Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
جہاز سے اترنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ ائر پورٹ زیادہ بڑا نہیں ہے لیکن بین الاقوامی ہوائی اڈا ہونے کی وجہ سے مسافروں کے لئے تمام سہولیات موجود ہیں۔ میں نے یورو کھلے کرواکر جب ترکی لیرا لیا تو ایسا لگا کہ انگریزی یا جرمن سے واقفیت اس ائر پورٹ پر کام کرنے والوں کی بھی کوئی خاص نہیں ہے۔ لوگ اشارے کنائیوں اور ترک زبان کی بھرپور آمیزش کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی سے اپنا کام چلا لیتے ہیں۔ ائر پورٹ سے باہر نکلتے ہی کئی ٹیکسی کے ڈرائیور حضرات کی یلغار باہر آنے والے مسافروں پر “ تقسیم “۔۔۔ فاتح ۔۔۔اکسرائے اور دیگر استنبول کے علاقوں کے نام کی بلند آواز کے ساتھ ہو رہی تھی۔ میں نے انٹرنیٹ سے لی گئی معلومات کے مطابق “ ہوا بس” کا اڈا تلاش کرنا شروع کیا اور تھوڑی دیر میں اپنی مطلوبہ بس میں سوار ہوکر تقسیم کی جانب روانہ ہوگئی ۔
راشد حق صاحب کا ائیرپورٹ پر آدھے گھنٹے انتظار کیا انٹر نیٹ اور فون کے رومنگ نظام سے باہر ہونے کی وجہ سے فون نے یکدم کام کرنا بند کر دیا تھا ۔ بہرحال ایک نوجوان ترک طالب علم بس میں میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھا تھا ۔ شاید وہ ایک موسیقار یا گلوکار تھا۔ اس کے ساتھ ایک موسیقی کا بڑا سا ساز “ شیلو” اس کے پاس تھا۔ جسے وہ بس کے نیچے بنے سامان کے حصے میں رکھوانے کے بجائے اپنے ساتھ بس میں لے کر سوار ہوگیا تھا اور بس میں داخل ہونے والے مسافروں سمیت بس کے کرایہ جمع کرتے بس کنڈکٹر کو بھی بس میں چلنے پھرنے میں پریشان کر رہا تھا۔ وہ لڑکا بھی جرمنی کے شہر کیل میں ایک میوزک کنسرٹ کے لیے گیا تھا اور جرمنوں کے فنکارانہ مزاج کی مجھ سے کئی بار تعریف کرتا رہالیکن جب اسے میں نے بتایا کہ میرا تعلق بنیادی طور پر پاکستان سے ہے تو اس نے نصرت فتح علی ، مہدی حسن اور ملکہ ترنم نور جہاں سمیت کئی گائیک فنکاروں کے نام لے کر مجھے پاکستان کیساتھ اپنے تعلق پر فخر کرنے کی کامیاب کوشش کر ڈالی۔وہ فنکار پاکستانی گلوکاروں اور موسیقاروں سمیت امریکہ یورپ ، عرب ممالک ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے کئی ستاروں کی چمک سے واقف تھا لیکن میری دلچسپی صرف گنے چنے نامور بین الاقوامی فنکاروں تک ہی تھی اور معلومات بھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ تھوڑی دیر بعد اس نے گفتگو کا موضوع تبدیل کرتے ہوئے میری استنبول میں آمد کے بابت سوال کیا۔جب میں نے عاکف ارصوئے اور اقبال کا نام لیا تو وہ حیرت انگیز طور پر اقبال کی ایک نظم کا جزوی حصہ ترک اور انگریزی میں مجھے سنانا شروع ہوگیا۔ ایک نوجوان کو اقبال اور عاکف ارصوئے کی ولولہ انگیز شاعری سے واقفیت دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ دل سے دعا نکلی کہ ہمارے ملک کے نوجوان بھی اپنے محسن اردو شعراء و ادباء سے دلچسپی رکھیں اور اس خزانہ علم کو آگے بڑھائیں۔ اس نوجوان کی دلچسپ گفتگو میں یہ گھنٹے بھر کا سفر بہت تیزی سے گزر گیا۔ ہم تقسیم کے علاقے میں پہنچ گئے۔ اتنی دیر میں میرا فون اپنے مواصلاتی نظام سے مربوط ہو گیا تھا۔ تقسیم کا علاقہ استنبول کا ایک تاریخی علاقہ ہے۔ استنبول سلطنتِ عثمانیہ کی اہم یادگار اور نشانیاں اس خوبصورت خطے میں سموئے ہوئے ہے یہ شہر کئی سالوں تک سلطنت عثمانیہ کا دارالخلافہ تھا ۱۹۲۳ میں مصطفیٰ کمال پاشا اتا ترک نے انقرہ کو جب نئی ترک جمہوریہ کا دارالحکومت بنایا تو قسطنطنیہ نامی اس شہر کا نام استنبول رکھ دیا ۔مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے اردو کے اساتذہ مشکل الفاظ لکھنے کی مشق میں استنبول کا پرانا نام قسطنطنیہ ضرور لکھواتے تھے۔ جب میں پہلی بار استنبول اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آئی تھی تو تقسیم کے علاقے ہی میں ایک اونچے پہاڑی راستوں پربنی ایک پانچ منزلہ عمارت کی بالائی منزل پر ہمارا گیسٹ ہاؤس تھا۔ جہاں سے شہر کا ہنگامے اور سمندر کا سکوت اس علاقے کی رونق کو دن رات دو بالا کئے رہتا۔ ہم گرمیوں کی اُن راتوں میں اپنے گیسٹ ہاؤس کے وسیع و عریض ٹیرس پہ لگے جھولے میں جھولتے کبھی آسمان پر چاند تاروں کی جھرمٹ سے اور سمندر کی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے اور کبھی اس تاریخی علاقے کی غیر معمولی چہل پہل اور تاریخی یادگاروں کی بابت تحقیق و گفتگو میں مصروف رہتے ۔
لیکن اس بار تقسیم کا نقشہ کافی درہم برہم لگ رہا تھا۔ بڑی بڑی کھدائی کی مشینیں اور مکانوں کا ملبہ اٹھانے والی مشینیں اور کرین ایک ہنگامہ مچائے ہوئی تھیں ۔ اس توڑ پھوڑ اور ساتھ ہی نئی تعمیرات کے امتزاج نے اس علاقے کی وسعت کو ایک گنجان اور پیچیدہ علاقہ بنا دیا تھا۔ ہماری بس ایک مخصوص تنگ گلی میں رُکی جہاں ٹیکسی والے زبردستی گھس کر نئے مسافر گاہکوں کی تلاش میں سودے بازی کر رہے تھے۔ تھوڑی بہت سودے بازی کے بعد ایک ٹیکسی والا میرا سامان لےکر کونے میں کھڑی ایک ٹیکسی میں رکھنے لگا میں ٹیکسی میں دروازہ کھول کر پچھلی نشست پر بیٹھ گئی۔ چند لمحوں میں ٹیکسی ڈرائیور اس تنگ گلی سے ٹیکسی کو ایک بڑی روڈ پر لے آیا اور پیچھے مجھے دیکھتے ہوئے کہا
“ مادام ! ایڈریس ہوٹل”
میں نے ٹیکسی والے کی شکل دیکھی تو ایک لمحے کو پریشان ہوگئی۔ کیونکہ مجھے ٹیکسی تک لانے اور کرایہ طے کرنے والا ایک نوجوان تھا جو انگریزی بول رہا تھا اور یہ ڈرائیور ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جو انگریزی سے نابلد صرف ترکی بول سکتا تھا۔ کہیں ٹیکسی والے نے مسافر بیچ تو نہیں دیا، میں سوچا۔
جہاز سے اترنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ ائر پورٹ زیادہ بڑا نہیں ہے لیکن بین الاقوامی ہوائی اڈا ہونے کی وجہ سے مسافروں کے لئے تمام سہولیات موجود ہیں۔ میں نے یورو کھلے کرواکر جب ترکی لیرا لیا تو ایسا لگا کہ انگریزی یا جرمن سے واقفیت اس ائر پورٹ پر کام کرنے والوں کی بھی کوئی خاص نہیں ہے۔ لوگ اشارے کنائیوں اور ترک زبان کی بھرپور آمیزش کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی سے اپنا کام چلا لیتے ہیں۔ ائر پورٹ سے باہر نکلتے ہی کئی ٹیکسی کے ڈرائیور حضرات کی یلغار باہر آنے والے مسافروں پر “ تقسیم “۔۔۔ فاتح ۔۔۔اکسرائے اور دیگر استنبول کے علاقوں کے نام کی بلند آواز کے ساتھ ہو رہی تھی۔ میں نے انٹرنیٹ سے لی گئی معلومات کے مطابق “ ہوا بس” کا اڈا تلاش کرنا شروع کیا اور تھوڑی دیر میں اپنی مطلوبہ بس میں سوار ہوکر تقسیم کی جانب روانہ ہوگئی ۔
راشد حق صاحب کا ائیرپورٹ پر آدھے گھنٹے انتظار کیا انٹر نیٹ اور فون کے رومنگ نظام سے باہر ہونے کی وجہ سے فون نے یکدم کام کرنا بند کر دیا تھا ۔ بہرحال ایک نوجوان ترک طالب علم بس میں میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھا تھا ۔ شاید وہ ایک موسیقار یا گلوکار تھا۔ اس کے ساتھ ایک موسیقی کا بڑا سا ساز “ شیلو” اس کے پاس تھا۔ جسے وہ بس کے نیچے بنے سامان کے حصے میں رکھوانے کے بجائے اپنے ساتھ بس میں لے کر سوار ہوگیا تھا اور بس میں داخل ہونے والے مسافروں سمیت بس کے کرایہ جمع کرتے بس کنڈکٹر کو بھی بس میں چلنے پھرنے میں پریشان کر رہا تھا۔ وہ لڑکا بھی جرمنی کے شہر کیل میں ایک میوزک کنسرٹ کے لیے گیا تھا اور جرمنوں کے فنکارانہ مزاج کی مجھ سے کئی بار تعریف کرتا رہالیکن جب اسے میں نے بتایا کہ میرا تعلق بنیادی طور پر پاکستان سے ہے تو اس نے نصرت فتح علی ، مہدی حسن اور ملکہ ترنم نور جہاں سمیت کئی گائیک فنکاروں کے نام لے کر مجھے پاکستان کیساتھ اپنے تعلق پر فخر کرنے کی کامیاب کوشش کر ڈالی۔وہ فنکار پاکستانی گلوکاروں اور موسیقاروں سمیت امریکہ یورپ ، عرب ممالک ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے کئی ستاروں کی چمک سے واقف تھا لیکن میری دلچسپی صرف گنے چنے نامور بین الاقوامی فنکاروں تک ہی تھی اور معلومات بھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ تھوڑی دیر بعد اس نے گفتگو کا موضوع تبدیل کرتے ہوئے میری استنبول میں آمد کے بابت سوال کیا۔جب میں نے عاکف ارصوئے اور اقبال کا نام لیا تو وہ حیرت انگیز طور پر اقبال کی ایک نظم کا جزوی حصہ ترک اور انگریزی میں مجھے سنانا شروع ہوگیا۔ ایک نوجوان کو اقبال اور عاکف ارصوئے کی ولولہ انگیز شاعری سے واقفیت دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ دل سے دعا نکلی کہ ہمارے ملک کے نوجوان بھی اپنے محسن اردو شعراء و ادباء سے دلچسپی رکھیں اور اس خزانہ علم کو آگے بڑھائیں۔ اس نوجوان کی دلچسپ گفتگو میں یہ گھنٹے بھر کا سفر بہت تیزی سے گزر گیا۔ ہم تقسیم کے علاقے میں پہنچ گئے۔ اتنی دیر میں میرا فون اپنے مواصلاتی نظام سے مربوط ہو گیا تھا۔ تقسیم کا علاقہ استنبول کا ایک تاریخی علاقہ ہے۔ استنبول سلطنتِ عثمانیہ کی اہم یادگار اور نشانیاں اس خوبصورت خطے میں سموئے ہوئے ہے یہ شہر کئی سالوں تک سلطنت عثمانیہ کا دارالخلافہ تھا ۱۹۲۳ میں مصطفیٰ کمال پاشا اتا ترک نے انقرہ کو جب نئی ترک جمہوریہ کا دارالحکومت بنایا تو قسطنطنیہ نامی اس شہر کا نام استنبول رکھ دیا ۔مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے اردو کے اساتذہ مشکل الفاظ لکھنے کی مشق میں استنبول کا پرانا نام قسطنطنیہ ضرور لکھواتے تھے۔ جب میں پہلی بار استنبول اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آئی تھی تو تقسیم کے علاقے ہی میں ایک اونچے پہاڑی راستوں پربنی ایک پانچ منزلہ عمارت کی بالائی منزل پر ہمارا گیسٹ ہاؤس تھا۔ جہاں سے شہر کا ہنگامے اور سمندر کا سکوت اس علاقے کی رونق کو دن رات دو بالا کئے رہتا۔ ہم گرمیوں کی اُن راتوں میں اپنے گیسٹ ہاؤس کے وسیع و عریض ٹیرس پہ لگے جھولے میں جھولتے کبھی آسمان پر چاند تاروں کی جھرمٹ سے اور سمندر کی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے اور کبھی اس تاریخی علاقے کی غیر معمولی چہل پہل اور تاریخی یادگاروں کی بابت تحقیق و گفتگو میں مصروف رہتے ۔
لیکن اس بار تقسیم کا نقشہ کافی درہم برہم لگ رہا تھا۔ بڑی بڑی کھدائی کی مشینیں اور مکانوں کا ملبہ اٹھانے والی مشینیں اور کرین ایک ہنگامہ مچائے ہوئی تھیں ۔ اس توڑ پھوڑ اور ساتھ ہی نئی تعمیرات کے امتزاج نے اس علاقے کی وسعت کو ایک گنجان اور پیچیدہ علاقہ بنا دیا تھا۔ ہماری بس ایک مخصوص تنگ گلی میں رُکی جہاں ٹیکسی والے زبردستی گھس کر نئے مسافر گاہکوں کی تلاش میں سودے بازی کر رہے تھے۔ تھوڑی بہت سودے بازی کے بعد ایک ٹیکسی والا میرا سامان لےکر کونے میں کھڑی ایک ٹیکسی میں رکھنے لگا میں ٹیکسی میں دروازہ کھول کر پچھلی نشست پر بیٹھ گئی۔ چند لمحوں میں ٹیکسی ڈرائیور اس تنگ گلی سے ٹیکسی کو ایک بڑی روڈ پر لے آیا اور پیچھے مجھے دیکھتے ہوئے کہا
“ مادام ! ایڈریس ہوٹل”
میں نے ٹیکسی والے کی شکل دیکھی تو ایک لمحے کو پریشان ہوگئی۔ کیونکہ مجھے ٹیکسی تک لانے اور کرایہ طے کرنے والا ایک نوجوان تھا جو انگریزی بول رہا تھا اور یہ ڈرائیور ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جو انگریزی سے نابلد صرف ترکی بول سکتا تھا۔ کہیں ٹیکسی والے نے مسافر بیچ تو نہیں دیا، میں سوچا۔
جہاز سے اترنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ ائر پورٹ زیادہ بڑا نہیں ہے لیکن بین الاقوامی ہوائی اڈا ہونے کی وجہ سے مسافروں کے لئے تمام سہولیات موجود ہیں۔ میں نے یورو کھلے کرواکر جب ترکی لیرا لیا تو ایسا لگا کہ انگریزی یا جرمن سے واقفیت اس ائر پورٹ پر کام کرنے والوں کی بھی کوئی خاص نہیں ہے۔ لوگ اشارے کنائیوں اور ترک زبان کی بھرپور آمیزش کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی سے اپنا کام چلا لیتے ہیں۔ ائر پورٹ سے باہر نکلتے ہی کئی ٹیکسی کے ڈرائیور حضرات کی یلغار باہر آنے والے مسافروں پر “ تقسیم “۔۔۔ فاتح ۔۔۔اکسرائے اور دیگر استنبول کے علاقوں کے نام کی بلند آواز کے ساتھ ہو رہی تھی۔ میں نے انٹرنیٹ سے لی گئی معلومات کے مطابق “ ہوا بس” کا اڈا تلاش کرنا شروع کیا اور تھوڑی دیر میں اپنی مطلوبہ بس میں سوار ہوکر تقسیم کی جانب روانہ ہوگئی ۔
راشد حق صاحب کا ائیرپورٹ پر آدھے گھنٹے انتظار کیا انٹر نیٹ اور فون کے رومنگ نظام سے باہر ہونے کی وجہ سے فون نے یکدم کام کرنا بند کر دیا تھا ۔ بہرحال ایک نوجوان ترک طالب علم بس میں میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھا تھا ۔ شاید وہ ایک موسیقار یا گلوکار تھا۔ اس کے ساتھ ایک موسیقی کا بڑا سا ساز “ شیلو” اس کے پاس تھا۔ جسے وہ بس کے نیچے بنے سامان کے حصے میں رکھوانے کے بجائے اپنے ساتھ بس میں لے کر سوار ہوگیا تھا اور بس میں داخل ہونے والے مسافروں سمیت بس کے کرایہ جمع کرتے بس کنڈکٹر کو بھی بس میں چلنے پھرنے میں پریشان کر رہا تھا۔ وہ لڑکا بھی جرمنی کے شہر کیل میں ایک میوزک کنسرٹ کے لیے گیا تھا اور جرمنوں کے فنکارانہ مزاج کی مجھ سے کئی بار تعریف کرتا رہالیکن جب اسے میں نے بتایا کہ میرا تعلق بنیادی طور پر پاکستان سے ہے تو اس نے نصرت فتح علی ، مہدی حسن اور ملکہ ترنم نور جہاں سمیت کئی گائیک فنکاروں کے نام لے کر مجھے پاکستان کیساتھ اپنے تعلق پر فخر کرنے کی کامیاب کوشش کر ڈالی۔وہ فنکار پاکستانی گلوکاروں اور موسیقاروں سمیت امریکہ یورپ ، عرب ممالک ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے کئی ستاروں کی چمک سے واقف تھا لیکن میری دلچسپی صرف گنے چنے نامور بین الاقوامی فنکاروں تک ہی تھی اور معلومات بھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ تھوڑی دیر بعد اس نے گفتگو کا موضوع تبدیل کرتے ہوئے میری استنبول میں آمد کے بابت سوال کیا۔جب میں نے عاکف ارصوئے اور اقبال کا نام لیا تو وہ حیرت انگیز طور پر اقبال کی ایک نظم کا جزوی حصہ ترک اور انگریزی میں مجھے سنانا شروع ہوگیا۔ ایک نوجوان کو اقبال اور عاکف ارصوئے کی ولولہ انگیز شاعری سے واقفیت دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ دل سے دعا نکلی کہ ہمارے ملک کے نوجوان بھی اپنے محسن اردو شعراء و ادباء سے دلچسپی رکھیں اور اس خزانہ علم کو آگے بڑھائیں۔ اس نوجوان کی دلچسپ گفتگو میں یہ گھنٹے بھر کا سفر بہت تیزی سے گزر گیا۔ ہم تقسیم کے علاقے میں پہنچ گئے۔ اتنی دیر میں میرا فون اپنے مواصلاتی نظام سے مربوط ہو گیا تھا۔ تقسیم کا علاقہ استنبول کا ایک تاریخی علاقہ ہے۔ استنبول سلطنتِ عثمانیہ کی اہم یادگار اور نشانیاں اس خوبصورت خطے میں سموئے ہوئے ہے یہ شہر کئی سالوں تک سلطنت عثمانیہ کا دارالخلافہ تھا ۱۹۲۳ میں مصطفیٰ کمال پاشا اتا ترک نے انقرہ کو جب نئی ترک جمہوریہ کا دارالحکومت بنایا تو قسطنطنیہ نامی اس شہر کا نام استنبول رکھ دیا ۔مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے اردو کے اساتذہ مشکل الفاظ لکھنے کی مشق میں استنبول کا پرانا نام قسطنطنیہ ضرور لکھواتے تھے۔ جب میں پہلی بار استنبول اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آئی تھی تو تقسیم کے علاقے ہی میں ایک اونچے پہاڑی راستوں پربنی ایک پانچ منزلہ عمارت کی بالائی منزل پر ہمارا گیسٹ ہاؤس تھا۔ جہاں سے شہر کا ہنگامے اور سمندر کا سکوت اس علاقے کی رونق کو دن رات دو بالا کئے رہتا۔ ہم گرمیوں کی اُن راتوں میں اپنے گیسٹ ہاؤس کے وسیع و عریض ٹیرس پہ لگے جھولے میں جھولتے کبھی آسمان پر چاند تاروں کی جھرمٹ سے اور سمندر کی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے اور کبھی اس تاریخی علاقے کی غیر معمولی چہل پہل اور تاریخی یادگاروں کی بابت تحقیق و گفتگو میں مصروف رہتے ۔
لیکن اس بار تقسیم کا نقشہ کافی درہم برہم لگ رہا تھا۔ بڑی بڑی کھدائی کی مشینیں اور مکانوں کا ملبہ اٹھانے والی مشینیں اور کرین ایک ہنگامہ مچائے ہوئی تھیں ۔ اس توڑ پھوڑ اور ساتھ ہی نئی تعمیرات کے امتزاج نے اس علاقے کی وسعت کو ایک گنجان اور پیچیدہ علاقہ بنا دیا تھا۔ ہماری بس ایک مخصوص تنگ گلی میں رُکی جہاں ٹیکسی والے زبردستی گھس کر نئے مسافر گاہکوں کی تلاش میں سودے بازی کر رہے تھے۔ تھوڑی بہت سودے بازی کے بعد ایک ٹیکسی والا میرا سامان لےکر کونے میں کھڑی ایک ٹیکسی میں رکھنے لگا میں ٹیکسی میں دروازہ کھول کر پچھلی نشست پر بیٹھ گئی۔ چند لمحوں میں ٹیکسی ڈرائیور اس تنگ گلی سے ٹیکسی کو ایک بڑی روڈ پر لے آیا اور پیچھے مجھے دیکھتے ہوئے کہا
“ مادام ! ایڈریس ہوٹل”
میں نے ٹیکسی والے کی شکل دیکھی تو ایک لمحے کو پریشان ہوگئی۔ کیونکہ مجھے ٹیکسی تک لانے اور کرایہ طے کرنے والا ایک نوجوان تھا جو انگریزی بول رہا تھا اور یہ ڈرائیور ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جو انگریزی سے نابلد صرف ترکی بول سکتا تھا۔ کہیں ٹیکسی والے نے مسافر بیچ تو نہیں دیا، میں سوچا۔
جہاز سے اترنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ ائر پورٹ زیادہ بڑا نہیں ہے لیکن بین الاقوامی ہوائی اڈا ہونے کی وجہ سے مسافروں کے لئے تمام سہولیات موجود ہیں۔ میں نے یورو کھلے کرواکر جب ترکی لیرا لیا تو ایسا لگا کہ انگریزی یا جرمن سے واقفیت اس ائر پورٹ پر کام کرنے والوں کی بھی کوئی خاص نہیں ہے۔ لوگ اشارے کنائیوں اور ترک زبان کی بھرپور آمیزش کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی سے اپنا کام چلا لیتے ہیں۔ ائر پورٹ سے باہر نکلتے ہی کئی ٹیکسی کے ڈرائیور حضرات کی یلغار باہر آنے والے مسافروں پر “ تقسیم “۔۔۔ فاتح ۔۔۔اکسرائے اور دیگر استنبول کے علاقوں کے نام کی بلند آواز کے ساتھ ہو رہی تھی۔ میں نے انٹرنیٹ سے لی گئی معلومات کے مطابق “ ہوا بس” کا اڈا تلاش کرنا شروع کیا اور تھوڑی دیر میں اپنی مطلوبہ بس میں سوار ہوکر تقسیم کی جانب روانہ ہوگئی ۔
راشد حق صاحب کا ائیرپورٹ پر آدھے گھنٹے انتظار کیا انٹر نیٹ اور فون کے رومنگ نظام سے باہر ہونے کی وجہ سے فون نے یکدم کام کرنا بند کر دیا تھا ۔ بہرحال ایک نوجوان ترک طالب علم بس میں میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھا تھا ۔ شاید وہ ایک موسیقار یا گلوکار تھا۔ اس کے ساتھ ایک موسیقی کا بڑا سا ساز “ شیلو” اس کے پاس تھا۔ جسے وہ بس کے نیچے بنے سامان کے حصے میں رکھوانے کے بجائے اپنے ساتھ بس میں لے کر سوار ہوگیا تھا اور بس میں داخل ہونے والے مسافروں سمیت بس کے کرایہ جمع کرتے بس کنڈکٹر کو بھی بس میں چلنے پھرنے میں پریشان کر رہا تھا۔ وہ لڑکا بھی جرمنی کے شہر کیل میں ایک میوزک کنسرٹ کے لیے گیا تھا اور جرمنوں کے فنکارانہ مزاج کی مجھ سے کئی بار تعریف کرتا رہالیکن جب اسے میں نے بتایا کہ میرا تعلق بنیادی طور پر پاکستان سے ہے تو اس نے نصرت فتح علی ، مہدی حسن اور ملکہ ترنم نور جہاں سمیت کئی گائیک فنکاروں کے نام لے کر مجھے پاکستان کیساتھ اپنے تعلق پر فخر کرنے کی کامیاب کوشش کر ڈالی۔وہ فنکار پاکستانی گلوکاروں اور موسیقاروں سمیت امریکہ یورپ ، عرب ممالک ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے کئی ستاروں کی چمک سے واقف تھا لیکن میری دلچسپی صرف گنے چنے نامور بین الاقوامی فنکاروں تک ہی تھی اور معلومات بھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ تھوڑی دیر بعد اس نے گفتگو کا موضوع تبدیل کرتے ہوئے میری استنبول میں آمد کے بابت سوال کیا۔جب میں نے عاکف ارصوئے اور اقبال کا نام لیا تو وہ حیرت انگیز طور پر اقبال کی ایک نظم کا جزوی حصہ ترک اور انگریزی میں مجھے سنانا شروع ہوگیا۔ ایک نوجوان کو اقبال اور عاکف ارصوئے کی ولولہ انگیز شاعری سے واقفیت دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ دل سے دعا نکلی کہ ہمارے ملک کے نوجوان بھی اپنے محسن اردو شعراء و ادباء سے دلچسپی رکھیں اور اس خزانہ علم کو آگے بڑھائیں۔ اس نوجوان کی دلچسپ گفتگو میں یہ گھنٹے بھر کا سفر بہت تیزی سے گزر گیا۔ ہم تقسیم کے علاقے میں پہنچ گئے۔ اتنی دیر میں میرا فون اپنے مواصلاتی نظام سے مربوط ہو گیا تھا۔ تقسیم کا علاقہ استنبول کا ایک تاریخی علاقہ ہے۔ استنبول سلطنتِ عثمانیہ کی اہم یادگار اور نشانیاں اس خوبصورت خطے میں سموئے ہوئے ہے یہ شہر کئی سالوں تک سلطنت عثمانیہ کا دارالخلافہ تھا ۱۹۲۳ میں مصطفیٰ کمال پاشا اتا ترک نے انقرہ کو جب نئی ترک جمہوریہ کا دارالحکومت بنایا تو قسطنطنیہ نامی اس شہر کا نام استنبول رکھ دیا ۔مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے اردو کے اساتذہ مشکل الفاظ لکھنے کی مشق میں استنبول کا پرانا نام قسطنطنیہ ضرور لکھواتے تھے۔ جب میں پہلی بار استنبول اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آئی تھی تو تقسیم کے علاقے ہی میں ایک اونچے پہاڑی راستوں پربنی ایک پانچ منزلہ عمارت کی بالائی منزل پر ہمارا گیسٹ ہاؤس تھا۔ جہاں سے شہر کا ہنگامے اور سمندر کا سکوت اس علاقے کی رونق کو دن رات دو بالا کئے رہتا۔ ہم گرمیوں کی اُن راتوں میں اپنے گیسٹ ہاؤس کے وسیع و عریض ٹیرس پہ لگے جھولے میں جھولتے کبھی آسمان پر چاند تاروں کی جھرمٹ سے اور سمندر کی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے اور کبھی اس تاریخی علاقے کی غیر معمولی چہل پہل اور تاریخی یادگاروں کی بابت تحقیق و گفتگو میں مصروف رہتے ۔
لیکن اس بار تقسیم کا نقشہ کافی درہم برہم لگ رہا تھا۔ بڑی بڑی کھدائی کی مشینیں اور مکانوں کا ملبہ اٹھانے والی مشینیں اور کرین ایک ہنگامہ مچائے ہوئی تھیں ۔ اس توڑ پھوڑ اور ساتھ ہی نئی تعمیرات کے امتزاج نے اس علاقے کی وسعت کو ایک گنجان اور پیچیدہ علاقہ بنا دیا تھا۔ ہماری بس ایک مخصوص تنگ گلی میں رُکی جہاں ٹیکسی والے زبردستی گھس کر نئے مسافر گاہکوں کی تلاش میں سودے بازی کر رہے تھے۔ تھوڑی بہت سودے بازی کے بعد ایک ٹیکسی والا میرا سامان لےکر کونے میں کھڑی ایک ٹیکسی میں رکھنے لگا میں ٹیکسی میں دروازہ کھول کر پچھلی نشست پر بیٹھ گئی۔ چند لمحوں میں ٹیکسی ڈرائیور اس تنگ گلی سے ٹیکسی کو ایک بڑی روڈ پر لے آیا اور پیچھے مجھے دیکھتے ہوئے کہا
“ مادام ! ایڈریس ہوٹل”
میں نے ٹیکسی والے کی شکل دیکھی تو ایک لمحے کو پریشان ہوگئی۔ کیونکہ مجھے ٹیکسی تک لانے اور کرایہ طے کرنے والا ایک نوجوان تھا جو انگریزی بول رہا تھا اور یہ ڈرائیور ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جو انگریزی سے نابلد صرف ترکی بول سکتا تھا۔ کہیں ٹیکسی والے نے مسافر بیچ تو نہیں دیا، میں سوچا۔