Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
شاہد رشید کے جسم و جان میں عشقِ پاکستان کی روح ان کے رہنما جناب محمود علی صاحب نے ڈالی- جناب محمود علی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریکِ پاکستان کے ایک انتھک مجاہد تھے جنہوں نے تاعمر استحکامِ پاکستان کے فریضہ کو انجام دیا اور نوجوانوں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط توانا اور روشن بنائے رکھیں
برِصغیر پاک و ہند کی ایک نسل نے تخلیقِ پاکستان کا فریضہ نبھایا تو اس کے بعد میں آنے والی نسلوں نے استحکامِ پاکستان کو اپنا مقصد بنایا-
پاکستان میں بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی تمام زندگی کو اس مقصد کے لیے وقف کر دیا اور دوسرے لوگوں سے مختلف زندگی گزاری- ایسی باتیں لکھنے اور پڑھنے کی حد تک بہت خوبصورت لگتی ہیں اور حقیقی زندگی میں ان کو تسلیم کرنا تھوڑا مشکل نظر آتا ہے جب کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ ابھی کچھ لوگ زندہ ہیں جہاں میں کے مصداق ہمارا معاشرہ ابھی ایسے لوگوں سے مکمل محروم نہیں ہوا-
یہ بھی دیکھئے:
میری اس تمہید سے مراد کچھ دنوں پہلے انتقال فرما جانے میرے بہت ہی محترم دوست اور پاکستان کے ایک اعلیٰ فرزند جناب شاہد رشید ہیں –
شاہد رشید نے استحکامِ پاکستان کی شمع کو نہ صرف روشن رکھا ہوا تھا بلکہ روزانہ اس کی لو کو بڑھاتے رہتے تھے
شاہد رشید کے جسم و جان میں عشقِ پاکستان کی روح ان کے رہنما جناب محمود علی صاحب نے ڈالی- جناب محمود علی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریکِ پاکستان کے ایک انتھک مجاہد تھے جنہوں نے تاعمر استحکامِ پاکستان کے فریضہ کو انجام دیا اور نوجوانوں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط توانا اور روشن بنائے رکھیں –
شاہد رشید جیسے لوگ شمعِ پاکستان کے ایسے پروانے ہوتے ہیں جن کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جانا جائیے – بلکہ نہ صرف ان کا نام بلکہ ان کی ساری کہانی سنہری حروف سے لکھی جانی چاہیے-
یہ بھی پڑھئے:
سولہ مارچ: آج مشہور صداکار ایس ایم سلیم کا یوم وفات ہے
عدم اعتماد کے ہنگامے میں ایک ترک حسینہ کی یاد
قرارداد مقاصد: وہ کلمہ جسے پڑھ کر ریاست پاکستان مسلمان ہوئی
میں کیونکہ چھوٹی موٹی شاعری بھی کرتا رہتا ہوں لہذا شاہد رشید کے انتقال کی خبر سنتے ہی دل میں آیا کہ ان کی روح کو شعری نذرنہِ عقیدت پیش کروں –
پیار کا استعارہ تھا شاہد رشید
دوستوں کو پیارا تھا شاہد رشید
پیار تھا سچا اسے اس ملک سے
تھا مجسم پاکستاں شاہد رشید
لوگوں سے اس کا تعلق تھا کمال
عشق کی تھی داستاں شاہد رشید
بانٹتا پھرتا تھا وہ آسانیاں
پیار کا تھا ترجماں شاہد رشید
تھا وہ استاد ایک دنیا کا
اپنے شعبے کا ارطغرل تھا وہ
یارب تجھے ہے نامِ محمد کا واسطہ
فردوس میں مقام ہو شاہد رشید کا
شاہد رشید کے توسط سے بہت سارے لوگ میری زندگی میں شریک ہوئے جن میں نمایاں نام سرگودھا کے محبوب اصغر شیخ اور پیر محل کے اشرف علی دلبر ہیں –
شروع شروع میں یہ دیکھ کر کہ شاہد رشید کی رسائی بہت بڑے بڑے لوگوں سے ہیں – میں نے سوچا کہ یہ بندہ تو بہت فائدے اٹھاتا ہو گا اور اس نے تو بڑی جائیداد بنائی ہو گی- لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اندازہ ہوا کہ میرا اندازہ غلط تھا – شاہد رشید تو ایک بےلوث اور دوسروں کی خدمت کرنے والا آدمی ہے – اسے اللہ نے مختلف بنایا تھا- وہ اپنے سارے تعلقات سے دوسروں کو فائدے پہچاتا تھا اور میں نے دیکھا کہ اس نے لاتعداد بے روزگاروں کو نوکری پر لگوایا اور جتنی ہو سکی ضرورت مندوں کی مدد کی- اللہ نے یقیناٗ اسے اس کے بدلے میں جنت میں اعلی مقام عطا کیا ہو گا-
بہت سارے لوگوں کو شاید نہ پتہ ہو کہ شاہد رشید روحانیات میں بہت یقین رکھتے تھے- صوفیوں سے ان کو بہت شغف تھا- ایک دفعہ میرے کچھ معاملات الجھ گئے تھے تو انہوں نے مجھے اپنے پیر صاحب کے پاس بھیج دیا جنہوں نے میری مشکلات آسان کر دیں – وہ بہت اعلی اور باکمال بزرگ تھے جناب محمد حسین اویسی صاحب – انہوں نے بہت اچھے طریقے سے مجھے سمجھایا- ان کو دوسرے صوفیا کی طرح بہت ساری باتوں کا پہلے سے علم ہو جاتا تھا اور انہوں مجھے کچھ باتیں بتایں جو بعد میں کم و بیش یا ہو بہو ویسے ہی ظہور پذیر ہوئیں –
شاہد رشید صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ جس طرح کے لوگوں میں بیٹھتے تھے ایسا لگتا تھا کہ وہ ان میں ہی سے ہیں – صوفیوں میں بیٹھے تو ایسے لگتا تھا کہ وہ خود ایک بہت بڑے صوفی ہیں – عالموں میں بیٹھے تو عالم- ادیبوں میں ادیب – یہ خوبی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے جو اللہ نے انہیں عطا کی تھی –
اپنے کام کے لحاظ سے ان کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے تھا- میری مراد اس بات سے یہُ ہے کہ جیسے ڈاکڑوں کو زیادہ تر مریضوں سے ملنا ہوتا ہے – وکیلوں کو جرائم پیشہ اور مظلوموں سے ملنا پڑتا ہے پیروں اور فقیروں کی طرح کیونکہ وہ بھی ایک طرح سے اللہ کی خدمت میں وکیل ہی ہوتے ہیں – دوکانداروں کو گاہکوں سے واسطہ پڑتا ہے – تاہم استحکامِ پاکستان کی تحریک اور نظریہ ِ پاکستان کی ترویج کے لیے انہیں سب سے ملنا پڑتا تھا – ان کی محبت کا دائرہ وسیع ہی نہیں متنوع بھی تھا- مجھے کبھی اس بات پر بڑی حیرانی بھی ہوتی تھی- میں ایک دن ان کے پاس بیٹھا تھا تو ان سے ایک صاحب ملنے آئے – شاہد صاحب نے بتایا کہ یہ منیر حسین ہیں انہوں فلم ہیر رانجھا میں نورجہاں کے ساتھ مل کے گانے گائے تھے – وے ونجلی والڑیا ۔۔۔۔ ان کے ساتھ مل بیٹھ کے آپ کو بہت کچھ دیکھنے کو ملتا تھا
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
میری سب سے دعا ہے کہ ان کے لئے ایک بار سورہ فاتحہ اور تین بار درود شریف پڑھیں اللہ ان کی اگلی منزلیں اسی طرح روشن اور آسان کر دے جس طرح انہوں نے اپنی زندگی میں دوسروں کے راستے میں آسانیاں رکھیں اور روشنیاں تقسیم کیں –
شاہد رشید کے جسم و جان میں عشقِ پاکستان کی روح ان کے رہنما جناب محمود علی صاحب نے ڈالی- جناب محمود علی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریکِ پاکستان کے ایک انتھک مجاہد تھے جنہوں نے تاعمر استحکامِ پاکستان کے فریضہ کو انجام دیا اور نوجوانوں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط توانا اور روشن بنائے رکھیں
برِصغیر پاک و ہند کی ایک نسل نے تخلیقِ پاکستان کا فریضہ نبھایا تو اس کے بعد میں آنے والی نسلوں نے استحکامِ پاکستان کو اپنا مقصد بنایا-
پاکستان میں بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی تمام زندگی کو اس مقصد کے لیے وقف کر دیا اور دوسرے لوگوں سے مختلف زندگی گزاری- ایسی باتیں لکھنے اور پڑھنے کی حد تک بہت خوبصورت لگتی ہیں اور حقیقی زندگی میں ان کو تسلیم کرنا تھوڑا مشکل نظر آتا ہے جب کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ ابھی کچھ لوگ زندہ ہیں جہاں میں کے مصداق ہمارا معاشرہ ابھی ایسے لوگوں سے مکمل محروم نہیں ہوا-
یہ بھی دیکھئے:
میری اس تمہید سے مراد کچھ دنوں پہلے انتقال فرما جانے میرے بہت ہی محترم دوست اور پاکستان کے ایک اعلیٰ فرزند جناب شاہد رشید ہیں –
شاہد رشید نے استحکامِ پاکستان کی شمع کو نہ صرف روشن رکھا ہوا تھا بلکہ روزانہ اس کی لو کو بڑھاتے رہتے تھے
شاہد رشید کے جسم و جان میں عشقِ پاکستان کی روح ان کے رہنما جناب محمود علی صاحب نے ڈالی- جناب محمود علی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریکِ پاکستان کے ایک انتھک مجاہد تھے جنہوں نے تاعمر استحکامِ پاکستان کے فریضہ کو انجام دیا اور نوجوانوں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط توانا اور روشن بنائے رکھیں –
شاہد رشید جیسے لوگ شمعِ پاکستان کے ایسے پروانے ہوتے ہیں جن کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جانا جائیے – بلکہ نہ صرف ان کا نام بلکہ ان کی ساری کہانی سنہری حروف سے لکھی جانی چاہیے-
یہ بھی پڑھئے:
سولہ مارچ: آج مشہور صداکار ایس ایم سلیم کا یوم وفات ہے
عدم اعتماد کے ہنگامے میں ایک ترک حسینہ کی یاد
قرارداد مقاصد: وہ کلمہ جسے پڑھ کر ریاست پاکستان مسلمان ہوئی
میں کیونکہ چھوٹی موٹی شاعری بھی کرتا رہتا ہوں لہذا شاہد رشید کے انتقال کی خبر سنتے ہی دل میں آیا کہ ان کی روح کو شعری نذرنہِ عقیدت پیش کروں –
پیار کا استعارہ تھا شاہد رشید
دوستوں کو پیارا تھا شاہد رشید
پیار تھا سچا اسے اس ملک سے
تھا مجسم پاکستاں شاہد رشید
لوگوں سے اس کا تعلق تھا کمال
عشق کی تھی داستاں شاہد رشید
بانٹتا پھرتا تھا وہ آسانیاں
پیار کا تھا ترجماں شاہد رشید
تھا وہ استاد ایک دنیا کا
اپنے شعبے کا ارطغرل تھا وہ
یارب تجھے ہے نامِ محمد کا واسطہ
فردوس میں مقام ہو شاہد رشید کا
شاہد رشید کے توسط سے بہت سارے لوگ میری زندگی میں شریک ہوئے جن میں نمایاں نام سرگودھا کے محبوب اصغر شیخ اور پیر محل کے اشرف علی دلبر ہیں –
شروع شروع میں یہ دیکھ کر کہ شاہد رشید کی رسائی بہت بڑے بڑے لوگوں سے ہیں – میں نے سوچا کہ یہ بندہ تو بہت فائدے اٹھاتا ہو گا اور اس نے تو بڑی جائیداد بنائی ہو گی- لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اندازہ ہوا کہ میرا اندازہ غلط تھا – شاہد رشید تو ایک بےلوث اور دوسروں کی خدمت کرنے والا آدمی ہے – اسے اللہ نے مختلف بنایا تھا- وہ اپنے سارے تعلقات سے دوسروں کو فائدے پہچاتا تھا اور میں نے دیکھا کہ اس نے لاتعداد بے روزگاروں کو نوکری پر لگوایا اور جتنی ہو سکی ضرورت مندوں کی مدد کی- اللہ نے یقیناٗ اسے اس کے بدلے میں جنت میں اعلی مقام عطا کیا ہو گا-
بہت سارے لوگوں کو شاید نہ پتہ ہو کہ شاہد رشید روحانیات میں بہت یقین رکھتے تھے- صوفیوں سے ان کو بہت شغف تھا- ایک دفعہ میرے کچھ معاملات الجھ گئے تھے تو انہوں نے مجھے اپنے پیر صاحب کے پاس بھیج دیا جنہوں نے میری مشکلات آسان کر دیں – وہ بہت اعلی اور باکمال بزرگ تھے جناب محمد حسین اویسی صاحب – انہوں نے بہت اچھے طریقے سے مجھے سمجھایا- ان کو دوسرے صوفیا کی طرح بہت ساری باتوں کا پہلے سے علم ہو جاتا تھا اور انہوں مجھے کچھ باتیں بتایں جو بعد میں کم و بیش یا ہو بہو ویسے ہی ظہور پذیر ہوئیں –
شاہد رشید صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ جس طرح کے لوگوں میں بیٹھتے تھے ایسا لگتا تھا کہ وہ ان میں ہی سے ہیں – صوفیوں میں بیٹھے تو ایسے لگتا تھا کہ وہ خود ایک بہت بڑے صوفی ہیں – عالموں میں بیٹھے تو عالم- ادیبوں میں ادیب – یہ خوبی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے جو اللہ نے انہیں عطا کی تھی –
اپنے کام کے لحاظ سے ان کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے تھا- میری مراد اس بات سے یہُ ہے کہ جیسے ڈاکڑوں کو زیادہ تر مریضوں سے ملنا ہوتا ہے – وکیلوں کو جرائم پیشہ اور مظلوموں سے ملنا پڑتا ہے پیروں اور فقیروں کی طرح کیونکہ وہ بھی ایک طرح سے اللہ کی خدمت میں وکیل ہی ہوتے ہیں – دوکانداروں کو گاہکوں سے واسطہ پڑتا ہے – تاہم استحکامِ پاکستان کی تحریک اور نظریہ ِ پاکستان کی ترویج کے لیے انہیں سب سے ملنا پڑتا تھا – ان کی محبت کا دائرہ وسیع ہی نہیں متنوع بھی تھا- مجھے کبھی اس بات پر بڑی حیرانی بھی ہوتی تھی- میں ایک دن ان کے پاس بیٹھا تھا تو ان سے ایک صاحب ملنے آئے – شاہد صاحب نے بتایا کہ یہ منیر حسین ہیں انہوں فلم ہیر رانجھا میں نورجہاں کے ساتھ مل کے گانے گائے تھے – وے ونجلی والڑیا ۔۔۔۔ ان کے ساتھ مل بیٹھ کے آپ کو بہت کچھ دیکھنے کو ملتا تھا
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
میری سب سے دعا ہے کہ ان کے لئے ایک بار سورہ فاتحہ اور تین بار درود شریف پڑھیں اللہ ان کی اگلی منزلیں اسی طرح روشن اور آسان کر دے جس طرح انہوں نے اپنی زندگی میں دوسروں کے راستے میں آسانیاں رکھیں اور روشنیاں تقسیم کیں –
شاہد رشید کے جسم و جان میں عشقِ پاکستان کی روح ان کے رہنما جناب محمود علی صاحب نے ڈالی- جناب محمود علی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریکِ پاکستان کے ایک انتھک مجاہد تھے جنہوں نے تاعمر استحکامِ پاکستان کے فریضہ کو انجام دیا اور نوجوانوں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط توانا اور روشن بنائے رکھیں
برِصغیر پاک و ہند کی ایک نسل نے تخلیقِ پاکستان کا فریضہ نبھایا تو اس کے بعد میں آنے والی نسلوں نے استحکامِ پاکستان کو اپنا مقصد بنایا-
پاکستان میں بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی تمام زندگی کو اس مقصد کے لیے وقف کر دیا اور دوسرے لوگوں سے مختلف زندگی گزاری- ایسی باتیں لکھنے اور پڑھنے کی حد تک بہت خوبصورت لگتی ہیں اور حقیقی زندگی میں ان کو تسلیم کرنا تھوڑا مشکل نظر آتا ہے جب کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ ابھی کچھ لوگ زندہ ہیں جہاں میں کے مصداق ہمارا معاشرہ ابھی ایسے لوگوں سے مکمل محروم نہیں ہوا-
یہ بھی دیکھئے:
میری اس تمہید سے مراد کچھ دنوں پہلے انتقال فرما جانے میرے بہت ہی محترم دوست اور پاکستان کے ایک اعلیٰ فرزند جناب شاہد رشید ہیں –
شاہد رشید نے استحکامِ پاکستان کی شمع کو نہ صرف روشن رکھا ہوا تھا بلکہ روزانہ اس کی لو کو بڑھاتے رہتے تھے
شاہد رشید کے جسم و جان میں عشقِ پاکستان کی روح ان کے رہنما جناب محمود علی صاحب نے ڈالی- جناب محمود علی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریکِ پاکستان کے ایک انتھک مجاہد تھے جنہوں نے تاعمر استحکامِ پاکستان کے فریضہ کو انجام دیا اور نوجوانوں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط توانا اور روشن بنائے رکھیں –
شاہد رشید جیسے لوگ شمعِ پاکستان کے ایسے پروانے ہوتے ہیں جن کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جانا جائیے – بلکہ نہ صرف ان کا نام بلکہ ان کی ساری کہانی سنہری حروف سے لکھی جانی چاہیے-
یہ بھی پڑھئے:
سولہ مارچ: آج مشہور صداکار ایس ایم سلیم کا یوم وفات ہے
عدم اعتماد کے ہنگامے میں ایک ترک حسینہ کی یاد
قرارداد مقاصد: وہ کلمہ جسے پڑھ کر ریاست پاکستان مسلمان ہوئی
میں کیونکہ چھوٹی موٹی شاعری بھی کرتا رہتا ہوں لہذا شاہد رشید کے انتقال کی خبر سنتے ہی دل میں آیا کہ ان کی روح کو شعری نذرنہِ عقیدت پیش کروں –
پیار کا استعارہ تھا شاہد رشید
دوستوں کو پیارا تھا شاہد رشید
پیار تھا سچا اسے اس ملک سے
تھا مجسم پاکستاں شاہد رشید
لوگوں سے اس کا تعلق تھا کمال
عشق کی تھی داستاں شاہد رشید
بانٹتا پھرتا تھا وہ آسانیاں
پیار کا تھا ترجماں شاہد رشید
تھا وہ استاد ایک دنیا کا
اپنے شعبے کا ارطغرل تھا وہ
یارب تجھے ہے نامِ محمد کا واسطہ
فردوس میں مقام ہو شاہد رشید کا
شاہد رشید کے توسط سے بہت سارے لوگ میری زندگی میں شریک ہوئے جن میں نمایاں نام سرگودھا کے محبوب اصغر شیخ اور پیر محل کے اشرف علی دلبر ہیں –
شروع شروع میں یہ دیکھ کر کہ شاہد رشید کی رسائی بہت بڑے بڑے لوگوں سے ہیں – میں نے سوچا کہ یہ بندہ تو بہت فائدے اٹھاتا ہو گا اور اس نے تو بڑی جائیداد بنائی ہو گی- لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اندازہ ہوا کہ میرا اندازہ غلط تھا – شاہد رشید تو ایک بےلوث اور دوسروں کی خدمت کرنے والا آدمی ہے – اسے اللہ نے مختلف بنایا تھا- وہ اپنے سارے تعلقات سے دوسروں کو فائدے پہچاتا تھا اور میں نے دیکھا کہ اس نے لاتعداد بے روزگاروں کو نوکری پر لگوایا اور جتنی ہو سکی ضرورت مندوں کی مدد کی- اللہ نے یقیناٗ اسے اس کے بدلے میں جنت میں اعلی مقام عطا کیا ہو گا-
بہت سارے لوگوں کو شاید نہ پتہ ہو کہ شاہد رشید روحانیات میں بہت یقین رکھتے تھے- صوفیوں سے ان کو بہت شغف تھا- ایک دفعہ میرے کچھ معاملات الجھ گئے تھے تو انہوں نے مجھے اپنے پیر صاحب کے پاس بھیج دیا جنہوں نے میری مشکلات آسان کر دیں – وہ بہت اعلی اور باکمال بزرگ تھے جناب محمد حسین اویسی صاحب – انہوں نے بہت اچھے طریقے سے مجھے سمجھایا- ان کو دوسرے صوفیا کی طرح بہت ساری باتوں کا پہلے سے علم ہو جاتا تھا اور انہوں مجھے کچھ باتیں بتایں جو بعد میں کم و بیش یا ہو بہو ویسے ہی ظہور پذیر ہوئیں –
شاہد رشید صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ جس طرح کے لوگوں میں بیٹھتے تھے ایسا لگتا تھا کہ وہ ان میں ہی سے ہیں – صوفیوں میں بیٹھے تو ایسے لگتا تھا کہ وہ خود ایک بہت بڑے صوفی ہیں – عالموں میں بیٹھے تو عالم- ادیبوں میں ادیب – یہ خوبی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے جو اللہ نے انہیں عطا کی تھی –
اپنے کام کے لحاظ سے ان کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے تھا- میری مراد اس بات سے یہُ ہے کہ جیسے ڈاکڑوں کو زیادہ تر مریضوں سے ملنا ہوتا ہے – وکیلوں کو جرائم پیشہ اور مظلوموں سے ملنا پڑتا ہے پیروں اور فقیروں کی طرح کیونکہ وہ بھی ایک طرح سے اللہ کی خدمت میں وکیل ہی ہوتے ہیں – دوکانداروں کو گاہکوں سے واسطہ پڑتا ہے – تاہم استحکامِ پاکستان کی تحریک اور نظریہ ِ پاکستان کی ترویج کے لیے انہیں سب سے ملنا پڑتا تھا – ان کی محبت کا دائرہ وسیع ہی نہیں متنوع بھی تھا- مجھے کبھی اس بات پر بڑی حیرانی بھی ہوتی تھی- میں ایک دن ان کے پاس بیٹھا تھا تو ان سے ایک صاحب ملنے آئے – شاہد صاحب نے بتایا کہ یہ منیر حسین ہیں انہوں فلم ہیر رانجھا میں نورجہاں کے ساتھ مل کے گانے گائے تھے – وے ونجلی والڑیا ۔۔۔۔ ان کے ساتھ مل بیٹھ کے آپ کو بہت کچھ دیکھنے کو ملتا تھا
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
میری سب سے دعا ہے کہ ان کے لئے ایک بار سورہ فاتحہ اور تین بار درود شریف پڑھیں اللہ ان کی اگلی منزلیں اسی طرح روشن اور آسان کر دے جس طرح انہوں نے اپنی زندگی میں دوسروں کے راستے میں آسانیاں رکھیں اور روشنیاں تقسیم کیں –
شاہد رشید کے جسم و جان میں عشقِ پاکستان کی روح ان کے رہنما جناب محمود علی صاحب نے ڈالی- جناب محمود علی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریکِ پاکستان کے ایک انتھک مجاہد تھے جنہوں نے تاعمر استحکامِ پاکستان کے فریضہ کو انجام دیا اور نوجوانوں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط توانا اور روشن بنائے رکھیں
برِصغیر پاک و ہند کی ایک نسل نے تخلیقِ پاکستان کا فریضہ نبھایا تو اس کے بعد میں آنے والی نسلوں نے استحکامِ پاکستان کو اپنا مقصد بنایا-
پاکستان میں بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی تمام زندگی کو اس مقصد کے لیے وقف کر دیا اور دوسرے لوگوں سے مختلف زندگی گزاری- ایسی باتیں لکھنے اور پڑھنے کی حد تک بہت خوبصورت لگتی ہیں اور حقیقی زندگی میں ان کو تسلیم کرنا تھوڑا مشکل نظر آتا ہے جب کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ ابھی کچھ لوگ زندہ ہیں جہاں میں کے مصداق ہمارا معاشرہ ابھی ایسے لوگوں سے مکمل محروم نہیں ہوا-
یہ بھی دیکھئے:
میری اس تمہید سے مراد کچھ دنوں پہلے انتقال فرما جانے میرے بہت ہی محترم دوست اور پاکستان کے ایک اعلیٰ فرزند جناب شاہد رشید ہیں –
شاہد رشید نے استحکامِ پاکستان کی شمع کو نہ صرف روشن رکھا ہوا تھا بلکہ روزانہ اس کی لو کو بڑھاتے رہتے تھے
شاہد رشید کے جسم و جان میں عشقِ پاکستان کی روح ان کے رہنما جناب محمود علی صاحب نے ڈالی- جناب محمود علی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریکِ پاکستان کے ایک انتھک مجاہد تھے جنہوں نے تاعمر استحکامِ پاکستان کے فریضہ کو انجام دیا اور نوجوانوں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط توانا اور روشن بنائے رکھیں –
شاہد رشید جیسے لوگ شمعِ پاکستان کے ایسے پروانے ہوتے ہیں جن کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جانا جائیے – بلکہ نہ صرف ان کا نام بلکہ ان کی ساری کہانی سنہری حروف سے لکھی جانی چاہیے-
یہ بھی پڑھئے:
سولہ مارچ: آج مشہور صداکار ایس ایم سلیم کا یوم وفات ہے
عدم اعتماد کے ہنگامے میں ایک ترک حسینہ کی یاد
قرارداد مقاصد: وہ کلمہ جسے پڑھ کر ریاست پاکستان مسلمان ہوئی
میں کیونکہ چھوٹی موٹی شاعری بھی کرتا رہتا ہوں لہذا شاہد رشید کے انتقال کی خبر سنتے ہی دل میں آیا کہ ان کی روح کو شعری نذرنہِ عقیدت پیش کروں –
پیار کا استعارہ تھا شاہد رشید
دوستوں کو پیارا تھا شاہد رشید
پیار تھا سچا اسے اس ملک سے
تھا مجسم پاکستاں شاہد رشید
لوگوں سے اس کا تعلق تھا کمال
عشق کی تھی داستاں شاہد رشید
بانٹتا پھرتا تھا وہ آسانیاں
پیار کا تھا ترجماں شاہد رشید
تھا وہ استاد ایک دنیا کا
اپنے شعبے کا ارطغرل تھا وہ
یارب تجھے ہے نامِ محمد کا واسطہ
فردوس میں مقام ہو شاہد رشید کا
شاہد رشید کے توسط سے بہت سارے لوگ میری زندگی میں شریک ہوئے جن میں نمایاں نام سرگودھا کے محبوب اصغر شیخ اور پیر محل کے اشرف علی دلبر ہیں –
شروع شروع میں یہ دیکھ کر کہ شاہد رشید کی رسائی بہت بڑے بڑے لوگوں سے ہیں – میں نے سوچا کہ یہ بندہ تو بہت فائدے اٹھاتا ہو گا اور اس نے تو بڑی جائیداد بنائی ہو گی- لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اندازہ ہوا کہ میرا اندازہ غلط تھا – شاہد رشید تو ایک بےلوث اور دوسروں کی خدمت کرنے والا آدمی ہے – اسے اللہ نے مختلف بنایا تھا- وہ اپنے سارے تعلقات سے دوسروں کو فائدے پہچاتا تھا اور میں نے دیکھا کہ اس نے لاتعداد بے روزگاروں کو نوکری پر لگوایا اور جتنی ہو سکی ضرورت مندوں کی مدد کی- اللہ نے یقیناٗ اسے اس کے بدلے میں جنت میں اعلی مقام عطا کیا ہو گا-
بہت سارے لوگوں کو شاید نہ پتہ ہو کہ شاہد رشید روحانیات میں بہت یقین رکھتے تھے- صوفیوں سے ان کو بہت شغف تھا- ایک دفعہ میرے کچھ معاملات الجھ گئے تھے تو انہوں نے مجھے اپنے پیر صاحب کے پاس بھیج دیا جنہوں نے میری مشکلات آسان کر دیں – وہ بہت اعلی اور باکمال بزرگ تھے جناب محمد حسین اویسی صاحب – انہوں نے بہت اچھے طریقے سے مجھے سمجھایا- ان کو دوسرے صوفیا کی طرح بہت ساری باتوں کا پہلے سے علم ہو جاتا تھا اور انہوں مجھے کچھ باتیں بتایں جو بعد میں کم و بیش یا ہو بہو ویسے ہی ظہور پذیر ہوئیں –
شاہد رشید صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ جس طرح کے لوگوں میں بیٹھتے تھے ایسا لگتا تھا کہ وہ ان میں ہی سے ہیں – صوفیوں میں بیٹھے تو ایسے لگتا تھا کہ وہ خود ایک بہت بڑے صوفی ہیں – عالموں میں بیٹھے تو عالم- ادیبوں میں ادیب – یہ خوبی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے جو اللہ نے انہیں عطا کی تھی –
اپنے کام کے لحاظ سے ان کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے تھا- میری مراد اس بات سے یہُ ہے کہ جیسے ڈاکڑوں کو زیادہ تر مریضوں سے ملنا ہوتا ہے – وکیلوں کو جرائم پیشہ اور مظلوموں سے ملنا پڑتا ہے پیروں اور فقیروں کی طرح کیونکہ وہ بھی ایک طرح سے اللہ کی خدمت میں وکیل ہی ہوتے ہیں – دوکانداروں کو گاہکوں سے واسطہ پڑتا ہے – تاہم استحکامِ پاکستان کی تحریک اور نظریہ ِ پاکستان کی ترویج کے لیے انہیں سب سے ملنا پڑتا تھا – ان کی محبت کا دائرہ وسیع ہی نہیں متنوع بھی تھا- مجھے کبھی اس بات پر بڑی حیرانی بھی ہوتی تھی- میں ایک دن ان کے پاس بیٹھا تھا تو ان سے ایک صاحب ملنے آئے – شاہد صاحب نے بتایا کہ یہ منیر حسین ہیں انہوں فلم ہیر رانجھا میں نورجہاں کے ساتھ مل کے گانے گائے تھے – وے ونجلی والڑیا ۔۔۔۔ ان کے ساتھ مل بیٹھ کے آپ کو بہت کچھ دیکھنے کو ملتا تھا
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
میری سب سے دعا ہے کہ ان کے لئے ایک بار سورہ فاتحہ اور تین بار درود شریف پڑھیں اللہ ان کی اگلی منزلیں اسی طرح روشن اور آسان کر دے جس طرح انہوں نے اپنی زندگی میں دوسروں کے راستے میں آسانیاں رکھیں اور روشنیاں تقسیم کیں –