منڈی بہاؤالدین کے کنزیومر کشمنر کی درگت اور ڈپٹی کمشنر کی گرفتاری کے حکم نے خیال کے گھوڑے دوڑا دیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے حدود و قیود کسی بھی زمرے میں آتے ہو بہر صورت ہوتے فائدے مند ہی ہیں۔ یعنی جب کوئی اپنے دائرہ سے تجاوز نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کے دائرہ میں خوامخواہ کی مداخلت اور پنگے بازی کی کوشش کرتا ہے تو معاملات اور معمولات ایک ہموار ندی کی مانند پرسکون بہاؤ میں رہتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی کوئی چیز اس روانی میں خلل پیدا کرتی ہے تو طغیانی اور اس کے نتیجہ میں تباہی و بربادی ایک حقیقی امر بن جاتا ہے۔
اس تھیوری کو لے کر ملک پاکستان میں تقریبا تمام طبقات اور گروہ دوغلے پن اور منافقت کا شکار ہیں۔ یعنی ہر طبقہ اور ادارہ یہ چاہتا تو ہے کہ کوئی بھی اپنی حدود کو کراس کرتے ہوئے ان کے دائرہ میں مت گھسے۔ اور ان کی کار سرکار میں مداخلت کرنے کی ہمت نہ کرے۔ لیکن جب اس نظریہ کو عملی طور پر اپنانے کی بات آتی ہے تو آپ کو ہر روز قومی سطح پر اٹھنے والے نت نئے شوشے ظاہر کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
نکال لو میری آنکھیں، سانحہ سیالکوٹ مجھے دکھی کرتا ہے
سانحہ سیالکوٹ: وہ بات جو ابھی تحقیق طلب ہے
اس کا سبب یہ ہے کہ منافقت اپنے کمال عروج پر ہے۔ انفرادیت سے اجتماعیت تک ہر کوئی دوسرے کے معاملات میں ٹانگ پھسانے سے باز نہیں آتا۔ اسی طرح اپنے معاملات میں کسی کو دخل دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ دوہرے معیار کی معاشرت کا آئینہ دار بن چکا ہے۔ سیاسی معاملات ہوں یا پھر انتظامی امور دھن دھونس کا یہ مجرب نسخہ اپنی برتری اور مقاصد کے حصول کے لیے شرط لازم بن چکا ہے۔
اس گھٹیا مسابقت کو دیکھ کر عام پاکستانی کا دل کڑھتا ہے۔ سبب یہ ہے کہ جہاں اداروں اور طبقوں میں تال میل نہ ہو۔ اور لوگ حقوق و فرائض کی بجا آوری سے گریز کرتے ہوئے اڈے بازی شروع ہو جائے تو شہری حقوق اور ریاستی فرائض گئے تیل لینے۔ گزشتہ ہفتہ صوبہ پنجاب کے شہر منڈی بہاوالدین میں ایک سائل کی درخواست پر کنزیومر کورٹ کے جج راؤ عبدالجبار جو کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ضلع منڈی بہاوالدین بھی ہیں نے ڈپٹی کمشنر منڈی بہاوالدین کی بار بار عدم حاضری اور توہین عدالت پر ڈپٹی کمشنر طارق بسرا اور اسسٹنٹ کمشنر امتیازعلی کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرکے تین ماہ قید کا حکم سنایا -جس پر ایک بار پھر ہم وطنوں کو پروفیشنل ازم کو منہ چڑھاتے ہوئے طوفان بدتمیزی کی نوٹنگی دیکھنے کا موقع ملا۔
پس پردہ حقائق و واقعات میں سکھا شاہی کی یاد تازہ کر دی- بات اس وقت بڑھی جب ڈی سی آفس کے محض ایک لیٹیگیشن کلرک نے فاضل جج اور عدالت کی توہین کرتے ہوئے ڈی سی کی عدم حاضری کو چیلنج کی- جس پر مذکورہ کلرک کو حوالات کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا -تو ڈپٹی کمشنر نے عدالت میں حاضری کی بجائے جج کو معاملہ نمٹانے کو کہا-لیکن بات نہ بننے پر ڈی سی نے اپنے اے سی کے ہمراہ کمرہ عدالت میں پیش ہوتے ہوئے غیر اخلاقی اور غیر پیشہ ور زبان کا سہارا لیا
ضلع کے دونوں مجرم آفیسرز کا بغیر ضمانت اور قانونی کاروائی کے گجرات جیل جانے کی بجائے لاہور کے لئے روانہ ہو جانا ایک بار پھر توہین عدالت اور پاکستانی عدالتی نظام کی دھجیاں اڑانے کے زمرے میں آتا ہے- جو کہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس کے بعد قانون کے داعی اور علمبردار جن کو سیشن جج کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کرنا چاہیے تھا -وہ ہی دشمن جاں ٹھرے- اور منڈی بہاوالدین ڈسٹرکٹ بار کے صدر اور جنرل سیکریٹری نے اس فیصلہ کے رد عمل میں ان مجرم کمشنر صاحبان کا چہیتا بنتے ہوئے عدالت میں گھس کر گالم گلوچ کرتے ہوئے معزز جج کو عدالت سے باہر نکال دیا -اس پر ہائیکورٹ نے عدلیہ کی ساکھ اور وقار پر کوئی سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے نوٹس لیا ۔اور ان دونوں وکلاء کے وکالت نامے معطل کرتے ہوئے ہائیکورٹ طلب کرلیا -جو کہ انتہائی قابل ستائش عمل ہے
ہر کامیاب ریاست اس وقت تنزلی کی جانب بڑھنا شروع ہو جاتی ہے جب ادارے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے کسی دوسرے ریاستی ادارہ کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں- اور اپنی سپرمیسی یقینی طور پر کامل بنانے کی غیر آئینی و غیر اخلاقی سرگرمیوں میں پڑ جاتے ہیں- ایک جمہوری ریاست کا انحصار اس کے چار پائیدار ستونوں پر ہوتا ہے جس میں سب سے پہلے مقننہ آئین ساز ادارے/اسمبلیاں )دوسرے نمبر پر ایگزیکٹو(انتظامیہ ) تیسرے نمبر پر عدلیہ ( منصفانہ عدالتی نظام )اور چوتھے نمبر پر صحافت (میڈیا )اگر یہ تمام مذکورہ ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اور دیگر ریاستی اداروں کے تقدس کا خیال کرتے ہوئے قومی تعمیر میں اپنا فعال کردار ادا کرتےرہیں تو نہ صرف ملک سبک رفتاری سے ترقی کرتا ہے-
بلکہ اس ملک کے شہری اپنے آپ کو محفوظ اور خوشحال تصور کرتے ہیں- ان سب اداروں میں کسی کو بھی مقدس گائے قرار نہیں دیا جاسکتا -البتہ اعدلیہ ایک ایسا ادارہ ہے جو ایک کامیاب ریاست کا اپم ترین ستون ہے- اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا میں کیسا ہی طرز حکومت کیوں نہ ہو عدلیہ ریاست اور اس کے شہریوں کے حقوق کی کسٹوڈین ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کے سربراہ مملکت یا پھر خلیفہ وقت کو بھی قاضی کے سامنے پیش ہو کر اپنی صفائی اور سچائی کو بیان کرنا ہوتا ہے- لیکن پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر کے ممالک جہاں کلونی ازم کی سامراجیت نے اپنے پنجے گاڑے تھے ان کے جانے کے بعد بھی ان کے اثرات کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں- اور ملک عزیز میں انگریز تو چلا گیا لیکن صاحب بہادر کا کلچر ایسا چھوڑ کر دیا کہ اس کے نقوش مٹنے کو نہیں آ رہے-
منڈی بہاؤالدین کا واقعہ بھی اسی صاحب بہادر کلچر کا عکاس ہے- جہاں محض ایک معمولی سا لیٹیگیشن کلرک اپنے صاب بہادر کی ایماءپر معزز جج کو آنکھیں دکھانے اور بدتمیزی کرنے پر اتر آیا – یعنی صاحب تو صاحب ان کا چوکیدار بھی نہیں مان-
بیوروکریٹ بالخصوص کمشنری نظام اور پولیس کی بات کی جائے تو ان شعبوں میں خدمت کی بجائے حاکمانہ طرز عمل کی نفسیات آفیسر کی گھٹیوں میں رچ بس چکی ہے- ان لوگوں کی لاکھ تربیت کےباوجود ریاست کے مفاد اور عوام کے مسائل کے حل کی نسبت اپنے ادارہ کی دھا ک اور حاکمیت کی ترجیح تقریبا تمام مذکورہ بیوروکریٹک سکیٹر کا وطیرہ بن چکا ہے-
یہی وجہ ہے کہ صاب بہادران معزز عدلیہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے- حیرت کی بات یہ کہ تاج برطانیہ کی پیداوار یہ انتظامی اسٹرکچرآج خود برطانیہ میں بھی موجود نہیں ہے- جب انگریز دنیا بھر میں سامراجیت کی مار دھاڑ کے بعد انگلستان تک محدود ہوا تو ہاں انداز انتظامی امور ہی بدل ڈالا – اور جبکہ ہمارے یاں وہی انداز حاکمانہ قائم ہے- جو کہ دیگر محکوم قوموں کی نفسیات کو مد نظر رکھ کر ڈیزائن کیا گیا تھا -اور یہی وجہ تھی کہ برصغیر سے واپسی پر تاج بر طانیہ نے تمام بیوروکریٹس کو یہ کہہ کر جبرا ریٹائر کر دیا کہ آپ کی عادات و اطوار بدل چکے ہیں ۔اور آپ برطانوی عوام کی خدمت کے لیے مس فٹ ہو چکے ہیں۔ا اور نتیجتا آپ کو انگلستان میں ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر کی بجائے AO اے او یعنی ایڈمنسٹریٹو آفیسر اور AAاے اے یعنی اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹر آفیسر دیکھنے میں ملیں گے-
جو کہ ہمارے ہاں کے برعکس نام کے سول سرونٹس کی بجائے حقیقی سول سرونٹس نظر آتے ہیں- اور اپنے شہریوں کی خدمت کے لیے خادموں جیسا ہی کردار ادا کرتے ہیں- لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے-نہ جانے کب ہماریے بیوکریٹ حاکمانہ نفسیات کی برتری سےباہر نکل آ پائں گے!!!