یکم مئی کو کئی ممالک میں مزدوروں کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ اسے یوم مزدور بھی کہا جاتا ہے اور لیبر ڈے بھی کہا جاتا ہے ۔اس تاریخ کو ہم یوم مزدور کے طور پر ہر سال کیوں یاد کرتے ہیں اور آج کے دن ایسا کیا ہوا تھا کہ ہم نے اس کو مزدوروں سے منسوب کیا ہوا ہے۔
دنیا میں انسانی تاریخ میں بہت سے اشتعال انگیز واقعات رونما ہوئے ہیں۔ جن میں کثیر تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع اور معاشرتی برائیوں کے ساتھ ساتھ معیشت کا کمزور ہونا عام ہوتا.
یہ بھی پڑھئے:
توہین مسجد نبوی: عمران خان کا سیاسی پاگل پن
بلوچ خواتین مسلح جدو جہد میں کب اور کیسے شامل ہوئیں؟
فوڈ سیکورٹی کا چیلنج اور دالوں سے ہماری بے رخی
بعض تحریکوں نے تو انسانی تاریخ میں نام بنایا جس میں انسانوں کا قتل کا ازالہ اب تک نہ ہوا۔ لیکن تحریک سے جڑے ہوئے لوگ اور ہر انسانیت پسند شخص ایسے تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے زندگی کے باہمی انسانوں کو یاد کریں اور ان کے خاندانوں کے غم بانٹیں اوراخراج عقیدت پیش کریں۔
عالمی یوم مزدور یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر دنیا بھر میں متحد اقوام اور آزاد خیال ریاستوں میں منایا جاتا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد امریکا کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے۔ انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جدوجہد سے بھرپور استعارے کا دن یکم مئی ہے۔
مغربی دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد، سرمایہ کاروں کی بدکاریاں بڑھ گئی تھیں۔ اس طرز عمل کے خلاف اشتراکی نظریات بھی سامنے آئے۔ اس طرح مزدور متحد ہوکر سوشلزم ٹریڈ یونینز کی بنیاد ڈالی۔ صنعتی مراکز اور کارخانوں میں مزدوروں کی بدحالی حد سے زیادہ بڑھ گئی۔ مزدوروں سےکئی گھنٹوں کام کروایا جاتا تھا۔ اس طرز عمل کے خلاف اس دن امریکا کے محنت کشوں نے مکمل ہڑتال کی.
یکم مئی 1886کوامریکی شہر شکاگو میں اپنے حقوق کیلئے جمع ہوئے مزدوروں پرپولیس نے گولی چلا دی تھی۔یہ واقعہ عدالت میں گیا اور اس واقعہ کا مقدمہ 21 جون 1886 کو کریمنل کورٹ میں چلا۔ دفاع میں کسی کو صفائی پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سماج کو بچانے کے لیے ان مزدوروں کو سزا دی جائے جس پر19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنائی گئی۔
پانچ مزدوروں کو موت کی سزا کے علاوہ کئی اور مزدوروں کو بھی سزائیں سنائی گئیں۔ جس میں رنیبے کو 15 سال قید،شواب اور فلڈن کو عمر قیدسنائی گئی ایک مزدور لیڈر لنگ نے قید میں خودکشی کر لی تھی ۔11 نومبر 1887 کو مزدور رہنماؤں اینجل، اسپائز، پارسنز اور فشر کو پھانسی دے دی گئی۔ ان میں سے صرف دو افراد امریکی شہری تھے باقی انگلینڈ، آئرلینڈ اور جرمنی کے شہری تھے۔ ان رہنماؤں کے جنازے میں 6 لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔
تین مئی کو اس سلسلے میں شکاگو میں منعقد مزدوروں کے احتجاجی جلسے پر حملہ ہوا جس میں چار مزدور هلاک ہوئے۔ اس ظلم کے خلاف محنت کش احتجاجی مظاہرے کے لیے ( Hey market square ) میں جمع ہوئے۔ پولیس نے مظاہرہ روکنے کے لیے محنت کشوں پر تشدد کیا اسی دوران میں بم دھماکے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوا تو پولیس نے مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں بے شمار مزدور هلاک ہوئے اور درجنوں کی تعداد میں زخمی۔ اس موقعے پر سرمایہ داروں نے مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے پھانسیاں دی حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مزدور تحریک کے لیے جان دے کر سرمایہ دارانہ نظام کا انصاف اور ظلم واضح کر دیا۔ ان هلاک ہونے والے رہنماؤں نے کہا تھا کہ ’’تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دباسکتے۔
شکاگو میں سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھنے والی آواز، اپنا پسینہ بہانے والی طاقت کو خون میں نہلا دیا گیا۔ مگر ان جانثاروں کی قربانیوں نے محنت کشوں کی توانائیوں کو بھرپور کر دیا۔ مزدوروں کا عالمی دن کار خانوں، کھتیوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کار گاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے لاتعداد محنت کشوں کا دن ہے اور یہ محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بنیاد ہیں
اس جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر میں محنت کشوں نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کا حق حاصل کیا۔