جنید آزر شاعر، ادیب، محقق، نقاد اور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے انفرادی شناخت رکھتے ہیں۔ وہ شعری کارواں کے اس تازہ دم دستے میں شامل ہیں جو بیک وقت شاعری اور تنقید وتحقیق کے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ نظم ونثر اور تحقیق کی چھ کتب شائع ہو چکی ہیں۔ اسلام آباد کی شعری روایت اور تاریخ کے حوالے سے ان کی تصنیف کو خاصی پذیرائی حاصل ہو چکی پے۔ غزل گوئی میں اپنا الگ رنگ رکھتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں منعقد مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں۔ اسلام آباد میں ” اشارہ انٹرنیشنل ” کے نام سے ادبی تنظیم کے زیر اہتمام سالانہ عالمی مشاعروں کا اہتمام کرتے ہیں اور ادبی تقرہبات کے انعقاد میں کافی متحرک ہیں ۔
ان کے دو شعری مجموعے “کاغذ کی راکھ” اور “اشارہ” شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی دیگر کتب میں “اسلام آباد: ادبی روایت کے پچاس سال” نثار رزمی کے فن اور شخصیت پر “دل تو درویش ہے” ، ” انتخاب کلام حسرت موہانی” اور خاقان خاور کے فن اور شخصیت پر “خاقان خاور شامل ہیں۔
****
ابھی تمھارے لہو کی خوشبو
اسی طرح مہک رہی ہے
ابھی تمھاری وفا کے سارے چراغ ویسے ہی جل رہے ہیں
جنھیں تم اپنے لہو سے اک دن جلا گئے تھے
جہاں بھی کھلتا ہے پھول کوئی
تو ہم سمجھتے ہیں۔۔۔یہ تسلسل ہے اس دعا کا
تمھارے ہونٹوں سے جو ہمارے لبوں پر آکر ٹھہر گئی ہے
“مرے خدایا!
مری زمیں کو ۔۔۔ مرے وطن کو عذاب رت سے امان دینا”
کہا جو تم نے۔۔۔ سنا وہ ہم نے
اسی کو لوح یقیں پہ لکھا
تمھی سے سیکھا وفا کے رستے میں جان دینا
ہمیں خبر ہے
زمیں تو ماں ہے
ہم اسی کی آغوش میں پلے ہیں
ہم اس کے آنچل کے سائے سائے جواں ہوئے ہیں
ہم اس کے بیٹے یہ جانتے ہیں
اب اس کی حرمت کو۔۔۔ اس کی عزت کو
ہم نے کیسے سنبھالنا ہے
سو غم نہ کرنا
جب ہم تمھاری وراثتوں کے امین ٹھہرے
تو سب تمھاری روایتیں سرخرو کریں گے
جو وقت آیا تو اس کی خاطر بدن کو اپنے لہو کریں گے
ہمیں خبر ہے کہ یہ تمھاری مہکتی خوشبو
لہو کی نسبت کا یہ چراغاں۔۔۔ وفا کی انمٹ کہانیاں سب
کبھی زوال آشنا نہ ہوں گی
ہمیں خبر ہے کہ ہم نہ ہوں گے
مگر وطن کی فضائیں ساری۔۔۔ہوائیں ساری
تمام بہنیں اور مائیں ساری
یہ کھیت کھلیان، پھول فصلیں
سب آنے والی ہماری نسلیں
سلام کہتی رہیں گی تم کو
سلام کہتی رہیں گی تم کو