کہتے ہیں جس کا آج یعنی حال اس کے گزرے کل یعنی ماضی سے بہتر نہ ہو تو یہ بات یقینی ہے، وہ چاہے پھر کوئی قوم ہو یا فرد وہ تنزلی کا شکار ہے اور معاشرہ انہیں نا کامیاب قرار دیتا ہے کسی بھی فرد کی ناکامی یا پستی کا ذمہ دار انفرادی طور پر وہ فرد خود تو ہو سکتا ہے لیکن ایک قوم یا ریاست کی پستی یا درماندگی کی ذمہ داری اس کے حکمرانوں،طرز حکومت اور اس کے سیاسی نظام پر منحصر ہوتی ہے بعض اوقات میرے جیسے بہت سے لکھاری موضوعاتی اعتبار سے سیاسی بساط پر کھیلے جانے والی شطرنج، اس کے مہروں اور چالوں پر اپنے قلم کو جنبش دینے کے خواہاں نہیں ہوتے لیکن کیا کیا جائے ہمارے ملک کا ہرمسئلہ کبھی بلا واسطہ تو کبھی بالواسطہ سیاست سے ہی جا ملتا ہے کیونکہ جمہوری حکومتیں سیاست کدوں سے ہی پروان چڑھتی اور پھوٹتی ہیں اور یہی سیاستدان جب مسند حکمرانی پر قدم رنجہ فرماتے ہیں تو ان کے افعال و کردار ریاست کی نیہ کو تیرنے یا ڈبونے کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور جب قوم کے مقدر میں نا تجربہ کار اور نا اہٰل حکمران آجایئں تو ریاست کو اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے اور اس قیمت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی صورت حال کو دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی لکھنا پڑتا ہے۔ وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے ہوئے 73سال ہو چکے ہیں لیکن حالات سے لگتا ہے کہ ابھی سولہ سترہ سال ہی ہوئے ہیں اوریا پھر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم ٹائم مشین کے ذریعہ پچھلے زمانہ میں پلٹ گئے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصہ میں بہت کم اور چند صنعتیں حصہ میں آئیں جن میں سے صرف دو شوگر فیکٹریاں بھی تھیں جو کہ یقینی طور پر اس وقت کی چھے کروڑ پاکستان آبادی کے لئے بھی نا کافی تھیں، لہذا اس وقت بھی چینی کی درآمد ایک اہم ضرورت تھی سابقہ جنرل ایوب کے دور میں ایک آدھی شوگر مل کا اضافہ ہو ا لیکن چینی کی رسد اور طلب کے بحران کو پورا کرنے کے لئے راشن ڈپو متعارف کرائے گئے اور پاکستانی شہریوں کو راشن کارڈ جاری کئے گئے۔ یہ راشن کارڈ خاندان کے سربراہ کے نام جاری ہوتا اور اس میں کنبہ کے تمام افراد کے نام شامل ہوتے اور ہفتہ میں ایک بار ہی مخصوص مقدار یعنی آدھ سیر چینی ملتی مخصوص مقدار اس لئے بھی کہ ابھی عوام کی اکثریت گڑ اور شکر کا استعمال کرتی تھی اورولائیتی میٹھے کی طرف ان کا رجحان کم تھا آج جبکہ پاکستان میں 80 شوگر ملیں موجود ہیں جن میں 50% پنجاب میں 11%سندھ میں 9% کے پی کے میں موجود ہیں اور جن کی مجموعی پیداوار 67ملین ٹن سالانہ ہے لیکن غور طلب، حل طلب اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں چینی کی رسد اور طلب اس طرح کے بحران کا شکار ہے جب قیام پاکستان کے فوری بعد شوگر انڈسٹری بے بی انڈسٹری تھی کہاں چھ کروڑ عوام کے لیے دو سے تین شوگر ملیں اور کہاں اکیس کروڑ عوام کے لئے 80 شوگر ملیں لیکن حال وہی قدیمی اور نا گفتہ بایہ نہیں کہ صرف موجودہ حکومت ہی اس کی ذمہ دار ہے بلکہ ہر دور حکومت چاہے وہ جمہوری ہو یا آمرانہ چینی کا معمہ حل نہیں کر سکاہاں بہتری ضرور آئی ہے پہلے آپ کوچینی کے حصول کے لئے راشن کارڈ کے ساتھ خوار ہونا پڑتا تھا اور اب آپ کو قومی شناختی کارڈ کے ساتھ درگور ہونا پڑتا ہے اس ضمن میں موجودہ حکومت زیادہ تنقید کی زد میں ہے اور اس کی بنیادی وجہ بڑے اور نمایاں چینی مل مالکان جو کہ قیمتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ان کا تعلق اور وابستگیاں حکمران جماعت پی ٹی آئی سے ہیں جنہوں نے گزشتہ حکومت کے مقابلہ میں چینی کی قمیت مین تقریبا 100% اضافہ کر دیا54 روپے فی کلو ملنے والی چینی نئے دور حکومت کے تین سال بعد 110روپے فی کلو پر آ چکی ہے نہ صرف یہ بلکہ اس بڑھ کر ستم ظرفی یہ کہ گوہر نایاب کی طرح عدم دستیاب ہے۔ رمضان کے مقدس مہینہ میں جہاں غیر مسلم معاشروں اور ریاستوں میں روداری اور قربانی کی عمدہ مثالیں ہیں وہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں روزہ کی حالت میں پاکستانی شہریوں کو محض ایک کلو چینی کے لیے لمبی قطاروں میں گھنٹوں خوار ہونا پڑ رہا ہے۔ پاکستان جو کہ ایک زرعی ملک ہے اور وہاں چینی اور آٹا مافیا کی جانب سے مصنوعی بحران اور قلت پیدا کر کے پہلے ایکسپورٹ پھر امپورٹ کاڈھونگ رچا کر مہنگائی میں پسی عوام کی تذلیل میں کوئی کثر نہیں چھوڑی جا رہی ہے۔ ضیا الحق دورمیں چینی سات روپے کلو پڑتی تھی حکومت ایک روپیہ سبسڈی دیتی تھی اور چھ روپے کلو کے حساب سے چینی فروخت کی جاتی تھی چیک اینڈ بیلنس اتنا سخت تھا کہ دس پیسے قیمت میں اضافہ کرنے کے لئے بھی منڈی میں اجلاس طلب اوردرخواست کرنا پڑتی تھی لیکن اب سیاسی حکومت کے باوجود چینی مافیا شتر بے مہار بنا ہوا ہے اور بلا خوف و خطر کساد بازاری کا سبب بنا ہو اہے عوامی دباؤ کی بنا پر جب ریاستی سٹیک ہولڈرزکو اپنی نالایقی کا ادراک ہوا تو چینی سکینڈل پر کمشن بنا ڈالا لیکن افسوس اس امر کا پاکستان کے اندر تمام قسم کے کمشن اور انکی رپورٹس کے بعد ایکشن اور انکا موثر ہونا سوالیہ نشان ہی بن کر رپ جاتا ہے اور یہی صورتحال اب ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شوگر انڈسڑی کے بے تاج بادشاہ اور وزیر اعظم کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کو چینی سکینڈل پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور عدالت میں پیشی کی بات آئی تو جناب پچیس سے تیس ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ہمراہ عدالتوں میں پیش ہونے لگے چہ جائکہ عدالت کا فیصلہ کیا ہو گا لیکن حیرت اس بات کی کہ کہا یہ کوئی سیاسی کیس ہے بھائی اور اگر نہیں تو عام شہری کی خاموشی سے پیش کیوں نہیں ہوا جا رہا یا پھر اس کا مطلب یہ کہ جو بھی بدعنوانی کے نرغہ میں آئے وہ اپنے بچاؤ کے لئے سیاسی آڑ کا سہارا لے کر یا ایک پریشر گروپ بنا کر فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے چینی کی پیدوار کے حوالہ سے کسان کو گنے کی کاشت اور اس کی فروخت کے حوالے سے کیاکیا مسائل درپیش ہیں وہ ایک الگ داستان ہے جب کے عوام کی خریداری کی سکت کی ایک الگ داستان ہے عوام کو اس چیز سے قطع غرض نہیں کہ گنے کی پیدوار اوراس کی خرید یا پھر چینی کی امپورٹ کس قدر اہم ہے، بس ان کو سستی چینی چاہیے لیکن ہمارے ہاں سستی چینی یعنی سبسٹائزڈ چینی کی خرید کے لئے عوام کو اپنی عزت کو رہن رکھتے ہوئے بھکاریوں کی طرح کھڑا ہونا پڑتا ہے قیمت بہم فراہمی کے حوالہ سے پنجاب شوگر سپلائی چین مینجمنٹ خاطر خواہ کامیابی میں نا کام رہی چینی کی فراہمی تو ٹھیک نہ ہو سکی لیکن عدالت کی سرزنش پر شہریوں کو رمضان بازاروں میں قطار میں کرسیاں فراہم کر دی گیں جو کسی شگوفے سے کم نہیں صرف لاہورئے 1200ٹن چینی روزانہ کھاتے ہیں یعنی50کلو والے24000 تھیلے ہر روز پاکستان کی چینی کی ضرورت پوری کرنے والا صوبہ پنجاب کا دارلحکومت شہر لاہو ر اپنی شہریوں کی طلب پوری نہیں کر پا رہا تو باقی ملک کا کیا حال ہوگا چینی کی شارٹج اور مہنگی قیمت سے چھٹکارے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے چینی کا بایئکاٹ جیسے چند سال قبل پھلوں یا سبزیوں کا کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ گڑ یا شکر کا استعمال کی طرف آیا جائے نہ چینی کی ڈیمانڈ ہو گی نہ شارٹ ہو گی اور نہ ہی قیمت بڑھ سکے گی لیکن افسوس رنگ کارڈ کا زیادہ استعمال اور وزن میں اضافہ کے لئے کیمیکل کا استعمال کی بنا پر گڑ اور شکر چینی سے بھی مہنگی ہیں انسان جائے تو کدھر جائے لیکن ایک بات تو درست ہے آمرانہ دور حکومت میں چینی کے نرخ اور فراہمی ہمیشہ تسلی بخش رہی بنسبت جمہوری حکومتوں کہ اب یہ پاکستانیوں کی ترجیح کہ وہ مہنگی جمہوری شوگر لینا چاہیں گے یا پھر آمرانہ کڑوی شوگر؟ لیکن میرا یہاں مقصد آمریت کا دفاع کرنا نہیں بلکہ منظم میکانیزم کی اہمیت اجاگر کرنا ہے جو شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی کو خاطر میں نہ لائے۔