26 جون امریکی کانگرس کے 375 میں سے 368 ارکان نے 2024 کے پاکستانی قومی انتخابات کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے پاکستان میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا نمبر دو ،دو جولائی کو اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے ورکنگ گروپ کے ایک اجلاس میں پاکستانی معزز عدالتوں کے فیصلوں کا تمسخر اڑاتے ہوئے عمران خان کی فل فور رہائی کا مطالبہ کیا۔
نمبر تین 24 جولائی برطانوی ارکان اسمبلی کی جانب سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ اگرچہ 1600 کے لگ بھگ ہاؤس آف لارڈ میں سے صرف نجی تقریب میں محض 25 کے قریب ارکان کی شرکت اور قرارداد اہمیت کی حامل نہیں اور ایک درفتنی سے کم نہیں لیکن پاکستانی نظام کو چیلنج کرنے کا ایک ذریعہ بنی نمبر چار 27 جولائی کو ر پبلکن (ٹرمپ گروپ )کے مارکو روبیو نامی سینیٹر نے امریکی کانگرس میں پاک چین معاشی روابط اور معاہدوں کے نتیجہ میں دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے پاکستان پر معاشی پابندیوں کا بل منظور کرنا شامل ہے۔
پاکستان مخالف ان مذکورہ بلوں اور قراردادوں کی بات کی جائے تو یہ بات واضح ہے کہ امریکہ و برطانیہ اور ان کے بغل بچوں کے یہ بل نہیں ہیں بلکہ اندرونی بڑھاس یعنی کتھارسز ہیں جو پاکستان کے خلاف اس طرح نکال رہے ہیں بلکہ وہ ایک جمہوری ریاست کے ائین خود مختار ریاستی اداروں منتخب شدہ نمائندگان اور الیکشن کمیشن اف پاکستان کے ساتھ ساتھ ہماری قومی سالمیت خاک بدہن کو ڈسٹ بن میں ڈالنے کی مضموم کوشش کر رہے ہیں جبکہ انکی اوچھی حرکتوں کی ایک بنیادی دوسری وجہ پاکستانی معیشت کی بحالی اور حقیقی ریجیم چینج کے تحت پاکستان کا چینی اور روسی بلاک میں شراکت دار بننا بھی ہے اگرچہ تحریک انصاف کے اماپر ان ممالک اور ان کے اداروں کے گھٹیا اقدامات پر فوری رد عمل حکومت کا وقتی اور عارضی حل ہے وہاں پاکستان کی ریاستی خارجہ پالیسی کا یوتھی امریکی پی ار فرم کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہونے کا بھی ایک ٹھوس ثبوت ہے اس تناظر میں جہاں حکومت پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کی اثر نو تشکیل کرنے کی ضرورت ہے وہاں پر ان لنڈے کے انقلابیوں کو ڈنڈے سے ڈیل کرتے ہوے تمام بیماریوں کا تدارک کرنا ہوگا۔