فطرت انسانی اور شرست انسانی کے منفی پہلووں میں سے احسان فراموشی کا پہلو بہت اہم ہے جس کی بنا پر حضرت انسان اتناسنگدل اور مطلب پرست بن جاتا ہے کہ اپنا کام نکلنے کے بعد آنکھیں ہی بدل لیتا ہے لیکن اس طرح کے مطلبی اشخاص معاشرہ کی شرح وجود کا ہونا بہت کم ہے۔ یہ فعل انفرادی بھی ہوتا ہے لیکن اجتماعی معاشرتی سطح پر ایسی مطلب پرستی، سنگ دلی اور بے حسی و بے اعتنائی شاز و ناظر ہی دیکھنے میں ملتی ہے جس کے تحت کوئی بھی قوم یا پھر گروہ معاشرہ اپنا کام یا مطلب پورا ہو جانے کے بعد اپنے محسن کو کسی کھاتے میں نہیں گنتی۔ اہمیت دینا تو دور کی بات ا س کے وجود کو ایک بوجھ تصور کرتی ہے اور یہ حرکت کسی سنگین المیہ اور جرم سے کم نہیں بالخصوص اس فرد کے لیئے جو اپنی قوم کے لئے مسیحا یا محسن ثابت ہو اہو اس ضمن میں پاکستان اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی عملی مثال پور اترتی ہے جس کے تحت ڈاکڑ اے کیوخان اپنی زندگی کی آخری دو دہایؤں میں اسی طرح کے المیہ سے دو چار رہے۔
جب28 مئی1999میں بھارت کے جوہری دھماکوں کے رد عمل میں پاکستان کی سالمیت اور بقا پر بات آئی تو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کئی دہایؤں کی جہد مسلسل کے نتیجہ میں جوابی ایٹمی دھماکوں سے ایشیا ء میں گریٹر بھارت کے خواب کو چکنا چور کر دیاگیا اور پاکستان کے غیر متوقع جوابی جوہری طاقت کے اظہار نے گویا کہ بھارت کو سکتے میں مبتلا کر دیااور خطہ میں نام نہاد بالا دستی کی یاس لگائے منافق بھارت قوم کو منہ کی کھا نی پڑی اور یہ وہی لمحہ تھاجب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کی عوام کے لئے قائد اعظم کے بعد دوسرے نجات دہندہ کے طور پر سامنے آئے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا پاکستانیوں کو دوسری بار آزادی دلانے والے ہیرو قرار پائے حضرت قائد اگرانگریز اور ہندو مشترکہ گٹھ جوڑ سے برصغیر کے مسلمانوں کو آزاد ی دلوانے میں کامیاب رہے تو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان معروضی لحاظ سے خطہ میں ایٹمی طاقت کے بل بوتے پربھارتی تھانیداری سے ریاست پاکستان کو آزاد کروانے اور دفاعی توازن کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔
یہ کیسے ممکن تھا کہ جی ایٹ میں امریکہ سمیت پاکستان مخالف لابی اس کار خیر کو ہضم اور قبول کر پاتی اس کے بدلے میں ردعمل اور پاببندیاں اور مسائلستان کاکھڑا ہونا ایک فطری عمل تھا اور اچانک پیدا ہونے والی اس غیر متوقع صورتحال کا سامناکرنا اور سنبھالناکسی دانائی سے کم نہ تھالیکن جب جمہور کی بجائے ایک آمر مسند اقتدار پر براجمان ہو تو دانائی کو پس پشت ڈال کر مائیٹ از رائٹ والی پالسیاں اور فیصلے مسلط کئے جاتے ہیں اور ایسا ہی کچھ معاملہ پاکستان کے جوہری دھماکوں کے بعد درپیش آیایقنی طور پر یہ دھماکوں کا ہی نتیجہ تھا کہ نواز شریف کو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑااور مشرف کے مارشل لاء لگاتے ہی اس معاملہ کو مس ہینڈل کیا گیا جس نے فیس سوینگ کے نام پر محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بلی چڑھاتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ایک مجرم ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
پاکستان دشمن پھیلائے جانے والے عالمی سازشی تانوں بانوں کے نتیجہ میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف بچھائے جانے والے جال میں پھنس جانے کی بنا پرلگائے جانے والے الزامات کے بدلے میں سرکاری سطح پر معافی مانگنی پڑی اور جسے سرکاری ٹی وی چینل کے توسط پوری دنیا پر نشر کیا گیا الزامات کیا تھے؟ انکے محرکات کیا تھے؟معروضی حالات کیا تھے؟ یہ ایک الگ بحث لیکن محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قومی ہیرو کی بجائے مجرم قرار دیکر نظر بندی کی صعبتوں سے دو چار کرنا کسی حزمیت سے کم نہ تھا۔
برادر محمد مدثر چوہدری ایک متحرک اور کہنہ مشک قانون دان ہیں اور گذشتہ تقریبا ساڑھے تین سال سے یعنی 2018 سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے آزادانہ حقوق کا مقدمہ لڑ رہے تھے اور اس بنا پر انکی ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ہفتہ وار مشاورت اور نشست ہوتی تھی اور ان چند سالوں میں براد مدثر کی ڈاکٹر صاحب سے کافی قر بت اور رفاقت ہو چکی تھی اس عرصہ کے دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی کے بارے میں مشاہدات اور وابستگی بڑی اہمیت رکھتے ہیں آزادانہ حقوق اور درپیش مسائل اور ڈاکٹر صاحب کے محسوسات و مقدمات کے بارے میں استسفار پر مدثر چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے کسی بھی قلم کار کے لئے اسے زیب قرطاس لانا ممکن نہیں البتہ دائر مقدمات کے پانچ اہم نکات پر بات کرنے میں کوئی ہرج نہیں جن میں سے پہلے نمبر پرڈاکٹر عبدالقدیر خان کی معزز عدلیہ سے 21 سال تک درخواست رہی کہ انہیں آزاد شہری ڈیکلیئر کیا جائے دوسرا انکے ملاقتیوں پر پابندی ختم کی جائے اور بلا روک ٹوک آنے کی اجازت دی جائے اور تیسرا کہیں بھی جانے اور ملاقات کی اجازت دی جائے چوتھا میڈیا سے براہ راست بات چیت اور اظہار کی اجازت دی جائے۔
پانچواں سرکاری سٹیک ہولڈرز اور غیر ملکیوں کے ساتھ میل ملاقات کرنے دیا جائے مذکورہ نکات ہر لحاظ سے مختلف اہمیت کے حامل تھے لیکن ان سب میں مشترکہ”آزادی“ ہی کا ہے اور آزادی کی قدر ایک اسیر یا پابند سلاسل ہی بہتر جان سکتا ہے افسوس اس امت کا کہ ہمیشہ کے لئے پاکستانی قوم کو دشمن سے سٹرجیک طور پر آزادی اور برتری دلانے والے خود آزادی کے لئے ترستے ترستے راہ عدم کو رواں ہو گیا کیا کوئی اپنے محسن کے ساتھ یوں کرتا ہے مانا کہ اس وقت طاقتور دینا کا دباؤ تھا اور ڈاکٹر صاحب کی جان کو امان بھی چاہیئے تھی اور بہت سے چیلنج بھی درپیش تھے اور ان کی زندگی کو محدود کرنا پڑا لیکن ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک میں جب تمام چیزیں معمول پر آگئی تھیں تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی معمول پر کیوں نہیں آسکی انکو کس جرم کی سزا دی گئی زندگی تو زندگی انکی رحلت پر بھی ریاست کی بے وفائی اور سما اور کاغذی کاروائی نے پاکستانیوں کو اور دکھ دیاانکی آخری رسومات میں صدر پاکستان،وزیر اعظم اور عسکری قیادت کی عدم شرکت سرد مہری سے کم ثابت نہ ہوئی لیکن جنازے میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہو سمندر سرکار اور عوام کی متضاد رشتہ الفت و چاہت کا آئینہ دار تھا۔ویسے تو اس طرح کے معاملات میں موازنہ جائز نہیں لیکن بھارت جیسے دشمن ملک میں اپنے محسن ایٹمی دھماکوں کے مسلمان سائنسدان ڈاکٹر ابولکلام آزاد کی زندگی میں تقریم اور حفاظت اور آخری رسومات میں بی جے پی کی انتہاے پسند حکومت کے وزیر اعظم مودی کے کے ہاتھوں فل ریاستی پرٹوکول کے ساتھ تدفین ہمارے ریاستی رویہ اور اپنے محسنوں کے ساتھ سلوک پر ان گنت سوالات چھوڑ رہا ہے دعا ہے اللہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر اپنی کروڑہا رحمتوں کا نزول فرمائے آمین۔