اہل سرکار ودربار کے چہروں پر آسودگی اور بشاشت کی شفق بکھری ہوئی ہے۔ اونچے ایوانوں سے مبارک سلامت کی صدائیں اٹھ رہی ہیں۔ احساس کامرانی سے پیشانیاں دمک اٹھی ہیں۔ فتح مبین کے اعلانات کی گونج تھمنے میں نہیں آرہی۔ اس فاتحانہ تفاخر اور چکا چوند کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ حکومت نے پاکستان یا عوام کے لئے کوئی تاریخی کارنامہ سرانجام دے ڈالا ہے۔ پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ منزلِ مراد تک آن پہنچا ہے۔ عوام کا لہو چوستی مہنگائی پر قابو پالیاگیا ہے۔ بڑھتی ہوئی بے ہنگم بے روزگاری کو لگام ڈال دی گئی ہے۔ اب ہمیں کشکول اٹھا کر گلی گلی صدا لگانے اور تماشائے اہل کرم دیکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ آئی۔ایم۔ ایف کی زنجیریں کٹ گئی ہیں۔ پاکستان اب دوسرے ممالک کو اربوں ڈالر کے قرضے دینے لگا ہے۔ نگر نگر سے اعلی تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد نوکریاں تلاش کرنے پاکستان آرہے ہیں۔ ہمارا روپیہ، ڈالر کو پٹخنی دے کر بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان کی کرنسی کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ہماری معیشت استحکام وعروج کی نئی بلندیوں کو چھونے لگی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی فلک بوس رفعتوں سے ہم کنار ہوگئی ہے۔ اب امریکی صدر جو بائیڈن، ہمارے وزیراعظم سے شرفِ ہم کلامی حاصل کرنے کے جتن کررہا ہے۔ نریندر مودی صبح شام ”مِس کالیں“ دے رہا ہے لیکن وزیراعظم کا اے۔ڈی۔سی بھی بات کرنے کو تیار نہیں۔ کشمیر کے بارے میں امت مسلمہ سمیت ساری دنیا ہماری ہم نوا ہوگئی ہے۔ بھارت کسی آن مقبوضہ کشمیر سے دستبردار ہوکر، رائے شماری کے مطالبے کے سامنے سرنگوں ہونے والا ہے، افغانستان ہمارے اہداف ومقاصد کے سانچے میں ڈھل گیا ہے۔ عالمی برادری کے تمام شکوک وشبہات دور ہوگئے ہیں۔ ہمیں گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں ڈالنے کے لئے، فاٹف کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیاگیا ہے۔
ان میں سے کوئی بات بھی حکومت کے چہروں پر کھیلتی ست رنگی قوسِ قزح کا سبب نہیں۔ اس جشن مُسرّت کی وجہ یہ دل کُشاٰ خبر ہے کہ حکومت برطانیہ نے توسیعِ قیام کے لئے سابق وزیر اعظم نوازشریف کی درخواست مسترد کردی ہے۔ اس بحث میں نہیں پڑنا چاہئے کہ برطانوی قانون کے تحت اپیل دراپیل کے مراحل طے ہونے اور نوازشریف کو پابہ جولاں، وطن عزیز لانے میں کتنے ماہ و سال لگیں گے۔ اس تمنائے بے تاب کو بھی ابھی لمبا انتظار کرنا ہوگا کہ کب ایک بار پھر نوازشریف کو کوٹ لکھ پت یا اڈیالہ جیل کی کسی کال کوٹھڑی میں ڈال کر راحت قلب وجاں کا اہتمام کیا جائے۔ یہ امر بذات خود بے پایاں خوشی اور بے کراں آسودگی کا حامل ہے کہ نوازشریف کی درخواست مسترد ہوگئی ہے بلاشبہ یہ حکومت وقت کی بہت بڑی کامیابی ہے اور اس پر جتنے بھی شادیانے بجائے جائیں، کم ہیں۔ کالم کی ابتداءمیں خلقِ خدا کی کس مپرسی سے لے کر خارجہ پالیسی کی کم مائیگی تک بیان کئے گئے تمام مسائل فروعی اور سرسری نوعیت کے ہیں۔ نوازشریف کی درخواست کا مسترد ہوجانا، ایسی بے مثال تاریخی کامیابی ہے جس کے سامنے یہ تمام مسائل ہیچ دکھائی دیتے ہیں۔ اس پس منظر میں اہل سرکار ودربار کا جشن مسرت ٹھوس جواز رکھتا ہے۔
نوازشریف نامی شخص ایک مدّت سے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اُسے راہِ راست پر لانے کی کوئی کوشش اب تک کامیاب نہیں ہوسکی۔ اُس کے دماغ میں یہ خنّاس سمایا ہوا ہے کہ پاکستان کا نظام اُس آئین کے مطابق چلنا چاہئے جو سقوطِ ڈھاکہ کے سانحہ عظیم کے بعد اس سوختہ بخت قوم کو نصیب ہوا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر ادارے کو اُس کی معّینہ آئینی حدود کے اندر رہنا چاہیے جن کا ہمارے آئین سازوں نے بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ ذکر کردیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق، افواج پاکستان، سختی سے اپنے حلف کی پاسداری کریں۔ اُس کے نزدیک پاکستان کی غربت، پسماندگی، اقوام عالم میں بے توقیری اور عدم استحکام کا سب سے بڑا سبب، عوام کے ووٹ کی توہین ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر 1970ءمیں، پہلے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرلیا جاتا تو نہ ملک ٹوٹتا نہ پاکستان کے ماتھے پر بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلت کا داغ لگتا۔ ”اپنی گستاخانہ سوچ“ کو وہ ”ووٹ کو عزت دو“ کے چار لفظی نعرے میں سموتا ہے۔ مفہوم اس نعرے کا یہ ہے کہ کوئی طاقت کسی بھی مرحلے میں انتخابی عمل پر اثرانداز نہ ہو اور عوام کی حقیقی رائے کو سامنے آنے دیا جائے۔ ”عوام کی رائے“ کو ہر مصلحت اور ہر طاقت سے قوی اور بالاتر قرار دینا، ہر اعتبار سے ”اینٹی اسٹیبلشمنٹ“ بیانیہ ہے جسے باغیانہ بھی کہاجاسکتا ہے۔ اگر چہ قائداعظم نے 14 اگست1947ءکو اور بعد میں سٹاف کالج کوئٹہ میں یہی بات کہی تھی۔ مسلح افواج کا حلف لفظاًلفظاً پڑھ کر تلقین کی تھی کہ اس کی پاسداری کرو۔ لیکن نوازشریف کوئی قائداعظم تھوڑا ہی ہے کہ اُس کا یہ بیانیہ قبول کرلیا جائے؟ اس کی یہ بیماری خاصی پرانی ہے۔ پندرہ سال پہلے اُس نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے مل کر ”میثاق جمہوریت“ پر دستخط کئے تھے۔ محترمہ کے ساتھ مل کر ہی تیرھویں آئینی ترمیم کے ذریعے آمریت شعار آٹھویں ترمیم کا خاتمہ کیا تھا۔
اُس کے جرائم کی طویل فہرست کو مدّنظر رکھتے ہوئے قومی وملکی مفاد کے نگہبانوں نے حتمی فیصلہ کیا کہ اس شخص کو جمہوریت کی گاڑی سے دھکا دے کر گرائے بغیر، جمہوریت کے نقش ونگار میں نکھار نہیں آسکتا۔ سو ایک طویل المعیاد اور جامع منصوبہ تیار ہوا۔ اس کا آغاز اگست 2014 کے تہلکہ خیز دھرنوں سے ہوا۔ چار ماہ پر محیط یلغار اُس کا قلعہ فتح نہ کرسکی تو نصف شب، گہری نیند سے جگا کر اُسے پیغام دیاگیا کہ سلامتی چاہتے ہو تو استعفےٰ دے کر گھر چلے جاو۔ اُس نے انکار کردیا۔ حکمت عملی، ہنرمندی کے ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ ڈان لیکس، پانامہ، فضول اور لایعنی قراردی جانے والی پٹیشن اچانک معتبر قرار پانا، عجوبہ روزگار جے۔آئی۔ٹی، منفرد قسم کا بینچ، اور بے نظیر قسم کے فیصلوں سے گزرتی حکمت عملی نے ’اقامہ‘ کے پڑاﺅ پر دم لیا اور وزیراعظم ”خائن“ ٹھہرا کر گھر بھیج دیاگیا۔ سپریم کورٹ سے منفرد حکم جاری ہوا کہ نیب اس کے خلاف ریفرنس دائر کرے، منفرد حکم جاری ہوا کہ احتساب عدالت تین ماہ کے اندر اندر (انتخابات سے پہلے) فیصلہ کرے، منفرد حکم جاری ہوا کہ نوازشریف کے خلاف فیصلہ دینے والا ایک جج، احتساب عدالت کی نگرانی کرے گا تاکہ جج ”انصاف“ کے تقاضے پورے کرسکے۔ تقاضے پورے کرنے کے لئے اور بھی بہت کچھ کرنا پڑا۔ اس کی ایک جھلک نوازشریف کو سزا دینے والے جج ارشد ملک نے دکھائی۔ خود رائے ونڈ جاکر روتے ہوئے معافی کا طالب ہوا اور پھر اپنے اللہ کے پاس چلاگیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ”دوسال کی محنت ضائع ہو“جانے والی داستان بیان کرکے عروسئہِ انصاف کے خوش جمال چہرے سے نقاب سرکایا اور خود عبرت کا نمونہ ہوگیا۔
نوازشریف کا واحد جرم یہی ہے۔ اُسے جمہوریت کی گاڑی سے دھکا دینے کی حکمتِ عملی بظاہر کامیاب ہے۔ ستم یہ ہے کہ اُسے عوام کے دلوں سے کھرچ نکالنے کا کوئی حربہ کارگر نہیں ہورہا۔ ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“کی طرح بچے بچے کی زبان پر آگیا ہے۔ اگر پاکستان میں کسی دن سلطانی جمہور کا سورج طلوع ہوا تو نوازشریف کی سزا اور ابتلا کے یہ دن اُس کے تینوں عہد ہائے اقتدار پر بھاری پڑیں گے۔ قیدیں، جلاوطنیاں، ویزا کی مسترد شدہ درخواستیں اور ایک بے چہرہ بندوبست کافاتحانہ رقص، اُس کے نامہ اعمال کا حُسن بن جائیں گے۔
”ریاست مدینہ“ کے ”انصاف پرور“ حکمرانوں کو شاید یاد نہیں کہ نوازشریف نامی شخص کے علاوہ، پرویز مشرف نامی، ایک فرد بھی بیرون پاکستان بیٹھا ہے جو نو برس تک آئین پاکستان کو بھاری بوٹوں تلے روندتا، ججوں کو قید کرتا، من مانی عدالتیں بناتا اور من پسند فیصلے لیتا رہا۔ کوئی نامہ بر اُدھر بھی تو بھجوا دو کہ یہ شخص ہمیں مطلوب ہے۔ نوازشریف پر سنگ الزام اور تیرِدشنام برسانے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لئے کوشاں درباریوں کے چہروں پر مشرف کا نام لیتے ہوئے خوف کی پرچھائیاں کیوں تیرنے لگتی ہیں؟ نوازشریف گناہوں کی پوٹ ہے تو کیا مشرف کی قبائے داغ داغ سے فرشتوں کے پروں کی مہک آتی ہے؟ اگر اہل دربار کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تو اُن کے چہروں پر مجرمانہ ندامت کے بجائے فاتحانہ تمکنت کیوں ہے؟