• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home اہم خبریں تصویر وطن

پاپولزم کی موجِ بلاخیز اور جمہوریت

پاپولزم کی آفات کیا ہیں، یوکرین پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے، یوکرین کے زیلنسکی اور امریکا کے ڈونلڈ ٹرمپ کے پاپولزم میں  فرق کیا ہے، اس ضمن میں پاکستان کا تجربہ کیسا رہا؟ || گرہ کھولتے ہیں سینیٹر عرفان صدیقی

سینیٹر عرفان صدیقی by سینیٹر عرفان صدیقی
March 10, 2025
in تصویر وطن
0
پاپولزم کی موجِ بلاخیز اور جمہوریت
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)
امریکی اور یوکرینی صدور، ڈونلڈ ٹرمپ اور والدیمیر زیلنسکی  کے درمیان حالیہ مکالمہ  چند منٹوں پر مشتمل تھا لیکن اِس مکالمے سے شروع ہونے والا ”مکالمہ” ختم ہونے  میں نہیں آ رہا۔ شرکائے نشست کی گفتگو، الفاظ اور لب ولہجہ ہی نہیں، ”بدن بولی” (Body Language) بھی دیدنی تھی۔ یہ اُس عوامیّت ( پاپولزم )کا عُریاں مظاہرہ تھا جس کی کرشمہ سازیاں اَب یورپ، امریکہ  اور لاطینی امریکہ تک ہی محدود نہیں رہیں، ایشیا تک آن پہنچی ہیں۔ کوئی آٹھ دہائیاں قبل ہٹلر کے مشیر گوئبلز کے پاس صرف ریڈیو تھا جس کے ذریعے اُس نے ہٹلر کا ایک مسیحاصفت بت تراشا  اور خلقِ خد کو  اُس کے سحر میں مبتلا کردیا۔ آج بھی ‘سامری کے بچھڑے’ تخلیق کرنے کا فن، تشہیر کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی کوکھ سے پھوٹتا ہے جس نے گوئبلز کے ریڈیو کو،  صدیوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔
یوکرین کے زیلنسکی اور  امریکہ کے ٹرمپ کی زندگی میں سب سے بڑی مماثلت یہ ہے کہ دونوں کا تعلق شوبز سے رہا۔ دونوں مختلف ٹی۔وی شوز، ڈراموں اور فلموں کے ذریعے، عوام کو تفریح فراہم کرتے رہے۔ ٹرمپ برسوں ایک مقبول ٹی۔وی ریلیٹی شو، کے میزبان اور ایگزیکٹو پروڈیوسر  رہے۔ کئی فلموں اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں اداکاری کی۔ سیاست میں بڑا  نام پانے سے بہت پہلے وہ امریکیوں کی جانی پہچانی، مانوس شخصیت بن چکے تھے۔ 2017  اور  اَب، 2025 میں اُنہیں ووٹ دینے والوں کی اچھی خاصی تعداد کو ٹرمپ کے کسی فلسفے، ویژن، نظریے یا منشورِ سیاست سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا۔ یہ ایک اندھا گونگا بہرہ، قبیلۂِ عشاق تھا جسے ”فین کلب” (Fan Club) کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
تہاڑ جیل میں رمضان کے روزے، افتخار گیلانی کے انکشافات
خالد فتح محمد نے تھوڑے سے وقت میں بہت سا کیسے لکھ لیا؟
خان صاحب ! کیا آپ کی بھی کچھ حدود ہیں ؟
دھار پہ چلتے چلتے ہو گئے آدھے آدھے سارے لوگ
زیلنسکی کا پس منظر بھی یہی تھا۔ وہ برسوں شوبز میں ایک قہقہہ بار مسخرے (Comedian) کے طورپر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ کم وبیش ایک چوتھائی صدی تک ٹی۔وی، ڈراموں، فلموں اور شوبز میں لوگوں کو ہنستے ہنساتے رہے۔ دس بڑی اور کامیاب کامیڈی فلموں میں اداکاری کی۔ زیلنسکی نے اپنے ایک انتہائی مقبول ٹی۔وی سیریل ”عوام کا خادم” (Servant of the people) میں ایسے سکول ٹیچر کا کردار  ادا  کیا جس کے دِل میں ملک کا صدر بننے کی آرزو  کا کنول کھلا  اور  پھر وہ سکول ٹیچر  اپنی کرتب کاریوں کے بل پر  ایک دن واقعی ملک کا صدر  بن گیا۔ شاید یہ سیریل کرتے ہوئے زیلنسکی کو  اپنی بے پناہ مقبولیت کا  اندازہ ہوا  اور  اُس نے یوکرین کا صدر بننے کی ٹھان لی۔ 2019 میں جب  اُس نے یکایک  اعلان کیا کہ  وہ صدارتی الیکشن لڑنے جارہا ہے  تو  بہت سے لوگوں نے  اُسے معروف ”جگت باز” کی ایک جگت جانا۔ اُس نے  اپنے مقبول ڈرامہ سیریل کے نام پر  اپنی سیاسی پارٹی کا نام بھی  ‘خادمِ عوام’  (Servant of the People) رکھا۔ یوکرین میں خواندگی کی شرح سو فی صد بتائی جاتی ہے۔ ساڑھے تین کروڑ افراد میں سے ایک بھی ناخواندہ نہیں۔ لیکن جب اُن کے ہونٹوں پرمسکراہٹیں بکھیرنے، اُن کے دلوں کو گرمانے  اور اُن کی شامیں دھنک رنگ بنانے والا مقبول اداکار، سیاست کے میدان میں اُترا  تو  پڑھے لکھے لوگوں میں سے بہت کم نے سوچا کہ کیا ایک عمرنگارخانوں کی نذر کردینے والا اداکار سیاست وقیادت کے معیار پر بھی پورا اُترے گا یا نہیں؟ بس ایک لہر سی اٹھی اور یوکرین  اِس موجِ تُند خو  میں بہتا چلاگیا۔
زیلنسکی نے ”عظیم تر یوکرین” کا نعرہ لگایا۔ کرپشن کے خلاف جہاد کا پیغام دیا۔ روس کی بالا دستی کے تناظر میں ”غلامی نامنظور”  اور  ”حقیقی آزادی” کا بیانیہ تراشا۔ سوشل میڈیا کا رنگ جمایا اور 73 فی صدسے زائد ووٹ لے کر یوکرین کا صدر منتخب ہوگیا۔ یہ دنیا میں ‘عوامیّت’ (Populism ) کی ایک  اور بڑی فتح تھی۔ مقبول مزاحیہ اداکار نے یوکرین کو کچھ دیا  یا  نہیں،  اپنی بے ڈھب پالیسیوں اور غیرسنجیدہ اقدامات سے روس کے ساتھ تنائو کو ہوا  دی جس کا نتیجہ فروری 2022  میں روسی حملے کی صورت میں نکلا۔ تین برس سے یہ جنگ جاری ہے۔  ایک لاکھ کے لگ بھگ افراد  اِس کا لقمہ تر  بن چکے ہیں۔ لاکھوں نقل مکانی کرگئے ہیں۔ لاتعداد بے گھر ہوگئے ہیں۔ اَن گنت معاشی،  سماجی  اور سیاسی مشکلات کا جنگل گھنا ہوتا جا  رہا ہے۔ امداد کا امریکی سرچشمہ خشک ہوگیا ہے  اور عوامیّت کے بجرے پر سوار  اداکار،  اپنے سے بڑے اور طاقت ور، شاہسوارِ ‘عوامیّت’ کے حضور بیٹھا تحقیروتذلیل کے تازیانے کھا  رہا ہے۔ ٹرمپ کا مطالبہ ہے کہ ہم نے تمہیں اربوں ڈالر دیے، اب تم بدلے میں ہمیں اپنی قیمتی معدنیات کی کانوں تک رسائی دو  تاکہ ہم اپنی رقم مع سود  مرکب وصول کرسکیں۔ زیلنسکی ہزار پیچ وتاب کھائے، اُسے اپنے سے بڑے ”پاپولسٹ” کے سامنے جھکنا ہوگا۔ تین برس قبل جنگ چھڑی تو زیلنسکی نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی۔ وڈیوخطابات کی برکھا برسنے لگی۔ رنگارنگ بیانیے تراشے جانے لگے۔ بیوی بچوں کو کسی نامعلوم مقام پر پہنچا کر خود فوجی وردی پہن لی اور ”ٹک ٹاک” کا نمونہ بن گیا۔ اُس کی شہرت90 فی صد سے آگے نکل گئی لیکن  برسرِ زمین حقیقت یہ ہے کہ آج یوکرین جغرافیائی، سیاسی اور معاشی حوالے سے وہ نہیں رہا، جو چھ برس پہلے تھا۔
2019 سے اب تک انتخابات نہیں ہوئے۔ مارشل لا نافذ ہے اور گھرگھر بے یقینی بال بکھیرے ماتم کر  رہی ہے۔ اگلے چند دِنوں میں چھوٹا ‘شعبدہ باز’  اپنے ملک کی بیش قیمت معدنیات کا خزانہ، طشتری میں رَکھ کر بڑے ‘شعبدہ باز’ کو پیش کرنے جا  رہا ہے۔ بڑا شعبدہ باز، امریکہ کو کس حال میں چھوڑ جائے گا؟ اس کے لئے چار سال انتظار کرنا ہوگا۔
امریکہ اور یوکرین میں عوامیّت (Populism) کے مظاہروں نے، جہاں تاریخ عالم کے بہت بڑے عوامی پرستار، ہٹلر کی یاد تازہ کردی ہے وہاں یہ نہایت ہی سنجیدہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ  اگر ”عوامیّت” کی لہر پھیلتی چلی گئی اور سیاسی قیادت جمی جمائی ، پختہ کار اور سنجیدہ جماعتوں کے بجائے ٹیلی ویژن کی سکرینوں، فلمی نگار خانوں، کھیل کود کے میدانوں اور تماشہ گر سرکسوں سے جنم لیتی رہی تو حقیقی جمہوریت پر کیا گذرے گی؟  اور ہتھ چھُٹ مسخرے دنیا کو کن خطرات سے دوچار کردیں گے؟
سیاست پر نگاہ رکھنے اور انسانوں کے نظم اجتماعی کے خدوخال تراشنے والے مفکرین کو سوچنا ہوگا کہ کیا ایسی غارت گر ”عوامیّت” کو لگام ڈالنے کا کوئی طریقہ ہے یا نہیں جو حقیقت سے بعید، جھوٹ پر مبنی اور جذبات انگیز نعروں سے تلاطم اُٹھاتی،  اور ہر شعبہ زندگی کو  زوال، انحطاط  اور تباہی سے ہم کنار کرکے،  ایک دن، ہٹلر کی طرح، کسی تہہ خانے میں خود کشی کرلیتی ہے۔ خود کشی تو کرلیتی ہے لیکن ساری دنیا میں جنگ کا  الائو بھڑکا کر انسانیت کو سیلِ خوں کی نذر کردیتی اور خود  اپنے ملک کو کھنڈر بنا جاتی ہے۔
”عوامیّت” کا زہر تہذیبی اقدار، سماجی رویوں، مسلّمہ اخلاقیات اور معاشرتی آداب وروایات کی رگوں میں بھی سرطان بو  رہا ہے۔ ‘عوامیّت’ کے موضوع پر گرفت رکھنے والے آسٹریلوی پروفیسر، بنجمن موفٹ (Benjamin Moffitt) کا کہنا ہے کہ
“There are other traits associated with the typical populist leader. One is “Bad Manners” or behaving in a way that is not typical of a politician.”
”معروف معنوں میں ‘عوامیّت’ زدہ لیڈر سے کچھ اور خصوصیات بھی جڑی ہوتی ہیں، ان میں سے ایک ہے ”بُرے آداب واطوار” (Bad Manners)  یا  پھر  ایسا طرز عمل اختیار کرنا جو  ایک سیاستدان کے طرزِ عمل کے منافی ہو۔”
”  بُرے آداب واطوار” کھوکھلے نعروں اور بے سروپا بیانیوں میں گُندھی ”عوامیّت” کا ایک تلخ تجربہ ہمارے ہاں بھی ہوا ہے جس کے اثرات ونتائج، جانے کب تک ہماری سیاست، معیشت، اخلاقیات، تہذیبی رویوں اور جمہوری اقدار کو متاعِ کوچہ وبازار بنائے رکھیں گے۔
٭٭٭٭٭
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: آوازہامریکاپاپولزمپاکستانڈونلڈ ٹرمپزیلنسکیعرفان صدیقییوکرین
Previous Post

تہاڑ جیل میں رمضان کے روزے، افتخار گیلانی کے انکشافات

Next Post

شام کی حالیہ خونریزی اور ممکنہ نئی قیادت

سینیٹر عرفان صدیقی

سینیٹر عرفان صدیقی

عرفان صدیقی استاد ہیں، ادیب ہیں، شاعر یا کالم نگار؟ یہ بحث اب پرانی ہوئی۔ قدرت نے انھیں یہ سب خوبیاں عطیہ کی ہیں لیکن ایک انعام اس سے بھی بڑا ہے۔ ہمارے یہاں ادیب اور شاعر حضرات اپنے سیاسی نظریات چھپاتے ہیں لیکن عرفان صاحب نے ان مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر اپنی سیاسی شناخت کو اجاگر کرنے میں بھی کسی عذر سے کام نہیں لیا۔ یہ طرز عمل ہمارے ان بزرگوں کی پیروی میں تھا جنھوں نے قلم و قرطاس سے بھی اپنا تعلق رکھا اور اپنی آدرشوں کے لیے جدوجہد کے لیے سیاسی راستہ بھی اختیار کیا۔ عرفاں صاحب ہماری اسی تہذیب کی زندہ نشانی ہیں۔

Next Post
شام کی حالیہ خونریزی اور ممکنہ نئی قیادت

شام کی حالیہ خونریزی اور ممکنہ نئی قیادت

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions