Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
نظام سقہ کون تھا آج کی نسل سے اگر یہ سوال کیا جائے تو یقینا الٹا وہ اپ کو ہی پھٹی اور سوالیہ نظروں سے دیکھیں گے لیکن تاریخ اور مطالعہ سے وابستہ سب لوگ اس خوش بخت ماشکی کو جانتے ہیں کہ کس طرح مغل بادشاہ نصیر الدین ہمایوں نے دوبارہ حکومت ملنے پر نظام سقہ کے احسان کا بدلہ اس کے سر پر تاج رکھ کر ایک دن کے لیے بادشاہ سلامت بنا کر دیا جو محض اس کا بادشاہ کی جان بچانے کا ایک ایک انعام تھا مگر اس ایک روزہ حکومت میں ایک ریاستی حکومتی دانائی اور فہم و فراست سے اور تجربہ سے عاری ایک ماشکی سے ایک دن کے ریاستی نظم و نسق کی کیا امید کی جا سکتی تھی اور وہ یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ خرابی کا احتمال اور کم از کم خیر اور بھلائی کی توقع کیونکہ اس وقت معاملہ سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے جب اقتدار قلیل وقت کے لیے ہو اور حکمران گنوار اور اجڈ ہو کیونکہ نا تجربہ کاری اور اجلت کے ہمراہ زیادہ سے زیادہ ریاستی وسائل سمیٹنے کی سوچ کے ساتھ نظام سقہ جیسے حکمران راتو ں رات انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو سسٹم کولیپس کر جاتا ہے یا گر جاتا ہے اور پھر الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں نظام سقہ کی ایک روزہ حکومت کے بعد بادشاہ ہمائیوں کو کیا قیمت چکانی پڑی اور کیا نتائج بھگتنے پڑے یہ تو وہ خود ہی جانتا ہوگا یا پھر اس وقت کی عوام لیکن اج کل پاکستانی صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور دور حاضر کے نظام سقہ ثابت ہو رہے ہیں جس سے ریاست کو ائے روز لینے کے دینے پڑے ہوتے ہیں لیکن یہاں تھوڑی سی نوعیت مختلف ہے جہاں موصوف وزیراعلی کا کردار تو نظام سقہ والا ہے لیکن حکومتی معیاد ایک دن کی بجائے پانچ سالہ ہے جن میں سے چھ ماہ تو گزر چکے ہیں نظام سقہ پر حکومتی تاج بادشاہ ہمائیوں نے رکھا تھا لیکن یہاں عجیب منطق ہے کہ گنڈا پر حکومت کا تاج قیدی نمبر 804 عمران خان نے رکھا ہے خیبر پختون خواہ بھی پاکستان کی فیڈریشن کی دیگر اکائیوں کی طرح ایک انتہائی اہم اکائی ہے ہمیشہ صوبائی وسائل کی تقسیم اور مسائل کا حل فیڈریشن حل کرتی ہے لیکن اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اپنے بجٹ کو خود ہی متعین کرنے کے ساتھ ساتھ صوبائی نظم و نسق کو خود چلانا ہوتا ہے اور ان تمام مراحل میں ہمیشہ جمہوری انداز میں وفاق کے ساتھ کسی بھی قسم کی کنفرٹریشن یا الجھاؤ کے بغیر قومی و صوبائی معاملات کو حل کیا جاتا ہے مگر اج کل کے پی کے حکومت مسلسل وفاق کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ تحریک انصاف کے ہر کارکن سے لیڈر تک عمران خان کی جانب سے گھٹی میں ملنے والی نفرت ٹکراؤ ہٹ دھرمی اور خود غرضانہ سوچ کا ہونا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
۔۔۔۔ اور یہاں مظہر کلیم کا جنازہ ہوا تھا
امریکی قرارداد__ پی ٹی آئی کی بڑی کامیابی
عمران سیریز: عمران بڑا جاسوس تھا یا کرنل فریدی؟
مذاکرات_ ایلچیوں کو رسوا نہ کریں
ویسے تو چھ۔ ماہ میں کے پی کے حکومت کی کاکردگی صفر ہے مگر فیڈریشن سے ٹکراؤ اور اناڑی پن کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری اور غیر پیشہ ورانہ حرکات اپنے عروج پر ہے یعنی اگر پورا ملک شمال کی طرف چل رہا ہے تو حکمران انصافی کارندے جنوب کی طرف چل پڑتے ہیں
اور ایسا کامل گمان ہو رہا ہے کہ گنڈا پور کا مقید لیڈر اپنی انا کی خاطر اور غصے کی بھڑاس نکالنے کے لیے صوبہ بھر کے سربراہ کو ایسی ایسی نامعقول اور مضحکہ خیز گائیڈ لائن فراہم کر رہا ہے کہ ریاست کے اندر ایک ریاست کھڑی ہو سکے اور اگر گنڈا پور کے چھ ماہ کی بیشتر حکومتی اقدامات کی بات کی جاے تو یہ کبھی ائین کے متصادم تو کبھی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے متصادم تو کبھی اخلاق سے عاری دیکھنے کو ملتے ہیں موصوف وزیراعلی کے کارہائے نمایاں تو اردو کے اس محاورہ کی مانند ہیں جس میں کہا جاتا ہے اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی مطلب ہر کام الٹ اور پلٹ پاکستانی تاریخ میں اج تک وہ کون سا صوبہ ہے جس نے وفاق سے پہلے بجٹ پیش کیا ہو تو جناب گنڈا پور نے نہ صرف سب صوبوں بلکہ وفاق سے بھی پہلے کے پی کے کا بجٹ کھڑکا کر اپنا نام سنہری حروف میں رقم کر دیا دوسرا یہ کہ وہ کون سا وزیراعلی ہے جس نے براہ راست اپنے صوبائی گورنر کو کھلے عام اور ننگی گالیاں دی ہوں تو جناب یہ شرف خاص بھی گنڈا پور کے کھاتے میں جاتا ہے بات یہاں ہی ختم نہیں ہو رہی پاکستان کے76 سالہ دور میں وہ کون سا وزیراعلی رہا ہے جس نے حملہ اور جتھوں کو جائز قرار دے کر ان کو ٹارگٹ دیا ہو کہ اگر وفاقی ادارہ واپڈا لوڈ شیڈنگ کرتا ہے تو ایم پی اے ایم این اے حضرات اپنے اپنے علاقوں میں جا کر خود گرڈ اسٹیشنز کا چارج سنبھال لیں اور یہ ریاست دشمن اعزاز بھی گنڈا پور صاحب کو ملا اور پھر سب نے دیکھا کسی طرح جہلا کے گروہوں نے ریاستی املاک کو قبضہ میں لیکر نقصان پہنچایا اور جنگل کے قانون کی ریت قائم کر ڈالی مزید یہ کہ وہ کون سا وزیراعلی ہے جو اپنے ہی صوبہ میں دہشت گردی کے نصور کو ختم کرنے کے لیے اپریشن عزم استحکام کی مخالفت کر رہا ہے تو یہ بھی جناب علی امین گنڈا پور ہی ہیں جو اپنے صوبے کے امن کے خود دشمن بنے ہوئے ہیں ابھی تو اس ریاست مخالف فہرست میں موصوف کے اور بھی بہت سے افعال شرمندگی ہیں مگر ان پر ہی اکتفا کر کے بات کر لی جائے تو یہ بات صد فیصد درست ہے کہ عمران خان اور ان کے صوبائی وزیر اعلی نے ملک کو عدم استحکام کر رکھنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور وہ زمینی حقائق اور تقاضوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ریاست سے صرف ٹکراؤ ٹکراؤ اور ٹکراؤ ہی چاہتے ہیں جہاں ایک منتخب وزیراعلی قومی سلامتی کیمٹی کے فیصلوں کے مقابلے میں جرگہ بلانا چاہ رہا ہے کیا ملک کی سیاسی جمہوری جماعتیں ایسی ہوتی بلکل بھی نہیں بلکہ ایسے گرہوں کو پریشر گروپ کی قرار دیکر ان سے ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہیے جو ملک کے کھلے دشمن ہیں مگر اس منظر نامے میں ہر ذی شعور پاکستانی شہری سو چنے پر مجبور ہے کہ کیا جتھوں کی صورت میں گرڈ اسٹیشنوں پر حملہ کرنے والے پاکستانی ہیں اور ایسے گنوار اور جاہل لوگ صوبائی اور قومی مقننہ میں کیسے پہنچ گئے ؟ کیا اب ملک میں جمہوری و آئینی طریقوں کی بجائے صوبے کے عوام کے حقوق دھن دھونس سے حاصل کیے جائیں گے ؟اور کیا ایسے جارہانہ رویوں کے لوگوں کی موجودگی ریاست کے لیے مستقل طور پر بہت بڑا تھریٹ ہے۔
نظام سقہ کون تھا آج کی نسل سے اگر یہ سوال کیا جائے تو یقینا الٹا وہ اپ کو ہی پھٹی اور سوالیہ نظروں سے دیکھیں گے لیکن تاریخ اور مطالعہ سے وابستہ سب لوگ اس خوش بخت ماشکی کو جانتے ہیں کہ کس طرح مغل بادشاہ نصیر الدین ہمایوں نے دوبارہ حکومت ملنے پر نظام سقہ کے احسان کا بدلہ اس کے سر پر تاج رکھ کر ایک دن کے لیے بادشاہ سلامت بنا کر دیا جو محض اس کا بادشاہ کی جان بچانے کا ایک ایک انعام تھا مگر اس ایک روزہ حکومت میں ایک ریاستی حکومتی دانائی اور فہم و فراست سے اور تجربہ سے عاری ایک ماشکی سے ایک دن کے ریاستی نظم و نسق کی کیا امید کی جا سکتی تھی اور وہ یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ خرابی کا احتمال اور کم از کم خیر اور بھلائی کی توقع کیونکہ اس وقت معاملہ سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے جب اقتدار قلیل وقت کے لیے ہو اور حکمران گنوار اور اجڈ ہو کیونکہ نا تجربہ کاری اور اجلت کے ہمراہ زیادہ سے زیادہ ریاستی وسائل سمیٹنے کی سوچ کے ساتھ نظام سقہ جیسے حکمران راتو ں رات انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو سسٹم کولیپس کر جاتا ہے یا گر جاتا ہے اور پھر الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں نظام سقہ کی ایک روزہ حکومت کے بعد بادشاہ ہمائیوں کو کیا قیمت چکانی پڑی اور کیا نتائج بھگتنے پڑے یہ تو وہ خود ہی جانتا ہوگا یا پھر اس وقت کی عوام لیکن اج کل پاکستانی صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور دور حاضر کے نظام سقہ ثابت ہو رہے ہیں جس سے ریاست کو ائے روز لینے کے دینے پڑے ہوتے ہیں لیکن یہاں تھوڑی سی نوعیت مختلف ہے جہاں موصوف وزیراعلی کا کردار تو نظام سقہ والا ہے لیکن حکومتی معیاد ایک دن کی بجائے پانچ سالہ ہے جن میں سے چھ ماہ تو گزر چکے ہیں نظام سقہ پر حکومتی تاج بادشاہ ہمائیوں نے رکھا تھا لیکن یہاں عجیب منطق ہے کہ گنڈا پر حکومت کا تاج قیدی نمبر 804 عمران خان نے رکھا ہے خیبر پختون خواہ بھی پاکستان کی فیڈریشن کی دیگر اکائیوں کی طرح ایک انتہائی اہم اکائی ہے ہمیشہ صوبائی وسائل کی تقسیم اور مسائل کا حل فیڈریشن حل کرتی ہے لیکن اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اپنے بجٹ کو خود ہی متعین کرنے کے ساتھ ساتھ صوبائی نظم و نسق کو خود چلانا ہوتا ہے اور ان تمام مراحل میں ہمیشہ جمہوری انداز میں وفاق کے ساتھ کسی بھی قسم کی کنفرٹریشن یا الجھاؤ کے بغیر قومی و صوبائی معاملات کو حل کیا جاتا ہے مگر اج کل کے پی کے حکومت مسلسل وفاق کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ تحریک انصاف کے ہر کارکن سے لیڈر تک عمران خان کی جانب سے گھٹی میں ملنے والی نفرت ٹکراؤ ہٹ دھرمی اور خود غرضانہ سوچ کا ہونا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
۔۔۔۔ اور یہاں مظہر کلیم کا جنازہ ہوا تھا
امریکی قرارداد__ پی ٹی آئی کی بڑی کامیابی
عمران سیریز: عمران بڑا جاسوس تھا یا کرنل فریدی؟
مذاکرات_ ایلچیوں کو رسوا نہ کریں
ویسے تو چھ۔ ماہ میں کے پی کے حکومت کی کاکردگی صفر ہے مگر فیڈریشن سے ٹکراؤ اور اناڑی پن کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری اور غیر پیشہ ورانہ حرکات اپنے عروج پر ہے یعنی اگر پورا ملک شمال کی طرف چل رہا ہے تو حکمران انصافی کارندے جنوب کی طرف چل پڑتے ہیں
اور ایسا کامل گمان ہو رہا ہے کہ گنڈا پور کا مقید لیڈر اپنی انا کی خاطر اور غصے کی بھڑاس نکالنے کے لیے صوبہ بھر کے سربراہ کو ایسی ایسی نامعقول اور مضحکہ خیز گائیڈ لائن فراہم کر رہا ہے کہ ریاست کے اندر ایک ریاست کھڑی ہو سکے اور اگر گنڈا پور کے چھ ماہ کی بیشتر حکومتی اقدامات کی بات کی جاے تو یہ کبھی ائین کے متصادم تو کبھی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے متصادم تو کبھی اخلاق سے عاری دیکھنے کو ملتے ہیں موصوف وزیراعلی کے کارہائے نمایاں تو اردو کے اس محاورہ کی مانند ہیں جس میں کہا جاتا ہے اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی مطلب ہر کام الٹ اور پلٹ پاکستانی تاریخ میں اج تک وہ کون سا صوبہ ہے جس نے وفاق سے پہلے بجٹ پیش کیا ہو تو جناب گنڈا پور نے نہ صرف سب صوبوں بلکہ وفاق سے بھی پہلے کے پی کے کا بجٹ کھڑکا کر اپنا نام سنہری حروف میں رقم کر دیا دوسرا یہ کہ وہ کون سا وزیراعلی ہے جس نے براہ راست اپنے صوبائی گورنر کو کھلے عام اور ننگی گالیاں دی ہوں تو جناب یہ شرف خاص بھی گنڈا پور کے کھاتے میں جاتا ہے بات یہاں ہی ختم نہیں ہو رہی پاکستان کے76 سالہ دور میں وہ کون سا وزیراعلی رہا ہے جس نے حملہ اور جتھوں کو جائز قرار دے کر ان کو ٹارگٹ دیا ہو کہ اگر وفاقی ادارہ واپڈا لوڈ شیڈنگ کرتا ہے تو ایم پی اے ایم این اے حضرات اپنے اپنے علاقوں میں جا کر خود گرڈ اسٹیشنز کا چارج سنبھال لیں اور یہ ریاست دشمن اعزاز بھی گنڈا پور صاحب کو ملا اور پھر سب نے دیکھا کسی طرح جہلا کے گروہوں نے ریاستی املاک کو قبضہ میں لیکر نقصان پہنچایا اور جنگل کے قانون کی ریت قائم کر ڈالی مزید یہ کہ وہ کون سا وزیراعلی ہے جو اپنے ہی صوبہ میں دہشت گردی کے نصور کو ختم کرنے کے لیے اپریشن عزم استحکام کی مخالفت کر رہا ہے تو یہ بھی جناب علی امین گنڈا پور ہی ہیں جو اپنے صوبے کے امن کے خود دشمن بنے ہوئے ہیں ابھی تو اس ریاست مخالف فہرست میں موصوف کے اور بھی بہت سے افعال شرمندگی ہیں مگر ان پر ہی اکتفا کر کے بات کر لی جائے تو یہ بات صد فیصد درست ہے کہ عمران خان اور ان کے صوبائی وزیر اعلی نے ملک کو عدم استحکام کر رکھنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور وہ زمینی حقائق اور تقاضوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ریاست سے صرف ٹکراؤ ٹکراؤ اور ٹکراؤ ہی چاہتے ہیں جہاں ایک منتخب وزیراعلی قومی سلامتی کیمٹی کے فیصلوں کے مقابلے میں جرگہ بلانا چاہ رہا ہے کیا ملک کی سیاسی جمہوری جماعتیں ایسی ہوتی بلکل بھی نہیں بلکہ ایسے گرہوں کو پریشر گروپ کی قرار دیکر ان سے ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہیے جو ملک کے کھلے دشمن ہیں مگر اس منظر نامے میں ہر ذی شعور پاکستانی شہری سو چنے پر مجبور ہے کہ کیا جتھوں کی صورت میں گرڈ اسٹیشنوں پر حملہ کرنے والے پاکستانی ہیں اور ایسے گنوار اور جاہل لوگ صوبائی اور قومی مقننہ میں کیسے پہنچ گئے ؟ کیا اب ملک میں جمہوری و آئینی طریقوں کی بجائے صوبے کے عوام کے حقوق دھن دھونس سے حاصل کیے جائیں گے ؟اور کیا ایسے جارہانہ رویوں کے لوگوں کی موجودگی ریاست کے لیے مستقل طور پر بہت بڑا تھریٹ ہے۔
نظام سقہ کون تھا آج کی نسل سے اگر یہ سوال کیا جائے تو یقینا الٹا وہ اپ کو ہی پھٹی اور سوالیہ نظروں سے دیکھیں گے لیکن تاریخ اور مطالعہ سے وابستہ سب لوگ اس خوش بخت ماشکی کو جانتے ہیں کہ کس طرح مغل بادشاہ نصیر الدین ہمایوں نے دوبارہ حکومت ملنے پر نظام سقہ کے احسان کا بدلہ اس کے سر پر تاج رکھ کر ایک دن کے لیے بادشاہ سلامت بنا کر دیا جو محض اس کا بادشاہ کی جان بچانے کا ایک ایک انعام تھا مگر اس ایک روزہ حکومت میں ایک ریاستی حکومتی دانائی اور فہم و فراست سے اور تجربہ سے عاری ایک ماشکی سے ایک دن کے ریاستی نظم و نسق کی کیا امید کی جا سکتی تھی اور وہ یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ خرابی کا احتمال اور کم از کم خیر اور بھلائی کی توقع کیونکہ اس وقت معاملہ سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے جب اقتدار قلیل وقت کے لیے ہو اور حکمران گنوار اور اجڈ ہو کیونکہ نا تجربہ کاری اور اجلت کے ہمراہ زیادہ سے زیادہ ریاستی وسائل سمیٹنے کی سوچ کے ساتھ نظام سقہ جیسے حکمران راتو ں رات انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو سسٹم کولیپس کر جاتا ہے یا گر جاتا ہے اور پھر الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں نظام سقہ کی ایک روزہ حکومت کے بعد بادشاہ ہمائیوں کو کیا قیمت چکانی پڑی اور کیا نتائج بھگتنے پڑے یہ تو وہ خود ہی جانتا ہوگا یا پھر اس وقت کی عوام لیکن اج کل پاکستانی صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور دور حاضر کے نظام سقہ ثابت ہو رہے ہیں جس سے ریاست کو ائے روز لینے کے دینے پڑے ہوتے ہیں لیکن یہاں تھوڑی سی نوعیت مختلف ہے جہاں موصوف وزیراعلی کا کردار تو نظام سقہ والا ہے لیکن حکومتی معیاد ایک دن کی بجائے پانچ سالہ ہے جن میں سے چھ ماہ تو گزر چکے ہیں نظام سقہ پر حکومتی تاج بادشاہ ہمائیوں نے رکھا تھا لیکن یہاں عجیب منطق ہے کہ گنڈا پر حکومت کا تاج قیدی نمبر 804 عمران خان نے رکھا ہے خیبر پختون خواہ بھی پاکستان کی فیڈریشن کی دیگر اکائیوں کی طرح ایک انتہائی اہم اکائی ہے ہمیشہ صوبائی وسائل کی تقسیم اور مسائل کا حل فیڈریشن حل کرتی ہے لیکن اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اپنے بجٹ کو خود ہی متعین کرنے کے ساتھ ساتھ صوبائی نظم و نسق کو خود چلانا ہوتا ہے اور ان تمام مراحل میں ہمیشہ جمہوری انداز میں وفاق کے ساتھ کسی بھی قسم کی کنفرٹریشن یا الجھاؤ کے بغیر قومی و صوبائی معاملات کو حل کیا جاتا ہے مگر اج کل کے پی کے حکومت مسلسل وفاق کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ تحریک انصاف کے ہر کارکن سے لیڈر تک عمران خان کی جانب سے گھٹی میں ملنے والی نفرت ٹکراؤ ہٹ دھرمی اور خود غرضانہ سوچ کا ہونا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
۔۔۔۔ اور یہاں مظہر کلیم کا جنازہ ہوا تھا
امریکی قرارداد__ پی ٹی آئی کی بڑی کامیابی
عمران سیریز: عمران بڑا جاسوس تھا یا کرنل فریدی؟
مذاکرات_ ایلچیوں کو رسوا نہ کریں
ویسے تو چھ۔ ماہ میں کے پی کے حکومت کی کاکردگی صفر ہے مگر فیڈریشن سے ٹکراؤ اور اناڑی پن کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری اور غیر پیشہ ورانہ حرکات اپنے عروج پر ہے یعنی اگر پورا ملک شمال کی طرف چل رہا ہے تو حکمران انصافی کارندے جنوب کی طرف چل پڑتے ہیں
اور ایسا کامل گمان ہو رہا ہے کہ گنڈا پور کا مقید لیڈر اپنی انا کی خاطر اور غصے کی بھڑاس نکالنے کے لیے صوبہ بھر کے سربراہ کو ایسی ایسی نامعقول اور مضحکہ خیز گائیڈ لائن فراہم کر رہا ہے کہ ریاست کے اندر ایک ریاست کھڑی ہو سکے اور اگر گنڈا پور کے چھ ماہ کی بیشتر حکومتی اقدامات کی بات کی جاے تو یہ کبھی ائین کے متصادم تو کبھی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے متصادم تو کبھی اخلاق سے عاری دیکھنے کو ملتے ہیں موصوف وزیراعلی کے کارہائے نمایاں تو اردو کے اس محاورہ کی مانند ہیں جس میں کہا جاتا ہے اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی مطلب ہر کام الٹ اور پلٹ پاکستانی تاریخ میں اج تک وہ کون سا صوبہ ہے جس نے وفاق سے پہلے بجٹ پیش کیا ہو تو جناب گنڈا پور نے نہ صرف سب صوبوں بلکہ وفاق سے بھی پہلے کے پی کے کا بجٹ کھڑکا کر اپنا نام سنہری حروف میں رقم کر دیا دوسرا یہ کہ وہ کون سا وزیراعلی ہے جس نے براہ راست اپنے صوبائی گورنر کو کھلے عام اور ننگی گالیاں دی ہوں تو جناب یہ شرف خاص بھی گنڈا پور کے کھاتے میں جاتا ہے بات یہاں ہی ختم نہیں ہو رہی پاکستان کے76 سالہ دور میں وہ کون سا وزیراعلی رہا ہے جس نے حملہ اور جتھوں کو جائز قرار دے کر ان کو ٹارگٹ دیا ہو کہ اگر وفاقی ادارہ واپڈا لوڈ شیڈنگ کرتا ہے تو ایم پی اے ایم این اے حضرات اپنے اپنے علاقوں میں جا کر خود گرڈ اسٹیشنز کا چارج سنبھال لیں اور یہ ریاست دشمن اعزاز بھی گنڈا پور صاحب کو ملا اور پھر سب نے دیکھا کسی طرح جہلا کے گروہوں نے ریاستی املاک کو قبضہ میں لیکر نقصان پہنچایا اور جنگل کے قانون کی ریت قائم کر ڈالی مزید یہ کہ وہ کون سا وزیراعلی ہے جو اپنے ہی صوبہ میں دہشت گردی کے نصور کو ختم کرنے کے لیے اپریشن عزم استحکام کی مخالفت کر رہا ہے تو یہ بھی جناب علی امین گنڈا پور ہی ہیں جو اپنے صوبے کے امن کے خود دشمن بنے ہوئے ہیں ابھی تو اس ریاست مخالف فہرست میں موصوف کے اور بھی بہت سے افعال شرمندگی ہیں مگر ان پر ہی اکتفا کر کے بات کر لی جائے تو یہ بات صد فیصد درست ہے کہ عمران خان اور ان کے صوبائی وزیر اعلی نے ملک کو عدم استحکام کر رکھنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور وہ زمینی حقائق اور تقاضوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ریاست سے صرف ٹکراؤ ٹکراؤ اور ٹکراؤ ہی چاہتے ہیں جہاں ایک منتخب وزیراعلی قومی سلامتی کیمٹی کے فیصلوں کے مقابلے میں جرگہ بلانا چاہ رہا ہے کیا ملک کی سیاسی جمہوری جماعتیں ایسی ہوتی بلکل بھی نہیں بلکہ ایسے گرہوں کو پریشر گروپ کی قرار دیکر ان سے ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہیے جو ملک کے کھلے دشمن ہیں مگر اس منظر نامے میں ہر ذی شعور پاکستانی شہری سو چنے پر مجبور ہے کہ کیا جتھوں کی صورت میں گرڈ اسٹیشنوں پر حملہ کرنے والے پاکستانی ہیں اور ایسے گنوار اور جاہل لوگ صوبائی اور قومی مقننہ میں کیسے پہنچ گئے ؟ کیا اب ملک میں جمہوری و آئینی طریقوں کی بجائے صوبے کے عوام کے حقوق دھن دھونس سے حاصل کیے جائیں گے ؟اور کیا ایسے جارہانہ رویوں کے لوگوں کی موجودگی ریاست کے لیے مستقل طور پر بہت بڑا تھریٹ ہے۔
نظام سقہ کون تھا آج کی نسل سے اگر یہ سوال کیا جائے تو یقینا الٹا وہ اپ کو ہی پھٹی اور سوالیہ نظروں سے دیکھیں گے لیکن تاریخ اور مطالعہ سے وابستہ سب لوگ اس خوش بخت ماشکی کو جانتے ہیں کہ کس طرح مغل بادشاہ نصیر الدین ہمایوں نے دوبارہ حکومت ملنے پر نظام سقہ کے احسان کا بدلہ اس کے سر پر تاج رکھ کر ایک دن کے لیے بادشاہ سلامت بنا کر دیا جو محض اس کا بادشاہ کی جان بچانے کا ایک ایک انعام تھا مگر اس ایک روزہ حکومت میں ایک ریاستی حکومتی دانائی اور فہم و فراست سے اور تجربہ سے عاری ایک ماشکی سے ایک دن کے ریاستی نظم و نسق کی کیا امید کی جا سکتی تھی اور وہ یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ خرابی کا احتمال اور کم از کم خیر اور بھلائی کی توقع کیونکہ اس وقت معاملہ سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے جب اقتدار قلیل وقت کے لیے ہو اور حکمران گنوار اور اجڈ ہو کیونکہ نا تجربہ کاری اور اجلت کے ہمراہ زیادہ سے زیادہ ریاستی وسائل سمیٹنے کی سوچ کے ساتھ نظام سقہ جیسے حکمران راتو ں رات انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو سسٹم کولیپس کر جاتا ہے یا گر جاتا ہے اور پھر الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں نظام سقہ کی ایک روزہ حکومت کے بعد بادشاہ ہمائیوں کو کیا قیمت چکانی پڑی اور کیا نتائج بھگتنے پڑے یہ تو وہ خود ہی جانتا ہوگا یا پھر اس وقت کی عوام لیکن اج کل پاکستانی صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور دور حاضر کے نظام سقہ ثابت ہو رہے ہیں جس سے ریاست کو ائے روز لینے کے دینے پڑے ہوتے ہیں لیکن یہاں تھوڑی سی نوعیت مختلف ہے جہاں موصوف وزیراعلی کا کردار تو نظام سقہ والا ہے لیکن حکومتی معیاد ایک دن کی بجائے پانچ سالہ ہے جن میں سے چھ ماہ تو گزر چکے ہیں نظام سقہ پر حکومتی تاج بادشاہ ہمائیوں نے رکھا تھا لیکن یہاں عجیب منطق ہے کہ گنڈا پر حکومت کا تاج قیدی نمبر 804 عمران خان نے رکھا ہے خیبر پختون خواہ بھی پاکستان کی فیڈریشن کی دیگر اکائیوں کی طرح ایک انتہائی اہم اکائی ہے ہمیشہ صوبائی وسائل کی تقسیم اور مسائل کا حل فیڈریشن حل کرتی ہے لیکن اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اپنے بجٹ کو خود ہی متعین کرنے کے ساتھ ساتھ صوبائی نظم و نسق کو خود چلانا ہوتا ہے اور ان تمام مراحل میں ہمیشہ جمہوری انداز میں وفاق کے ساتھ کسی بھی قسم کی کنفرٹریشن یا الجھاؤ کے بغیر قومی و صوبائی معاملات کو حل کیا جاتا ہے مگر اج کل کے پی کے حکومت مسلسل وفاق کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ تحریک انصاف کے ہر کارکن سے لیڈر تک عمران خان کی جانب سے گھٹی میں ملنے والی نفرت ٹکراؤ ہٹ دھرمی اور خود غرضانہ سوچ کا ہونا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
۔۔۔۔ اور یہاں مظہر کلیم کا جنازہ ہوا تھا
امریکی قرارداد__ پی ٹی آئی کی بڑی کامیابی
عمران سیریز: عمران بڑا جاسوس تھا یا کرنل فریدی؟
مذاکرات_ ایلچیوں کو رسوا نہ کریں
ویسے تو چھ۔ ماہ میں کے پی کے حکومت کی کاکردگی صفر ہے مگر فیڈریشن سے ٹکراؤ اور اناڑی پن کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری اور غیر پیشہ ورانہ حرکات اپنے عروج پر ہے یعنی اگر پورا ملک شمال کی طرف چل رہا ہے تو حکمران انصافی کارندے جنوب کی طرف چل پڑتے ہیں
اور ایسا کامل گمان ہو رہا ہے کہ گنڈا پور کا مقید لیڈر اپنی انا کی خاطر اور غصے کی بھڑاس نکالنے کے لیے صوبہ بھر کے سربراہ کو ایسی ایسی نامعقول اور مضحکہ خیز گائیڈ لائن فراہم کر رہا ہے کہ ریاست کے اندر ایک ریاست کھڑی ہو سکے اور اگر گنڈا پور کے چھ ماہ کی بیشتر حکومتی اقدامات کی بات کی جاے تو یہ کبھی ائین کے متصادم تو کبھی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے متصادم تو کبھی اخلاق سے عاری دیکھنے کو ملتے ہیں موصوف وزیراعلی کے کارہائے نمایاں تو اردو کے اس محاورہ کی مانند ہیں جس میں کہا جاتا ہے اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی مطلب ہر کام الٹ اور پلٹ پاکستانی تاریخ میں اج تک وہ کون سا صوبہ ہے جس نے وفاق سے پہلے بجٹ پیش کیا ہو تو جناب گنڈا پور نے نہ صرف سب صوبوں بلکہ وفاق سے بھی پہلے کے پی کے کا بجٹ کھڑکا کر اپنا نام سنہری حروف میں رقم کر دیا دوسرا یہ کہ وہ کون سا وزیراعلی ہے جس نے براہ راست اپنے صوبائی گورنر کو کھلے عام اور ننگی گالیاں دی ہوں تو جناب یہ شرف خاص بھی گنڈا پور کے کھاتے میں جاتا ہے بات یہاں ہی ختم نہیں ہو رہی پاکستان کے76 سالہ دور میں وہ کون سا وزیراعلی رہا ہے جس نے حملہ اور جتھوں کو جائز قرار دے کر ان کو ٹارگٹ دیا ہو کہ اگر وفاقی ادارہ واپڈا لوڈ شیڈنگ کرتا ہے تو ایم پی اے ایم این اے حضرات اپنے اپنے علاقوں میں جا کر خود گرڈ اسٹیشنز کا چارج سنبھال لیں اور یہ ریاست دشمن اعزاز بھی گنڈا پور صاحب کو ملا اور پھر سب نے دیکھا کسی طرح جہلا کے گروہوں نے ریاستی املاک کو قبضہ میں لیکر نقصان پہنچایا اور جنگل کے قانون کی ریت قائم کر ڈالی مزید یہ کہ وہ کون سا وزیراعلی ہے جو اپنے ہی صوبہ میں دہشت گردی کے نصور کو ختم کرنے کے لیے اپریشن عزم استحکام کی مخالفت کر رہا ہے تو یہ بھی جناب علی امین گنڈا پور ہی ہیں جو اپنے صوبے کے امن کے خود دشمن بنے ہوئے ہیں ابھی تو اس ریاست مخالف فہرست میں موصوف کے اور بھی بہت سے افعال شرمندگی ہیں مگر ان پر ہی اکتفا کر کے بات کر لی جائے تو یہ بات صد فیصد درست ہے کہ عمران خان اور ان کے صوبائی وزیر اعلی نے ملک کو عدم استحکام کر رکھنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور وہ زمینی حقائق اور تقاضوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ریاست سے صرف ٹکراؤ ٹکراؤ اور ٹکراؤ ہی چاہتے ہیں جہاں ایک منتخب وزیراعلی قومی سلامتی کیمٹی کے فیصلوں کے مقابلے میں جرگہ بلانا چاہ رہا ہے کیا ملک کی سیاسی جمہوری جماعتیں ایسی ہوتی بلکل بھی نہیں بلکہ ایسے گرہوں کو پریشر گروپ کی قرار دیکر ان سے ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہیے جو ملک کے کھلے دشمن ہیں مگر اس منظر نامے میں ہر ذی شعور پاکستانی شہری سو چنے پر مجبور ہے کہ کیا جتھوں کی صورت میں گرڈ اسٹیشنوں پر حملہ کرنے والے پاکستانی ہیں اور ایسے گنوار اور جاہل لوگ صوبائی اور قومی مقننہ میں کیسے پہنچ گئے ؟ کیا اب ملک میں جمہوری و آئینی طریقوں کی بجائے صوبے کے عوام کے حقوق دھن دھونس سے حاصل کیے جائیں گے ؟اور کیا ایسے جارہانہ رویوں کے لوگوں کی موجودگی ریاست کے لیے مستقل طور پر بہت بڑا تھریٹ ہے۔