• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home اہم خبریں تصویر وطن

 مسئلہ_ بند نہیں، کھُلی عدالتیں ہیں

کیا عدالتوں کے بند رہنے میں پاکستان کا فائدہ ہے، وہ کون کون سے کارنامے ہیں جو قیام پاکستان سے اب تک کھلی عدالتوں نے انجام دیے؟ بتاتے ہیں سینیٹر عرفان صدیقی

سینیٹر عرفان صدیقی by سینیٹر عرفان صدیقی
July 29, 2024
in تصویر وطن
0
 مسئلہ_ بند نہیں، کھُلی عدالتیں ہیں
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)
گزشتہ ہفتے، تین معزز جج صاحبان نے، مختلف مواقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس، مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسٰی  نے  جسٹس اطہرمن اللہ کے تحریر کردہ ایک فیصلے سے جزوی اختلاف کرتے ہوئے اپنے نوٹ میں افسوس کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ خود ہی جلد فیصلہ سنانے کے اصول پر عمل نہیں کرتی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ دسمبر2023 میں ہوگیا تھا جسے تحریر کرنے کی ذمہ داری جسٹس اطہرمن اللہ کو سونپی گئی تھی۔ جسٹس صاحب کو یہ فیصلہ لکھنے میں 223 دِن (ساڑھے سات ماہ) لگ گئے۔ اس سے قبل خصوصی نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلیں سننے کے حوالے سے قاضی صاحب کی یہ رائے ایک کے مقابلے میں دو  ووٹوں سے ردّ کردی گئی کہ ”کسی فریادی کی داد رسی، ججوں کی تفریحی تعطیلات سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔”
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عامر فاروق نے اسلام آباد ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے  اس مسلّمہ تصوّرِ انصاف کی طرف توجہ دلائی کہ ”ججوں کے فیصلوں کا سرچشمہ، اُن کا ضمیر یا جذبات نہیں، آئین اور قانون ہونا چاہیے۔”
عزت مآب جسٹس اطہرمن اللہ نے سات سمندر پار، نیو یارک بار سے خطاب کرتے ہوئے اپنی عدالتوں کے کچھ میلے کچیلے  کپڑے دھوئے اور امریکیوں کو بتایا کہ ”ہمارے ہاں مارشل لائوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب جب ڈکٹیٹر حملہ آور ہوئے، عدالتیں بند تھیں۔ اگر کھُلی ہوتیں تو ہم دیکھتے کہ کون مائی کا لال آئین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتا ہے۔” دست بستہ گذارش ہے کہ عدالت کبھی بند نہیں ہوتی۔ وہ کریانے کی دکان نہیں کہ تالا پڑ گیا تو سودا  خریدنا ممکن نہ  رہا۔ عدالت چوبیس گھنٹے کھُلی رہتی ہے اور جج ہمہ وقت جج ہوتا ہے۔ ہماری عدالتوں نے جب چاہا، عدل گاہوں کے تالے کھول کر بیٹھ گئیں۔ جہاں تک چار مارشل لائوں کا تعلق ہے، عدالتیں کھُلیں بھی تو منصفینِ کرام کی ساری توجہ کورنش بجا لانے، دستِ آمر پر بیعت کرنے اور اُس کی منہ زور خواہشات کی تکمیل کے لئے نظریۂِ ضرورت میں نئے بیل بوٹے ٹانکنے پر مرکوز ہوگئی۔
یہ بھی پڑھ لیجئے:
احمد حاطب صدیقی اور ان کا چلبلا شعر
بلوچ راجی مچی, خوشحال بلوچستان اور مضبوط پاکستان کی نوید
غدّاران وطن اور  جارُوب کَش بیانیہ
استاد جس نے بالٹیاں اور لوٹے بنائے اور بیچے
مجھے 20 جون 2001 یاد آ رہا ہے جب علی الصبح خبر چلی کہ جنرل مشرف نے اپنے دستخطوں سے ایک حکم نامہ جاری کرکے منتخب صدر، محمد رفیق تارڑ کو معزول کردیا ہے اور اپنے ہی دستخطوں سے جاری ایک اور فرمان کے تحت خود کو صدرِ پاکستان کے منصب پر فائز کرلیا ہے۔ یہ بدھ کا دِن تھا۔ سپریم کورٹ سمیت پاکستان بھر کی عدالتیں پورے طمطراق سے کھُلی تھیں۔ ایوانِ صدر سے دَس قدم کے فاصلے پر واقع، سپریم کورٹ بدستور انصاف بانٹ رہی تھی۔ رفیق تارڑ ظہر کی نماز پڑھ کر لاہور چلے گئے۔ سرِشام، چیف جسٹس، ارشاد حسن خان، لمبے مور پنکھوں والی عبا (جسے دو حاجبوں نے تھام رکھا تھا) پہنے ایوانِ صدر آئے۔ چیف آف آرمی سٹاف، چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف سے عہدۂِ صدارت کا حلف لیا، جھکتے ہوئے آداب بجالائے اور اگلے دن پھر سے انصاف بانٹنے روانہ ہو گئے۔کسی سے اتنا بھی نہ پوچھا کہ صدر رفیق تارڑ کہاں ہیں ؟
سو ہمارا مسئلہ بند نہیں، کھُلی عدالتیں ہیں۔ پاکستان پر ٹوٹتی بیشتر قیامتوں کا صور کھُلی عدالتوں نے ہی پھونکا۔ اس کا سلسلہ 1958 کے پہلے مارشل لاء سے چار برس قبل 1954 میں شروع ہوگیا تھا جب جسٹس منیر کی ‘ کھُلی عدالت’ نے، اسمبلی پر گورنرجنرل کے حملے کو سندِ جواز عطا کرتے ہوئے مولوی تمیزالدین کو گھر بھیج دیا تھا۔ اب تو آئین کو مسخ کرنا، من مانی تشریح کرنا یا من پسند آئین لکھ لینا روز کا معمول بن چکا ہے۔’ کھُلی عدالتیں’، یہ سب کچھ ”کھلم کھُلا” کرتی اور اسے ”کامل انصاف” سے تعبیر کرتی ہیں۔
ایسا ہی ایک ‘دیدہ دلیر’ فیصلہ 12 جولائی کو ”کھُلی” سپریم کورٹ کے مطلعِ عدل پر مہر عالمِ تاب کی طرح طلوع ہوا۔ ”نظریۂِ سہولت” سے کسب فیض کرتے ہوئے آئین کے ایک مرنجاں مرنج آرٹیکل، 187 کے سیپ سے ”مکمل انصاف” کا گوہرِ تابدار نکال کے بتایا گیا کہ آئین میں چاہے کچھ بھی لکھا ہو، قانون کچھ بھی کہتا رہے، فیصلہ ‘وسیع تر انصاف’ کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس عجوبۂِ روزگار فیصلے نے ‘قانون’ ہی کو نہیں آئین کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ پہلے تو آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق، اپنی خوش دلانہ مرضی سے سُنّی اتحاد کونسل میں شامل ہوجانے والے ارکان کو حکم صادر ہوا کہ تم سُنّی اتحاد کونسل کو چھوڑ دو (کچھ پتہ نہیں کس قانون کے تحت) پھر ارشاد ہوا کہ بتائو تم نے الیکشن کس جماعت کی تائید سے لڑا اور فوراً  اس میں شامل ہوجائو (کس قانون کے تحت کچھ خبر نہیں) ”مکمل انصاف” کے اصول کے تحت یقینی بنایاگیا کہ سُنّی اتحاد کونسل سے نکل کر پھر سے آزاد ہوجانے والا کوئی رُکن، آئین کے تحت اپنی آزادانہ مرضی سے کسی جماعت میں نہ جاسکے، سوائے پی۔ٹی۔آئی کے۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 51 کی ذیلی شق ‘5۔ای’ قرار دیتی ہے کہ حلف اٹھانے کے بعد ہر آزاد  رُکن کو تین دِن کے اندر اندر کسی جماعت میں شامل ہونا ہوگا ورنہ وہ آزاد تصوّر ہوں گے۔ پی۔ٹی۔آئی حمایت یافتہ ارکان نے یہ حق استعمال کرلیا۔ سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ حق دوسری بار کیسے دیاجاسکتا ہے؟ اور تین دِن کی آئینی معیاد کو کس طرح پندرہ دفتری دنوں (Working Days) تک پھیلا یا جاسکتا ہے ؟ یہ آئین کی تشریح وتعبیر کا کون سا فارمولا ہے؟ صورت حال یہ ہے کہ 12 جولائی کے بعد اب تک چھے ہفتہ وار اور محرم کی دو تعطیلات آ چکی ہیں۔ لہذا پندرہ دفتری دنوں کی معیاد عملاً 23 دنوں پر محیط ہوگئی ہے جو کوئی اور چھٹی نہ آئی تو 4 اگست تک جاری رہے گی۔ اگر آئین میں واضح، دو ٹوک اور غیرمبہم طورپر تین دن کی معیاد لکھ دی گئی ہے تو یہ 23 دنوں تک کیسے پھیلائی جاسکتی ہے؟ آئین کے ساتھ ساتھ ، الیکشن ایکٹ 2017 کی درجنوں شقیں ”مکمل انصاف” کی بھٹی میں جھونک دی گئی ہیں۔ نظرثانی درخواستوں کے بارے میں کہہ دیا گیا ہے کہ وہ تعطیلات گذر جانے پر، 9 ستمبر کے بعد ہی لگیں گی۔ تب تک فیصلے پر کیا گذرتی ہے؟ کسی کو خبر نہیں۔
  ایسا ہی ایک فیصلہ عالی مرتبت عطا بندیال کی ‘کھُلی عدالت’ نے مئی 2022 میں دیا تھا جب آئین کے آرٹیکل 63 (1) میں خود ہی اپنی آئین نویسی کا پیوند لگا کر حمزہ شہباز کی حکومت کو گھر بھیجنے اور تحریکِ انصاف کو تخت پر بٹھانے کا اہتمام کرلیا گیا تھا۔
‘کھُلی عدالتوں’ کے ایسے ہی کرشمہ ساز فیصلوں کے باعث ہماری عدلیہ دنیا کے 142 ممالک میں سے 130 اور خطے کے چھ ممالک میں سے پانچویں نمبر پر ہے۔ کاش تعطیلات کا دورانیہ کچھ اور بڑھا دیا جائے اور ہماری عدالتیں سال کا بیشتر حصہ بند رہا کریں۔ سپریم کورٹ میں پچپن ہزار مقدمات پہلے ہی زیرالتوا پڑے ہیں۔ یہی ہوگا کہ کچھ اور بڑھ جائیں گے، آئین و قانون کی رسوائی تو نہ ہوگی۔ کالم تمام ہورہا ہے اور ابھی ابھی ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح ذہن میں لپکا ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ کے بقول اگر عدالتیں کھلی ہوتیں تو 12 اکتوبر1999 کو مشرف، ایک منتخب وزیراعظم کا تختہ نہ  اُلٹ سکتا۔ بجا، لیکن اس صورت میں جج صاحب کو مشرف کے عہدِ جمہور میں کم وبیش دو سال تک 5  اہم وزارتوں کے حامل انتہائی معتبر صوبائی وزیر کا مقامِ بلند کیسے ملتا؟ یہ کوئی کم زیاں ہوتا؟
٭٭٭٭٭٭
کیا عدالتوں کے بند رہنے میں پاکستان کا فائدہ ہے، وہ کون کون سے کارنامے ہیں جو قیام پاکستان سے اب تک کھلی عدالتوں نے انجام دیے؟ بتاتے ہیں سینیٹر عرفان صدیقی
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: aawazaآوازہجسٹس اطہر من اللہجسٹس منیرسپریم کورٹعرفان صدیقیقاضی فائز عیسییمارشل لا
Previous Post

احمد حاطب صدیقی اور ان کا چلبلا شعر

Next Post

عالمی یوم آئین اور آئین پاکستان

سینیٹر عرفان صدیقی

سینیٹر عرفان صدیقی

عرفان صدیقی استاد ہیں، ادیب ہیں، شاعر یا کالم نگار؟ یہ بحث اب پرانی ہوئی۔ قدرت نے انھیں یہ سب خوبیاں عطیہ کی ہیں لیکن ایک انعام اس سے بھی بڑا ہے۔ ہمارے یہاں ادیب اور شاعر حضرات اپنے سیاسی نظریات چھپاتے ہیں لیکن عرفان صاحب نے ان مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر اپنی سیاسی شناخت کو اجاگر کرنے میں بھی کسی عذر سے کام نہیں لیا۔ یہ طرز عمل ہمارے ان بزرگوں کی پیروی میں تھا جنھوں نے قلم و قرطاس سے بھی اپنا تعلق رکھا اور اپنی آدرشوں کے لیے جدوجہد کے لیے سیاسی راستہ بھی اختیار کیا۔ عرفاں صاحب ہماری اسی تہذیب کی زندہ نشانی ہیں۔

Next Post
عالمی یوم آئین اور آئین پاکستان

عالمی یوم آئین اور آئین پاکستان

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions