استاد گرامی سینیٹر پروفیسر عرفان صدیقی نے کافی عرصے کے بعد کلاسیکی رنگ میں ایک اور غزل کہی ہے جس میں واردات قلبی کے ساتھ ابتلائے زمانہ کی جھلکیاں بھی ،ملتی ہیں۔ عرفان صدیقی صاحب کا یہی اسلوب انھیں اس عہد کے شعرا میں ممتاز کرتا ہے
نجات آشفتگیِ سر کا کوئی طریقہ تو ہو گا آخر
محیطِ صحرا سے اس طرف کا بھی کوئی رستہ تو ہو گا آخر
یہ سرکش و تند و تیز موجیں سمندروں کی سرشت بیں تو
اسی تلاطم کے پیچ و خم میں کوئی جزیرہ تو ہو گا آخر
اگر یونہی بے نمو زمینوں کو سینچنا مشغلہ رہا تو
کوئی بھی رت آئے جائے لا حاصلی نتیجہ تو ہوگا آخر
خدائے ارض و سما مرا بھی خدائے رحمان و مہرباں ہے
تو میرے جیسے تہی وسیلہ کا بھی وسیلہ تو ہو گا آخر
یہاں تو موسم اسی کی یادوں کی خوشبوؤں سے مہک رہے ہیں
وہاں بھی بے رنگ و بوگلاب خزاں رسیدہ تو ہو گا آخر
سنا ہے تسبیح و ذکر و اوراد ہر مرض کا علاج ہیں تو
جو بھول جائیں انھیں بھلانے کا بھی وظیفہ تو گا آخر
وہ ایک پل میں ہزاروں صدیوں کے فاصلے پر چلا گیا ہے
تو میری تقدیم وقت میں بھی اک ایسا لمحہ تو ہو گا آخر
بطور کردار اس کی تمثیل زندگی سے نکل گیا ہوں
مگر کہانی میں مختصر سا مرا حوالہ تو ہو گا آخر
کسی بیاباں میں عافیت کی کوئی تو بستی ملے گی عرفاں
کہیں مرے جیسے کم نصیبوں کا بھی کوئی قبیلہ تو ہو گا آخر