• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home اہم خبریں تصویر وطن

اقبال__ کیا ہم بھول جائیں گے؟

اقبال کیسے سوچتے تھے، کیا سوچتے تھے، ان کا طرز زندگی کیا تھا، ان کی آرزو کیا تھی اور انھیں کس بات سے ڈر لگتا تھا؟ سینیٹر عرفان صدیقی ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں

سینیٹر عرفان صدیقی by سینیٹر عرفان صدیقی
April 21, 2025
in تصویر وطن
0
اقبال__ کیا ہم بھول جائیں گے؟
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)
علامہ اقبال کو رُخصت ہوئے ستاسی برس ہوچلے۔ لیکن کیا  دِلوں میں چراغِ آرزو جلانے، جہد مسلسل کا عزم عطا کرنے، خودی، خود آگاہی اور خودشناسی کا درس دینے، حاضرو موجود کی قید سے آزاد ہوکر نئے جہانوں کی تلاش وجستجو کی لگن ابھارنے، غلامی کی شبِ سیاہ میں سحرتراشی کا جنوں بخشنے  اور ”لاہور سے تاخاکِ بخارا وسمرقند”  اِک ولولہ تازہ دینے والی زندہ وجاوداں شاعری کے نقوش بھی گردوغبارِ وقت کی نذر ہوجائیں گے؟  بظاہر ایسا ہی لگتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ  اور کینیڈا کی عالی مرتبت درس گاہوں سے فیض یاب ہونے والے ‘اَبنائے اشرافیہ’، اور پٹرول بموں سے کھیلنے والے ‘طفلانِ خود معاملہ’ سے صرفِ نظر کرلیجے، پاکستان کے اداروں سے کسبِ علم کرنے والے، مشرقی تہذیب وروایات کے حامل، متوسط گھرانوں کے نوجوان بھی اقبال سے شناسا  ہیں نہ  اُس کی شاعری سے۔ اِس المیّے کا ماتم پھر سہی۔
آج جی چاہتا ہے کہ علّامہ کی شاعری کے اُس مُشکبو پہلو کی ہلکی سی جھلک دیکھی جائے جو حضورِ اکرم حضرت محمدۖ سے بے کراں محبت کی  خُوشبو میں گندھا ہے  اور جسے پڑھتے ہوئے دِل کی دھڑکنوں میں ارتعاش سا پیدا  ہوجاتا ہے۔
دس گیارہ سال پہلے، میں نے اپنے ایک کالم میں، چار مصرعوں پر مشتمل علامہ کی ایک رباعی یا قطعے کا ذکر کیا تھا
تُو  غنی   اَز  ہر  دو  عالَم  من   فقیر
رُوز  محشر   عُذر   ہائے   مَن   پذیر
وَر    تو    می   بینی   حسابم    ناگزیر
اَز  نگاہِ  مصطفیۖ   پِنہاں  بگیر
(اے اللہ تعالی! تو دونوں جہانوں سے غنی  اور بے نیاز ہے  اور میں ایک بے سروساماں فقیر۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تُو قیامت کے دِن میرے گناہوں کے عُذر قبول کرلے  اور بخش دے  اور اگر تو میرا نامۂِ اعمال دیکھنا ضروری خیال کرے تو بھلے دیکھ لے لیکن میرے حضور، محمد مصطفیۖ کی نگاہوں سے چھُپا کر دیکھنا)
یہ بھی پڑھئے:
کیا توہین صرف عدلیہ ہی کی ہوتی ہے؟
پراجیکٹ عمران خان__ بہت مہنگا پڑ رہا ہے
ناقابل یقین کہانیوں میں گھری عطیہ فیضی کی اصل کہانی کیا ہے؟
جعفر ایکسپریس: ہائی جیکنگ کے پس پردہ کون کون سی قوتیں تھیں؟
وفات سے کوئی ایک برس قبل، فروری 1937 میں، ڈیرہ غازی خان کے ایک سکول ٹیچر، ماسٹر محمد رمضان عطائی کی دردمندانہ خواہش پر علامہ نے یہ رباعی اُنہیں عطا کر دی۔ اپنے ایک خط میں لکھا__ ” جنابِ من، میں ایک مدّت سے صاحبِ فراش ہوں۔ خط وکتابت سے معذور ہوں۔ باقی،  شعر کسی کی ملکیت نہیں۔ آپ بلاتکلف وہ رباعی جو آپ کو پسند آ گئی ہے، اپنے نام سے مشہور کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔”  رمضان عطائی نے کبھی یہ رباعی اپنے نام سے مشہور نہ کی بلکہ پوری داستان اپنی ڈائری میں لکھ کر محفوظ کردی۔ علّامہ نے یہ  رباعی اپنی کتاب ”ارمغان حجاز” کے مسودے سے خارج کردی۔ آج بھی یہ علّامہ کی کسی کتاب میں شامل نہیں۔ ‘ارمغان حجاز’ کے لئے علّامہ نے اسی مضمون کی ایک اور  رُباعی کہی
بَہ  پَایاں  چُوں  رَسَد  اِیں  عَالمِ  پِیر
شَوَد   بے   پَردہ   ہَر  پوشِیدہ  تَقدیر
مَکُن   رُسوا    حضورِ   خَواجہ   مَارَا
حسابِ  مَن  زَ چَشمِ   اُو   نِہاَں  گیر
(جب یہ عالمِ پیر  اپنے انجام کو پہنچ جائے اور حشر بپا ہو۔ جس روز ہر پوشیدہ تقدیر، ہر چھُپی ہوئی بات ظاہر ہوجائے، تو اے خدا! مجھے اپنے حضورۖ کے سامنے رُسوا  نہ کرنا،  میرا  نامۂِ اعمال آپۖ  کی نگاہوں سے چھپا لینا)
”رموزِ بے خودی” کی ایک فارسی نظم میں علّامہ نے اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ عنفوانِ شباب کے دن تھے۔ ایک بھکاری اُن کے دروازے پر پیہم صدا  لگا  رہا تھا اور ٹلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ غصے میں آکر نوجوان اقبال نے اُسے لاٹھی دے ماری۔ فقیر نے اب تک بھیک مانگ کر جو کچھ سمیٹا تھا، سب زمین پر بکھر گیا۔ علّامہ کے والد، شیخ نور محمد، یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اُن کے ہونٹوں سے ایک آہِ جگر سوز نکلی۔ بہت مضطرب ہوئے۔ ستارے جیسا ایک آنسو آنکھ سے ٹپکا  اور بولے کہ کل میدانِ حشر میں جب رسول اللہ ۖ  کی ساری امت جمع ہوگی  اور حضور ۖ  مجھ سے سوال کریں گے کہ
حَق جوانے مُسلمے بَا  تُو سپُرد
کو نصِیبے  اَز دَبِستَانَم  نَبُرد
اَز تُو اِیں یَک کارِ آسَاں ہَم نَہ شُد
یعنی آں  اَنبَارِ گِل،  آدَم نَہ شُد
(حضو رۖ  فرمائیں گے۔”  اللہ تعالی نے ایک مسلم نوجوان تیرے حوالے کیا تھا لیکن اُس نوجوان نے میرے ادب گاہِ اخلاقیات سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ تُو اتنا آسان سا کام بھی نہ کرسکا کہ مٹی کے ایک تودے کو آدمی بناسکتا”)
اَندَکے  اَندِیش  و یَاد آر  اے پِسَر
اِجتماعِِ     اُمّتِ      خیرُ    البَشَر
بَاز   اِیں  رِیشِ  سَفیدِ   مَن   نَگَر
لَرزۂ ِ    بِیم   و   اُمیدِ    مَن   نَگَر
بَر    پِِدَر  اِیں  جَورِ   نَازِیبَا   مَکُن
پِیشِ   مَولاَ   بَندَہ   رَا   رُسوَا   مَکُن
غُنچَہِ    اِی    اَز   شَاخسَارِ   مُصطفیۖ
گُل   شو   اَز   بَادِ   بَہارِ    مُصطفیۖ
فِطرَتِ  مُسلِم  سَراپا  شَفقَت  اَست
دَرجَہاں دَست وزُبَانَش رَحمت اَست
اَز     مَقامِ اُو  اگر   دُور     اِیستِی
اَز       مِیانِ   مَعشر    مَا   نِیستِی
( سو بیٹا تھوڑی دیر کے لئے سوچ  اور  رسول اللہ ۖ  کی اُمّت کے اجتماعِ عظیم کو تصوّر میں لا۔ پھر میری اِس سفید داڑھی کو دیکھ۔ مجھ پر نظر ڈال کہ کس طرح میں امید اور ناامیدی کے خیال سے لرز  رہا ہوں۔ اپنے باپ پر نازیبا ظلم نہ کر۔ آقاۖ کے سامنے اُس کے غلام کو رُسوا  نہ کر۔ خود پر نظر کر کہ  تو گلستانِ مصطفیۖ  کا ایک غنچہ ہے۔ بادِ بہارِ مصطفیۖ سے کھِل کر پورا  پھول بن جا۔ مسلمان کی فطرت تو سراپا شفقت ومحبت ہے۔ ساری دنیا کے لئے اُس کا ہاتھ  اور اُس کی زبان رحمت ہے۔ اگر تُو میرے حضورۖ کے مقام  اور  اسوۂِ حسنہ سے دُور ہے  تو  ہمارے قبیلے سے بھی نہیں ہو)
  1905 میں حصولِ تعلیم کے لئے بحری جہاز سے لندن جاتے ہوئے، اٹھائیس سالہ محمد اقبال نے، عَدن کی بندرگاہ کے نواح سے، ‘ایڈیٹر وطن’  مولانا انشاء اللہ خان کو جو خط لکھا، اُسے اقبال شناس اہلِ فکر،  ‘نثری نعت’  قرار  دیتے ہیں۔ اقبال نے لکھا
”اب ساحل قریب آتا جاتا ہے۔ چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جا پہنچے گا۔ ساحلِ عرب کے تصوّر نے جو  ذوق وشوق  اِس وقت دِل میں پیدا  کردیا ہے، اُس کی داستان کیا عرض کروں۔ بس دل یہی چاہتا ہے کہ  زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں۔ اے عرب کی مقدس سرزمین! تجھ کو مبارک ہو۔ تم  ایک پتھر تھیں، جس کو  دنیا کے معماروں نے رَدّ کردیا تھا۔ مگر  ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا فسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کے تہذیب وتمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔ تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقشِ قدم دیکھے۔ اور تیرے کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازتِ آفتاب سے محفوظ رکھا ہے۔ کاش میرے بدکردار جسم کی خاک تیرے بیابانوں میں اُڑتی پھرے اور یہی آوارگی میرے تاریک دنوں کا کفارہ ہو۔ کاش تیرے صحرائوں میں لُٹ جائوں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہوکر، تیری دھوپ میں جلتا ہوا،  اور پائوں کے آبلوں کی پروا  نہ کرتا ہوا،  اُس پاک سرزمین میں جاپہنچوں جہاں کی گلیوں میں اذانِ بلال کی عاشقانہ آواز گونجی تھی۔”
اٹھائیس سال کا نوجوان، تب نہ اقبال بنا تھا نہ علّامہ، نہ سَر نہ فلسفی، نہ شاعر مشرق نہ مصوّرِ پاکستان، لیکن عشقِ رسولۖ  کی مُشکبو تمازت اُس کے ہر قطرۂِ خوں میں سلگ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: آوازہاقبالامت مسلمہعربعرفان صدیقیمحمد صلی اللہ علیہ وسلممصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
Previous Post

کیا توہین صرف عدلیہ ہی کی ہوتی ہے؟

Next Post

آسماں در آسماں: فنکاروں کی کہانیاں جو تقسیم کی لہرکا شکار ہوئے

سینیٹر عرفان صدیقی

سینیٹر عرفان صدیقی

عرفان صدیقی استاد ہیں، ادیب ہیں، شاعر یا کالم نگار؟ یہ بحث اب پرانی ہوئی۔ قدرت نے انھیں یہ سب خوبیاں عطیہ کی ہیں لیکن ایک انعام اس سے بھی بڑا ہے۔ ہمارے یہاں ادیب اور شاعر حضرات اپنے سیاسی نظریات چھپاتے ہیں لیکن عرفان صاحب نے ان مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر اپنی سیاسی شناخت کو اجاگر کرنے میں بھی کسی عذر سے کام نہیں لیا۔ یہ طرز عمل ہمارے ان بزرگوں کی پیروی میں تھا جنھوں نے قلم و قرطاس سے بھی اپنا تعلق رکھا اور اپنی آدرشوں کے لیے جدوجہد کے لیے سیاسی راستہ بھی اختیار کیا۔ عرفاں صاحب ہماری اسی تہذیب کی زندہ نشانی ہیں۔

Next Post

آسماں در آسماں: فنکاروں کی کہانیاں جو تقسیم کی لہرکا شکار ہوئے

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions