محترمہ سبین یونس ہمیں بہت عزیز ہیں ، اسلام آباد میں ہوتی ہیں ، نظم اور غزل کی شاعرہ اور ماہر تعلیم ہیں. صبر کا ہمالہ ، سمندر مزاج ٹھہراؤ ، انسان دوست ، دریا دل ، اخوت کی نقیب اور شائستگی کی سفیر بھی . 13جنوری 2022ء کو ٹیلیفون کال پر ان کے آستانے پر پہنچا تو وہ سڈنی میں مقیم شاعرہ محترمہ شاھین کاظمی کے اعزاز میں تقریب کا بلاوا تھا ، اسی دن محترمہ سبین یونس کا تیسرا شعری مجموعہ ،، یہ آنکھیں استعارہ ہیں ،، طباعت کے مراحل سے گزر کے پہنچا ہوا تھا۔ یوں اس جذبوں بھرے بھنڈار سے ایک نسخہ ہمیں بھی ملا۔
اس سے پیشتر 26 نومبر 2020 ء کو محترمہ سبین یونس جب ہمارے ہاں تشریف لائیں تھیں تو ،، منزل سے ذرا دور ،، اور دھوپ آنگن میں خواب ،، دو مجموعۂ کلام ہمیں دے گئی تھیں ، وہ اس روز دیر تک رانی کے پاس بھی بیٹھی رہیں ڈھیروں باتیں کیں بعد میں رانی نے مجھ سے پوچھا کہ ،، جبار آپ سبین یونس کی زندگی بارے کیا جانتے ہیں ؟،، میں نے کہا کوئی اتنا زیادہ نہیں تو رانی نے کہا،، جبار وہ بہت دلیر خاتون ہیں کیا ایسے لوگوں کے لئے کوئی تمغہ نہیں جو نشان حیدر سے بھی بڑا ہو ؟؟ جواب دیا کہ نشان حیدر بھی زندہ لوگوں کو نہیں ملتا یہ بعد از مرگ اعزاز ہے۔
رانی بولی ،، سبین یونس ،،،، میرا مطلب ہے زندگی محض چلنے پھرنے کا ہی نام تو نہیں نا، یہ تو جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے ۔ محترمہ سبین یونس اس پہلی ملاقات میں رانی سے اس قدر گھل مل گئیں تھیں کہ جب اس کے 52/53 روز بعد
رانی اپنی زندگی کا مشن مکمل کر کے 18 جنوری 2021 ء کو اسلام آباد کے قبرستان ایچ الیون میں تدفین کے لئے پہنچیں تو
محترمہ سبین یونس شاعرہ اور افسانہ نگار محمودہ غاذیہ کے ہمراہ جنازہ گاہ کے گیٹ پر کھڑی رانی کو آخری سلیوٹ کررہی تھیں۔
سبین یونس صاحبہ کا تعلق ایک مارشل خانوادے سے ہے ، وہ پاکستان پر قربان ہونے والے ایک گمشدہ ستارۂ جرات شہید کی بیٹی ہیں۔ سبین یونس کو سفر آخرت کے مسافروں اور مجاہدوں کو سلیوٹ کرنا بچپن سے ہی ودیعت ہوا ہے۔ وہ اس وقت 7/8 سال کی تھیں جب ان کے والد اور افواج پاکستان کے صوبیدار مقبول حسین مقبوضہ کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں بطور کمانڈو اترے اور پھر ان کا کوئی پتہ نہ چلا !! یہ ستمبر 1965 ء کی جنگ سے بہت پہلے بلکہ آپریشن جبرالٹر سے بھی پہلے کی بات ہے ، الغرض کم سنی میں ہی جس کو ہمیشہ کے لئے بچھڑ جانے والوں کو الوداعی سلیوٹ کرنا آگیا ہو کوئی ان کی برداشت کا اندازہ کر سکتا ہے ؟؟
پروفیسر سبین یونس بلا کی حوصلہ مند ہیں۔ ثابت قدم اور ایثار آمیز طبعیت رکھتی ہیں۔ وہ پندرہ سالہ رفاقت کے بعد اچانک روڈ ایکسیڈنٹ میں داغ مفارقت دے جانے والے اپنےشریک زندگی ونگ کمانڈر محمد یونس تمغۂ امتیاز کے جسد خاکی کو بھی سلیوٹ کرنا سہ چکیں اور اپنے جواں سال بیٹے ، جوادالحسن کو بھی سلیوٹ کرنے کا دکھ جھیل چکی ہیں ، جو اپنے والد ونگ کمانڈر محمد یونس کے ساتھ کار حادثے میں لقمۂ اجل ہوا۔
رات کے پچھلے پہر کھلتے ہیں دفتر دل کے
اپنی آہوں کی صدا سن کے اذاں ہوتی ہے
اس ازاں میں انسانی محتاجی اور بے بسی کا سوز ہے کوئی کیا جانے اس حشر کا جو 27 مارچ1995ء کی سہہ پہر محترمہ سبین یونس پر گزرا دو روز پیشتر ماں کی تدفین کی اور اور دو روز بعد خاوند ، سسر اور 14 سالہ بیٹا سپرد خاک کیا اور اسی حادثے میں 8 سالہ بیٹی آسرا دماغی چوٹ سے اس قدر شدید متاثر ہوئی کہ اس دلگداز سانحے کے 27 برس گزر جانے کے باوجود وہ آج 2022ء میں 35 برس کی ہو کر بھی 8 سال جتنی ہے اسے کچھ یاد نہیں، وہ کون ہے ؟ کہاں ہے ؟ کیا ہے ؟ ذھنی نشو نما کیا رکی زندگی بے بصیرت ہو گئی ہے ،
27 برس کا رت جگا تیمار داری کا پہرہ آف میرے خدایا قیامت ابھی آنی ہے ،؟؟ سنا ہے اللہ پاک جسے اپنا قرب عطا کر دے اسے تنہا کر دیتا ہے گویا اس الاؤ میں گلزار پوشیدہ ہے !!
پروفیسر محترمہ سبین یونس کی شاعری ان کی منظوم خود نوشت سوانح عمری ہے وہ شعر نہ کہتیں تو کرچی کرچی ہو جاتیں ، ان کی شاعری ذات کا اظہار نہیں روح کی افسردگی اور باطن کا کرب ہے ، لفظوں کے پیرہن میں یاداشت کے نوحے ہیں ، یہ وہ
آنسو ہیں جو دکھائی نہیں دیتے
ایک قیامت دل پر ڈھائے بیٹھے ہیں
خوف کی اک دیوار بنائے بیٹھے ہیں
درد اکیلی جان کا ہو تو کیا غم ہے
داؤ پر اک نسل لگائے بیٹھے ہیں
پروفیسر سبین یونس کی شاعری میں جدید و قدیم کا امتزاج بدرجہ اتم نمایاں ہے ، انہوں نے روائت کو بھی نہ چھوڑا اور نئے جہان بھی تلاش کئے ، اور اسی کا نام زندگی ہے ، زخم بھی مرہم بھی !
اب کے سوچا ہے جئیں گے نئے انداز کے ساتھ
نعرۂ عشق پرانا ہے نئی آواز کے ساتھ
پہلے مجموعے میں منزل سے ذرا دور تھیں پھر دھوپ آنگن میں کچھ خواب دیکھے اور اب آنکھوں کو استعارہ کر لیا ہے ، یہ وہ آنکھیں ہیں جو ایک عمر سے جھلمل کر رہی ہیں ،نمناکی جن کی شناخت بن چکی ہے ،
منزل سے ذرا دور ، میں درد کی چتا ہے اور دھوپ آنگن میں ایسے خواب ہیں جنہیں بہر حال پورا کرنا ہوتا ہے ، جب کہ یہ آنکھیں استعارہ ہیں ، میں گرد و پیش اور ماحول ہے۔ گویا سبین صاحبہ نے خود کو بھی سنبھالا اور حالات کو بھی ڈھارس بندھائی ، ذات کے سنگھار کے ساتھ ساتھ روح کی حقیقت آنسووں میں بہنے بھی نہ دی اور اسے کمال مہارت سے اپنے مجلسی تبسم میں چھپا لیا ، ان کے دل کی وسعت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ
غم جہاں ہو غم دل ہو یا غم ہستی
ہر ایک غم کا گزر میرے ماہ و سال میں ہے
خار دیکھے اس قدر پھولوں کا دم گھٹنے لگا
گلستاں میں بوئے گل سے سانس کیوں رکنے لگا
اس قدر عادی اندھیروں سے نگاہیں ہو گئیں
رات اور دن کا تصور ذہن سے مٹنے لگا