یہ عجیب اتفاق تھا کہ کئی بار استنبول آنے کے باوجود میں نے کبھی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری نہیں دی تھی۔ اس بار محترمہ غزل انصاری نے بتایا کہ وہ جب بھی ترکی آتی ہیں تو “ انصاری “ ہونے کی نسبت سے سب سے پہلے استنبول میں اس مزار پہ حاضری دے کر فاتحہ خوانی کرتی ہیں۔ بتایا تو انہوں نے مجھے کراچی میں بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ کراچی کے بزرگ و استاد شاعر و ادیب جناب پروفیسرسحر انصاری سے وہ “ انصاری” ہونے کی بنیاد پر دوہری عقیدت رکھتی ہیں اور ان سے ملے بغیر اپنے ملک کے ادبی سفر کو نامکمل سمجھتی ہیں۔ بہرحال یہ عقیدتوں اور محبتوں کے سلسلے ہیں جو خدا کی دین بھی ہیں اور خاندانی روایت و تربیت کا مظہر بھی۔ میں نے مہہ جبیں غزل انصاری کے ساتھ جناب راشد حق صاحب کی رہبری میں مزار پہ جانے کا ارادہ کر لیا۔ اپنا سامان وہاں حلیل طوقار صاحب کے کمرے میں رکھ کر ہم نے یونیورسٹی کے سامنے سے ہی بس لی اور سیدھے مزار کی سمت چل پڑے۔
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا مزار مبارک استنبول کے یورپی حصے میں تھا۔ راشد حق صاحب نے بتایا کہ استنبول کے قدیمی علاقے میں فصیل شہر سے متصل حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا مزار ہے۔ جہاں لوگ اپنی استنبول یاترا کا ایک دن ضرور یہاں گزارتے ہیں ۔
بس سے اتر کر تھوڑی دور پیدل چلنے کے بعد ہم مزار کے قریب پہنچ گئے۔ مزار دور ہی سے آنے والے زائرین کی توجہ اپنی جانب سبز رنگ کے خوبصورت گنبد سے کھینچ رہا تھا ۔مزار مبارک کے احاطے میں ایک بڑی مسجد بھی تھی۔راشد حق صاحب نے بتایا کہ ترک مساجد میں خطبے کے دوران سیاست پر گفتگو کی ممانعت ہے۔ ترکی کے بڑے شہروں کی مرکزی مسجد میں جو خطبہ دیا جاتا ہے اسے ایک مربوط نیٹ ورک کے ذریعے تمام مساجد میں نشر کیا جاتا ہے ہر مسجد کا امام سرکاری ملازم ہوتاہے۔مرکزی مساجد کے امام کے لیے لازم ہے کہ وہ پی ایچ ڈی یا کم از کم ایم اے پاس ہو۔ جبکہ چھوٹی مسجد کے امام کے لیے بی اے ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ استنبول کو مساجد کا شہر بھی کہتے ہیں کیونکہ یہاں قدم قدم پر تاریخی اور نہایت خوبصورت مساجد ترکی بھر میں سب سے زیادہ ہیں ۔ ہم مزار کے پاس بھی اس خوبصورت مسجد کے مرکزی دروازے سے داخل ہوئے ۔
مزار مبارک اور مسجد ایوب کے درمیانی راستے میں کبوتروں کے غول کے غول تھے۔ساتھ ہی چھوٹا سا بازار ہے جہاں دینی کتب اور دوسری اشیائے ضرورت کی بہتات نظر آئی لوگوں کی بڑی تعداد ہر طرف موجود تھی۔ہم اس بازار کے درمیان سے جب گزر رہے تھے تب مہہ جبین غزل انصاری صاحبہ نے خواہش ظاہر کی کہ واپسی پر ہم یہاں ترکی کی معروف آئس کریم ضرور کھائیں گے ۔ لیکن اس دوران ڈاکٹر راشد حق صاحب نے یہ اطلاع دے کر مجھے تجسس میں ڈال دیا تھا کہ اسی علاقے میں ایک امریکن گاڑی جو ایک سال قبل ترکی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام بناتے وقت جلا دی گئی تھی وہ بھی بازار کے دوسری جانب شیشے کے ایک کیس میں محفوظ کر دی گئی ہے۔ توپ سے ٹکرانے والی اس گاڑی کا بچا ہواملبہ ایک عبرت کے نشان کے طور پر حکومت وقت نے محفوظ کر لیا ہے جو نہ صرف ترک عوام بلکہ آنے والے سیاحوں کے لیے بھی دلچسپی و عبرت کا سامان ہے۔
جیسے جیسے ہم مزار کے قریب آتے رہے مجھے اپنے اسکول کی کتابوں میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے متعلق لکھا ہوا نصاب کا مضمون یاد آنے لگا۔ ہم نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق پڑھا تھا کہ آپ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے تھے ۔ آپ کا آبائی پیشہ کپڑے بننے کی صنعت کاری سے تھا اور ملک کے رئیسوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا ساتھ ہی یہ بھی پڑھا تھا کہ آپ ہی کے مکان پر رسول پاک ؐ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد قیام فرمایا تھا کیونکہ نبی پاک کی اونٹنی اُن کے ہی دروازے کے سامنے رکی تھی اور اللہ کے رسول نے کہا تھا کہ جہاں میری اونٹنی رکے گی میں اسی مقام پر قیام کروں گا ۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم مسجد نبوی اور اپنے مکان کی تعمیر تک آپ حضرت ابو ایوب انصاری ؓکے مکان پر ہی مقیم رہے۔اس بنا پر حضرت ابو ایوب انصاری کو ’’مہماندار رسولؐ‘‘ کا لقب بھی دیا گیا۔آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت علیؓ اور حضرت زید بن حارثؓ بھی اسی گھر میں رہے۔ بعد ازاں انٹرنیٹ کےمطالعے سے معلوم ہوا کہ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے عہد نبوی میں تمام غزوات میں حصہ لیا۔حجتہ الوداع میں بھی آپ آنحضرتؐ کے ہمراہ تھے۔

آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد بھی آپ نے تمام عمر جہاد میں صرف کی۔یہاں تک کہ جنگ قسطنطنیہ میں شہید ہو گئے۔آپ کے مجاہدانہ سفر میںتینوں براعظم ایشیا، افریقہ اور یورپ شامل ہیں۔49ہجری میں حضرت امیر معاویہ ؓ نے قسطنطنیہ پر حملے کی غرض سے جو فوج تیار کی حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی اس میں شامل تھے۔اس فوجی بیٹرے کا سپہ سالار یزید بن معاویہ ؓ تھا۔ اسلامی فوجوں نے چار سال تک وقفے وقفے سے قسطنطنیہ پر حملے کئے۔ انہی حملوں کے دوران آپ بیمار ہو گئے۔ یزید بن معاویہؓ جب آپ کی عیادت کے لیے آیا تو پوچھا ’’آپ کو کچھ کہنا ہے‘‘ تو آپ نے فرمایا ’’ہاں یہ کہ جب میں مر جائوں تو میرا جنازہ اٹھا کر اسے دشمن کی سرزمین میں جہاں تک لے جا سکو لے جائو اور جب آگے بڑھنے کا امکان نہ رہے تو اسی جگہ مجھے دفن کر دینا‘‘۔
2 ہجری میں آپ دار فانی سے کوچ کر گئے۔ انٹرنیٹ پر ایک مضمون میں پڑھا کہ حضرت ابو ایوب انصاری کی نماز جنازہ یزید بن معاویہ ؓ نے پڑھائی اور قسطنطنیہ کی فصیل کے سامنے دفن کیا گیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی قبر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔757ہجری میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے صحابہ کرام کی قبروں کو دریافت کرنے کا عمل شروع کیا۔اس وقت کے جید روحانی بزرگ شیخ شمس الدین نے ایک جگہ کی نشاندہی کی ۔تاریخی روایات میں ہے کہ آپ نے اس جگہ نور دیکھا۔ دو ہاتھ گہری زمین کھو دی گئی تو ایک پتھر بر آمد ہوا جس پر عبرانی خط میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا نام لکھا تھا۔یہ پتھر اب بھی حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کی قبر کے باہر ایک دیوار میں لگا ہوا ہے۔سلطان محمد فاتح نے اس جگہ جہاں سے یہ پتھر برآمد ہوا وہاں قبر پر ایک تابوت رکھوا دیا جس پر چاندی منڈھی ہوئی تھی اور ایک عمارت بھی تعمیر کروائی ۔ مزار کے ساتھ ایک جامع مسجد اور مدرسہ بھی بنوا دیا۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مزار کے تین حصے ہیں۔ جامع ایوب، مزار ایوب اور قبرستان ایوب، جامع ایوب کے ایک کمرے میں سبز چادر میں لپٹا ہوا ایک علم بھی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وہ تاریخی علم ہے جسے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ غزوات اور جنگوں میں اٹھایا کرتے تھے۔سلاطین عثمانیہ کی تاجپوشی کے موقعہ پر ہر سلطان یہاں آیا کرتا تھا اور شیخ الاسلام اس کی کمر پر سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان خان کی تلوار حمائل کیا کرتا تھا۔سلطان محمد فاتح کی کمر پر بھی شیخ الاسلام شمس الدین نے یہ تلوار آویزاں کی ۔حضرت ابو ایوب انصاری ؓ حافظ قران تھے۔ ڈیڑھ سو کے قریب احادیث مبارکہ بھی آپ سے منسوب ہیں ۔ تاریخی کتابوں میں آپ کی شخصیت کے بارے میں درج ہے کہ آپ حب رسولؐ، جوش ایمان، حق گوئی، اتباع سنت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، جہاد، تواضع، حسن ظن اور اعلیٰ اخلاق کی اعلیٰ مثال تھے ۔مسجد کے احاطے میں بھی کچھ مذید معلومات ترکی زبان میں موجود تھی جسے راشد حق صاحب نے میرے لیے پڑھ کر ترجمہ کر کے بتائیں اور میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اس کو وہیں اپنی ڈائری میں محفوظ کر لیا۔
جب ہم مزار کے احاطے میں داخل ہوئے تو وہاں مردوں اور عورتوں کی الگ الگ لائین لگی ہوئی تھی ایک عورت نے ہمیں پلاسٹک کی تھیلی دی جس میں ہم نے اپنے جوتے اتار کر رکھے اور ان کے حوالے کرتے ہوئے ایک دروازے سے فاتحہ پڑھتے ہوئے مزار کے سامنے پہنچے، اچانک دیگر سیاحوں کو فوٹو گرافی کرتے دیکھ کر خیال آیا کہ ہمیں بھی کچھ تصاویر بنا لینی چاہئیں ۔ لیکن ہمیشہ کی طرح فون بیگ سے نکالتے اور کیمرہ آپشن تلاش کرتے ہوئے دوسرے دروازے سے باہر نکل آئے جہاں وہ جوتے سنبھالنے والے ہمارے جوتے ہمیں دے کر مزار کے لیے چندے کا ڈبہ کھڑ کھڑا رہے تھے۔ میں نے تاسف سے راشد حق صاحب سے کہا کہ میں تو فاتحہ پڑھنے میں ایسی مشغول ہوئی کہ کیمرے کا خیال ہی نہ آیا اور نہ غزل انصاری کی توجہ اس جانب گئی ۔ اس پر راشد حق صاحب نے بتایا کہ انہوں نے کچھ مزار کی تصاویر اور ویڈیو لی ہے اور اس کے علاوہ بھی انہوں نے مزار کے باہر ہماری تصاویر بنا کر اس وزٹ کو یادگار عکس میں محفوظ کر لیا۔ مہہ جبیں غزل انصاری صاحبہ نے بھی خوب تصاویر میرے ساتھ ایسے پوز میں بنوائیں جو شاید ان کی فیس بک کی ڈیمانڈ تھیں یا وہ کسی کو خصوصی طور پر ہماری دوستی کی مثال دیکھانے یا جلانےکے لیے پیش کرنا چاہتی تھیں ۔ ہم شاید آدھا پون گھنٹہ ہی فصیل استنبول سے متصل حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مزار کے احاطے میں رہے اور واپس جاتے ہوئے اس گاڑی کو بھی شیشے کے فریم میں دیکھا جس کا ذکر راشد حق صاحب نے کیا تھا، اس کے بعد بازار سے گزرتے ہوئے مہہ جبین غزل انصاری صاحبہ نے ترکی کے مایہ ناز شعبدہ باز آئس کریم والوں کے ہاتھوں کھیل تماشے کرتے ہوئے بڑی مشکل سے آئس کریم حاصل کی، میرا آئس کریم کے حصول کے لیے اتنی خواری کا کوئی ارادہ نہیں تھا یوں بھی ہمیں دیر ہورہی تھی اور واپس یونیورسٹی پہنچنا تھا لہذا ہم واپسی کے لیے بس اسٹاپ تک پہنچے اور استنبول شہر کا نظارا کرتے ہوئے شہر کئی تہذیبوں ، بازاروں ، مساجد اور سلطنتوں کی باقیات کی نشانیاں دیکھتے ہوئے جامعہ استنبول پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ تمام اردو زبان کے مندوبین شعبہ اردو میں پہنچ چکے ہیں۔ لیکن وہاں جاکر فہیم اختر صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ راجہ شفیق کیانی صاحب اور صدف مرزا صاحبہ سیمینار کے بعد واپس ہوٹل جاچکے ہیں ۔ان دونوں کا موڈ بھی بہت خراب تھا۔ بہر حال احسان شاہد صاحب وہاں موجود تھے جن سے میرا تعارف ہوا اور اسکے بعد خلیل طوقار صاحب نے بتایا کہ اُن کی طبیعت ذرا ناساز ہوگئی تھی جس کی بنا پر انہوں نے شام کی تقریب ملتوی کر دی ہے۔ جناب ڈاکٹر جلال صوئیدان صاحب نے ہمیں ڈنر کے لیے ایک قریبی ریستوران میں لے جارہے ہیں اور بعد میں ایک طالبہ ہوٹل تک مجھے پہنچا دے گی۔ میں بھی بہت تھک چکی تھی اور ایک لحاظ سے مطمئن تھی کہ مشاعرہ یا ادبی نشست نہیں ہورہی۔ ہم یعنی فہیم اختر صاحب، مہہ جبین غزل انصاری جلال صوئیدان صاحب آرزو ، راشد حق صاحب اور زینب و ڈاکٹر آرزو کے ساتھ ڈنر کے لیے چلے گئے اور وہاں کچھ دیر گفتگو کر کے اور کھانا کھا کر میں نے واپس ہوٹل جانے کی خواہش ظاہر کی تو ڈاکٹر آرزو نے مجھے اپنے ساتھ لے کر ہوٹل تک پیدل ہی راہ نمائی کی۔ میں ہوٹل جیسے ہی پہنچی تو صدف مرزا ہاتھ میں شاپنگ بیگ لیے ہوٹل میں داخل ہو رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بہت تھک گئی ہیں ۔ میں نے ان کو اپنے کمرے میں بیٹھنے اور وہاں چائے منگوا کر پینے کی پیش کش کی تو وہ اپنے کمرے میں سامان رکھ کر میرے کمرے میں چلی آئیں۔ ہم نے ایک دوسرے کو دن کے اس حصے کی روئیداد سنائی جب ہم ساتھ نہیں تھے۔ کچھ دیر بعد وہ یہ خبر سنا کر چلی گئیں کہ کیانی صاحب اور حلیل طوقار صاحب مجھ سے ناراض ہیں کہ میں نے سیمینار ادھورا چھوڑ دیا اور غزل انصاری صاحبہ کے ساتھ گھومنے پھرنے چلی گئی۔ لیکن بعد ازاں رات ہی کو یہ معاملہ فون پر کلیر ہوگیا کہ صدف کو مغالطہ ہوا تھا نہ مجھ سے کیانی صاحب ناراض تھے اور نہ ہی کانفرنس کے منتظم اعلیٰ جناب ڈاکٹر حلیل طوقار صاحب کیونکہ ان ہی کہنے پر میں کانفرنس کا دوسرا حصہ چھوڑ کر گئی تھی بلکہ راشد حق صاحب کی رہبری میں بھیجی گئی تھی۔