نہایت احترام سے ڈاکٹر راشد حق نے اپنا تعارف کروانے کے بعد استنبول میں خوش آمدید کہا اور ساتھ ہی چائے پینے کی پیش کش کی ۔ جسے میں نے چائے کے ساتھ کچھ ہلکا پھلکا کھانا بھی کھانے کی فرمائش کے ساتھ قبول کرلی۔ راشد صاحب ہوٹل کے قریب ہی ایک ڈھابے پر لے گئے جہاں گرما گرم کلچے یا نان خطائی نما کوئی چیز تیار کی جارہی تھی۔ لوگ اس ڈھابے کے اطراف میں ڈبے نما نشست پر ایک چھوٹی چوکور ٹیبل پر بیٹھے شطرنج اور میز پر سجے دوسرے بورڈ کے کھیل میں مصروف چائے کی چسکیاں لے رہے تھے ۔ وہ گرما گرم پنیر، آلو اور پالک کے کلچوں یا چھوٹے پر اٹھوں سے بھی لطف اندوز ہورہے تھے۔ ارد گرد ٹوپیاں ، تسبیح اور جائے نماز کے ساتھ ساتھ بچوں کے کھلونے اور ٹیلی فون کارڈ کی دکانیں بھی دکان کے احاطے سے نکل کر سڑک کی جانب پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ کلچے دیکھنے میں جتنے مزیدار لگ رہے تھے اتنے ہی چکنائی میں لت پت تھے ایک ٹکڑا کھا کر چائے پی اور باقی کلچہ ایک وہاں مسجد کی دیوار سے لگے بیٹھے بچے کو اشارہ کر کے اپنے پاس بلانے کے بعد دے دیا جو شاید بہت دیر سے وہاں بیٹھ کر ڈھابے پر کھانے والوں کی توجہ کا منتظر تھا اور ہاتھ کے پنکھے بیچ رہا تھا جبکہ موسم ابھی تک خاصا سرد تھا۔ راشد صاحب نے بتایا کہ صدف مرزا اور شفیق کیانی صاحب ہوٹل پہنچ چکے ہیں اور لاؤنج ہمارے منتظر ہیں۔
کچھ دیر میں ہم ہوٹل واپس پہنچے تو صدف مرزا نے حسبِ روایت نہایت گرم جوشی سے گلے لگا کر پر تپاک استقبال کیا ۔ کیانی صاحب نے بتایا کہ وہ ایک قبل ہی استنبول آگئے تھے اور یہاں کانفرنس کے بعد مزید دس دن قیام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کچھ دیر ہم چاروں ہوٹل کے لاؤنج میں بیٹھ کر بات چیت کرتے رہے۔ صدف مرزا نے بتایا کہ ان کو بھی تقسیم کے علاقے سے ٹیکسی لینا مہنگا پڑ گیا اور ٹیکسی والا انہیں ایک گھنٹہ استنبول کی گلیوں میں گھماتا ہوا ہوٹل لے کر آیا۔ راشد حق صاحب نے پیش کش کی کہ وہ جامعہ استنبول کا راستہ ہمیں دکھا دیں اور ساتھ ہی انہوں نے بس کے کارڈ ہمارے حوالے کر دیئے۔ اگرچہ پندرہ منٹ چہل قدمی کے بعد ہم جامعہ استنبول کے شعبہ ء اردو میں پہنچ گئے تھے اور ان بس کے کارڈ کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی تھی لیکن پھر بھی ہم نے وہ کارڈ سنبھال کر اپنے پرس میں رکھ لیے۔
شام کو یہ پندرہ منٹ کا راستہ لوگوں کی چہل پہل اور دکانوں اور شاہراہوں کی روشنی میں دیدہ زیب لگ رہا تھا۔ یہ استنبول کا ایک تاریخی علاقہ تھا ۔ جہاں ایک قدیم مسجد اور اس سے ملحقہ قبرستان میں بھی لوگوں کا رش دکھائی دے رہا تھا۔ شاید عشاء کی نماز کا وقت ہونے کو تھا۔ راشد صاحب نے قبرستان کی چہاردیواری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ استنبول کے قدیم ترین قبرستان میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس وقت اس قبرستان میں کئی سو سال اہم تاریخی شخصیات کی پرانی قبریں بھی موجود ہیں۔
استنبول جیسا تاریخی شہر اور ترکی جیسی عظیم ریاست جس تاریخ عظیم جنگوں ، نذرانہ شہادت اور فتوحات سے بھری پڑی ہے، جہاں کے علماء اور ادباء نے آزادی و امن کے استحکام کے لیے ایک طویل عرصہ جہاد کیا۔ اُن کی آخری آرام گاہوں کو بھی اس قوم کے سپوتوں نے بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ اس قدیم قبرستان کے اندر پرانے درخت ، پودے اور پھولوں کی مہک کے ساتھ برقی قمقمے کی ہلکی زرد روشنی نے اس جگہ کی ویرانی اور وحشت کو ایک پر سکون آرام گاہ کا منظر پیش کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مسجد کے زیر سایہ اس قبرستان کے مکینوں کے لیے یقیناً دعائیں بھی کی جاتی ہونگی۔
اسی راستے کی اگلی جانب لائین سے چھوٹے بڑے ترکی کھانوں کے روایتی ڈھابے اور دکانیں بھی موجود تھیں۔ جامعہ سے واپسی پر صدف مرزا اور کیانی صاحب نے مشورہ دیا کہ ان پر کشش ریستورانوں میں کہیں بیٹھ کر اطمینان سے ڈنر کیا جائے۔ راشد حق صاحب نے اس مشورے کو قبول کرتے ہوئے ہمیں مزید آگے بڑھنے کا حکم دیا ، شاید وہ اس قبرستان کے اور مسجد کے علاقے سے آگے کسی بہتر جگہ سے واقف تھے جہاں ہم پاکستانی نژاد یورپیئن کو مصالحے دار کھانے مل جائیں۔ بہر حال بھوک کا احساس دلانے پر بھوک مزید چمک گئی تھی ۔ ہم ارد گرد کے سجے ہوئے دل آویز ریسٹورینٹ کے بورڈ پڑھتے ، ان پر اشتہا انگیز کھانوں کی تصاویر دیکھتے اور خوشبو سونگھتے آگے بڑھتے رہے۔ بالآخر ایک جگہ باربی کیو کا بورڈ دیکھ کر صدف نے اعلان کر دیا کہ مجھے یہاں گرل مچھلی کھانی ہے۔ اس سے قبل ہم سب برسلز میں یورپی لٹریری سرکل کے اجتماع کے بعد بہت لذیذ فش ریسٹورنٹ میں لنچ کر چکے تھے۔ برسلز میں گزرے اس خوبصورت دن کا منظر نگاہ میں آگیا ۔
“ میرا خیال ہے کہ اب یہاں ہی بیٹھ کر کچھ کھا پی لیں “
میں نے صدف کی بات کی تائید کی۔ راجہ شفیق کیانی صاحب شاید مکمل طور پر تائید نہیں کر رہے تھے تب ہی ہم سب کے وہاں باہر لگی میز کرسی پہ بیٹھ جانے کے باوجود وہ ڈھابے کے وہاں آویزاں مینو کارڈ پر لگی تصاویر کا جائزہ لے رہے تھے۔ صدف نے انہیں پنجابی زبان میں کرسی سنبھالنے کی گزارش کی تو وہ آکر میرے اور صدف کے مد مقابل راشد حق صاحب کے ساتھ بیٹھ گئے۔
مجھے کیانی صاحب کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی اچھے ہوٹل میں کھانا کھانا چاہتے تھے۔ لیکن راشد صاحب نے میزبانی کا جب اعلان کیا تو مجھے لگا کہ کانفرنس کے اس بجٹ کےتوازن کو ہمیں خراب نہیں کرنا چاہئے۔ ریستوران نما ڈھابہ قیمت کے لحاظ سے خاصا مناسب تھا۔ ہم نے اپنی مرضی کے مطابق کھانے منگوائے ۔ جب کھانا سامنے آیا تو ٹماٹر اور سبز سلاد کے پتوں میں چھپے چند کباب مسکرا رہے ارد گرد چند مرغی کے نازک ٹکڑے بھی ہماری بھوک کا منہ چڑا رہے تھے ، مچھلی شاید واپس سمندر کا رخ کر چکی تھی اور ترکی کے مشہور ادانا کباب ادنیٰ کباب میں بدل گئے تھے۔ لیکن تازہ گرم نان نے اس روز اس بات کا احساس دلا دیا تھا کہ ہم استنبول کے ڈھابے کی رنگین و اشتہا انگیز تصاویر کے جھانسے میں مکمل طور پر نہیں آئے ہیں۔ لہذا ہم نے وہی کیا جو شریف مندوبین کرتے ہیں یعنی “ حاضر میں حجت کیا اور غیب کی تلاش کیوں؟ “ (جاری)